
منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ
قضیہ جب کوئی ان میں کسی کے پاس آتا ہے
تو اپنی رائے سے وہ فیصلہ اپنا سناتا ہے
قضیہ پھر وہی جب دوسرے کے پاس جاتا ہے
تو اس کی ضد میں اپنا فیصلہ پھر وہ سناتا ہے
پھر اس حاکم کے آگے جمع ہوتے ہیں یہ سب قاضی
کہ جس حاکم نے سونپی ہے قضاوت کی انہیں کرسی
تو وہ ہر اک کی رائے پر لگا دیتا ہے حکم نیک
کہ جبکہ سب کا رب ہے ایک قرآں اک نبی ہے ایک
تو کیا حکم تضاد و فرق ان کو ہے دیا رب نے؟
کہ جس میں مبتلا ہوکر یہ طاعت اس کی ہیں کرتے
یا ان کو اختلاف و فرق سے روکا ہے رب نے٫ پر
یہ اس کی معصیت کرتے ہیں اس میں مبتلا ہوکر
یا رب نے دین کو ان کے لئے ناقص اتارا ہے
اور ان سے اس کی وہ تکمیل کا مانگے سہارا ہے
یا یہ اس کی خدائی میں شریک اور اس کے ہیں ساتھی
اور اس پر فرض ہے مانے وہ ہر اک بات کو ان کی
یا رب نے دین کو تو کامل و اکمل اتارا تھا
مگر تبلیغ میں اس کی نبی نے سستی کو برتا
کہ جبکہ اس کا یہ اعلان ہے قرآن میں ،ہم نے
کسی شئے کے بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہے
اور یہ بھی ہے کہ اس کے بعض حصے بعض حصوں کی
سدا تصدیق کرتے ہیں تفاوت ہی نہیں کوئی
(چنانچہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے)
یہ غیر اللہ کی جانب سے گر بھیجا ہوا ہوتا
تو بے حد فرق اس کی آیتوں میں پھر تمہیں ملتا
یہ قرآں وہ ہے ظاہر جس کا بے حد خوب و عمدہ ہے
اور اس قرآں کا باطن بھی نہایت تیز و گہرا ہے
نہ ہی اس کے عجائب اور لطائف مٹنے والے ہیں
نہ ہی اس کے سوا ظلمت کے پردے چھٹنے والے ہیں
ختم شد





