
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جب کبھی بھی امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے کلام کی بات کی جاتی ہے تو سر فہرست جو نام لیا جاتا ہے وہ نہج البلاغہ کا ہے۔ درحالیکہ حضرت علیؑ کے کلام پر مشتمل بہت سی کتابیں ہیں جو آپ کے کلام پر مشتمل ہیں اور نہج البلاغہ میں ہر موضوعات پر بہت زیادہ گفتگو ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک عدالت علی ہے جو شخص ایک بار بھی نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے وہ یہ مشاہدہ کرے گا حضرت علی علیہ السلام عدالت کے معاملے کو خصوصی اہمیت دیتے تھے اور ان کی بے انتہا قدر و قیمت کے قائل تھے۔
کیا قرآن کریم نہیں کہتا ؟
لقد ارسلنا رسلنا بالبینت وانزلنا معھم الکتب و المیزان لیقوم الناس بالقسط (1)
ترجمہ: بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو بھیجا روشن دلائل کے ساتھ اور ان کے ہمراہ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگ عدل کے ساتھ قیام کریں۔
اس آیہ کریمہ میں قیام عدل کو تمام پیغمبروں کی بعثت کا مقصد اصلی بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ عدل کا تقدس اور اس کی عظمت اس قدر زیادہ ہے کہ پیغمبران خدا کا مقصد بعثت ہی قرار پایا۔ بنا بریں یہ کیسے ممکن ہے کہ علیؑ جیسا انسان جو خود قرآن کا مفسر، شارح اور اسلام کے اصول و فروع کو سمجھائے ان کی تشریح کرنے والا ہو، اس مسئلے میں خاموشی اختیار کرے یا اسے کم اہمیت دے۔
عدل ان مسائل میں سے ایک ہے جن کو اسلام کی بدولت حیات اور غیر معمولی قدر وقیمت حاصل ہوئی۔ اسلام نے فقط عدل کی سفارش ہی نہیں کی اور نہ ہی محض اس کی اجراء پر قناعت کی بلکہ اس کے مقام کو بھی بلند قرار دیا۔ بہتر ہے کہ اس نکتے کو امیر المومنینؑ کی زبانی سنیں: ایک زیرک اور نکتہ داں شخص حضرت سے سوال کرتا ہے: العدل افضل ام الجود؟ (عدل بہتر ہے یا سخاوت و جود) (2)
یہاں دو انسانی خصلتوں کے بارے میں سوال ہوا ہے۔ انسان ہمیشہ ظلم سے گریزاں اور احسان کا قدر دان رہا ہے۔ مذکورہ سوال کاجواب ظاہراً تو بہت سادہ معلوم ہوتا ہے کہ جود و سخا کا مقام عدل سے بلند ہے۔ کیونکہ عدل سے مراد دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھنا۔ اور ان سے تجاوز نہ کرنا ہے۔ لیکن سخا یہ ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے اپنے مسلمہ حق کو دوسرے پر قربان کرے۔ عدل کرنے والا دوسروں کے حقوق کو پامال نہیں کرتا۔ یا بالفاظ دیگر اپنی طرف سے یا دوسروں کے تجاوز کے مقابلے میں لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ لیکن جود و بخشش کرنے والا شخص قربانی دیتا ہے اور اپنا مسلمہ حق دوسرے کے حوالے کرتا ہے۔
پس اس لحاظ سے جود و کرم کا مقام بلند تر ہے واقعاً اگر ہم صرف انفرادی اور اخلاقی معیار سے پرکھیں تو بات یہی ہے کہ جود و کرم، عدل کے مقابلے میں انسان کے اخلاق کمال اور عظمت کی نشانی ہے۔ لیکن حضرت علیؑ اس نظریے کے بر خلاف جواب دیتے حضرت علیؑ دو دلیلوں کے بنا پر عدل کو جود و کرم پر ترجیح دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ: ”العدل یضع الامور مواضعھا و الجود یغرمھا من جھتھا“۔
عدل معاملات و امور کو ان کے اصل موقع و محل پر رکھتا ہے لیکن جود و کرم ان کو ان کی حدوں سے باہر کردیتا ہے۔
کیونکہ عدالت سے مراد یہ ہے کہ فطری اور طبیعی استحقاق کو مدنظر رکھا جائے اور ہر شخص کواس کی محنت و استعداد کے مطابق عطا کیا جائے۔ معاشرے کی مثال ایک گاڑی کی سی ہے جس پر ہر پرزہ اپنے مقام پر ہوتا ہے۔ لیکن جود و کرم اگرچہ اس لحاظ سے کہ آدمی اپنا مسلمہ حق دوسرے کو بخش دیتا ہے، غیر معمولی قدر وقیمت کا حامل ہے۔لیکن یہ یاد رہے کہ جود و کرم کا خلاف معمول امر ہے۔ اس کی مثال ایک ایسے جسم کی سی ہے جس کا ایک حصہ بیمار ہو اور جسم کے دوسرے اجزاء اس عضو کو بیماری سے نجات دلانے کیلئے اپنی کوششوں کا رخ اس کی اصلاح پر مرکوز کردیں۔
ثانیا یہ فرمایا ”العدل سائس عام و الجود عارض خاص“ عدل ایک عام قانون ہے اور پورے معاشرے کا عمومی نگران ہے۔
یعنی ایک ایسی شاہراہ کی مانند ہے جس سے سب کو گزرنا ہوتا ہے لیکن جودوکرم ایک انتہائی اور خاص حالت کا نام ہے جس میں عمومیت نہیں پائی جاتی۔ بلکہ اگر جودو بخشش کو قانونی اور عمومی حیثیت مل جائے تو یہ جود وبخشش نہیں رہے گا۔
اس کے بعد علیؑ نتیجہ کے طور پر فرماتے ہیں۔
”فالعدل اشرفھا و افضلھا“ (3) پس عدل اور جو دو بخشش میں سے ”عدل“ بہتر ہے۔
علیؑ کی نظر میں وہ اصول جو معاشرے کے توازن کو قائم اور سب کو راضی رکھ سکتا ہے معاشرے کے جسم کو سلامتی اور اس کی روح کو سکون دے سکتا ہے وہ عدل ہے ظلم و جور اور تجاوز میں امتناہی قوت نہیں کہ خود ظالم کی روح کو یا اس شخص کو جس کے مفاد میں یہ ظلم ہو رہا ہے سکون دے سکے۔
کہاں یہ کہ معاشرے کے مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کو مطمئن کر سکے۔ عدالت وہ وسیع راستہ ہے جو سب کو سمو کر بغیر کسی مشکل کے منزل تک پہنچا دیتا ہے جبکہ ظلم و جور وہ تنگ اور پر پیچ راہ ہے جو خود ستمگروں کو بھی ان کی منزل مقصود تک نہیں پہنچاتی۔
جیسا کہ ہمیں معلوم ہے عثمان بن عفان نے بیت المال کے ایک حصے کی اپنی خلافت کے دوران اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو جاگیر قرار دیا۔ عثمان کے بعد حضرت علیؑ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ آپ سے لوگوں نے درخواست کی کہ گزری ہوئی باتوں کو نہ چھیڑیں اور اپنی توجہات کو مستقبل میں آنے والے مسائل کی طرف مرکوز فرمائیں۔
لیکن آپ نے جواب دیا کہ : ’’الحق القدیم لا یبطلہ شئی‘‘ پرانا حق کسی طرح ختم نہیں ہو سکتا۔
فرمایا کہ خدا کی قسم اگرچہ ان اموال میں سے کسی نے شادی کی ہو۔ یا لونڈی خریدی ہو پھر بھی میں ان کو بیت المال میں لوٹا دوں گا۔ کیونکہ بیت المال میں تمام لوگوں کا حق ہوتا ہے چاہے وہ عربی ہو یا عجم :حضرت علیؑ نے عرب اور عجم کے درمیان کوئی فرق نہیں کی ہیں، دو عورتیں بیت المال سے اپنا حصہ لینے کیلئے حضرت علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ ان میں سے ایک عورت عرب تھی۔ اور دوسری عجم، امام نے اپنی ہمیشہ کی روش اور عدالت کے مطابق دونوں عورتوں کو یکساں طور پر حصہ دیا۔
وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک اسلامی ثقافت کو لمس نہیں کیا تھا اور کسی کی عدالت کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے حضرت علیؑ پر اعتراض کیا اور کہا، کیا آپ عرب اور عجم یکساں پر طور پر تقسیم کرتے ہیں؟ ”امام نے فرمایا میں کوئی فرق نہیں سمجھتا“۔ (4)
اکثر حضرت علی علیہ السلام لوگوں کے مختلف طبقوں کے درمیان جو مساوی روش اختیار کیے جانے پر خود خواہ اور طاغوت لوگوں کی طرف سے اعتراضات کا نشانہ ہوتے تھے لیکن یہ اعتراضات ان کو ہر گز توحید اور عدالت کی حد سے خارج نہیں کرتے تھے اور قرآن کے مطابق وہ ان لوگوں میں سے تھے جن پر نامعقول ملامت کرنے والوں کی ملامت کا اثر نہیں ہوتا تھا ”و لا یغافون لومۃ لائم“۔ (5)
اس عدالت کا ایک نمونہ دیکھے
حضرت علیؑ کے بھائی عقیل بھوکے اور پژمردہ بچوں کے ساتھ اپنے بھائی امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور بیت المال سے زیادہ حصہ لینے کا تقاضا کیا ظاہری بات ہے کہ ہر بھائی اپنے بھائی کے بھوکے بچوں کو دیکھ کر متاثر ہو جاتا ہے لیکن امامؑ نے صاف طور پر منفی جواب دیا اور اپنے منفی جواب کے فلسفہ کو بھائی کے سامنے پیش کرنے کیلئے ایک گرم لوہے کو حضرت عقیل کی طرف بڑھایا اور فرمایا: کہ جس طرح تم اس گرم لوہے کے قریب ہونے سے ڈرتے ہو اسی طرح میں بھی قیامت کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (6)
حضرت علیؑ نہج البلاغہ خطبہ 224 میں عدالت کی اہمیت اور ظلم سے نجات کے متعلق ایک بہترین بات ارشاد فرماتے ہیں۔ ”خدا کی قسم اگر سات اقلیم (جس طرح آج کرہ زمین کو کچھ براعظموں میں تقسیم کیا گیا ہے گذشتہ زمانے میں کرہ زمین کے رہائشی مناطق کو ہفت اقلیم سے تعبیر کیا جاتا تھا) کو بھی مجھے دیں تاکہ میں خدا کی معصیت کروں اور ایک چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا لے لوں تو اس کے لئے تیار نہیں ہوں، خدا کی قسم اگر صبح سے لیکر شام تک مجھے تیز چھریوں پر لٹائیں یہ میرے لئے اچھا ہے اس سے کہ میں خدا اور اس کے رسول گرامی کے سامنے ستمکاروں میں شمار کیا جائوں“۔ ”فان فی العدل سعۃ و من ضاق علیہ العدل فابجود علیہ اضیق“ (7) یعنی بے شک عدل میں کافی گنجائش اور وسعت ہے عدل ہر ایک کا احاطہ کر سکتا ہے پس اگر عدل میں اپنے لیے تنگی محسوس کرے تو وہ یہ جان لے کہ ظلم کا نتیجہ اس کیلئے کہیں زیادہ تنگ ہوگا۔
یعنی عدل ایک ایسی چیز ہے جس کو ایمان کی ایک سرحد تسلیم کرنا چاہیے اور اس سرحد کی حدود پر راضی و شاکر رہنا چاہیے۔ لیکن اگر یہ سرحد پامال کردی جائے اور انسان اسے عبور کرلے تو پھر اس کی نظر میں کسی حد کی اہمیت نہ رہے گی۔ وہ جس سرحد تک بھی پہنچے گا۔ اپنی خود سر اور بے لگام شہوت اور خواہشات کی بنا پر اسے بھی پار کرنے کا خواہشمند ہوگا اور اس طرح کبھی سکون و اطمینان حاصل نہ کرسکے گا۔
نا انصافی پر خاموش تماشائی
حضرت علیؑ عدل کوایک خدائی ذمہ داری بلکہ ناموس الہی سمجھتے تھے آپ کو کبھی یہ گوارا نہ تھا کہ اسلامی سے آگاہ ایک مسلمان نا انصانی اور ظلم پر خاموش تماشائی بنا رہے۔
خطبہ شقشقیہ میں گذشتہ دلسوز سیاسی واقعات کا تفصیل سے تذکرہ فرمانے کے بعد بتاتے ہیں کہ کس طرح لوگوں نے عثمان کے بعد آپ کو گھیر لیا اور اصرار تاکید کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ مسلمانوں کی قیادت کو قبول فرمائیں۔ آپ گذشتہ دردناک واقعات اور موجودہ حالات کی خرابی کے پیش نظر اس سنگین ذمہ داری کو سنبھالنے پر آمادہ نہ تھے۔ لیکن اس خیال سے کہ اگر قبول نہ کریں تو حق مشتبہ ہوجائے گا۔ اور لوگ کہیں گے کہ علیؑ کو شروع سے خلافت سے دلچسپی نہ تھی۔ اور اسے اہمیت نہیں دیتے تھے۔ نیز اس بات کے پیش نظر کہ جب معاشرہ ظالم و مظلوم۔ کھاکھا کر تنگ آنے والوں اور بھوک سے نالاں بھوکوں پر مشتمل دو طبقوں میں تقسیم ہوجائے۔ تو اس وقت اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آدمی ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشائی بنا بیٹھا رہے۔ اس سنگین ذمہ داری کو قبول کیا اور فرمایا: لو لا الحضور الحاضر………اولھا (8)
”اگر لوگ اس کثرت کے ساتھ حاضر نہ ہوتے اور مددگاروں کی وجہ سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوجاتی اور علماء سے یہ جدائی عہد نہ ہوتا کہ وہ ظلم کی شکم سیری اور مظلوم کی گرسنگی پر راضی نہ ہوں تو بلا شبہ ناقہ خلافت کی مہار میں اس کی پیٹھ پر ڈال دیتا“۔
(عدل مصلحت پر قربان نہیں ہو سکتا)
ظلم امتیازی سلوک، اقربا پروری، گروہ بندی اور روپیہ پیسہ سے منہ بند کر دینا ہمیشہ سیاسی حربوں کے لازمی جز کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں ۔اب ایک اسی بہتی کشتی سیاست کی نا خدا بن گئی ہے جوان حربوں سے نفرت رکھتی ہے۔ اس کا ہدف اور نظریہ ہی اس قسم کی سیاست کوختم کر دیتا ہے۔ قدرتی بات ہے یہ لالچی سیاست دان پہلے ہی دن سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ دشمنی اور عناد رخنہ اندازی پر منتج ہوتی ہے۔ اور بہت سی مشکلات کا باعث بنتی ہے ان حالات میں علیؑ کے کچھ خیر خواہ افراد آپ کے پاس آتے ہیں۔ اور نہایت خلوص اور خیر خواہی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ مولا نسبتاً زیادہ ضروری مصلحت کے پیش نظراپنی سیاست میں کچھ لچک پیدا کیجئے۔ مشورہ دیتے ہیں کہ آپ سر دست ان مطلوب پرستوں کی مصیبت سے پیچھا چھڑالیں۔ کتے کو نوالا دے کر خاموش کردیجئے۔ (9) یہ لوگ اثر و رسوخ رکھتے ہیں ان میں سے کچھ کا تعلق اسلام کے صدر اول سے ہے۔ اس وقت آپ کو معاویہ جیسی شخصیت سے دشمنی کا سامنا ہے جس کے اختیار میں شام جیسی زرخیز سرزمین ہے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ مصلحت کی خاطر فی الحال عدل و مساوات کے موضوع ہی کو نہ چھیڑیں۔
آپ نے فرمایا
اتامرونی ان اطلب……و انما المال مال اللہ (10)
”کیا تم لوگ مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ ظلم کے ذریعہ کامیابی حاصل کروں؟ عدالت کو سیاست اور اقتدار پر قربان کردوں؟ذات پروردگار کی قسم جب تک دنیا کا نطام باقی ہے ایسا نہیں کروں گا اور ایسے کام کے قریب نہ پھٹکوں گا اور ناانصافی کروں؟ میں! اور عدالت کو پامال کروں اور یہ سارا مال جو میرے پاس ہے۔ میرا ذاتی مال ہوتا۔ میرے ہاتھوں کی کمائی ہوتا اور میں اس کو لوگوں میں تقسیم کرتا تو اس میں بھی کسی کو دوسرے پر ترجیح دینا گوارا نہ کرتا۔ حالانکہ یہ مال تو مال خدا ہے اور میں خدا کی طرف سے ان اموال کا نگہبان و امین ہو“۔
یہ تھا عدل کے بارے میں امام علیؑ کا نظریہ۔ اور یہ ہے امام علی علیہ السلام کے نزدیک عدل کا مقام
تقسیم کرنے میں عدالت
حضرت علیؑ فرماتے ہیں: ان للاقصی مثل الذی ملادنی (نہج البلاغہ صحی صالح: صفحہ428) نامہ مالک اشتر ملک کے دور دراز علاقے میں وہی چیز تقسیم ہونا چاہیے جو ملک کے نزدیک ترین حصے میں تقسیم ہوتی ہے حکومت کا سرمایہ یکساں طور پر سب لوگوں کیلئے خرچ ہونا چاہیے اور ایسا نہ ہونا چاہیے کہ جو لوگ حکومت کے مرکز سے نزدیک تر ہیں وہ زیادہ حصے سے فائدہ اٹھائیں ،بعض انبیا جیسے حضرت شعیب کا توحید اور نبوت کے بعد سب سے پہلا پیغام تقسیم کرنے میں عدالت کے متعلق تھا اور کم فروخت کرنے والوں کو ان کا پیغام آگاہ کرنے کے طور پر تھا اوفوا الکیل و لا تکونوا من المفسرین وزنوا بالقسطاس المستقیم و لا تبغواالناس اشیائھم و لا تعثوا فیا الارض مفسدین (شعراء 180۔183)
لوگوں کا حق ادا کرنے میں پیمانے کو برابر رکھا کریں اور اس سے کچھ کم نہ کریں اور صحیح اور درست ترازو کے ساتھ وزن کیا کریں اور جو مقدار ادا کرنا چاہیں اس میں سے کسی چیز کو کم نہ کریں اور کم ناپ و تول کے ذریعہ زمین میں فساد برپا نہ کریں ۔ ہم سورہ مطففین میں پڑھتے ہیں ویل للمطففین کم بیچنے والوں پر وای ہو کیونکہ ان کے دینے اور لینے میں باہم فرق ہے لینے کے وقت پورا لیتے ہیں اور دینے کے وقت کم دیتے ہیں۔
فائدہ اٹھانے اور خرچ کرنے میں عدالت
خرچ کرنے کی مقدار میں بھی عدالت کو مدنظر رکھنا چاہیے قرآن واضح طور پر کچھ آیات میں اس طرح ارشاد فرماتا ہے کلوا وشربوا و لا تسرفوکھا اور پیو لیکن اسراف نہ کرو (اعراف :31) کلو من طیبات ما رزقناکم و لا تطغوا فیہ پاک و پاکیزہ اور دل پسند غذائیں جو ہم نے تم کو عطا کی ہیں ان سے استفادہ کرو اور اپنے خرچ و فائدہ اٹھانے میں سرکشی اور تجاوز وبغاوت کا راستہ اختیار نہ کرو (طہ :81)
سماجی عدل وانصاف کے بعض نمونے
امام کا استدالال مساوات کے بارے میں :یہ اعتراض جو امیر المومنین پر کیا جاتا تھا کہ آپ اموال کو کیوں مساوی طور پر تقسیم کرتے ہیں اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں (خظبہ 126: نہج البلاغہ)
1: اگر یہ اموال میری ذاتی ملکیت ہوتے تو بھی میں ان کو یکساں طور پر تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ سب خدا کا مال ہے جو تمام لوگوں سے متعلق ہے لہذا اس مال میں سب لوگ حق رکھتے ہیں۔ (لو کان المال لسویت بینھم فکیف و انما المال مال اللہ)
2: جو شخص مال کو غیر مناسب جگہ خرچ کرے تو اس نے مال میں اسراف و تبذیر کیا (الا و ان اعطاء المال فی غیر حقہ تبذیر و اسراف) قرآن نے بیہودہ خرچ کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے (سورہ اسراء)
3: غیر مساوی تقسیم اس بات کا باعث بنتی ہے کہ دنیا پرست لوگوں کا ایک گروہ انسان کے اردگرد چکر لگانے لگتا ہے جو تملق اور غیر ضروری مد ح و تعریف کے ذریعہ کچھ اموال ہتھیانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح وہ انسان کو بارگاہ عدل الہی کے سامنے سرنگوں کردینے کے درپے ہوتے ہیں ۔ (و ھو یرفع صاحبہ فی الدنیا و یضعہ فی الاخرۃ و یکرمہ فی الناس و یھینہ عند اللہ)۔
پھر امام اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر انسان اپنے مال کو نامناسب جگہ اور نامناسب شخص کو دے تو خداوند عالم اس کو ان لوگوں کی مدح و تعریف سے بھی محروم کر دیتا ہے جنہوں نے اس کے مال کو ناحق طور پر لیا اور جلد یا بدیر تاریخ ورق گردانی ہوتی ہے اور حالات بدل جاتے ہیں تو وہی تعریف کرنے والے لوگ اس انسان سے روگرداں ہو جاتے ہیں اور کسی دوسرے کی محبت کو دل میں بٹھا لیتے ہیں۔
ایسا انسان جو مال کو نامناسب جگہ پر خرچ کرے نہ تو عدل الہی کے حصول میں آبرو مند رہتا ہے اور نہ ان دنیا پرست لوگوں کے سامنے، جو اس کے ارد گرد جمع ہوئے اور اس کی ناانصافیوں اور بے عدالتیوں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ابھی تو اس کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے ہیں اور بد بختی کا دن اس پر آجائے تو یہ اس کو چھوڑ دیں گے اور اس کے بد ترین ساتھیوں میں شمار ہوں گے۔
امام کے ارشاد کو ہم نے مختصر توضیح کے ساتھ بیان کیا اب اس کے متن کو بھی ہم نقل کرتے ہیں (و لم یضع امر، مالہ فی غیر حقہ و لا عندہ غیر اہلہ الا حرمہ اللہ شکرھم و کان لغیرہ و ھم فان ذلت بہ النعل یوما فاحتاج الی معونتھم فشر خلیل فدین)
نہج البلاغہ :صحی صالح، خطبہ 62 ص183
عدالت سے انحراف کے عوامل
معمولا تین اہم عامل عدالت سے انحراف کیلئے پائے جاتے ہیں اور کہ قرآن مجید نے تینوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
پہلا عامل: حب ذات، تعلقات اور روابط ہیں قرآن مجید اس بارے میں فرماتے ہے یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شہداء اللہ ولو علی انفسکم او الولدین و القربین ان یکن غنیا او فقیرا فاللہ اولی بھما (نساء :135)
اے ایمان لانے والو مکمل طور پر عدالت کو قائم کرو اور تمہاری گواہیاں صرف خدا کیلئے ہوں۔ اگرچہ سچی گواہی تمہارے والدین اور تمہارے رشتہ داروں کے ضرر میں تمام ہو۔ اور فقیر یا غنی ہونے کا سلسلہ تمہاری گواہی دینے پر اثر انداز نہ ہو، کیونکہ خدا زیادہ سزاوار ہے اس بات پر کہ وہ ان کی حمایت کرے۔ یعنی آپ کی ذمہ داری صرف حق سے دفاع کرنا اور کسی بھی رشتے یا اقتصادی لحاظ کو اس میں مد نظر رکھیں۔
یہ آیت خطرناک تعلقات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ خبردار! تمہاری دوستیاں اور جذباتی رشتے خاندانی مسائل تم کو عدالت کی حد سے دور نہ کر دیں۔
دوسرا عامل: اس بارے میں کہ انسان عدالت کی راہ پر حرکت نہ کرے۔ بعض مشکلات و پریشانیوں جو انسان کسی فرد یا گروہ کی طرف سے برداشت کرتا ہے اور اس سلسلے میں قرآن ارشاد فرماتا ہے۔ یا ایھا الذین امنوا کونوا قوامین للہ شھدا بالقسط و لا یعبر منکم شنان قوم علی الا تعدلوا، اعدلوا ھو اقرب للتقوی (مائدہ:8) اے ایمان لانے والو تمہاری عدالت کی روش……جو تقوی و پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے اس آیت میں ایک خاص توجہ ان شکایات، ناراضگی اور عدالت کے مسئلہ کی طرف ہے جو بظاہر ہماری روش اور اقتصادی فیصلے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
تیسرا عامل: جو انسان کو عدالت کے مرکز و محور سے خارج کرتا ہے وہ رشوت کا مسئلہ ہے، قرآن کا ارشاد ہے: و لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل و تدلوا بھا الی الحکام لتاکلوا فریقا من اموال الناس بالاثم انتم تعلمون (بقرہ 188) ایک دوسرے کے اموال کو آپ میں غلط و ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ، گناہ کے طور پر لوگوں کے اموال کا ایک حصہ کھانے کیلئے اس کا کچھ حصہ حکام و قضاوت کے پاس نہ لے جاؤ۔ بالغرض قاضی ہمارے حق میں حکم صادر کردے تو تم جانتے ہوں کہ یہ فیصلہ رشوت کی بنیاد پر ہوا ہے اور رشوت کے مال میں تصرف حرام ہے قاضی کا بظاہری حکم اس شخص کے بارے میں جو انی کو غلط سمجھتا ہے، مالک ہونے کا سبب نہیں بنتا۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں ’’البتہ فیصلہ کرنے میں، رشوت خداوند عظیم پر کفر باندھنا ہے‘‘۔ (وسائل ج 12)
عدل و نہج البلاغہ کا نظریہ
حقوق اور عدل کے معاملے میں نہج البلاغہ کے نظریے کی بنیاد مذکورہ اصول پر ہے۔ آئیے اب اس سلسلے میں نہج البلاغہ سے چند نمونہ ملاحظہ کرتے ہیں ۔خطبہ نمبر 214 جس کے ایک حصے کو ہم نقل کر رہے ہیں یوں فرماتے ہیں:
اما بعد فقد جعل اللہ ………الا جری لہ
خدا وند عالم نے تم لوگوں کا امام اور حاکم ہونے کے ناطے تمہارے اوپر……جب تک کہ اس کیلئے کوئی حق ثابت نہ ہو جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اس کلام میں ساری اہمیت خدا، حق، عدل اور ذمہ داری کو دی گئی ہے لیکن یوں نہیں کہ خداوند عالم نے بعض افراد کو صرف حقوق ہی عطا کئے ہوں اور ان کو صرف اپنے دور کے جوابدہ بنایا ہو۔ اور اس کے بر عکس بعض دوسرے افراد کو ہر قسم کے حق سے محروم کرکے ان پر اپنے اور دوسروں کے حقوق کا بوجھ ڈال دیا ہو جس کے نتیجے میں حکمران اور رعایا کے درمیان عدل اور ظلم کا معیار ہی نہ رہے اسی خطبہ میں فرماتے ہیں (و لیس امرئو و ان عظمت فی الحق……علی ذلک وایعان علیہ:) کوئی آدمی بھی خواہ اس کا حق میں کتنا ہی بڑا درجہ ہو………امداد کرے یا کوئی اس کے خلاف مدد کرے نیز اس خطبے میں ارشاد خطبے میں ارشاد فرمایا: فلا تکمون بما تکلم بہ……کان العمل ……بحق او مشورۃ بعدل‘‘ میرے ساتھ اس طرح بات نہ کرو جس طرح جابر حکمرانوں کے آگے بات کی جاتی ہے ……پس حق کی بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے کبھی باز نہ رہو‘‘ یہ نہج البلاغہ سے چند نمونہ تھے جو پیش کئے اور بیان نہیں کر سکتی اور حضرت علی نے حقوق کے بارے میں افکار کے مظہر تھے یہاں کچھ اور نمونہ پیش خدمت ہیں البتہ بطور مقدمہ قرآن سے ایک آیت پیش کر رہی ہوں سورہ مبارکہ نساء آیۃ 58 میں ذکر ہوتا ہے ان اللہ ……بالعد لترجمہ: خدا حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے مالکوں کو لوٹا دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے مطابق فیصلے کرو۔ طبرسی مجمع البیان میں اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں:
اس آیت کی تفسیر میں مختلف اقوال موجود ہیں۔ ایک کہ اس سے مراد ہر قسم کی امانتیں ہیں خواہ وہ خدائی امانتیں ہوں یا غیر خدائی، مالی ہوں یا غیر مالی، دوسرا یہ کہ مخاطب حکمران طبقہ ہے اور خداوند عالم امانتوں کی ادائیگی کی ضرورت کے عنوان سے حکمرانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ لوگوں کی حمایت کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔
سید رضیؒ کا اس آخری بات جو مکتوبات کے ضمن میں بیان کیا ہے اور کہتے ہیں ہم اس حصے کو یہاں نقل کر رہے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ علیؑ حق و عدالت کس طرح قائم کرتے تھے اور کس طرح چھوٹے بڑے امور میں اس کو مد نظر رکھتے تھے۔ فرمان کچھ یوں ہے:
اللہ وحدہ لا شریک کے تقوی کے ساتھ اپنے کام پر روانہ ہو۔ خبردار کسی مسلمان کو خوفزدہ نہ کرنا (11) خبردار لوگوں کے ساتھ اس طرح سلوک نہ کرنا کہ تم سے نفرت کرنے لگیں جتنا حق ان کے ذمے سے بنتا ہے اس سے زیادہ نہ لو۔ جب ایک ایسے قبیلے میں پہنچو جو پانی کے کنارے رہتا ہو تو تم بھی پانی کے کنارے اترو۔ لیکن لوگوں کے گھروں میں نہ اترنا۔ آرام اور وقار کے ساتھ ان کے پاس جانا نہ ایک حملہ آور کی طرح۔ انہیں سلام کرنا۔ پھر کہنا اے بندگان خدا مجھے خدا کے ولی اور خلیفہ نے بھیجا ہے تاکہ تمہارے مال سے خدا کے حق کو وصول کروں۔ تو اب بتاؤ کیا تمہارے مال میں خدا کا کوئی حق موجود ہے یا نہیں اگر کہیں کہ نہیں تو دوبارہ ان کے پاس نہ جاؤ۔ ان کی بات کا احترام کرو۔ اگر کوئی مثبت جواب دے تو اس کے ساتھ جاؤ اس کو ڈرائے دھمکائے بغیر جتنا زر و سیم وہ دے لے لو اگر اس کے پاس زکوۃ کے اونٹ یا بھیڑیں ہوں تو اس کی اجازت کے بغیر اس کے اونٹوں اور بھیڑوں میں داخل نہ ہونا۔ کیونکہ ان کی اکثریت خود اس کی ملکیت ہے۔ جب تم اونٹوں کے گلے یا بھیڑوں کے ریوڑ میں داخل ہو تو سختی اور جبر و تکبر کے ساتھ داخل نہ ہونا۔ (12)
اسی طرح اس خط کے آخری حصہ تک ایسی ہی باتوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر موجود ہے ایک حکمران کی حیثیت سے عوام الناس کے بارے میں علیؑ کا نظریہ معلوم کرنے کے لئے اسی قدر کافی معلوم ہوتا ہے۔
خدا وند عالم کا شکر ادا کرنا چاہتی ہوں کہ دوسری بار لکھنے کا شرف حاصل ہوا لیکن میں شرمندہ ہوں کہ اس موضوع کا پورا پورا حق ادا نہیں کرسکی اس امید کے ساتھ بحث کو ختم کر رہی ہوں کہ میری کوتاہیوں کو اس مقالہ کے قارئین نظر انداز کریں گے اور جہاں مناسب سمجھیں میری بہتری کیلئے راہنمائی بھی کریں گے۔ (ان شاء اللہ)
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔ بس خداوند عالم سے آخر میں دعا کرتی ہوں :الہی انت کما احب فاجعلنی کما تعب (مفاتیح الجنان ص 240) اے میرے اللہ تو ویسا ہے جیسے میں چاہتی ہوں، مجھے ویسے بنا جیسا تو چاہتا ہے۔ (آمین)
[1] سورہ حدید 57، آیت 25[2] نہج البلاغہ کلمات قصار 437
[3] نہج البلاغہ کلمات قصار 437
[4] وسائل الشیعہ ج11 ص18
[5] سورہ مائدہ، آیت 54
[6] نہج البلاغہ، صحی صالح، ص347
[7] نہج البلاغہ خطبہ 15
[8] نہج البلاغہ خطبہ 3 معروف بہ خطبہ شقشقیہ
[9] نہج البلاغہ خطبہ 124
[10] نہج البلاغہ خطبہ 124
[11] نہج البلاغہ خطبہ 3 معروف بہ خطبہ شقشقیہ
[12] نہج البلاغہ، مکتوب 25 نیز رجوع ہو مکتوب 26 ،27 اور مکتوب 46




