مکتوبات

مکتوب (۹)

(٩) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

مکتوب (۹)

اِلٰى مُعَاوِیَةَ

معاویہ کے نام

فَاَرَادَ قَوْمُنَا قَتْلَ نَبِیِّنَا وَ اجْتِیَاحَ اَصْلِنَا، وَهَمُّوْا بِنَا الْهُمُوْمَ، وَ فَعَلُوْا بِنَا الْاَفَاعِیْلَ، وَ مَنَعُوْنَا الْعَذْبَ، وَ اَحْلَسُوْنَا الْخَوْفَ، وَ اضْطَرُّوْنَاۤ اِلٰی جَبَلٍ وَّعْرٍ، وَ اَوْقَدُوْا لَنَا نَارَ الْحَرْبِ، فَعَزَمَ اللهُ لَنَا عَلَی الذَّبِّ عَنْ حَوْزَتِهِ، وَ الرَّمْیِ مِنْ وَّرَآءِ حُرْمَتِهٖ.

ہماری قوم [۱] (قریش) نے ہمارے نبی ﷺ کو قتل کرنے اور ہماری جڑ اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ کیا، اور ہمارے لئے غم و اندوہ کے سر و سامان کئے، اور برے سے برے برتاؤ ہمارے ساتھ روا رکھے، ہمیں آرام و راحت سے روک دیا، اور مستقل طور پر خوف و دہشت سے دو چار کر دیا، اور ایک سنگلاخ و ناہموار پہاڑ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا اور ہمارے لئے جنگ کی آگ بھڑکا دی۔ مگر اللہ نے ہماری ہمت باندھی کہ ہم پیغمبر ﷺ کے دین کی حفاظت کریں اور ان کے دامن حرمت پر آنچ نہ آنے دیں۔

مُؤْمِنُنَا یَبْغِیْ بِذٰلِكَ الْاَجْرَ، وَ كَافِرُنَا یُحَامِیْ عَنِ الْاَصْلِ، وَ مَنْ اَسْلَمَ مِنْ قُرَیشٍ خِلْوٌ مِّمَّا نَحْنُ فِیْهِ بِحِلْفٍ یَّمْنَعُهٗ، اَوْ عَشِیْرَةٍ تَقُوْمُ دُوْنَهٗ، فَهُوَ مِنَ الْقَتْلِ بِمَكَانِ اَمْنٍ.

ہمارے مومن ان سختیوں کی وجہ سے ثواب کے امید وار تھے اور ہمارے کافر قرابت کی بنا پر حمایت ضروری سمجھتے تھے اور قریش میں سے جو لوگ ایمان لائے تھے وہ ہم پر آنے والی مصیبتوں سے کوسوں دور تھے۔ اس عہد و پیمان کی وجہ سے کہ جو ان کی حفاظت کرتا تھا، یا اس قبیلے کی وجہ سے کہ ان کی حفاظت کو اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ لہٰذا وہ قتل سے محفوظ تھے۔

وَ كَانَ رَسُوْلُ اللهِ- ﷺ اِذَا احْمَرَّ الْبَاْسُ وَ اَحْجَمَ النَّاسُ قَدَّمَ اَهْلَ بَیْتِهٖ، فَوَقٰی بِهِمْ اَصَحَابَهٗ حَرَّ السُّیُوْفِ وَ الْاَسِنَّةِ، فَقُتِلَ عُبَیْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ یَوْمَ بَدْرٍ، وَ قُتِلَ حَمْزَةُ یَوْمَ اُحُدٍ، وَ قُتِلَ جَعْفَرُ یَوْمَ مُؤْتَةَ، وَ اَرَادَ مَنْ لَّوْ شِئْتُ ذَكَرْتُ اسْمَهٗ مِثْلَ الَّذِیْ اَرَادُوْا مِنَ الشَّهَادَةِ، وَ لٰكِنَّ اٰجَالَهُمْ عُجِّلَتْ وَ مَنِیَّتَهٗ اُجِّلَتْ.

اور رسالت مآب ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ جب جنگ کے شعلے بھڑکتے تھے اور لوگوں کے قدم پیچھے ہٹنے لگتے تھے تو پیغمبر ﷺ اپنے اہل بیت علیہم السلام کو آگے بڑھا دیتے تھے اور یوں انہیں سینہ سپر بنا کر اصحاب کو نیزہ و شمشیر کی مار سے بچا لے جاتے تھے۔ چنانچہ عبیدہ ابن حارث بدر میں، حمزہ اُحد میں اور جعفر جنگ موتہ میں شہید ہو گئے۔ ایک اور شخص نے بھی کہ اگر میں چاہوں تو اس کا نام لے سکتا ہوں، انہی لوگوں کی طرح شہید ہو نا چاہا، لیکن ان کی عمریں جلد پوری ہو گئیں اور اس کی موت پیچھے جا پڑی۔

فَیَاعَجَبًا لِّلدَّهْرِ! اِذْ صِرْتُ یُقْرَنُ بِیْ مَنْ لَّمْ یَسْعَ بِقَدَمِیْ، وَ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ كَسَابِقَتِی الَّتِیْ لَا یُدْلِیْۤ اَحَدٌۢ بِمِثْلِهَا، اِلَّا اَنْ یَّدَّعِیَ مُدَّعٍ مَّا لَاۤ اَعْرِفُهٗ، وَ لَاۤ اَظُنُّ اللهَ یَعْرِفُهٗ، وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلٰی كُلِّ حَالٍ.

اس زمانہ (کج رفتار) پر حیرت ہوتی ہے کہ میرے ساتھ ایسوں کا نام لیا جاتا ہے جنہوں نے میدانِ سعی میں میری سی تیز گامی کبھی نہیں دکھائی اور نہ ان کیلئے میرے ایسے دیرینہ اسلامی خدمات ہیں۔ ایسی خدمات کہ جن کے مانند کوئی مثال پیش نہیں کر سکتا، مگر یہ کہ کوئی مدعی ایسی چیز کا دعویٰ کر بیٹھے کہ جسے میں نہیں جانتا ہوں، اور میں نہیں سمجھتا کہ اللہ اسے جانتا ہو گا (یعنی کچھ ہو تو وہ جانے)۔ بہر حال اللہ کا شکر ہے۔

وَ اَمَّا مَا سَئَلْتَ مِنْ دَفْعِ قَتَلَةِ عُثْمَانَ اِلَیْكَ، فَاِنِّیْ نَظَرْتُ فِیْ هٰذَا الْاَمْرِ، فَلَمْ اَرَهُ یَسَعُنِیْ دَفْعُهُمْ اِلَیْكَ وَ لَاۤ اِلٰی غَیْرِكَ، وَ لَعَمْرِیْ لَئِنْ لَّمْ تَنْزِعْ عَنْ غَیِّكَ وَ شِقَاقِكَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ عَنْ قَلِیْلٍ یَّطْلُبُوْنَكَ، لَا یُكَلِّفُوْنَكَ طَلَبَهُمْ فِیْ بَرٍّ وَّ لَا بَحْرٍ، وَ لَا جَبَلٍ وَّ لَا سَهْلٍ، اِلَّاۤ اَنَّهٗ طَلَبٌ یَّسُوْٓءُكَ وِجْدَانُهٗ، وَ زَوْرٌ لَّا یَسُرُّكَ لُقْیَانُهٗ، وَالسَّلَامُ لِاَهْلِهٖ.

اے معاویہ! تمہارا یہ مطالبہ جو ہے کہ میں عثمان کے قاتلوں کو تمہارے حوالے کر دوں تو میں نے اس کے ہر پہلو پر غور و فکر کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ انہیں تمہارے یا تمہارے علاوہ کسی اور کے حوالے کرنا میرے اختیار سے باہر ہے۔ اور میری جان کی قسم! اگر تم اپنی گمراہی اور انتشار پسندی سے باز نہ آئے تو بہت جلد ہی انہیں پہچان لو گے اور وہ خود تمہیں ڈھونڈتے ہوئے آئیں گے اور تمہیں جنگلوں، دریاؤں، پہاڑوں اور میدانوں میں ان کے ڈھونڈنے کی زحمت نہ دیں گے۔ مگر یہ ایک ایسا مطلوب ہو گا جس کا حصول تمہارے لئے ناگواری کا باعث ہو گا اور وہ آنے والے ایسے ہوں گے جن کی ملاقات تمہیں خوش نہ کر سکے گی۔ سلام اس پر جو سلام کے لائق ہو۔

۱؂جب رسول اللہ ﷺ دعوت توحید دینے پر مامور ہوئے تو کفر و عصیان کی طاقتیں اعلانِ حق کی راہ روکنے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور قبائل قریش جبر و تشدد سے اس آواز کو دبانے کے درپے ہوگئے۔ ان منکرین کے دلوں میں اپنے خود ساختہ معبودوں کی محبت اس قدر راسخ ہو چکی تھی کہ وہ ان کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کیلئے تیار نہ تھے۔ ان کے سامنے ایک خدا کا نظریہ پیش کرنا ہی ان کے جذبات کو مشتعل کرنے کیلئے کافی تھا، چہ جائیکہ انہوں نے اپنے بتوں کے متعلق ایسے کلمات سنے جو انہیں ایک سنگ بے شعور سے زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے۔ جب اس طرح انہیں اپنے اصول و عقائد خطرہ میں نظر آئے تو وہ پیغمبر ﷺ کی اذیت پر کمر بستہ ہوگئے اور اپنے ترکش کے ہر تیر کو آزمانے کیلئے میدان میں اترآئے اور اس طرح ایذا رسانی کے وسائل کام میں لائے کہ آپ ﷺ کو گھر سے قدم باہر نکالنا مشکل ہوگیا۔ اس دور میں جو گنتی کے چند افراد ایمان لائے تھے انہیں بھی مسلسل و پیہم آزمائشوں سے دو چار ہونا پڑا۔ چنانچہ ان پرستارانِ توحید کو جلتی ہوئی دھوپ میں زمین پر لٹادیا جاتا اور پتھروں اور کوڑوں سے اتنا مارا جاتا کہ ان کے بدن لہولہان ہو جاتے۔ جب قریش کے مظالم اس حد تک بڑھ گئے تو پیغمبر ﷺ نے بعثت کے پانچویں سال انہیں مکہ چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دی۔ قریش نے یہاں بھی ان کا پیچھا کیا مگر حبشہ کے فرمانروا نے انہیں ان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی عدل گستری و انصاف پروری سے ان پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔

ادھر پیغمبر ﷺ کی تبلیغ برابر جاری تھی اور حق کی کشش و تاثیر اپنا کام کر رہی تھی اور لوگ اسلام کی تعلیم اور آپؐ کی شخصیت سے متاثر ہو کر آپؐ کے دامن سے وابستہ ہوتے جا رہے تھے، جس سے قریش انگاروں پر لوٹتے،اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتے اور اس بڑھتی ہوئی تاثیر و نفوذ کو روکنے کی کوشش کرتے۔ مگر جب ان کیلئے کچھ نہ ہو سکا تو یہ طے کیا کہ بنی ہاشم و بنی عبد المطلب سے تمام تعلقات قطع کر لئے جائیں۔نہ ان سے میل جول رکھا جائے اور نہ ان سے لین دین کیا جائے، تاکہ وہ تنگ آ کر پیغمبر ﷺ کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں اور پھر وہ جیسا چاہیں ان کے ساتھ برتاؤ کریں۔ چنانچہ ان میں باہمی معاہدہ ہوا اور اس سلسلہ میں ایک دستاویز لکھ کر محفوظ کر دی گئی۔

اس معاہدہ کے بعد اگر چہ زمین وہی تھی اور زمین پر بسنے والے بھی وہی تھے، مگر بنی ہاشم کیلئے در و دیوار سے اجنبیت برسنے لگی۔ جانی پہچانی ہوئی صورتیں یوں نظر آنے لگیں جیسے کبھی شناسائی تھی ہی نہیں۔ سب نے رخ موڑ لئے اور میل ملاقات اور راہ و رسم بند کر دی۔ ان حالات میں یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں پیغمبر ﷺ پر اچانک حملہ نہ ہو جائے، اس لئے شہر سے باہر پہاڑ کی ایک تنگ گھاٹی میں کہ جسے ’’شعب ابو طالب‘‘ کہا جاتا ہے پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اس موقع پر بنی ہاشم میں سے جو ابھی تک ایمان نہ لائے تھے وہ خاندانی اتحاد کی بنا پر آپؐ کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور آڑے وقت پر سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو جاتے اور جو ایمان لا چکے تھے، جیسے حضرت حمزہؑ و حضرت ابوطالبؑ، وہ اپنا فریضۂ ایمانی سمجھ کر آپؐ کی حفاظت میں سرگرم عمل رہتے۔ خصوصاً حضرت ابو طالبؑ نے اپنا سکون و آرام سب چھوڑ رکھا تھا۔ ان کے دن پیغمبر ﷺ کو تسکین دینے اور راتیں پہرا دینے اور پیغمبر ﷺ کی خوابگاہ بدلوانے میں گزرتی تھیں۔ اس طرح کہ جس بستر پر ایک رات پیغمبر ﷺ آرام فرماتے دوسری رات اس بستر پر علی علیہ السلام کو سلا دیتے کہ اگر کوئی حملہ کرے تو آنحضرت ﷺ کے بجائے علی علیہ السلام کام میں آ جائیں۔

یہ دور بنی ہاشم کیلئے انتہائی مصائب و آلام کا دور تھا۔ حالت یہ تھی کہ ضروریات زندگی ناپید اور معیشت کے تمام دروازے بند ہو چکے تھے۔ درختوں کے پتوں سے پیٹ بھر لئے تو بھر لئے، ورنہ فاقوں میں پڑے رہے۔ جب اس طرح تین برس قید و بند کی سختیاں جھیلتے گزر گئے تو زبیر ابن ابی امیہ ،ہشام ابن عمرو، مطعم ابن عدی، ابو البختری اور زمعہ ابن اسود نے چاہا کہ اس معاہدہ کو توڑ دیں۔ چنانچہ اکابر قریش خانہ کعبہ میں مشورہ کیلئے جمع ہوئے۔ ابھی کچھ طے نہ کرنے پائے تھے کہ حضرت ابو طالبؑ بھی شعب سے نکل کر ان کے مجمع میں پہنچ گئے اور ان سے کہا کہ میرے بھتیجے محمد ابن عبد اللہ ﷺ نے مجھے بتایا ہے کہ جس کاغذ پر تم نے معاہدہ تحریر کیا تھا اسے دیمک نے چاٹ لیا ہے اور اب اس پر ’’اللہ‘‘ کے نام کے علاوہ کچھ نہیں رہا، لہٰذا تم اس دستاویز کو منگوا کر دیکھو۔ اگر انہوں نے سچ کہا ہے تو تمہیں ان کی دشمنی سے دستبردار ہونا چاہیے اور اگر غلط کہا ہے تو میں انہیں تمہارے حوالے کرنے کو تیار ہوں۔ چنانچہ اس دستاویز کو منگوا کر دیکھا گیا تو واقعی «بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ» کے علاوہ کہ جو دورِجاہلیت میں سرنامہ کے طور پر لکھا جاتا تھا تمام تحریر دیمک کی نذر ہو چکی تھی۔

یہ دیکھ کر مطعم ابن عدی نے اس تحریر کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ معاہدہ توڑ دیا گیا اور خدا خدا کر کے بنی ہاشم کو اس مظلومیت و بے کسی کی زندگی سے نجات ملی، لیکن اس کے بعد بھی پیغمبر ﷺ کے ساتھ مشرکین کے رویہ میں سرِ مو فرق نہ آیا، بلکہ وہ بغض و عناد میں اس طرح کھو گئے کہ ان کی جان لینے کی تدبیریں کرنے لگے، جس کے نتیجہ میں ہجرتِ مدینہ کا واقعہ ظہور میں آیا۔ اس موقع پر اگرچہ حضرت ابو طالبؑ زندہ نہ تھے، مگر علی ابن ابی طالبؑ نے پیغمبر ﷺ کے بستر پر لیٹ کر ان کی یاد دلوں میں تازہ کر دی، کیونکہ یہ انہی کا دیا ہوا درس تھا کہ جس سے پیغمبر ﷺ کی حفاظت کا سروسامان کیا جاتا تھا۔

یہ واقعات اگرچہ معاویہ سے مخفی نہ تھے، مگر چونکہ اس کے سامنے اس کے اسلاف کے کارناموں کو رکھ کر اس کی معاندانہ روح کو جھنجھوڑنا مقصود تھا، اس لئے قریش و بنی عبد شمس کی ان ایذا رسانیوں کی طرف اسے توجہ دلائی ہے کہ وہ عہد نبویؐ کے پرستارانِ حق اور پر ستارانِ باطل کی روش کو دیکھتے ہوئے یہ غور کرے کہ وہ حق کی راہ پر چل رہا ہے یا اپنے اسلاف کے نقش قدم پر گامزن ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button