مطبوعات

کعبۂ فکر قبلۂ ایماں: رباعیات در ستائش نہج البلاغہ

آیت اللہ علامہ سید عقیل الغروی

حرفِ اوّل بھی حرفِ آخر بھی!

یہ نہج بلاغہ سے عیاں ہے واللہ

مولائے غدیر ہی ہے مولائے سخن

امیرِ بیاں، کلیمِ حِکم، سلطانِ سخن مولا علی علیہ السلام اپنے کلام کے بارے میں فرماتے ہیں: وَ اِنَّا لَاُمَرَآءُ الْكَلَامِ، وَ فِیْنَا تَنَشَّبَتْ عُرُوْقُهٗ، وَ عَلَیْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُوْنُهٗ اور ہم (اہلبیتؑ) اقلیم سخن کے فرمانروا ہیں۔ وہ ہمارے رگ و پے میں سمایا ہوا ہے اور اس کی شاخیں ہم پر جھکی ہوئی ہیں۔ (1)

”امامؑ کا کلام نہج البلاغہ صرف ایک ادبی شاہکار ہی نہیں ہے، بلکہ اسلامی تعلیمات کا الہامی صحیفہ، حکمت و اخلاق کا سرچشمہ اور معارفِ ایمان و حقائقِ تاریخ کا ایک انمول خزانہ ہے، جس کے گوہرِ آبدار علم و ادب کے دامن کو زر نگار بنائے ہوئے ہیں اور اپنی چمک دمک سے جوہر شناسوں کو محوِ حیرت کیے ہوئے ہیں۔ افصح العرب کے آغوش میں پلنے والے اور آب وحی میں دُھلی ہوئی زبان چوس کرپروان چڑھنے والے نے بلاغت کلام کے وہ جوہر دکھائے کہ ہر سمت سے ’’فَوْقَ کَلَامِ الْمَخْلُوْقِ وَ تَحْتَ کَلَامِ الْخَالِقِ‘‘ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔“ (2)

امامؑ کے کلام کا کمال یہ ہے کہ دو لفظوں کے جملے کئی کتابوں پر بھاری ہوتے ہیں۔ ایک مقام پر امامؑ فرماتے ہیں: تَخَفَّفُوْا تَلْحَقُوْا، ہلکے پھلکے رہو تاکہ آگے بڑھنے والوں کو پا سکو۔ (3)

سید رضیؒ اس جملے کی شرح میں لکھتے ہیں کہ کلامِ خدا و رسول ﷺ کے بعد جس کلام سے بھی ان کلمات کا موازنہ کیا جائے تو حسن و خوبی میں ان کا پلہ بھاری رہے گا۔

زبانِ عرب کے مشہور ادیب جاحظ متوفیٰ 255ھ اپنی دو جلدی کتاب ”البیان و التبیین“ میں امامؑ کا ایک فرمان: قِیْمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَّا یُحْسِنُهٗ. ہرشخص کی قیمت وہ ہنر ہے جو اس شخص میں ہے۔ (4)

درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ فرمان میری پوری کتاب پر ترجیح رکھتا ہے۔

نہج البلاغہ کی عظمت و اہمیت کے بارے میں کیا کیا لکھا اور کہا گیا ہے اس کے لیے آیت اللہ علامہ سید علی نقی النقویؒ کا ”مقدمۂ نہج البلاغہ“ ، علامہ سید سبط الحسن رضوی معروف بہ فاضل ہنسوی مرحوم کی ”منہاج نہج البلاغہ“، علامہ مفتی جعفر حسینؒ کا ”حرف اول“ اور مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی مترجم نہج البلاغہ کا ”پہلا بول“ جیسی تحریروں کا مطالعہ اردو داں حضرات کے لیے بہت مفید ہوگا۔

مذکورہ بالا تحریروں میں اردو نثر میں نہج البلاغہ کے بارے میں خوبصورت تراکیب اور عظیم جملات استعمال ہوئے ہیں مگر اردو کے منظوم کلام کا دامن نہج البلاغہ کے ذکر سے عموماً خالی ہے۔ بڑے بڑے شعراء کرام کے منقبتی کلام اور قصائد کو دیکھا اور خود شعراء سے بھی پوچھا مگر معلوم ہوا کہ شاذ و نادرہی کسی شاعر نے لفظ”نہج البلاغہ“ کا اپنے کلام میں تذکرہ کیا یا کسی فرمان کو منظوم کیا۔ امام کی تلوار اور گھوڑا، خیبر کا در اور مرحب کا سر، بیت اللہ میں وقت ولادت شگاف اور غدیر میں نبیؐ کے ہاتھ میں امامؑ کا ہاتھ جیسے موضوعات پر الحمد للہ بہت کچھ ملے گا مگر امامؑ کے علمی خزانے کو کہ جس پر امامؑ ہمیشہ فخر کرتے رہے اور اپنے سینۂ اقدس کی طرف اشارہ کرکے فرماتے رہے کہ یہاں علم کا نہ ختم ہونے والا خزانہ موجود ہے کاش اس کو حاصل کرنے والا کوئی مل جاتا (5) اسے کم ہی منظوم کیا گیا۔

مرکز افکار اسلامی نے اس خلا کو پر کرنے کے لیے مختلف مواقع پر اردو شعراء کو دعوتِ کلام دی اور یوں ایک سو پچیس شعراء کرام نے نہج البلاغہ سے متعلق اپنا کلام عطا کیا۔ مرکز کی اس کوشش سے پہلے جن شعراء نے نہج البلاغہ کے بارے میں کوئی نظم یا شعر کہا اسے بھی تلاش کیا گیا اور اس تمام کلام کو کتابی صورت میں لایا گیا اور اس کتاب کو ”نہج البلاغہ اور اردو شعراء“ کا نام دیا گیا۔

کعبۂ فکر قبلۂ ایماں: رباعیات در ستائش نہج البلاغہشعراء کرام کے کلام کی جمع آوری اور اس سے متعلق دیگر کوششوں میں جناب آیت اللہ علامہ سید عقیل الغروی دام ظلہ ہر منزل پر مرکز کے معاون و مددگار بلکہ اس کاروان کے سالار رہے، جس پر ہم تہہ دل سے آپ کے شکر گزار ہیں۔ اس ہمکاری کے ساتھ ساتھ ہم نے آپ سے بھی نہج البلاغہ کے متعلق کلام عنایت فرمانے کی درخواست کی تو آپ نے محبتِ امیر المومنینؑ اور مرکزِ افکار اسلامی کی حوصلہ افزائی کا منفرد انداز سے اظہار فرمایا اور وعدہ کیا کہ ہم امیر المومنین امام علیہ السلام کے اسم گرامی ”علی علیہ السلام“ کے اعداد کے مطابق ایک سو دس رباعیاں پیش کریں گے۔

علامہ صاحب کی ایامِ عزا کی بے حد مصروفیت اور صحت کی ناسازی کے باوجود آپ نے جب ایک سو دس رباعیوں کا مسوّدہ بعنوان ”کعبۂ افکار قبلۂ ایماں“ عنایت فرمایا تو ہماری مسرّت کی جو کیفیت تھی وہ ہمارا رب ہی جانتا ہے۔

یہ 110 رباعیات نہیں کلام امامؑ کے ادبی، فکری اور وجدانی افہام و تفہیم کے 110 چراغ ہیں جو ایک طرف تو اردو ادبیات میں ایک خاطر خواہ اضافہ ہیں اور دوسری طرف نوجوان ادباء و شعراء کے لیے نہج البلاغہ کے معارف کو سمجھنے کی راہ معین کرتے ہیں۔

غروی صاحب نے اپنے کلام کے لیے رباعی جیسی مشکل صنف کا انتخاب کیا۔ رباعی کے بارے میں جوش مرحوم نے کہا تھا۔۔۔ بات یہ ہے کہ جب تک کسی شاعر کو بے پناہ مشاقی اور بے نہایت دیدہ وری کی بدولت دریا کو کوزے میں بند کرنے کا کام نہیں آتا، اس وقت تک رباعی اس کے قابو میں نہیں آتی۔ قلیل الفاظ کی وساطت سے کثیر معانی کا احاطہ کرکے صرف چار مصرعوں میں اس ربع مسکون کے تمام تجربات، تاثرات، نظریات اور افکار کو سمیٹ لینا، ایک ننھے سے قطرے میں قلزم کو مقیّد کرلینا، ہر شاعر کے بس کا روگ نہیں۔ (6)

غروی صاحب نے کلام علی علیہ السلام ”نہج البلاغہ“ جیسے عظیم موضوع کو جس حسن سے نبھایا وہ آپ ہی کو سجتا تھا اور آپ کا یہ کلام ہی آپ کی پہچان کرا رہا ہے۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا تھا: تَكَلَّمُوْا تُعْرَفُوْا، فَاِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوْٓءٌ تَحْتَ لِسَانِهٖ۔ بات کرو! تاکہ پہچانے جاؤ، کیونکہ آدمی اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے۔ (7)

غروی صاحب نے نہج البلاغہ کے لیے جو دسیوں خوبصورت ترکیبیں استعمال کی ہیں وہ بھی اپنے لحاظ سے منفرد ہیں۔ چند ترکیبیں ملاحظہ ہوں۔ ترجمانِ توحید، زبانِ توحید، زبانِ نبوت محمدؐ، اقدارِ مکارم، افکارِ علیؑ، فیضانِ علیؑ، بابِ تقویٰ، ملکوتی آواز، تسنیمِ فصاحت، فردوسِ بلاغت، تفسیرِ قرآن، سیر و سلوک کا دستور اور بیمار دماغوں کی شفا۔

رباعیوں کے اس مجموعے کا نام ”کعبۂ افکار قبلۂ ایماں“ ہی نہج البلاغہ کی طرف رخ موڑنے کی دلچسپ دعوت ہے۔ نہج البلاغہ پڑھنے کے لیے کن مؤثر لفظوں میں دعوت دی:

آ نہجِ بلاغہ کے ورق کھول کے دیکھ

دروازۂ شہرِ علم کھل جائے گا

(رباعی 40)

نہج البلاغہ میں کیا ہے، ایک جگہ فرماتے ہیں:

انفاسِ پیمبرؐ کی حرارت بھی ہے

قرآن کی تفسیرِ جلی ہے یہ کتاب

(رباعی 43)

نہج البلاغہ کو امامؑ کی صدا قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

ہیں آج بھی موجود علیؑ عالم میں

سن پاؤ تو سن لو گوشِ دل سے گفتار

(رباعی 53)

اپنے دور کے عظیم خطیب ابن نباتہ متوفیٰ 375ھ نے خطابت کے اس مقام تک پہنچنے کے لیے کلامِ امامؑ سے استفادہ کا اقرار کیا اور لکھا: ”میں نے خطابت کا ایک خزانہ محفوظ کیا ہے جس سے جتنا زیادہ کام لیا جائے اتنی زیادہ اس میں برکت ہوتی ہے، میں نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مواعظ سے سو فصلیں یاد کی ہیں۔“ (8) اسی طرح عربی کے اور بھی ادباء و مفکرین کے اعترافات موجود ہیں۔

غروی صاحب ایک رباعی میں اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں:

تاریخ ہے! سارے ہی اساطینِ ادب

خطباتِ علیؑ یاد کیا کرتے تھے

(رباعی 82)

علامہ غروی صاحب نہج البلاغہ کے بارے میں ایک منفرد اصطلاح اکثر اپنی گفتگو میں دہراتے رہتے ہیں اور وہ ہے ”کشکولِ سید رضیؒ” اس کشکول میں خیر کی ہر شے موجود ہے۔ ایک رباعی میں اس کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں:

دیکھو تو یہ کشکولِ رضیؒ دیکھو تو

قرآن کے اعجاز کی بُرہانِ جلی

(رباعی 2)

نہج البلاغہ میں جہاں علوم و معارف اور حِکم و مواعظ کے خزانے ہیں وہاں امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی زبان سے آپ کی مظلومیت کے قصے اور مصیبت کے نوحے بھی موجود ہیں۔ کبھی دشمن کے گلے تو کبھی اپنوں کے شکوے بیان فرماتے ہیں۔

غروی صاحب نے اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

انشائے علیؑ میں کوئی دیکھے تو سہی

اک درد میں ڈوبے ہوئے لہجے کا اثر

(رباعی 101)

دعا ہے کہ فرامینِ علی علیہ السلام کے گلشنِ بے خار و گلستانِ پُر بہار سے گُل چینی کرکے ان 110 پھولوں کو سجا کے ”کعبۂ افکار قبلۂ ایماں“ کا گلدستہ عاشقانِ علیؑ کے ہاتھوں میں پیش کرنے والے اس ”باغبان“ حضرت آیت اللہ عقیل الغروی دام ظلہ کو پروردگار ہمیشہ سلامت رکھے۔ آپ کے قلم سے ایسے ہی عطر انگیں اور فکر انگیز پھول تقسیم ہوتے رہیں اور نوجوان ادباء و شعراء اس کو نمونہ بنا کر اپنے گلدستے سجاتے رہیں اور یوں نظم کے پیرایۂ بیان میں بھی کلامِ امامؑ کے جواہر عام ہوتے رہیں اور عالمِ انسانیت کے دل افکارِ علیؑ کے چراغ سے منور ہوتے رہیں۔ یہ یقیناً روحِ علی علیہ السلام کی خوشنودی کا سبب ہوگا اور امامؑ کی پکار پر عمل ہوگا۔

امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
اُنْظُرُوْۤا اَهْلَ بَیْتِ نَبِیِّكُمْ فَالْزَمُوْا سَمْتَهُمْ، وَ اتَّبِعُوْۤا اَثَرَهُمْ فَلَنْ یُّخْرِجُوْكُمْ مِنْ هُدًی،وَ لَنْ یُّعِیْدُوْكُمْ فِیْ رَدًی، فَاِنْ لَّبَدُوْا فَالْبُدُوْا،وَ اِنْ نَّهَضُوْا فَانْهَضُوْا،وَلَاتَسْبِقُوْهُمْ فَتَضِلُّوْا،وَلَاتَتَاَخَّرُوْا عَنْهُمْ فَتَهْلِكُوْا.
اپنے نبی ﷺ کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھو، ان کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ وہ تمہیں راہِ ہدایت سے باہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف جانے دیں گے۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو۔ ان سے آگے نہ بڑھ جاؤ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے اور نہ (انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔ (9)

والسلام
خدمت گزارِ بابِ علمِ نبوی ﷺ
مقبول حسین علوی
مرکزِ افکار اسلامی
16 ستمبر 2025

[1] نہج البلاغہ خطبہ 230
[2] حرف اوّل ، علامہ مفتی جعفر حسینؒ
[3] نہج البلاغہ خطبہ 21
[4] نہج البلاغہ حکمت 81
[5] نہج البلاغہ حکمت 147
[6] جوش ملیح آبادی کی نادر و غیر مطبوعہ تحریریں، ہلال نقوی، ص 80
[7] نہج البلاغہ حکمت 392
[8] شرح ابن ابی الحدید ج 1 ،ص 24
[9] نہج البلاغہ خطبہ 95

آن لائن پڑھیں

ڈاؤن لوڈ کریں

rubaiyyat-nahjulbalagha-aqeel-al-gharvi

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button