نہج البلاغہ در آئینہ اشعار

نہج البلاغہ اور فارسی شعراء

امیر بیان سلطان سخن علی علیہ السلام کے کلام کا مجموعہ ”نہج البلاغہ“ فصاحت و بلاغت کا معجزہ اور معانی و بیان کا لطیف و شفاف سرچشمہ ہے۔ عربی ادبیات پر اس کا جو اثر ہے اس پر متعدد دانشوروں کے مقالے موجود ہیں۔

فارسی زبان کے علم دوست اور محبان علی علیہ السلام نے بھی ادبی اور معنوی دونوں پہلوؤں سے نہج البلاغہ سے استفادہ کیا۔

اس موضوع پر فارسی میں کئی کتابیں موجود ہیں مثلا ”تاثیر نہج البلاغہ و کلام علیؑ در شعر فارسی“ یا ”دربارگاہ آفتاب-نہج البلاغہ در ادب فارسی“۔ اس کتاب میں بڑی تفصیل سے فارسی کی ادبیات و معنویات پر نہج البلاغہ کے اثر کو لکھا گیا ہے۔

نہج البلاغہ کی مشہور خدمت گزار جناب شیخ محمد دشتی اور ان کی ٹیم نے دو جلدوں پر مشتمل کتاب لکھی ”معارف نہج البلاغہ در شعر شاعران“ یعنی شعرا کے کلام پر نہج البلاغہ کے معارف کا اثر۔

نہج البلاغہ کے فارسی میں چند منظوم ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں۔

مرکز افکار اسلامی نے ان دنوں اردو شعراء سے نہج البلاغہ سے متعلق کلام کہنے کی درخواست کی اور الحمدللہ سو سے زائد کلام موصول ہوئے۔ شعراء کے اس کلام پر مشتمل ایک کتاب ان شاءاللہ جلد شائع ہو رہی ہے۔ جس کا نام ”نہج البلاغہ اور اردو شعراء“ طے پایا ہے۔

اس دوران عرب عربی اور فارسی شعراء کے کلام کے مطالعہ کا موقع بھی ملا تو نمونے کے طور پر کچھ عربی اور فارسی کلام کو اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے اور عرب شعراء کے کلام کو الگ اور فارسی شعراء کے کلام کو الگ ویب سائٹ پر نشر کیا جا رہا ہے۔
امید ہے اردو کے نوجوان شعراء کے لیے یہ ترجمے مفید ثابت ہوں گے۔

مرکز افکار اسلامی جناب حجت الاسلام مولانا سید عقیل عباس نقوی مقیم حوزہ علمیہ قم کا شکر گزار ہے جنہوں نے فارسی کلام کا اردو میں ترجمہ کیا اور اس کلام کو محنت سے مرتب کیا۔ پروردگار ان کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔

فارسی میں علامہ اقبالؒ نے امام علی علیہ السلام کے کلام کے بارے میں کیا خوبصورت مصرع کہا:

قوتِ دینِ مبین فرمودہ اش
علی علیہ السلام کے فرامین دینِ مبین کی قوت و طاقت کا سبب ہیں۔

پروردگار ہمیں نہج البلاغہ جیسے علمی، ادبی اور معنوی سرمائے سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

مقبول حسین علوی
مرکز افکار اسلامی

(1)

شیخ الرئیس قاجار، ابوالحسن مرزا، متوفی 1336ھ

از آن‌که اندر بیان علی امیر من است
اوست امیر کلام من از پی‌اش رهسپار

اس لیے کہ بیان میں میرے آقا علی ہی

وہی کلام کے امیر ہیں، میں انہی کی پیروی کرتا ہوں۔

(2)

معاصر شاعر محمدرضا جلالی فر”نویدؔ“

افصح ملک بلاغت درّ دریای سخن
كز سخن بر لوح و دفتر شهد و شكر ریخته

وہ بلاغت کے فصیح ترین بادشاہ ہیں، دریاۓ سخن کے موتی ہیں

کہ آپ کے کلام سے لوح و قلم (تحریر) پربھی شیرینی ہو گئی ہے

آشیان عرشی که هر غواص در بحر سخن
لؤلؤ لالا به‌پای آن سخنور ریخته

ایسا عرش نشین آشیانہ ہے کہ سخن کے سمندر کا ہر غوطہ خور

اپنے لعل و گوہر اس کے قدموں میں نچھاور کر دیتا ہے۔

(3)

فقیہ و عارف فیض کاشانی، متوفی 1091ھ

سخن‌های امیرالمؤمنین دل می‌برد از من
ز اسرار حقایق دلستانی كرده‌ام پیدا

امیرالمؤمنینؑ کے کلام نے میرا دل موہ لیا ہے

میں نے حقائق کے اسرار سے عشق و معرفت پا لی ہے

جمال عالم‌آرایش اگر پنهان شد از چشمم
حدیثش را ز جان، گوش و زبانی كرده‌ام پیدا

اگرچہ جمالِ عالم آرائی (خدا) میری آنکھوں سے اوجھل ہے

میں نے اس کے کلام کو جان، گوش اور زبان سے پا لیا ہے

کلامش بوی حق بخشد مشام اهل معنی را
ز گلزار الهی بوستانی کرده‌ام پیدا

ان کا کلام اہلِ معنی کے مشام کو حق کی خوشبو عطا کرتا ہے

میں نے اپنے رب کے گلستان سے ایک خوشبوئی باغ پا لیا ہے

(4)

”فیض کاشانی“

از ولایات علی گر نکته‌ای پیدا کنم
می‌توانم هر دو عالم را به یک دم درکشم

اگر میں علیؑ کی ولایت سے ایک نکتہ پا لوں

تو میں دونوں جہانوں کو ایک سانس میں سمیٹ سکتا ہوں

از حدیث جانفزایش یک سخن چون بشنوم
می‌توانم صد کتاب علم از آن انشا کنم

ان کی دلربا حدیث کا ایک کلام اگر سن لوں

تو میں اس سے علم کی سو کتابیں تخلیق کر سکتا ہوں

(5)

علی رضا میرزا محمد (الف)

هست نهج‌البلاغه قوت روان
كه از آن صیقلی شود ایمان

نہج البلاغہ (ایک ایسی) روحانی قوت ہے

جس سے ایمان کو چمک ملتی ہے

یادگار شگرف حیدر کو
در سخن بود امیر بل سلطان

حیدر کرّار کی باعظمت یادگار ہے

جو سخن میں بادشاہوں کے بادشاہ تھے

(ب)

زندگی جز با علی پر بار نیست
با علی هرگز غمی در كار نیست

علی کے بغیر زندگی بے ثمر ہے

علی کے ساتھ کبھی کوئی غم، غم نہیں ہے

در بهشت با صفای معرفت
خوشتر از نهج‌البلاغه یار نیست

معرفت کی باصفا و دلربا بہشت میں

نہج البلاغہ سے بہتر کوئی ساتھی نہیں ہے

(ج)

بعد از ندای سبز وحی آسمانی
نقش آفرین دلرو نور جاوادنی

آسمانی وحی کی زندہ کر دینے والی ندا کے بعد

دلوں کو روشن کرنے والا ہے ہمیشہ رہنے والا نور

نہج البلاغہ اخت قرآن ارمغانی
بیدار گر آمد با ہر عصر و زمانی

نہج البلاغہ، اختِ قرآن ایک تحفہ ہے

ہر دور اور ہر زمانے میں بیدار کرنے والا ہے

(6)

شاعر معاصر سید رضا مؤید

مات است روح علم ز نهج‌البلاغه‌ات
كردی چه خوب حقّ سخن را ادا علي

روحِ علم آپ کے نہج البلاغہ سے حیران و سرگردان ہے

اے علیؑ! آپ نے حقِ سخن کو کتنی خوبی سے ادا کیا ہے

قدرت گفتارش از نہج البلاغہ روشن است
بہترین سرمشق مردان خدا احکام اوست

آپ کے کلام کی قدرت و طاقت نہج البلاغہ سے واضح ہے

خدا کے بندوں کے لیے بہترین نمونہ آپ کے احکام ہیں

کثرت علمش عیان از منطق شیوای او
معجز حلمش عیان از کثرت آلام اوست

آپکے علم کی کثرت آپکے دلنشین کلام سے عیاں ہے

آپکے حلم و بردباری کا معجزہ آپکی بے پناہ مصیبتوں سے ظاہر ہے

(7)

شاعر معاصر بلبلِؔ گویا

ای علی، ای مرد شمشیر و قلم
با خدا در هر مقام و هر قدم

اے علی! اے تلوار اور قلم دونوں کے مالک!

ہر مقام اور ہر قدم پر خدا کے ساتھ رہنے والے!

ای وجودت مظهر ایمان به حق
ای كلامت تالی قرآن به حق

اے وہ وجود جو ایمان باللہ کا مظہر ہے

اے وہ جس کا کلام حقیقت میں قرآن کے بعد درخشان ہے!

(8)

”حیدر انصاری“

در فضاحت، در بلاغت، در علوم مختلف
برتر از نهج‌البلاغه متن قرآن است و بس

فصاحت میں، بلاغت میں، مختلف علوم میں

نہج البلاغہ سے برتر فقط اور فقط قرآن کریم کا متن ہے

(9)

نور قزوینی ”رسولی“

شبى در باطن نهج البلاغه
سفر کردیم در نهج البلاغه

ایک رات نہج البلاغہ کی باطنی حقیقت سے آشنائی کے لئے

ہم نے نہج البلاغہ کا سفر کیا

عیان شد کاین همان قرآن ثانیست
مثالش در صناعات ادب نیست

گویا یہ وہی دوسرا قرآن پاک ہے

جس کی مثال دنیائے ادب میں نہیں ملتی

چراغ رهنماى مسلمین است
كلام قدوه اهل یقین است

یہ مسلمانوں کے لئے ہدایت کا چراغ ہے

یہ کلام جو اہل یقین کے لئے نمونۂ عمل ہے

به بازار سخن دریست نایاب
چه درى در ظلال نور مهتاب

بازار تکلم میں یہ نایاب در ہے

جو چاندنی رات میں روشن ہے

اساس آسمان ها و زمین است
خم عشق امیرالمومنین است

زمین و آسمان کی بنیادہے یہ

یہ امیر المومنینؑ کی محبت کی شراب ہے

مى و خم خانه و پیمانه است این
شراب شاهد فرزانه است این

یہی میخانہ و پیمانہ ہے اور یہ

عقلمند اور دانا لوگوں کے لئے سرشار کرنے والی شراب ہے

فهیمى گفت این یک باغ معناست
حکیمى گفت دانشگاه مولاست

کسی دانشورنے اسے معنویت کا گلزار کہا

تو کسی حکیم نے کہا کہ یہ مولا کی جامع درسگاہ ہے

مریدى گفت نخل سبز طوباست
ز هر برگش هزاران نكته پیداست

ایک ارادتمند نے اسے طوبیٰ کا سرسبز وشاداب نخلستان کہا

کیونکہ اس کے ہر لفظ میں ہزاروں نکات پوشیدہ ہیں

در این راه آتش عشقى که برپاست
هزاران درد بى درمان مداواست

اس راہ میں محبت کی ایسی حرارت ہے

جو ہزاروں لا علاج بیماریوں کا علاج ہے

صفایش چون نسیم نوبهارى
بود در ذهن سبز باغ جارى

اس کی پاکیزگی بہار کی نرم اور خوشگوار ہوا کی طرح ہے

جو ذہن کو طراوت بخشتی ہے

هواى آن به هر فصلى بهاریست
فضایش از غبار عیب عاریست

اس کی ہوا ہر موسم میں بہار جیسی ہے

جس کی فضا ہر طرح کےغبار نقص سے عاری ہے

سرود ساقى کوثر همین است
سرور سوره کوثر همین است

یہ نہج البلاغہ ساقیٔ کوثر کا ہی نغمہ ہے

یہ سورۂ کوثر کی شادمانی ہے

به هر سویش هزاران جویباریست
ز هر جوى آب علم و حلم جاریست

جس کے ہر سمت چھوٹے چھوٹے ہزاروں چشمے بہہ رہے ہیں

جس کے ہر سوتے سے علم وحلم کے چشمے پھوٹتے ہیں

ره بحر صناعات است این راه
ره پیر خرابات است این راه

یہ فنون و علوم کا راستہ ہے

دنیا سے بے نیاز افراد کا راستہ ہے یہ

ره خلوت گزینان است این راه
رهى در بطن قرآن است این راه

یہ دنیا سے بے نیاز لوگوں کی راہ ہے

یہ قرآنی راہوں میں اصل داخلہ ہے

همانا بیخودان پیوسته مستند
به ساقى عاشقند و مى پرستند

جو اس راہ کے راہی ہیں وہ بے خودی کی حالت میں رہتے ہیں

ساقی سے جنہیں محبت ہے اور اسی کو مانتے ہیں

همان مى که صفاى راه مولاست
ز شهد میوه هاى باغ طاهاست

یہ مولا کی عطا کردہ وہ شراب ہے

جوباغِ طہ کے میٹھے پھلوں کا شہد ہے

خط سبز غزل یعنى همین راه
حقیقت در مثل یعنى همین راه

غزل کی سبز راہ یعنی یہی راستہ

جو نہج البلاغہ ہمیں دکھاتا ہے۔

خداوندا به نور پیر مستان
مكن مهجور ما را زین گلستان

پروردگارا!تو اپنے ان بندوں کو جو اس روشنی کے زیر سایہ ہیں

انہیں اس گلشن سے محروم قرار نہ دے!

(10)

«شفق» / محمّدحسین بھجتی، متخلّص بہ «شفق» (و. 1313ھ. ش)

اندیشه، غرق لذّت نهج البلاغه
عالم، رهین منّت نهج البلاغه

فکر و سوچ نہج البلاغہ کے لطف و لذت میں ڈوبی ہے

ساری دنیا نہج البلاغہ کے مرہونِ احسان ہے

جان و دل و ادراک آگاهان عالم
افتاده مست از نکهت نهج البلاغه

جان، دل اور عقلمند لوگوں کی سمجھ

نہج البلاغہ کی خوشبو سے مست ہیں

خواهی اگر بی‏ پرده دیدن روی دلدار
ای دل بیا در خلوت نهج البلاغه

اگر دلدار کا چہرہ بے پردہ دیکھنا چاہو

اے دل! آ کر نہج البلاغہ کی تنہائی میں بیٹھ

بهر طهارت عارفان شویند جان را
در آبشار حکمت نهج البلاغه

پاکیزگی پانے کے لیے عرفاء اپنی جان کو

نہج البلاغہ کی حکمت کی آبشار میں دھوتے ہیں

جوشد هزاران چشمه آب زندگانی
از بند بند قامت نهج البلاغه

زندگی کے ہزاروں چشمے پھوٹتے ہیں

وجودِ نہج البلاغہ کے ہر حصے سے

فجر هدایت، نور عرفان و عنایت
تابد به جان از طلعت نهج البلاغه

ہدایت کی صبح، عرفان کا نور اور عنایت

نہج البلاغہ کے نور سے روح پر چمکتی ہے

باران سرّ غیب و موج علم مکنون
ریزد ز آیت آیت نهج البلاغه

پوشیدہ اسرار کی بارش اور مخفی علم کی لہریں

نہج البلاغہ کی ہر آیت اور جملے سے برستی ہیں

مجذوب و واله فیلسوفان خداجوی
افتاده غرق حیرت نهج البلاغه

خدا کی تلاش کے مجذوب اور مشتاق فلاسفہ

نہج البلاغہ کے حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں

شیوائی و شیرینی و شور و صلابت
مضمر بود در فطرت نهج البلاغه

شیریں بیانی، میٹھا پن، جوش اور مضبوطی

نہج البلاغہ کی فطرت میں پنہاں ہے

گیرائی و جان بخشی و عشق آفرینی
رمزیست از کیفیت نهج البلاغه

جاذبیت، جان بخشی اور عشق کی تخلیق

نہج البلاغہ کی کیفیت کا ایک راز ہے

گر برترین علم و بیان یابد تجسّم
گردد عیان در صورت نهج البلاغه

اگر سب سے بڑا علم اور بیان شکل پکڑے

تو وہ نہج البلاغہ کی صورت میں نظر آئے گا

هرشاهکاری از فصاحت وز بلاغت
سوزد ز برق غیرت نهج البلاغه

فصاحت و بلاغت کا ہر شاہکار

نہج البلاغہ کی برق غیرت سے جلتا ہے

فقه و سیاست، اقتصاد و زهد و پرهیز
گرد آمده در ساحت نهج البلاغه

فقه، سیاست، معیشت اور زہد و پرہیزگاری

نہج البلاغہ کے صحن میں جمع ہیں

اخلاص و ایمان، حکمت و اخلاق و عرفان
باشد بری از جنت نهج البلاغه

اخلاص، ایمان، حکمت، اخلاق اور عرفان

نہج البلاغہ کی جنت سے ہی حاصل ہوتے ہیں

از بس گرانقدر و پر ارزش، نداند
غیر از خدا کس قیمت نهج البلاغه

اس قدر قیمتی اور بیش بہا ہے کہ اس کی قیمت

خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا

خیزید مشتاقان و یاران تا نشینیم
برخوان ناز و نعمت نهج البلاغه

اٹھو پیارے ساتھیو اور عاشقو! کہ ہم بیٹھیں

نہج البلاغہ کے دسترخوان ناز و نعمت پر

از دیگران دریوزگی ننگی عظیم است
ما را که باشد دولت نهج البلاغه

دوسروں سے گدائی بڑے شرم کی بات ہے

ہمارے پاس جب نہج البلاغہ کی دولت ہے

خیزید تا با سرنهادن بر خط او
داریم پاس حرمت نهج البلاغه

اٹھو تاکہ اس کے راہ پر سر رکھ کر

ہم نہج البلاغہ کی حرمت کی حفاظت کریں

یارب به اخلاص علی خضر ره عشق
یا رب به شور و شوکت نهج البلاغه

اے خدا! علیؑ، راہ عشق کے خضر کے اخلاص کے واسطے

یارب! نہج البلاغہ کے جوش و جلال کے واسطے

راه علی را راه فرما و بده جای
ما را به زیر رایت نهج البلاغه

علیؑ کا راستہ ہی ہمارا راستہ قرار دے

اور ہمیں نہج البلاغہ کے پرچم تلے جگہ دے

سیراب کن همواره جان تشنه ما
ازچشمه سار رحمت نهج البلاغه

ہمارے پیاسے دل کو ہمیشہ سیراب کر

نہج البلاغہ کے رحمت کے چشمے سے

بنشین «شفق» خامش که نطق نغمه سازان
الکن بود در مدحت نهج البلاغه

شفق خاموش ہو جاؤ چونکہ خوش الحان پرستاروں کی زبان بھی

نہج البلاغہ کی تعریف میں لکنت کھا جاتی ہے

(11)

صغیر اصفہانی (1390-1312 ھ. ش)

شاعر عارف اور مداحِ اہل بیت، صغیر اصفہانی اس بات کی صراحت کرتے ہوئے کہ حضرت امام علی علیہ السلام کی ذاتِ گرامی درحقیقت فصاحت و بلاغت کے راستوں اور اسلوب کو دنیا والوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے ظہور پذیر ہوئی، کہتے ہیں:

در حریم کعبه شاه انس و جان آمد پدید
آن‌که مقصود دو عالم بود، آن آمد پدید

حرم کعبہ میں شاہِ انس و جان ظاہر ہوا

وہ جو دونوں جہانوں کا مقصود تھا، وہی ظاہر ہوا

تا که بنماید بلاغت را نهج، در روزگار
آن خدای نطق و خلاّق بیان آمد پدید

تاکہ بلاغت کا طریقہ زمانے میں دکھائے

(گویا) وہ خدائے نطق اور خالق بیان ظاہر ہوا

(12)

دیوان صحبت لاری (1251-1162 ہجری قمری)

صحبت لاری جو اہلِ شعر و فضل و کمال تھے اور تاریخ و فنونِ ادب میں ماہر تھے، کے دیوان میں ہم پڑھتے ہیں:

گاه سخن گوهرفشان وز خمّ غیبی می ‌کشان
نهج‌البلاغه یک نشان زان لعل دُربار آمده

کبھی سخن موتی برساتا ہے اور ازلی علم کے سرچشمے سے باہر نکالتا ہے

نہج البلاغہ ایک نمونہ ہے جو اُس گوہرِ بے بہا(علیؑ) سے وجود میں آیا ہے

(13)

صباحی بیدگلی (وفات 1218 ہجری قمری)

شاعر صباحی بیدگلی، جو بارھویں صدی کے آخر اور تیرھویں صدی کے آغاز کے مرثیہ نگار تھے اور ان کے ”چودہ بند“ مراثی میں مشہور ہیں، حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے معجز نما کلام کی عظمت بیان کرتے ہوئے یہ شعر کہتے ہیں:

چتر او خورشیدسای و دست او خیبرگشای
نطق او معجزنما و قلم او قرآن‌نگار

ان (علیؑ) کا سایہ سورج کی مانند ہے اور ان کا دستِ مبارک خیبر فتح کرنے والا ہے

ان کی گفتار معجز نمائی کرتی ہے اور ان کا قلم قرآن لکھنے والا ہے

(14)

ابن حسام خوسقی (ف. 875 ھ. ق) شاعر شیعی مذھب قرن نھم

ابنِ حسام خوسقی (وفات: 875 ہجری قمری) نویں صدی ہجری کے شیعہ مذہب شاعر اور مثنوی ”خاورنامہ“ کے مصنف ہیں۔ وہ حضرت علی علیہ السلام کی غزوات (جہادی مہمات) میں بھی فضل و ادب کے چشمہ سار کو اس نورانی امام کی بلاغت (فصاحت) سے جاری و ساری مانتے ہیں، اور دوسرے شاعروں کے ہم آواز ہو کر اس طرح نغمہ سرائی کرتے ہیں:

هر جا عبارتی به ‌فصاحت کسی نمود
از منهج بلاغت او انتخاب کرد

جہاں کہیں کسی نے فصاحت (و بلاغت) کے ساتھ کوئی عبارت پیش کی

(درحقیقت) اس نے اس (حضرت علیؑ) کے بلاغت کے طریقے (طریقہٴ بیان) سے ہی اسے انتخاب کیا

(15)

شاعر متصوف قرن ھشتم، اوحدی مراغھای (ف. 738 ھ. ق)

رای تو دشمن مال را
رویت مبارك فال را

تیری رائے اور فیصلہ مال (دولت) کا دشمن ہے (یعنی تو مال و دولت کو اہمیت نہیں دیتا)

تیرا چہرہ فال (شگون) کے لیے مبارک ہے (یعنی تیرا چہرہ دیکھنا اچھی علامت ہے)

نهج تو اهل حال را
كرد از بلاغت یاوری

تیرا طریقہ (راستہ) اہلِ حال (صاحبِ دل لوگ) کے لیے ہے (یعنی تیرا راستہ صاحبِ دل لوگوں کا راستہ ہے)

(جس نے) بلاغت (فصاحت) سے مدد کی ہے (یعنی تو نے فصاحت و بلاغت کے ذریعہ مدد دی ہے)

(16)

ملک ‌الشعرای آستان قدس رضوی، دکتر قاسم رسا (1356-1290 ھ. ش)

سخن نغز علی را چو دُر آویز به گوش
كه گرانمایه‌تر از گوهر و سیم و ذهب است

علیؑ کے قیمتی کلام کو موتی کے مانند کان سے آویزاں کر لو

کیونکہ وہ گوہر (موتی) اور چاندی اور سونے سے زیادہ قیمتی ہے

نثر او باغ وسیعی است پر از سنبل و گل
نظم او نخل بلندی است كه غرق رطب است

آپ کی نثر ایک وسیع باغ ہے جو سنبل و گُل سے بھرا ہوا ہے

آپ کی نظم بلند درخت ہے جو کھجوروں سے لدا ہوا ہے

ساقی کوثر علی‌بن ابی طالب که اوست
پیشوای اولین و مقتدای آخرین

کوثر کے ساقی (پلانے والے) علی بن ابی طالب ہیں، کہ جو

پہلے (لوگوں) کے امام اور آخری (لوگوں) کے رہنما ہیں

نظم و نثرش در لطافت بوستانی دلگشا
سنبل اندر سنبل است و یاسمین در یاسمین

ان کی نظم و نثر نرمی و لطافت میں ایک دلکش باغ کی مانند ہے

(جیسے) خوشبو میں خوشبو ہے اور یاسمین کے اندر یاسمین (ہو)

نظم او چون بانگ مرغان بهشتی جانفزا
نثر او چون نغمه‌های آسمانی دلنشین

ان کی نظم جنت کے پرندوں کی آواز کی مانند زندگی بخشتی ہے

ان کی نثر (تحریر) آسمانی غموں کی مانند دلنشین ہے

نظم زیبا و لطیفش به‌طراوت چو بهشت
نثر شیوا و بدیعش به‌حلاوت شكر است

آپ کی خوبصورت اور لطیف نظم تازگی میں بہشت جیسی ہے

ان کی واضح اور انوکھی نثر مٹھاس میں شکر جیسی ہے

با خط زر همه بر لوحة سیمین بنویس
منشآتش كه گرانمایه‌تر از سیم و زر است

سونے کے قلم سے سب (کچھ) چاندی کے صفحہ پر لکھو

آپ کی تحریریں جو چاندی اور سونے سے زیادہ قیمتی ہیں

(17)

”بشیر اراکی“ (الف)

اى شمس آثار بشر، نهج البلاغه
بعد از كلام ایزدى فوق اثرها

اے بشریت پرسورج کی طرح چمکنے والی کتاب ،نہج البلاغہ!

تو خدا کے کلام کے بعد سب سے بلند وبرترکلام ہے

اى رهنماى حاکمان و هادى خلق
از پند و اندرزت سعادتمند انسان

اے حکمرانوں کی رہبر اور عوام کو ہدایت بخشنے والی!

تیرے وعظ و نصائح سے لبریز کلام سے انسان کامران ہوتے ہیں

شد مالک اشتر ز فرمانت سرافراز
بهر فقیهان راه و رسم زندگانى

مالک اشتر تیرے ہی فرمان سے سربلند و عزیز ہوئے

فقہاکے لئے تو زندگی گزارنے کا رہنما اصول ہے۔

کاخ بلند بى خلل تا روز محشر
اى از على پور ابوطالب نشانه

تو ایسا مستحکم اور بلند قامت محل ہے،جو تا قیامت باقی رہنے والاہے

اے ابوطالب کے بیٹے علی مرتضیٰ!

اى رهگشا و ضامن عز و سعادت
از خطبه هایت معنویت مى درخشد

تو ہی راستہ دکھانے والا اور عزت وسربلندی کی ضمانت ہے

تیرے خطبوں سے روحانیت اور نورانیت جھلکتی ہے

همچون رضى در نشر تو کوشا بزرگان
در هر زمان مشگل گشایى و به هر عصر

سید رضی کی طرح تجھے عام کرنےمیں بزرگان دین کوشاں ہیں

ہر زمانے اور ہر دور کا تو مشکل کشا ہے

گشته ”بشیر“ بى بضاعت واصف تو
با روح و با قلب و جگر، نهج البلاغه

تیری توصیف بیان کر کے خود کو قابل ذکر بنا لیا ہے

بشیرؔ جیسے گمنام نے بھی روح و دل وجان سے، اے نہج البلاغہ

(ب)

اى هر کلامت کوه زر، نهج البلاغه
دریایى از در و گهر، نهج البلاغه

جس کا ہر کلام سونے کے پہاڑ کی طرح ہے، نہج البلاغہ

یہ کتاب در و گوہر کا سمندر ہے،نہج البلاغہ

اى مشعل علم و هنر، نهج البلاغه
هر عالم از تو بهره ور، نهج البلاغه

اے علم وہنر کی مشعل، نہج البلاغہ

ہر عالم و دانشور تجھ سے بہرہ ور ہے، نہج البلاغہ

همچون وصیت بر پسر، نهج البلاغه
بهر ادیبان بال و پر، نهج البلاغه

جیسے باپ کی اپنی اولاد کو وصیت، نہج البلاغہ

ہر ادیب کے لئے بال و پر، نہج البلاغہ

بنیان کن هر جهل و شر، نهج البلاغه
چون ماه تابان جلوه گر، نهج البلاغه

جہالت اور شر کی بنیادوں کو متزلزل کر نے والی، نہج البلاغہ

ماہ منیر کی طرح جلوہ گر ہے، نہج البلاغہ

اى دافع ظلم و خطر، نهج البلاغه
از سوز تو در دل شرر، نهج البلاغه

مظالم اور خطرات کو دور کرنے والی، نہج البلاغہ

تیرا سوز دلوں میں چنگاری پیدا کرتا ہے، اے نہج البلاغہ

رمز و کلیدى بر ظفر، نهج البلاغه
در دو سرا از تو ثمر، نهج البلاغه

کامیابی کا راز اور کنجی ہے، نہج البلاغہ

یہ دو جہاں میں مثمرِ ثمر ہے، نہج البلاغہ

(18)

شاعر اہل بیتؑ، اختر طوسی (متوفی 1268ھ)

چو در نهج‌البلاغة او به‌دقت بنگری، بینی
كه تنبیه است بهر غافلین خلق سرتاپا

آپؑ کے نہج البلاغہ کو جب غور سے دیکھو گے تو تمہیں نظر آئے گا

کہ یہ ہر غافل کے لیے اول سے آخر تک ایک مکمل نصیحت ہے

زانچه در نهج‌البلاغه گفته‌ای از این جهان
هست پیدا اجتنابت یا امیرالمؤمنین

جو کچھ نہج البلاغہ میں اس دنیا کے بارے میں کہا گیا ہے

اے امیرالمومنین! اس سے آپ کی بے رغبتی ظاہر ہوتی ہے

(19)

حکیم میرزا مہدی الھی قمشہ ای (متوفی 1352 ھ ش) (الف)

چو خوانمی دفتر و کتابت، فصاحت بی‌حدّ کلامت
فزایدم معرفت پیامت، زدایدم شبهت و گمان‌ها

جب پڑھتا ہوں آپ کی تحریر و لکھائی، آپ کے کلام کی بے حد فصاحت

بڑھاتی ہے میری معرفت آپ کے پیغام کی، مٹاتی ہے شکوک و گمان میرے

تبارک‌ آن خوش‌کتاب ایمان، مفسر مجملات قرآن
فصاحتش نور چشم سحبان، مسخرش عقل نکته‌دان‌ها

مبارک ہو وہ خوبصورت کتابِ ایمان، جو قرآن کے مجملات کی مفسر ہے

اس کی فصاحت و بلاغت سحبان کی آنکھوں کا نور ہے، جو عقلمندوں کی عقل کو مسخر کر لیتی ہے

(ب)

این گفتہ مرتضی است بنیوش
خوشتر ز گفتار مرتضی نیست

یہ مرتضیٰ کا فرمان ہے، سنو!

مرتضیٰ کے کلام سے بہتر کوئی کلام نہیں

بنیوش پندش کہ یک سخندان
ہمچون علی شاہ اولیا نیست

آپ کی نصیحت سنو کہ وہ ایک ایسا خطیب ہے

کہ علیؑ جیسا شہِ اولیا کوئی نہیں

(20)

سرھنگ بدرالدین رشیدپور، بدریؔ

باشد از نهج‌البلاغه قدر گفتارش پدید
ای به‌رفتار و به‌گفتارش هزاران آفرین

نہج البلاغہ سے اس کے کلام کی قدر و منزلت ظاہر ہوتی ہے

اس کے عمل اور اس کے گفتار پر ہزاروں آفرین ہو

(21)

شاعر معاصر خراسانی سید محمد خسرونژاد (تخلص ”خسرو“)

دادہ دست رستگاری را بر ابنای بشر
آن کلام دلنشین و خطبۃ شیوای او

کامیابی کا راستہ دکھایا ہے انسانوں کو

آپؑ کے دلکش کلام اور پر تاثیر خطبات نے

(22)

شاعر معاصر شیرازی محمد خلیل مذنب متخلص بہ ”جمالی“

زفکر باز علی آسمان فراتر نیست
با اوج مرتبہ اش جبرئیل را پر نیست

علیؑ کی وسیع فکر سےآسمان بھی بلندتر نہیں

آپ کے بلند مقام کے آگے جبرائیل کو قوتِ پرواز نہیں

کتاب او به خدا تالی کتاب خداست
بهای هر سخنش صد هزار گوهر نیست

خدا کی کتاب بہت بڑی کتاب ہے

اس کے ہر لفظ میں لاکھوں موتی ہیں

(23)

مولانا محتشم کاشانی (متوفی 991ھ)

ای مقالت مثل ماقال النبی، خیرالمقال
وی كلامت بعد قرآن مبین، خیرالكلام

اے علی! آپ کی گفتار نبی کی گفتار کی مانند بہترین گفتار ہے

اور آپ کا کلام واضح قرآن کے بعد بہترین کلام ہے

من کجا و مدحت معجزکلامی همچو تو
خاصه با این شعر بی پرگار و نظم بی نظام

میں کہاں اور آپ جیسے معجز کلام کی تعریف کہاں

خصوصاً اس ناپختہ اور بے ترتیب شعروں کے ساتھ

(24)

شاعر معاصر حسن خلیلی راد

نهج‌البلاغه که منشور دانش است
بر عارفان ز گنبد عالم به‌تابش است

نہج البلاغہ جو علم و دانش کا منشور ہے

عالم کے گنبد پر عارفان کے لیے چمک رہا ہے

صورت عدالت و قرآن دوم است
كز گوهر كلام علی در تكلّم است

نہج البلاغہ عدالت کا پیکر اور دوسرا قرآن ہے

کیونکہ یہ علی کے کلام کے گوہر سے گفتگو کرتا ہے

نوٹ:
ان اشعار کی تفصیل جاننے کے لئے ان لنکس کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے:
https://asadallah.r98.ir/post/84
https://library.tebyan.net/fa/Viewer/Text/63802/23

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button