خطبات

خطبہ (۱۸) فتاویٰ میں علماء کے مختلف الآراء ہونے کی مذمت میں فرمایا :

(۱٨) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۸)

فِیْ ذَمِّ اخْتِلَافِ الْعُلَمَآءِ فِی الْفُتْيَا

فتاویٰ میں علماء کے مختلف الآرا ہونے کی مذمت میں فرمایا

تَرِدُ عَلٰۤى اَحَدِهِمُ الْقَضِیَّةُ فِیْ حُكْمٍ مِّنَ الْاَحْكَامِ فَیَحْكُمُ فِیْهَا بِرَاْیِهٖ، ثُمَّ تَرِدُ تِلْكَ الْقَضِیَّةُ بِعَیْنِهَا عَلٰى غَیْرِهٖ فَیَحْكُمُ فِیْهَا بِخِلَافِهٖ، ثُمَّ یَجْتَمِـعُ الْقُضَاةُ بِذٰلِكَ عِنْدَ الْاِمَامِ الَّذِی اسْتَقْضَاهُمْ، فَیُصَوِّبُ اٰرَآءَهُمْ جَمِیْعًا، وَ اِلٰهُهُمْ وَاحِدٌ، وَ نَبِیُّهُمْ وَاحِدٌ، وَ كِتَابُهُمْ وَاحِدٌ.

جب [۱] ان میں سے کسی ایک کے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کیلئے پیش ہوتا ہے تو وہ اپنی رائے سے اس کا حکم لگا دیتا ہے۔ پھر وہی مسئلہ بعینہٖ دوسرے کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ اس پہلے کے حکم کے خلاف حکم دیتا ہے۔ پھر یہ تمام کے تمام قاضی اپنے اس خلیفہ کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے انہیں قاضی بنا رکھا ہے تو وہ سب کی رایوں کو صحیح قرار دیتا ہے، حالانکہ ان کا اللہ ایک، نبی ایک اور کتاب ایک ہے۔

اَفَاَمَرَهُمُ اللهُ تَعَالٰی بِالْاِخْتِلَافِ فَاَطَاعُوْهُ؟ اَمْ نَهَاهُمْ عَنْهُ فَعَصَوْهُ؟ اَمْ اَنْزَلَ اللهُ دِیْنًا نَّاقِصًا فَاسْتَعَانَ بِهِمْ عَلٰۤى اِتْمَامِهٖ؟ اَمْ كَانُوْا شُرَكَآءَ لَهٗ فَلَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا وَ عَلَیْهِ اَنْ یَّرْضٰى؟ اَمْ اَنْزَلَ اللهُ سُبْحَانَهُ دِیْنًا تَامًّا فَقَصَّرَ الرَّسُوْلُ ﷺ عَنْ تَبْلِیْغِهٖ وَ اَدَآئِهٖ؟ وَاللهُ سُبْحَانَهٗ یَقُوْلُ: ﴿مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ﴾، فِیْهِ تِبْیَانُ كُلِّ شَیْءٍ، وَ ذَكَرَ اَنَّ الْكِتَابَ یُصَدِّقُ بَعْضُہٗ بَعْضًا، وَ اَنَّهٗ لَا اخْتِلَافَ فِیْهِ، فَقَالَ سُبْحَانَهٗ: ﴿وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا۝﴾. وَ اِنَّ الْقُرْاٰنَ ظَاهِرُهٗ اَنِیْقٌ وَّ بَاطِنُهٗ عَمِیْقٌ، لَا تَفْنٰى عَجَآئِبُهٗ، وَ لَا تَنْقَضِیْ غَرَآئِبُهٗ، وَ لَا تُكْشَفُ الظُّلُمٰتُ اِلَّا بِهٖ.

(انہیں غور تو کرنا چاہیے) کیا اللہ نے انہیں اختلاف کا حکم دیا تھا اور یہ اختلاف کر کے اس کا حکم بجا لاتے ہیں۔ یا اس نے تو حقیقتاً اختلاف سے منع کیا ہے اور یہ اختلاف کر کے عمداً اس کی نافرمانی کرنا چاہتے ہیں۔ یا یہ کہ اللہ نے دین کو ادھورا چھوڑ دیا تھا اور ان سے تکمیل کیلئے ہاتھ بٹانے کا خواہشمند ہوا تھا۔ یا یہ کہ اللہ کے شریک تھے کہ انہیں اس کے احکام میں دخل دینے کا حق ہو اور اس پر لازم ہو کہ وہ اس پر رضا مند رہے۔ یا یہ کہ اللہ نے تو دین کو مکمل اتارا تھا مگر اس کے رسول ﷺ نے اس کے پہنچانے اور ادا کرنے میں کوتاہی کی تھی۔ اللہ نے قرآن میں تو یہ فرمایا ہے کہ: ’’ہم نے کتاب میں کسی چیز کے بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی‘‘اور اس میں ہر چیز کا واضح بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ: قرآن کے بعض حصے بعض حصوں کی تصدیق کرتے ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ چنانچہ اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ: ’’ اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کا بھیجا ہوا ہوتا تو تم اس میں کافی اختلاف پاتے‘‘ اور یہ کہ اس کا ظاہر خوش نما اور باطن گہرا ہے۔ نہ اس کے عجائبات مٹنے والے اور نہ اس کے لطائف ختم ہونے والے ہیں۔ ظلمت (جہالت) کا پردہ اسی سے چاک کیا جاتا ہے۔

۱؂یہ مسئلہ محل نزاع ہے کہ جس چیز پر شرع کی رو سے کوئی قطعی دلیل قائم نہ ہو، آیا واقعی میں اس کا کوئی حکم ہوتا بھی ہے یا نہیں؟

ابو الحسن اشعری اور ان کے استاد ابو علی جبائی کا مسلک یہ ہے کہ اللہ نے اس کیلئے کوئی حکم تجویز ہی نہیں کیا بلکہ ایسے موارد میں تشریع و حکم کا اختیار مجتہدین کو سونپ دیا ہے کہ وہ اپنی صوابدید سے جسے حرام ٹھہرا لیں اسے واقعی حرام قرار دے دیا جائے گا اور جسے حلال کر دیں اسے واقعی حلال سمجھ لیا جائے گا اور اگر کوئی کچھ کہے اور کوئی کچھ تو پھر جتنی ان کی رائے ہوں گی اتنے احکام بنتے چلے جائیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا نقطہ نگاہ حکم واقعی کا ترجمان ہو گا۔ مثلاً اگر ایک مجتہد کی رائے یہ ٹھہری کہ نبیذ حرام ہے اور دوسرے مجتہد کی رائے یہ ہوئی کہ نبیذ حلال ہے تو وہ واقعی میں حلال بھی ہو گی اور حرام بھی۔ یعنی جو اسے حرام سمجھے اس کیلئے پینا ناجائز ہے اور جو حلال سمجھ کر پئے اس کیلئے پینا جائز ہے۔ چنانچہ شہرستانی اس تصویب کے متعلق تحریر کرتے ہیں:

فَمِنَ الْاُصُوْلِيِّيْنَ مَنْ صَارَ اِلٰۤى اَنْ لَّا حُكْمَ لِلّٰهِ تَعَالٰى فِی الْوَقَآئِعِ الْمُجْتَهَدِ فِيْهَا حُكْمًۢا بِعَيْنِهٖ قَبْلَ الْاِجْتِهَادِ مِنْ جَوَازٍ وَّ حَظَرٍ وَّ حَلَالٍ وَّ حَرَامٍ، وَ اِنَّمَا حُكْمُهٗ تَعَالٰى مَاۤ اَدّٰى اِلَيْهِ اجْتِهَادُ الْمُجْتَهِدِ وَ اَنَّ هٰذَا الْحُكْمَ مَنُوْطٌۢ بِهٰذَا السَّبَبِ، فَمَا لَمْ يُوْجَدِ السَّبَبُ لَمْ يَثْبُتِ الْحُكْمُ۔۔۔ وَ عَلٰى هٰذَا الْمَذْهَبِ كُلُّ مُجْتَهِدٍ مُصِيْبٌ فِی الْحُكْمِ.

اصولیین کا ایک گروہ اس کا قائل ہے کہ جن مسائل میں اجتہاد کیا جاتا ہے، ان کیلئے جواز و عدم جواز اور حلال و حرام کے اعتبار سے کوئی طے شدہ حکم نہیں ہوتا، بلکہ جو مجتہد کی رائے ہوتی ہے وہی خدا کا حکم ہوتا ہے۔ کیونکہ حکم کا قرار پانا ہی اس پر موقوف ہے کہ وہ کسی مجتہد کے نظرئیے سے طے ہو۔ اگر یہ چیز نہ ہو گی تو حکم بھی ثابت نہ ہو گا۔ اور اس مسلک کی بنا پر ہر مجتہد اپنی رائے میں درست ہو گا۔ (کتاب الملل و النحل، ص۹۸)

اس صورت میں مجتہد کو خطا سے اس لئے محفوط سمجھا جاتا ہے کہ خطا تو وہاں متصور ہوا کرتی ہے جہاں کوئی قدم واقع کے خلاف اُٹھے اور جہاں کوئی واقع ہی نہ ہو وہاں خطا کے کیا معنی؟۔

اس کے علاوہ اس صورت میں بھی مجتہد سے خطا کا امکان نہ ہو گا کہ جب یہ نظریہ قائم کر لیا جائے کہ مجتہدین کی آئندہ جتنی رائیں ہونے والی تھیں اللہ نے ان سے با خبر ہونے کی بنا پر پہلے ہی سے اتنے احکام بنا رکھے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہر رائے حکم واقعی کے مطابق ہی پڑتی ہے۔

یا یہ کہ اس نے یہ التزام کر رکھا ہے کہ مجتہدین کی رایوں کو ان طے شدہ احکام سے باہر نہ ہونے دے گا۔

یا یہ کہ برسبیل اتفاق ان میں سے ہر ایک کی رائے ان احکام میں سے کسی ایک نہ ایک حکم سے بہر صورت موافقت کرے گی۔

لیکن فرقہ امامیہ کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ نے نہ کسی کو شریعت سازی کا حق دیا ہے اور نہ کسی چیز کے حکم کو مجتہد کی رائے کے تابع ٹھہرایا ہے اور نہ آراء کے مختلف ہونے کی صورت میں ایک ہی چیز کیلئے واقعی میں متعدد احکامات بنائے ہیں۔ البتہ جب مجتہد کی حکم واقعی تک رسائی نہیں ہونے پاتی تو تلاش و تفحص کے بعد جو نظریہ اس کا قرار پاتا ہے اس پر عمل پیرا ہونا اس کیلئے اور اس کے مقلدین کیلئے کفایت کر جاتا ہے، لیکن اس کی حیثیت صرف حکم ظاہری کی ہوتی ہے جو حکم واقعی کا بدل ہے اور ایسی صورت میں حکم واقعی کے چھوٹ جانے پر وہ معذور قرار پا جاتا ہے۔ کیونکہ اس نے اس دریائے نا پیدا کنار میں غوطہ لگانے اور اس کی تہ تک پہنچنے میں کوئی کوشش اٹھا نہیں رکھی۔ مگر اس پر کیا اختیار کہ در شاہوار کے بجائے خالی صدف ہی اس کے ہاتھ لگے۔ لیکن وہ یہ نہیں کہتا کہ دیکھنے والے اسے موتی سمجھیں اور موتی کے بھاؤ بکے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کوششوں کا پرکھنے والا اس کی بھی آدھی قیمت لگا دے تا کہ نہ اس کی محنت اَکارت جائے اور نہ اس کی ہمت ٹوٹنے پائے۔

اگر اس تصویب کے اصول کو مان لیا جائے تو پھر ہر فتویٰ کو درست اور ہر قول کو صحیح ماننا پڑے گا۔ جیسا کہ میبذی نے فواتح میں لکھا ہے:

حق در این مسئلہ مذھب اشعری است، پس تو اند بود کہ مذاھب متناقضہ ھمہ حق باشند زنہار در شانِ علماء گمان بد مبر و زبان بطعن ایشان مکشا۔

جب متضاد نظرئیے اور مختلف فتوے تک صحیح تسلیم کئے جاتے ہیں تو حیرت ہے کہ بعض نمایاں افراد کے اقدامات کو خطائے اجتہادی سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے، جب کہ مجتہد کیلئے خطا کا تصور ہی نہیں ہو سکتا۔ اگر عقیدہ تصویب صحیح ہے تو امیر شام اور اُمّ المومنین کے اقدامات درست ماننا پڑیں گے اور اگر ان کے اقدامات غلط سمجھے جاتے ہیں تو تسلیم کیجئے کہ اجتہاد ٹھوکر بھی کھا سکتا ہے اور تصویب کا عقیدہ غلط ہے اور یہ اپنے مقام پر طے ہوتا رہے گا کہ اُمّ المومنین کے اجتہاد میں انوثیت تو سد راہ نہیں ہوتی یا امیر شام کا یہ اجتہاد تھا یا کچھ اور۔ بہر صورت یہ تصویب کا عقیدہ خطاؤں کو چھپانے اور غلطیوں پر حکم الٰہی کی نقاب ڈالنے کیلئے ایجاد کیا گیا تھا تا کہ نہ مقصد برآریوں میں روک پیدا ہو اور نہ من مانی کارروائیوں کے خلاف کوئی زبان کھول سکے۔

امیر المومنین علیہ السلام نے اس خطبہ میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اللہ کی راہ سے کٹ کر اور وحی الٰہی کی روشنی سے آنکھیں بند کر کے قیاس و رائے کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں اور دین کو افکار و آراء کی آماجگاہ بنا کر نت نئے فتوے دیتے رہتے ہیں اور اپنے جی سے احکام گھڑ کر اختلافات کے شاخسانے چھوڑتے رہتے ہیں اور پھر تصویب کی بنا پر تمام مختلف و متضاد احکام کو اللہ کی طرف سے سمجھ لیتے ہیں۔ گویا ان کا ہر حکم وحی الٰہی کا ترجمان ہے کہ نہ ان کا کوئی حکم غلط ہو سکتا ہے اور نہ کسی موقعہ پر وہ ٹھوکر کھا سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرتؑ اس مسلک کے رد میں فرماتے ہیں کہ:

۱۔ جب اللہ ایک، کتاب ایک اور رسول ایک ہے، تو پھر دین بھی ایک ہی ہونا چاہیے اور جب دین ایک ہے تو ایک ہی چیز کیلئے مختلف و متضاد احکام کیونکر ہو سکتے ہیں، کیونکہ حکم میں تضاد اس صورت میں ہوا کرتا ہے کہ جب حکم دینے والا پہلا حکم بھول چکا ہو، یا اس پر غفلت یا مدہوشی طاری ہو گئی ہو، یا جان بوجھ کر ان بھول بھلیوں میں رکھنا چاہتا ہو اور اللہ و رسولؐ ان چیزوں سے بلند تر ہیں۔ لہٰذا اس اختلاف کو ان کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ اختلافات ان لوگوں کے خیالات و آراء کا نتیجہ ہیں کہ جنہوں نے قیاس آرائیوں سے دین کے نقوش کو مسخ کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔

۲۔اللہ نے یا تو ان اختلافات سے منع کیا ہو گا یا اختلاف پیدا کرنے کا حکم دیا ہو گا۔ اگر حکم دیا ہے تو وہ کہاں اور کس مقام پر ہے اور ممانعت کو سننا چاہو تو قرآن کہتا ہے:

﴿قُلْ آٰللّٰهُ اَذِنَ لَـكُمْ‌ اَمْ عَلَى اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ﴾

ان سے کہو کہ کیا اللہ نے تمہیں اجازت دے دی ہے یا تم اللہ پر افترا کرتے ہو۔[۱]

یعنی ہر وہ چیز جو بحکم خدا نہ ہو وہ افترا ہے اور افترا ممنوع و حرام ہے اور افترا پر دازوں کیلئے عقبیٰ میں نہ فوز و کامرانی ہے نہ فلاح و بہبود۔ چنانچہ ارشادِ قدرت ہے:

﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَـتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّهٰذَا حَرَامٌ لِّـتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ‌ؕ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَؕ‏ ﴾

جو تمہاری زبانوں پر جھوٹی باتیں چڑھی ہوئی ہیں انہیں کہا نہ کرو اور نہ اپنی طرف سے حکم لگایا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تا کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنے لگو اور جو افترا پردازیاں کرتے ہیں وہ کامیابی و کامرانی سے ہمکنار نہ ہوں گے۔[۲]

۳۔ اگر اللہ ہی نے دین کو ناتمام رکھا ہے تو اسے ادھورا چھوڑنے کی یہ وجہ ہو گی کہ اس نے اپنے بندوں سے یہ چاہا ہو گا کہ وہ شریعت کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اس کا ہاتھ بٹائیں اور شریعت سازی میں اس کے شریک ہوں ،تو یہ عقیدہ سراسر شرک ہے۔ اگر اس نے دین کو مکمل اتارا ہے تو پھر پیغمبر ﷺ نے اس کے پہنچانے میں کوتاہی کی ہو گی تا کہ دوسروں کیلئے اس میں قیاس و رائے کی گنجائش رہے تو معاذ اللہ! یہ پیغمبر ﷺ کی کمزوری اور انتخابِ قدرت پر بدنما دھبہ ہو گا۔

۴۔ اللہ سبحانہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ: ’’ہم نے کتاب میں کسی چیز کو اٹھا نہیں رکھا اور ہر ایک چیز کو کھول کر بیان کر دیا ہے‘‘ تو پھر قرآن سے ہٹ کر جو حکم تراشا جائے گا وہ شریعت سے باہر ہو گا اور اس کی اساس علم و بصیرت اور قرآن و سنت پر نہ ہو گی، بلکہ اپنی ذاتی رائے اور اپنا ذاتی فیصلہ ہو گا جس کا دین و مذہب سے کوئی لگاؤ نہیں سمجھا جا سکتا۔

۵۔ قرآن دین کا مبنٰی و ماخذ اور احکامِ شریعت کا سرچشمہ ہے۔ اگر احکامِ شریعت مختلف اور جدا جدا ہوتے تو پھر اس میں بھی اختلاف ہونا چاہیے تھا اور اس میں اختلاف ہوتا تو یہ اللہ کا کلام نہ رہتا اور جب یہ اللہ کا کلام ہے تو پھر شریعت کے احکام مختلف ہو ہی نہیں سکتے کہ تمام مختلف و متضاد نظریوں کو صحیح سمجھ لیا جائے اور قیاسی فتووں کو اس کا حکم قرار دے دیا جائے۔

[۱]۔ سورۂ یونس، آیت ۵۹۔

[۲]۔ سورۂ نحل، آیت ۱۱۶۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button