خطبات

خطبہ (۲۲۱)

(٢٢۱) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۲۲۱)

وَ اللهِ! لَاَنْ اَبِیْتَ عَلٰی حَسَكِ السَّعْدَانِ مُسَهَّدًا، وَ اُجَرَّ فِی الْاَغْلَالِ مُصَفَّدًا، اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَلْقَی اللهَ وَ رَسُوْلَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ظَالِمًا لِّبَعْضِ الْعِبَادِ، وَ غَاصِبًا لِّشَیْءٍ مِّنَ الْحُطَامِ، وَ كَیْفَ اَظْلِمُ اَحَدًا لِّنَفْسٍ یُّسْرِعُ اِلَی الْبِلٰی قُفُوْلُهَا، وَ یَطُوْلُ فِی الثَّرٰی حُلُوْلُهَا؟!.

خدا کی قسم! مجھے سعدان [۱] کے کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گزارنا اور طوق و زنجیر میں مقید ہو کر گھسیٹا جانا اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے کسی بندے پر ظلم کیا ہو، یامال دنیا میں سے کوئی چیز غصب کی ہو۔میں اس نفس کی خاطر کیونکر کسی پر ظلم کر سکتا ہوں جو جلد ہی فنا کی طرف پلٹنے والا اور مدتوں تک مٹی کے نیچے پڑا رہنے والا ہے۔

وَاللهِ! لَقَدْ رَاَیْتُ عَقِیْلًا وَّ قَدْ اَمْلَقَ حَتَّی اسْتَمَاحَنِیْ مِنْۢ بُرِّكُمْ صَاعًا، وَ رَاَیْتُ صِبْیَانَهٗ شُعْثَ الشُّعُوْرِ، غُبْرَ الْاَلْوَانِ مِنْ فَقْرِهِمْ، كَاَنَّمَا سُوِّدَتْ وُجُوْهُهُمْ بِالْعِظْلِمِ، وَ عَاوَدَنِیْ مُؤَكِّدَا، وَ كَرَّرَ عَلَیَّ الْقَوْلَ مُرَدِّدًا، فَاَصْغَیْتُ اِلَیْهِ سَمْعِیْ، فَظَنَّ اَنِّیْۤ اَبِیْعُهٗ دِیْنِیْ، وَ اَتَّبِـعُ قِیَادَهٗ مُفَارِقًا طَرِیْقِیْ، فَاَحْمَیْتُ لَهٗ حَدِیْدَةً، ثُمَّ اَدْنَیْتُهَا مِنْ جِسْمِهٖ لِیَعْتَبِرَ بِهَا، فَضَجَّ ضَجِیْجَ ذِیْ دَنَفٍ مِّنْ اَلَمِهَا، وَ كَادَ اَنْ یَّحْتَرِقَ مِنْ مِّیْسَمِهَا، فَقُلْتُ لَهٗ: ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ یَا عَقِیْلُ! اَتَئِنُّ مِنْ حَدِیْدَةٍ اَحْمَاهَاۤ اِنْسَانُهَا لِلَعِبِهٖ، وَ تَجُرُّنِیْۤ اِلٰی نَارٍ سَجَرَهَا جَبَّارُهَا لِغَضَبِهٖ! اَتَئِنُّ مِنَ الْاَذٰی وَ لَاۤ اَئِنُّ مِنْ لَّظٰی؟!.

بخدا! میں نے (اپنے بھائی )عقیل کو سخت فقر و فاقہ کی حالت میں دیکھا، یہاں تک کہ وہ تمہارے (حصہ کے) گیہوں میں ایک صاع مجھ سے مانگتے تھے اور میں نے ان کے بچوں کو بھی دیکھا جن کے بال بکھرے ہوئے اور فقر و بے نوائی سے رنگ تیرگی مائل ہوچکے تھے۔ گویا ان کے چہرے نیل چھڑک کر سیاہ کر دیئے گئے ہیں۔ وہ اصرار کرتے ہوئے میرے پاس آئے اور اس بات کو بار بار دہرایا۔ میں نے ان کی باتوں کو کان دے کر سنا تو انہوں نے یہ خیال کیا کہ میں ان کے ہاتھ اپنا دین بیچ ڈالوں گا اور اپنی روش چھوڑ کر ان کی کھینچ تان پر ان کے پیچھے ہو جاؤں گا۔ مگر میں نے کیا یہ کہ ایک لوہے کے ٹکڑے کو تپایا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ عبرت حاصل کریں، چنانچہ وہ اس طرح چیخے جس طرح کوئی بیمار درد و کرب سے چیختا ہے اور قریب تھا کہ ان کا بدن اس داغ دینے سے جل جائے۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ اے عقیل! رونے والیاں تم پر روئیں کیا تم اس لوہے کے ٹکڑے سے چیخ اٹھے ہو جسے ایک انسان نے ہنسی مذاق میں (بغیر جلانے کی نیت کے) تپایا ہے اور تم مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو کہ جسے خدائے قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا ہے۔ تم تو اذیت سے چیخو اور میں جہنم کے شعلوں سے نہ چلاؤں۔

وَ اَعْجَبُ مِنْ ذٰلِكَ طَارِقٌ طَرَقَنَا بِمَلْفَوْفَةٍ فِیْ وِعَآئِهَا، وَ مَعْجُوْنَةٍ شَنِئْتُهَا، كَاَنَّمَا عُجِنَتْ بِرِیْقِ حَیَّةٍ اَوْ قَیْئِهَا، فَقُلْتُ: اَ صِلَةٌ، اَمْ زَكَاةٌ، اَمْ صَدَقَةٌ؟ فَذٰلِكَ مُحَرَّمٌ عَلَیْناۤ اَهْلَ الْبَیْتِ! فَقَالَ: لَا ذَا وَ لَا ذَاكَ، وَ لٰكِنَّهَا هَدِیَّةٌ. فَقُلْتُ: هَبِلَتْكَ الْهَبُوْلُ! اَ عَنْ دِیْنِ اللهِ اَتَیْتَنِیْ لِتَخْدَعَنِیْ؟ اَ مُخْتَبِطٌ اَنْتَ اَمْ ذُوْ جِنَّةٍ، اَمْ تَهْجُرُ؟

اس سے عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص [۲] رات کے وقت (شہد میں) گندھا ہوا حلوہ ایک سر بند برتن میں لئے ہوئے ہمارے گھر پر آیا، جس سے مجھے ایسی نفرت تھی کہ محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ سانپ کے تھوک یا اس کی قے میں گوندھا گیا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ کیا یہ کسی بات کا انعام ہے؟ یا زکوٰة ہے؟ یا صدقہ ہے؟ کہ جو ہم اہل بیت علیہم السلام پر حرام ہے تو اس نے کہا کہ: نہ یہ ہے، نہ وہ ہے، بلکہ یہ تحفہ ہے، تو میں نے کہا کہ: پسر مردہ عورتیں تجھ پر روئیں! کیا تو دین کی راہ سے مجھے فریب دینے کیلئے آیا ہے؟ کیا تو بہک گیا ہے؟ یا پاگل ہو گیا ہے؟ یا یونہی ہذیاں بک رہا ہے؟۔

وَاللهِ! لَوْ اُعْطِیْتُ الْاَقَالِیْمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ اَفْلَاكِهَا، عَلٰۤی اَنْ اَعْصِیَ اللهَ فِیْ نَمْلَةٍ اَسْلُبُهَا جِلْبَ شَعِیْرَةٍ مَّا فَعَلْتُهٗ، وَ اِنَّ دُنْیَاكُمْ عِنْدِیْ لَاَهْوَنُ مِنْ وَّرَقَةٍ فِیْ فَمِ جَرَادَةٍ تَقْضَمُهَا، مَا لِعَلِیٍّ وَّ لِنَعِیْمٍ یَّفْنٰی، وَ لَذَّةٍ لَّا تَبْقٰی! نَعُوُذُ بِاللهِ مِنْ سُبَاتِ الْعَقْلِ، وَ قُبْحِ الزَّلَلِ، وَ بِهٖ نَسْتَعِیْنُ.

خدا کی قسم! اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دے دیئے جائیں کہ صرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی بھی ایسا نہ کروں گا۔ یہ دنیا تو میرے نزدیک اس پتّی سے بھی زیادہ بے قدر ہے جو ٹڈی کے منہ میں ہو کہ جسے وہ چبا رہی ہو۔ علیؑ کو فنا ہونے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذتوں سے کیا واسطہ! ہم عقل کے خواب غفلت میں پڑ جانے اور لغزشوں کی برائیوں سے خدا کے دامن میں پناہ لیتے ہیں اور اسی سے مدد کے خواستگار ہیں۔

۱؂’’سعدان‘‘ ایک خار دار جھاڑی ہوتی ہے جسے اونٹ چرتا ہے۔

۲؂یہ اشعث ابن قیس تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button