خطبات

خطبہ (۱۱۸)

(۱۱٧) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۱۷)

وَ قَدْ جَمَعَ النَّاسَ وَ حَضَّهُمْ عَلَى الْجِهَادِ، فَسَكَتُوْا مَلِيًّا، فَقَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ:

امیر المومنین علیہ السلام نے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنا چاہا تو وہ لوگ دیر تک چپ رہے، تو آپؑ نے فرمایا: [۱]

مَا بَالُكُمْ اَ مُخْرَسُوْنَ اَنْتُمْ؟

تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کیا تم گونگے ہو گئے ہو؟

فَقَال قَوْمٌ مِّنْهُمْ: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! اِنْ سِرْتَ سِرْنَا مَعَكَ. فَقَالَ ؑ:

تو ایک گروہ نے کہا کہ اے امیر المومنین علیہ السلام اگر آپؑ چلیں، تو ہم بھی آپؑ کے ہمراہ چلیں گے۔ جس پر حضرتؑ نے فرمایا:

مَا بَالُكُمْ! لَا سُدِّدْتُّمْ لِرُشْدٍ! وَ لَا هُدِیْتُمْ لِقَصْدٍ! اَ فِیْ مِثْلِ هٰذَا یَنْۢبَغِیْ لِیْۤ اَنْ اَخْرُجَ؟ اِنَّمَا یَخْرُجُ فِیْ مِثْلِ هٰذَا رَجُلٌ مِّمَّنْ اَرْضَاهُ مِنْ شُجْعَانِكُمْ وَ ذَوِیْ بَاْسِكُمْ، وَ لَا یَنْۢبَغِیْ لِیْۤ اَنْ اَدَعَ الْجُنْدَ، وَ الْمِصْرَ، وَ بَیْتَ الْمَالِ، وَ جِبَایَةَ الْاَرْضِ، وَ الْقَضَآءَ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ، وَ النَّظَرَ فِیْ حُقُوْقِ الْمُطَالِبِیْنَ، ثُمَّ اَخْرُجَ فِیْ كَتِیْبَةٍ اَتْبَعُ اُخْرٰی، اَ تَقَلْقَلُ تَقَلْقُلَ الْقِدْحِ فِی الْجَفِیْرِ الْفَارِغِ، وَ اِنَّمَا اَنَا قُطْبُ الرَّحَا، تَدُوْرُ عَلَیَّ وَ اَنَا بِمَكَانِیْ، فَاِذَا فَارَقْتُهُ اسْتَحَارَ مَدَارُهَا، وَ اضْطَرَبَ ثِفَالُهَا.

تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تمہیں ہدایت کی توفیق نہ ہو اور نہ سیدھی راہ دیکھنا نصیب ہو! کیا ایسے حالات میں میں ہی نکلوں۔ اس وقت تو تمہارے جواں مردوں اور طاقتوروں میں سے جس شخص کو میں پسند کروں اسے جانا چاہیے، میرے لئے مناسب نہیں کہ میں لشکر، شہر، بیت المال، زمین کے خراج کی فراہمی، مسلمانوں کے مقدمات کا تصفیہ اور مطالبہ کرنے والوں کے حقوق کی دیکھ بھال چھوڑ دوں اور لشکر لئے ہوئے دوسرے لشکر کے پیچھے نکل کھڑا ہوں اور جس طرح خالی ترکش میں بے پیکاں کا تیر ہلتا جلتا ہے جنبش کھاتا رہوں۔ میں چکی کے اندر کا وہ قطب ہوں کہ جس پر وہ گھومتی ہے جب تک میں اپنی جگہ پر ٹھہرا رہوں اور اگر میں نے اپنا مقام چھوڑ دیا تو اس کے گھومنے کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا اور اس کا نیچے والا پتھر بھی بے ٹھکانے ہو جائے گا۔

هٰذَا لَعَمْرُ اللهِ! الرَّاْیُ السُّوْٓءُ. وَاللهِ! لَوْلَا رَجَآئِی الشَّهَادَةَ عِنْدَ لِقَآئِی الْعَدُوَّ ـ لَوْ قَدْ حُمَّ لِیْ لِقَاؤُهٗ ـ لَقَرَّبْتُ رِكَابِیْ ثُمَّ شَخَصْتُ عَنْكُمْ، فَلَاۤ اَطْلُبُكُمْ مَا اخْتَلَفَ جَنُوبٌ وَّ شَمَالٌ.

خدا کی قسم! یہ بہت بُرا مشورہ ہے۔ قسم بخدا! اگر دشمن کا مقابلہ کرنے سے مجھے شہادت کی امید نہ ہو جب کہ وہ مقابلہ میرے لئے مقدر ہو چکا ہو تو میں اپنی سواریوں کو(سوار ہونے کیلئے) قریب کر لیتا اور تمہیں چھوڑ چھاڑ کر نکل جاتا اور جب تک جنوبی و شمالی ہوائیں چلتی رہتیں تمہیں کبھی طلب نہ کرتا۔

اِنَّهٗ لَا غَنَآءَ فِیْ كَثْرَةِ عَدَدِكُمْ مَعَ قِلَّةِ اجْتِمَاعِ قُلُوْبِكُمْ. لَقَدْ حَمَلْتُكُمْ عَلَی الطَّرِیْقِ الْوَاضِحِ الَّتِیْ لَا یَهْلِكُ عَلَیْهَا اِلَّا هَالِكٌ، مَنِ اسْتَقَامَ فَاِلَی الْجَنَّةِ، وَ مَنْ زَلَّ فَاِلَی النَّارِ!.

تمہارے شمار میں زیادہ ہونے سے کیا فائدہ جبکہ تم یک دل نہیں ہو پاتے۔ میں نے تمہیں صحیح راستے پر لگایا ہے کہ جس میں ایسا ہی شخص تباہ و برباد ہو گا جو خود اپنے لئے ہلاکت کا سامان کئے بیٹھا ہو اور جو اس راہ پر جما رہے گا وہ جنت کی طرف اور جو پھسل جائے گا وہ دوزخ کی جانب بڑھے گا۔

۱؂۱جنگ صفین کے بعد جب معاویہ کی فوجوں نے آپؑ کے مختلف علاقوں پر حملے شروع کر دیئے تو ان کی روک تھام کیلئے آپؑ نے عراقیوں سے کہا لیکن انہوں نے ٹالنے کیلئے یہ عذر تراشا کہ اگر آپؑ فوج کے ہمراہ چلیں تو ہم بھی چلنے کو تیار ہیں جس پر حضرتؑ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور اپنی مجبوریوں کو واضح کیا کہ اگر میں چلوں تو مملکت کا نظم و ضبط برقرار نہیں رہ سکتا اور اس عالم میں کہ دشمن کے حملے چاروں طرف سے شروع ہو چکے ہیں مرکز کو خالی رکھنا مصلحت کے خلاف ہے۔ مگر ان لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی تھی جنہوں نے صفین کی فتح کو شکست سے بدل کر ان حملوں کا دروازہ کھول دیا ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button