
منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ
ہیں مبغوضِ خدا سب سے سوا لوگوں میں دو بندے
وہ اک جس کو حوالے کردیا ہے رب نے خود اس کے
کہ جس کے بعد سیدھے راستے سے ہے وہ برگشتہ
وہ بدعت اور گمراہی کی دعوت کا ہے دلدادہ
وہ لوگوں کے لئے اک مسئلہ ہے اور اک فتنہ
وہ پچھلے لوگوں کی ہر اک ہدایت سے ہے برگشتہ
وہ اپنے پیرو کاروں کو سدا بھٹکانے والا ہے
کریں وہ زندگی میں پیروی یا بعد مرنے کے
اٹھائے ہے وہ سر پر بوجھ لوگوں کے گناہوں کا
خود اپنے بھی گناہوں اور خطاؤں میں ہے وہ جکڑا
اور اک وہ ہے کہ جس نے ہر جہالت کو سمیٹا ہے
اور اس کے بل پہ جاہل لوگوں میں سر گرم رہتا ہے
وہ فتنوں کے اندھیروں میں سدا پرجوش رہتا ہے
فواید سے وہ امن و صلح کے مدہوش رہتا ہے
کچھ انسانوں کے جیسی شکل و صورت رکھنے والوں نے
لقب عالم کا اس کو دیدیا ہے جبکہ جاہل ہے
سویرے ہی وہ ان چیزوں کی کوشش میں نکلتا ہے
نہ ہونا جن کا اس کے واسطے ہونے سے اچھا ہے
وہ جب سیراب ہو جاتا ہے بدبودار پانی سے
جمع کرلیتا ہے ہیہودہ باتوں کو روانی سے
تو قاضی بن کے مسند پر قضا کی بیٹھ جاتا ہے
وہ مبہم مسئلوں کے حل کی ذمہ داری لیتا ہے
پھر اس کے بعد مبہم مسئلہ جب کوئی آتا ہے
تو فرسودہ دلائل جمع کر کے حل سناتا ہے
پھنسا رہتا ہے وہ شبہات کے الجھاؤ میں اکثر
کہ جیسے رہتی ہے مکڑی خود اپنے جالے کے اندر
خود اپنے فیصلہ کی خوبی اور اس کی خرابی کا
نہ کوئی علم ہوتا ہے نہ دانش اس کی ہے رکھتا
صحیح ہوتو غلط ہونے کا رہتا ہے اسے خدشہ
غلط ہو تو صحیح ہونے کی وہ امید ہے رکھتا
اجڈ ایسا جو صحرائے جہالت میں بھٹکتا ہے
ہے اندھا ایسا اندھیروں کے مرکب پر جو بیٹھا ہے
نہ ہی اس نے حقیقت کو کسی بھی شئے کی پرکھا ہے
نہ ہی تہ کو وہ علم و دانش و عرفاں کی پہنچا ہے
وہ یوں گویا روایات اور حدیثوں کو اڑاتا ہے
ہوا کا تیز جھونکا جیسے تنکوں کو اڑاتا ہے
وہ ایسے مسئلے کے حل کی اہلیت نہیں رکھتا
جو اس پر وارد ہوتا ہے جو اس سے پوچھا ہے جاتا
نہ ہی وہ ایسے کام اور ایسے منصب کے وہ قابل ہے
جو سونپا جا چکا ہے اس کو اور جس کا وہ حامل ہے
وہ جس شئے کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا
تو اس کے علم ہونے کا بھی اس کو شک نہیں ہوتا
جہاں تک وہ پہنچ سکتا ہے اس کے آگے بھی کوئی
پہنچ سکتا ہے ٫ یہ اس کو نہیں ہوتی ہے آگاہی
جو بات اس کی سمجھ سے ہو فزوں اس کو چھپاتا ہے
کہ وہ اپنی جہالت اور حماقت کو سمجھتا ہے
جو ناحق بہہ چکے ہیں خوں اسے وہ یاد کرتے ہیں
اور اس کے فیصلوں کے ظلم کی فریاد کرتے ہیں
غلط تقسیم کے باعث ہے غم میراث پر طاری
میں ایسے لوگوں کے بارے میں ہوں مالک سے فریادی
جو زندہ رہتے ہیں تو زندہ رہتے ہیں جہالت میں
جو مرتے ہیں تو مرجاتے ہیں گمراہی کی حالت میں
اور ان کے درمیاں قرآن کی وقعت نہیں کوئی
کتاب رب سے بڑھ کر اور بے قیمت نہیں کوئی
اگر حق تلاوت ہو ادا تو پھر کوئی دولت
کتاب رب سے بڑھ کر ہو نہیں سکتی ہے با وقعت
اگر تحریف کردی جائے یا تاویل ہو جائے
کسی آیت کا گر مفہوم ہی تبدیل ہو جائے
تو نیکی سے بڑی کوئی برائی ہو نہیں سکتی
برائی سے بڑی کوئی بھلائی ہو نہیں سکتی
ختم شد





