خطبات

خطبہ (۲۳۵)

(٢٣٥) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۲۳۵)

فِیْ شَاْنِ الْحَكَمَیْنِ وَ ذَمِّ اَهْلِ الشَّامِ:

دونوں ثالثوں (ابو موسیٰ و عمرو ابنِ عاص) کے بارے میں اور اہلِ شام کی مذمت میں فرمایا:

جُفَاةٌ طَغَامٌ، وَ عَبِیْدٌ اَقْزَامٌ، جُمِّعُوْا مِنْ كُلِّ اَوْبٍ، وَ تُلُقِّطُوْا مِنْ كُلِّ شَوْبٍ، مِمَّنْ یَّنْۢبَغِیْۤ اَنْ یُّفَقَّهَ وَ یُؤَدَّبَ، وَ یُعَلَّمَ وَ یُدَرَّبَ، وَ یُوَلّٰی عَلَیْهِ، وَ یُؤْخَذَ عَلٰی یَدَیْهِ، لَیْسُوْا مِنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، وَ لَا مِنَ ﴿الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ﴾.

وہ تند خو اوباش اور کمینے بدقماش ہیں کہ جو ہر طرف سے اکھٹا کر لئے گئے ہیں اور مخلوط النسب لوگوں میں سے چن لئے گئے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو (جہالت کی بنا پر) اس قابل ہیں کہ انہیں (ابھی اسلام کے متعلق) کچھ بتایا جائے اور شائستگی سکھائی جائے، (اچھائی اور برائی کی) تعلیم دی جائے اور (عمل کی) مشق کرائی جائے اور ان پر کسی نگران کو چھوڑا جائے اور ان کے ہاتھ پکڑ کر چلایا جائے۔ نہ تو وہ مہاجر ہیں، نہ انصار اور نہ ان لوگوں میں سے ہیں جو مدینہ میں فروکش تھے۔

اَلَا وَ اِنَّ الْقَوْمَ اخْتَارُوْا لِاَنْفُسِهِمْ اَقْرَبَ الْقَوْمِ مِمَّا یُحِبُّوْنَ، وَ اِنَّكُمُ اخْتَرْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ اَقْرَبَ الْقَوْمِ مِمَّا تَكْرَهُوْنَ. وَ اِنَّمَا عَهْدُكُمْ بِعَبْدِ اللهِ بْنِ قَیْسٍۭ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُ: اِنَّهَا فِتْنَةٌ فَقَطِّعُوْۤا اَوْتَارَكُمْ وَ شِیْمُوْا سُیُوْفَكُمْ، فَاِنْ كَانَ صَادِقًا فَقَدْ اَخْطَاَ بِمَسِیْرِهٖ غَیْرَ مُسْتَكْرَهٍ، وَ اِنْ كَانَ كَاذِبًا فَقَدْ لَزِمَتْهُ التُّهَمَۃُ. فَادْفَعُوْا فِیْ صَدْرِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ بِعَبْدِ اللهِ بْنِ الْعَبَّاسِ، وَ خُذُوْا مَهَلَ الْاَیَّامِ، وَ حُوْطُوْا قَوَاصِیَ الْاِسْلَامِ. اَلَا تَرَوْنَ اِلٰی بِلَادِكُمْ تُغْزٰی، وَ اِلٰی صَفَاتِكُمْ تُرْمٰی؟.

دیکھو! اہل شام نے تو اپنے لئے ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جو ان کے پسندیدہ مقصد کے بہت قریب ہے اور تم نے ایسے شخص کو چنا ہے جو تمہارے ناپسندیدہ مقصد سے انتہائی نزدیک ہے۔ تم کو عبد اللہ ابن قیس (ابو موسیٰ) کا کل والا وقت یاد ہو گا (کہ وہ کہتا پھرتا تھا) کہ: یہ جنگ ایک فتنہ ہے، لہٰذا اپنی کمانوں کے چلوں کو توڑ دو اور تلواروں کو نیاموں میں رکھ لو۔ اگر وہ اپنے اس قول میں سچا تھا تو (ہمارے ساتھ) چل کھڑا ہونے میں خطا کار ہے جبکہ اس پر کوئی جبر بھی نہیں اور اگر جھوٹا تھا تو اس پر (تمہیں) بے اعتمادی ہونا چاہیے، لہٰذا عمرو ابن عاص کے دھکیلنے کیلئے عبد اللہ ابن عباس کو منتخب کرو۔ ان دنوں کی مہلت غنیمت جانو اور اسلامی (شہروں کی) سرحدوں کو گھیر لو۔ کیا تم اپنے شہروں کو نہیں دیکھتے کہ ان پر حملے ہو رہے ہیں اور تمہاری قوت و طاقت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button