خطبات

خطبہ (۱۶۱)

(۱٦۱) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۶۱)

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ خَالِقِ الْعِبَادِ، وَ سَاطِحِ الْمِهَادِ، وَ مُسِیْلِ الْوِهَادِ، وَ مُخْصِبِ النِّجَادِ، لَیْسَ لِاَوَّلِیَّتِهِ ابْتِدَآءٌ، وَ لَا لِاَزَلِیَّتِهِ انْقِضَآءٌ، هُوَ الْاَوَّلُ لَمْ یَزَلْ، وَ الْبَاقِیْ بِلَاۤ اَجَلٍ. خَرَّتْ لَهُ الْجِبَاهُ، وَ وَحَّدَتْهُ الشِّفَاهُ، حَدَّ الْاَشْیَآءَ عِنْدَ خَلْقِهٖ لَهَاۤ اِبَانَةً لَّهٗ مِنْ شَبَهِهَا، لَا تُقَدِّرُهُ الْاَوْهَامُ بِالْحُدُوْدِ وَ الْحَرَكَاتِ، وَ لَا بِالْجَوَارِحِ وَ الْاَدَوَاتِ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو بندوں کا پیدا کرنے والا، فرش زمین کا بچھانے والا، ندی نالوں کا بہانے والا اور ٹیلوں کو سر سبز و شاداب بنانے والا ہے۔ نہ اس کی اوّلیت کی کوئی ابتدا اور نہ اس کی ازلیت کی کوئی انتہا ہے۔ وہ ایسا اوّل ہے جو ہمیشہ سے ہے اور بغیر کسی مدت کی حد بندی کے ہمیشہ رہنے والا ہے۔ پیشانیاں اس کے آگے (سجدہ میں) گری ہوئی ہیں اور لب اس کی توحید کے معترف ہیں۔ اس نے تمام چیزوں کو ان کے پیدا کرنے کے وقت ہی سے (جداگانہ صورتوں اور شکلوں میں) محدود کر دیا تاکہ اپنی ذات کو ان کی مشابہت سے الگ رکھے۔ تصورات اسے حدود و حرکات اور اعضاء و حواس کے ساتھ متعین نہیں کر سکتے۔

لَا یُقَالُ لَهٗ:«مَتٰی»؟ وَ لَا یُضْرَبُ لَهٗ اَمَدٌ «بِحَتّٰی»، الظَّاهِرُ لَا یُقَالُ: «مِمَّا»؟ وَ الْبَاطِنُ لَا یُقَالُ: «فِیْمَا»؟.

اس کیلئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ’’وہ کب سے ہے‘‘ اور نہ یہ کہہ کر اس کی مدت مقرر کی جا سکتی ہے کہ ’’وہ کب تک ہے‘‘۔ وہ ظاہر ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ’’کس سے (ظاہر ہوا)‘‘ وہ باطن ہے مگر یہ نہیں کہا جائے گا کہ ’’کس میں‘‘۔

لَا شَبَحٌ فَیَتَقَضّٰی، وَ لَا مَحْجُوْبٌ فَیُحْوٰی، لَمْ یَقْرُبْ مِنَ الْاَشْیَآءِ بِالْتِصَاقٍ، وَ لَمْ یَبْعُدْ عَنْهَا بِافْتِرَاقٍ، لَا یَخْفٰی عَلَیْهِ مِنْ عِبَادِهٖ شُخُوْصُ لَحْظَةٍ، وَ لَا كُرُوْرُ لَفْظَةٍ، وَ لَا ازْدِلَافُ رَبْوَةٍ، وَ لَا انْبِسَاطُ خُطْوَةٍ فِیْ لَیْلٍ دَاجٍ، وَ لَا غَسَقٍ سَاجٍ، یَتَفَیَّاُ عَلَیْهِ الْقَمَرُ الْمُنِیْرُ، وَ تَعْقُبُهُ الشَّمْسُ ذَاتُ النُّوْرِ فِی الْاُفُوْلِ وَ الْكُرُوْرِ، وَ تَقَلُّبِ الْاَزْمِنَةِ وَ الدُّهُوْرِ، مِنْ اِقْبَالِ لَیْلٍ مُّقْبِلٍ، وَاِدْبَارِ نَهَارٍ مُّدْبِرٍ.

وہ نہ دور سے نظر آنے والا کوئی ڈھانچہ ہے کہ مٹ جائے اور نہ کسی حجاب میں ہے کہ محدود ہو جائے۔ وہ چیزوں سے اس طرح قریب نہیں کہ ساتھ چھو جائے اور نہ وہ جسمانی طور پر ان سے الگ ہو کر دور ہوا ہے۔ اس سے کسی کا ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا، کسی لفظ کا دہرایا جانا، کسی بلندی کا دور سے جھلکنا اور کسی قدم کا آگے بڑھنا پوشیدہ نہیں ہے۔ نہ اندھیری راتوں میں اور نہ چھائی ہوئی اندھیاریوں میں کہ جن پر روشن چاند اپنی کرنوں کا سایہ ڈالتا ہے اور نورانی آفتاب طلوع و غروب (کے چکروں) میں اور زمانہ کی ان گردشوں میں اندھیرے کے بعد نور پھیلاتا ہے کہ جو آنے والی رات اور جانے والے دن کی آمد و شد سے (پیدا) ہوتی ہیں۔

قَبْلَ كُلِّ غَایَةٍ وَّ مُدَّةٍ، وَ كُلِّ اِحْصَآءٍ وَعِدَّةٍ، تَعَالٰی عَمَّا یَنْحَلُهُ الْمُحَدِّدُوْنَ مِنْ صِفَاتِ الْاَقْدَارِ، وَ نِهَایَاتِ الْاَقْطَارِ، وَ تَاَثُّلِ الْمَسَاكِنِ، وَتَمَكُّنِ الْاَمَاكِنِ، فَالْحَدُّ لِخَلْقِهٖ مَضْرُوْبٌ، وَ اِلٰی غَیْرِهٖ مَنْسُوْبٌ.

وہ ہر مدت و انتہا اور ہر گنتی اور شمار سے پہلے ہے۔ اسے محدود سمجھ لینے والے جن اندازوں اور اطراف و جوانب کی حدوں اور مکانوں میں بسنے اور جگہوں میں ٹھہرنے کو اس کی طرف منسوب کر دیتے ہیں وہ ان نسبتوں سے بہت بلند ہے۔ حدیں تو اس کی مخلوق کیلئے قائم کی گئی ہیں اور دوسروں ہی کی طرف ان کی نسبت دی جایا کرتی ہے۔

لَمْ یَخْلُقِ الْاَشْیَآءَ مِنْ اُصُوْلٍ اَزَلِیَّةٍ، وَ لَا مِنْ اَوَآئِلَ اَبَدِیَّةٍ، بَلْ خَلَقَ مَا خَلَقَ فَاَقَامَ حَدَّهٗ، وَ صَوَّرَ مَا صَوَّرَ فَاَحْسَنَ صُوْرَتَهٗ، لَیْسَ لِشَیْءٍ مِّنْهُ امْتِنَاعٌ، وَ لَا لَهٗ بِطَاعَةِ شَیْءٍ انْتِفَاعٌ، عِلْمُهٗ بِالْاَمْوَاتِ الْمَاضِیْنَ كَعِلْمِهٖ بِالْاَحْیَآءِ الْبَاقِیْنَ، وَ عِلْمُهٗ بِمَا فِی السَّمٰوٰتِ الْعُلٰی كَعِلْمِهٖ بِمَا فِی الْاَرَضِیْنَ السُّفْلٰی.

اس نے اشیاء کو کچھ ایسے مواد سے پیدا نہیں کیا کہ جو ہمیشہ سے ہو اور نہ ایسی مثالوں پر بنایا کہ جو پہلے سے موجود ہوں، بلکہ اس نے جو چیز پیدا کی اسے مستحکم کیا اور جو ڈھانچہ بنایا اسے اچھی شکل و صورت دی۔ کوئی شے اس کے (حکم سے) سرتابی نہیں کرسکتی، نہ اس کو کسی کی اطاعت سے کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اسے پہلے مرنے والوں کا ویسا ہی علم ہے جیسا باقی رہنے والے زندہ لوگوں کا اور جس طرح بلند آسمانوں کی چیزوں کو جانتا ہے ویسے ہی پست زمینوں کی چیزوں کو پہچانتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

اَیُّهَا الْمَخْلُوْقُ السَّوِیُّ، وَ الْمُنْشَاُ الْمَرْعِیُّ، فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْحَامِ، وَ مُضَاعَفَاتِ الْاَسْتَارِ، بُدِئْتَ ﴿مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ۝﴾، وَ وُضِعْتَ ﴿فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍۙ۝ اِلٰی قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍۙ۝﴾ وَّ اَجَلٍ مَّقْسُوْمٍ، تَمُوْرُ فِیْ بَطْنِ اُمِّكَ جَنِیْنًا لَّا تُحِیْرُ دُعَآءً، وَ لَا تَسْمَعُ نِدَآءً، ثُمَّ اُخْرِجْتَ مِنْ مَّقَرِّكَ اِلٰی دَارٍ لَّمْ تَشْهَدْهَا، وَ لَمْ تَعْرِفْ سُبُلَ مَنَافِعِهَا، فَمَنْ هَدَاكَ لِاجْتِرَارِ الْغِذَآءِ مِنْ ثَدْیِ اُمِّكَ؟ وَ عَرَّفَكَ عِنْدَ الْحَاجَةِ مَوَاضِعَ طَلَبِكَ وَ اِرَادَتِكَ؟ هَیْهَاتَ، اِنَّ مَنْ یَّعْجِزُ عَنْ صِفَاتِ ذِی الْهَیْئَةِ وَ الْاَدَوَاتِ فَهُوَ عَنْ صِفَاتِ خَالِقِهٖۤ اَعْجَزُ، وَ مِنْ تَنَاوُلِهٖ بِحُدُوْدِ الْمَخْلُوْقِیْنَ اَبْعَدُ!.

اے وہ مخلوق کہ جس کی خلقت کو پوری طرح درست کیا گیا ہے اور جسے شکم کی اندھیاریوں اور دوہرے پردوں میں بنایا گیا ہے اور ہر طرح سے اس کی نگہداشت کی گئی ہے، تیری ابتدا مٹی کے خلاصہ سے ہوئی اور تجھے جانے پہچانے ہوئے وقت اور طے شدہ مدت تک ایک جماؤ پانے کی جگہ میں ٹھہرایا گیا کہ تو جنین ہونے کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پھرتا تھا۔ نہ تو کسی پکار کا جواب دیتا تھا اور نہ کوئی آواز سنتا تھا۔ پھر تو اپنے ٹھکانے سے ایسے گھر میں لایا گیا کہ جو تیرا دیکھا بھالا ہوا نہ تھا اور نہ اس سے نفع حاصل کرنے کے طریقے پہچانتا تھا۔ کس نے تجھ کو ماں کی چھاتی سے غذا حاصل کرنے کی راہ بتائی؟ اور ضرورت کے وقت طلب مقصود کی جگہ پہچنوائیں؟۔ بھلا جو شخص ایک صورت و اعضاء والی مخلوق کے پہچاننے سے بھی عاجز ہو وہ اس کے پیدا کرنے والے کی صفات سے کیسے عاجز و درماندہ نہ ہو گا اور کیونکر مخلوقات کی سی حد بندیوں کے ساتھ اسے پالینے سے دور نہ ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button