کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 270: خانہ کعبہ کے زیور

(٢٧٠) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۲۷۰)

وَ رُوِیَ اَنَّهٗ ذُكِرَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِیْۤ اَيَّامِهٖ حَلْیُ الْكَعْبَةِ وَ كَثْرَتُهٗ، فَقَالَ قَوْمٌ: لَوْ اَخَذْتَهٗ فَجَهَّزْتَ بِهٖ جُيُوْشَ الْمُسْلِمِيْنَ كَانَ اَعْظَمَ لِلْاَجْرِ، وَ مَا تَصْنَعُ الْكَعْبَةُ بِالْحَلْیِ، فَهَمَّ عُمَرُ بِذٰلِكَ وَ سَئَلَ اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ، فَقَالَ ؑ:

بیان کیا گیا ہے کہ عمر ابن خطاب کے سامنے خانۂ کعبہ کے زیورات اور ان کی کثرت کا ذکر ہوا تو کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ اگر آپ ان زیورات کو لے لیں اور انہیں مسلمانوں کے لشکر پر صرف کر کے ان کی روانگی کا سامان کریں تو زیادہ باعث اجر ہو گا، خانہ کعبہ کو ان زیورات کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ عمر نے اس کا ارادہ کر لیا اور امیر المومنین علیہ السلام سے اس کے بارے میں مسئلہ پوچھا۔ آپؑ نے فرمایا کہ:

اِنَّ القُرْاٰنَ اُنْزِلَ عَلَى النَّبِیِّ ﷺ وَ الْاَمْوَالُ اَرْبَعَةٌ: اَمْوَالُ الْمُسْلِمِیْنَ فَقَسَّمَهَا بَیْنَ الْوَرَثَةِ فِی الْفَرَآئِضِ، وَ الْفَیْءُ فَقَسَّمَهٗ عَلٰى مُسْتَحِقِّیْهِ، وَ الْخُمُسُ فَوَضَعَهُ اللهُ حَیْثُ وَضَعَهٗ، وَ الصَّدَقَاتُ فَجَعَلَهَا اللهُ حَیْثُ جَعَلَهَا، وَ كَانَ حَلْیُ الْكَعْبَةِ فِیْهَا یَوْمَئِذٍ فَتَرَكَهُ اللهُ عَلٰى حَالِهٖ، وَ لَمْ یَتْرُكْهُ نِسْیَانًا، وَ لَمْ یَخْفَ عَلَیْهِ مَكَانًا، فَاَقِرَّهُ حَیْثُ اَقَرَّهُ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ ﷺ.

جب قرآن مجید نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوا تو اس وقت چار قسم کے اموال تھے: ایک مسلمانوں کا ذاتی مال تھا۔ اسے آپؐ نے ان کے وارثوں میں ان کے حصہ کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ دوسرا مالِ غنیمت تھا۔ اسے اس کے مستحقین پر تقسیم کیا۔ تیسرا مال خمس تھا۔ اس مال کے اللہ تعالیٰ نے خاص مصارف مقرر کر دیے۔ چوتھے زکوٰة و صدقات تھے۔ انہیں اللہ نے وہاں صرف کرنے کا حکم دیا جو ان کا مصرف ہے۔ یہ خانہ کعبہ کے زیورات اس زمانہ میں بھی موجود تھے، لیکن اللہ نے ان کو ان کے حال پر رہنے دیا اور ایسا بھولے سے تو نہیں ہوا، اور نہ ان کا وجود اس پر پوشیدہ تھا۔ لہٰذا آپ بھی انہیں وہیں رہنے دیجئے جہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے انہیں رکھا ہے۔

فَقَالَ لَهٗ عُمَرُ: «لَوْلَاكَ لَافْتَضَحْنَا». وَ تَرَكَ الْحَلْیَ بِحَالِهٖ.

یہ سن کر عمر نے کہا کہ: ’’اگر آپؑ نہ ہوتے تو ہم رسوا ہو جاتے‘‘۔ اور زیورات کو ان کی حالت پر رہنے دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button