
مقدمہ:
اللہ تعالیٰ نے جس امام برحق مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو جانِ پیامبر ﷺ (1)، خیرالبریۃ (2)، ولی المؤمنین (3)، وغیرہ کے القابات سے نوازا اور جنھیں رسول خدا ﷺ نے امام المتقین (4)، وارث علوم رسول اللہ ﷺ (5) اور امین سرّ الٰہی (6) کے امتیازات سے نوازا؛ ان کے بارے میں سخن گوئی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ وہ فصاحت کا سرچشمہ ہیں تو بلاغت کا ریشہ و بنیاد۔ بلاغت انھیں کے وجود سے ظاہر ہوئی حتیٰ اس کے قوانین کا اقتباس بھی ان ہی کی ذات سے ہوا۔
چونکہ ان کے کلام میں علم الٰہی کی جھلک اور سخن نبوی ﷺ کی چمک نظر آتی ہے۔ (7)
اہل سنت کے دانشمند ’’شیخ محمد عبدہ‘‘ نہج البلاغہ کی تشریح کرنے والوں میں سے ایک ہیں وہ نہج البلاغہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’جب میں نے نہج البلاغہ کے چند صفحات پر نظر ڈالی اس کی بعض عبارات کا دقّت سے مطالعہ کیا اور اس کے مختلف موضوعات پر توجّہ ڈالی تو میرے لیے واضح ہو گیا کہ جیسے اس کتاب میں عظیم جنگیں اور سنگین معرکے موجود ہیں، اسی طرح اس کتاب کو بلاغت پر حکومت اور فصاحت پرقدرت حاصل ہے۔ جہاں اس میں قیمتی اور بیش بہا نصیحتیں موجودہیں وہاں فصاحت اور خطابت کے لشکران نصیحتوں پر منظم طریقے سے غالب ہیں۔ یہ کتا ب قوی دلائل اور منطق سے وسوسوں پرحملہ آورہوتی ہے تو باطل کی کمر کوہر طرف سے توڑ کے رکھ دیتی ہے مختلف وہم اور شک و تردید کے فتنوں کا قلعہ قمہ کر دیتی ہے غرض یہ کہ مختلف کمالات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور حقیقت یہ ہے کہ فصاحت و بلاغت کی اس ذرخیز مملکت کے حاکم اور علمدار امیرالمو منین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔‘‘ (8)
اہل سنت کے بزرگ عالم جاحظ جو عربی ادب کے نابغہ میں سے ہے اپنی کتاب ’’البیان و التبیین‘‘ میں امیر المومنین امام علی علیہ السلام سے چند کلمات کو ذکر کرنے کے بعد مولائے کائناتؑ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں، جب وہ مولاؑ کے اس جملہ ’’قیمۃ کلّ امرئِِ ما یحسنہ‘‘۔ (ہر شخص کی قدر و قیمت اس کے نیک کاموں کے اعتبارسے ہوتی ہے) پر پہنچا تو کہنے لگے:
’’اگر اس کتاب میں فقط یہی جملہ ہوتا تب بھی کافی تھا بلکہ اس کی اہمیت اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ بہترین سخن وہ ہے کہ جس کے الفاظ کی کم مقدار بہت سے الفاظ کے استعمال سے بے نیاز کر دے اور جس کا مفہوم ظاہر و آشکار ہو۔ گویا پروردگار عالم نے اپنی جلالت و عظمت اور نور حکمت کے پردہ سے اس جملے کو مزیّن کر دیا ہے جو اس جملے کے کہنے والے کے پاک نیت، بلند فکر اور بے مثال ہونے کی دلیل ہے‘‘۔
کتاب ’’الطراز‘‘ (9)کے مصنف جاحظ سے نقل کرتے ہیں:
’’اللہ اور پیامبر کے کلام کے بعد کوئی ایسا کلام نہیں ہے کہ جو میرے کانوں نے سنا ہو اور میں نے اس کا مقابلہ نہ کیا ہو سوائے امیرالمومنین کرم اللہ وجہہ کے کلام کے جن سے مقابلے کی میں ہرگز قدرت نہیں رکھتا ہوں مثلاً
’’ھلک امرؤ ٌ لم یعرف قدرہ‘‘ (وہ شخص جو اپنی قدر و قیمت کو نہ پہچانے ہلاک ہو گیا)۔
’’النّاس اعداء ُ ما جھلوا‘‘ (لوگ جس چیز کو نہیں جانتے اسکے دشمن ہوتے ہیں )۔‘‘
یہ بھی نہج البلاغہ کا ایک امتیاز ہے کہ اپنے اصلی منبع قرآن کریم کی طرح کہ جو زمانے کے گزرنے سے پرانا نہیں ہوا ہے اسی طرح شاداب اور تازہ حالت میں باقی ہے کہ جیسے ابھی ابھی امام علی علیہ السلام کی زبان سے جاری ہوا ہو۔ زمانے گزر گئے لیکن نہج البلاغہ ہمارے پاس ایک بہترین خزانے کی طرح باقی ہے۔ تاکہ ہم اس پر توجہ کریں اور شائستہ اور سر بلند زندگی کیلئے اس سے الہام حاصل کریں مسلمانوں کے نزدیک نہج البلاغہ کی اہمیت اور اس کا مقام اس بات کا سبب بنا کہ سینکڑوں کتابیں اس کے ترجمے سے متعلق لکھی گئی ہیں اور ہزاروں لوگ اس سے مسلسل مستفید ہو رہے ہیں۔ (10)
نہج البلاغہ میں قرآن کی تجلی:
کلام ائمہ کرام علیہم السلام کا بنیادی اثاثہ کلام وحی ہے اسی وجہ سے امام باقر علیہ السلام سے ایک روایت ہے کہ (11)
’’جب کبھی میں تم سے کوئی حدیث بیان کروں تو اس کی قرآن سے سند اور منبع کے بارے میں مجھ سے سوال کر لیا کرو۔‘‘
اس کے بعد جب امام علیہ السلام نے اپنی گفتگو کے درمیان ارشاد فرمایا:
’’اللہ نے قیل وقال، اموال و منافع کے تباہ ہو جانے اور کثرت سوال سے منع فرمایا ہے۔‘‘
تو لوگوں نے سوال کیا :
’’یابن رسول اللہ! یہ مطلب قرآن کی کس آیت سے استفادہ کیا گیا ہے؟‘‘
تو امام علیہ السلام نے جواب دیا :
’’اللہ عزوجل اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے:
لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ (سورہ نساء، آیت114)
(ان لوگوں کی اکثر راز کی باتوں میں کوئی خیر نہیں ہے مگر وہ شخص جو کسی صدقہ، کارخیر یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے۔)
اور فرماتا ہے :
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا (سورہ نسا ء، آیت 5)
اور ناسمجھ لوگوں کو ان کے وہ اموال جن کو تمہارے لئے قیام کا ذریعہ بنایا گیا ہے، نہ دو۔
لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ (سورہ مائدہ، آیہ 101)
ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو تم پر ظاہر ہو جائیں تو تمھیں بری لگیں۔
اسی وجہ سے ہمیں چاہیے کہ نہج البلاغہ کو قرآن سے حاصل کیے ہوئے معارف و مطالب کا مجموعۂ الہامی تصور کریں۔
بہرحال ان سب باتوں سے قطع نظر قرآن کی آیات تین طریقوں سے نہج البلاغہ میں منعکس نظر آتی ہیں:
تلمیح (اشارہ)، تضمین اور تصریح
نہج البلاغہ میں قرآن کی تجلی کے مختلف انداز
1) تلمیح:
’’گفتگو کے ضمن میں کسی بھی اصل داستان یا شعر یا مثل کو ذکر کئے بغیر صرف اشارہ کرنے کو تلمیح کہتے ہیں۔‘‘ (12)
آیت قرآن کو ذکر کئے بغیر ان کی طرف اشارہ کرنا تلمیح کے مصادیق میں سے ایک ہے۔ امام علی علیہ السلام کے کلام نہج البلاغہ میں قرآن کا انعکاس اکثروبیشتر بصورت تلمیح نظر آتاہے۔ نہج البلاغہ کی مندرجہ ذیل عبارات میں بطور تلمیح آیاتِ قرآنی سے استفادہ نظر آتا ہے:
الف: امام علی علیہ السلام پیامبر اکرم ﷺ کی توصیف میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’…و دعا الی الحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ‘‘
اور لوگوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔ (13)
یہ جملہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف کہ:
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ.. (نحل، آیہ 125)
آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دیں۔
ب: امام علیہ السلام گناہوں کے ارتکاب کے خطرات سے ڈراتے ہوئے رات کے وقت عذابِ ناگہانی کے نازل ہو جانے کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:
و کیف لا یوقظک خوف بیات نقمہ و قد تورطت بمعاصیہ مدارج سطواتہ
اور کیوں راتوں رات عذاب الٰہی کے نازل ہو جانے کا تصور تجھے بیدار نہیں رکھتا ہے جبکہ تو اس کی نافرمانیوں کی بنا پر اس کے قہر و غلبہ کی راہ میں پڑا ہوا ہے۔ (14)
یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف:
أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ (اعراف، آیہ 97)
کیا اھل قریہ اس بات سے مامون ہیں کہ یہ سوتے ہی رہیں اور ہمارا عذاب راتوں رات نازل ہو جائے۔
اگرچہ یہ آیت ایک خاص علاقے کے افراد پر عذاب الٰہی کے آنے کو ظاہر کرتی ہے مگر امام علی علیہ السلام نے ہر گناہ گار کو عذابِ ناگہانی کاحقدار ٹہرایا ہے۔
ج: امام علی علیہ السلام خلقت اور قدرت لازوال الٰہی کو بیان کرنے کیلئے آسمانوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان کی دو اہم خصوصیات کو بیان کرتے ہیں کہ خداوند متعال نے ان آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے روک رکھا ہے اور بغیر کسی سہارے کے قائم کر دیا ہے:
فمن شواہد خلقہ خلق السموات موطوات بلا عمد , قائمات بلا سند
اس کی خلقت کے شواھد میں ان آسمانوں کی تخلیق بھی ہے جنھیں بغیر ستون کے روک رکھا ہے اور بغیر کسی سہارے کے قائم کر دیا ہے۔ (15)
امام علیہ السلام کا یہ کلام اشارہ ہے پروردگار کے اس کلام کی طرف کہ:
اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا (رعد، آیہ 2)
اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے بلند کر دیا ہے جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔
اس کے بعد مولائے کائنات ارشاد فرماتے ہیں:
’’دعاہن و اجبن طائعات مذعنات غیر متلکلئات و لا مبطئات‘‘
اس نے انہیں پکارا تو سب لبّیک کہتے ہوئے حاضر ہو گئے۔ اطاعت اور اذعان کے ساتھ۔نہ کسی طرح کی تساھلی اور نہ کاہلی۔ (16)
یہ کلام اشارہ ہے قرآن کی اس آیت کی طرف کہ:
ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (فصلت، آیہ 11)
اس کے بعد اس نے آسمان کا رخ کیا جو بالکل دھواں تھا اور اسے اور زمین کو حکم دیا کہ بخوشی یا بکراہت ہماری طرف آؤ تو دونوں نے عرض کی کہ ہم اطاعت گزار بن کرحاضر ہیں۔
د: قرآن کی عجیب، نادر، بہترین اور روشن آیات میں سے ایک یہ آیت ہے:
إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر، آیہ 10)
پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ہیں اور عمل صالح انہیں بلند کرتا ہے۔
اس آیت کے ظاہر کے اعتبار سے پاکیزہ کلمات پروردگار کی طرف بلند ہوتے ہیں اورعمل صا لح ان کو بلند کرتا ہے۔ مفسرین پاک عقیدہ کو کلمہ طیب سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ عمل صالح یقین کے ذریعے پاکیزہ عقائد کو بلند کرتا ہے۔
امام علی علیہ السلام اپنے خطبوں میں سے ایک میں اس آیت کی طرف اس طرح اشارہ کرتے ہیں:
و نشہد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و ان محمدا عبدہ و رسولہ، شہادتین تصعدان القول و ترفعان العمل
ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور حضرت محمّد ﷺ اس کے بندہ اور رسول ہیں، یہ دونوں شہادتیں وہ ہیں جو اقوال کو بلندی دیتی ہیں اور اعمال کو رفعت عطا کرتی ہیں۔ (17)
2) تضمین:
تضمین کی اس طرح تعریف کی گئی ہے:
ان یضمن الشعر شیئا من شعر الغیر
’’کسی شعر کے ضمن میں کسی دوسرے شاعر کے شعر کا کچھ حصّہ کا استعمال کرنا۔‘‘ (18)
اگرچہ تضمین کی اصطلاح علم ناظر میں شعر سے عبارت ہوئی ہے لیکن منطقی اعتبار سے شعر سے مختص نہیں ہے۔ وہ چیز کہ جو معمولاً تضمین میں مطمع نظر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک کلام میں دوسرے کلام سے استفادہ کیا جائے۔ چاہے وہ شعر ہو یا کوئی اور چیز مثلاً کلام الٰہی۔ مندرجہ ذیل مثالوں میں مولائے کائناتؑ نے اپنے کلام میں آیاتِ قرآن کا بصورتِ تضمین استفادہ کیا ہے۔
الف: جب ھمام نے امام سے درخواست کی کہ وہ متّقین کی صفات بیان کریں تو امام نے شروع میں اپنے مختصر کلام (جسے ھمام نے کافی نہ سمجھا) میں اس طرح خطاب فرمایا:
يَا هَمَّامُ! اتَّقِ اللّٰهَ وَ اَحْسِنْ فَـ ﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ﴾ (نحل، آیہ 128)
اے ھمام اللہ سے ڈرو اور نیک عمل کرو کہ اللہ تقویٰ اور حسن عمل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے (19)
وہ آیت جو اس کلام میں امام علیہ السلام کا مورد اشارہ پائی ہے در حقیقت پرہیزگاری اور نیکوکاری کے حکم پر برھان اور استدلال کے عنوان سے استعمال ہوئی ہے۔ چاہے اس آیت کو پرہیزگاروں اور نیکو کاروں کے ساتھ پروردگار کی معیت اور ہمراہی کے اعتبار سے دیکھیں یا چاہے اس امر سے بڑھ کر تقویٰ اور احسان کے حکم کیلئے اجر کے عنوان سے دیکھیں۔
ب: ایک اور جگہ پر نصیحت کے ضمن میں ارشاد فرمایا:
الاقاویل محفوظہ والسرائر مبلوہ وكُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ (مدثر، آیہ 38)
باتیں سب محفوظ رہتی ہیں اور دلوں کے رازوں کا امتحان ہونے والا ہے۔ ہر نفس اپنے اعمال کے ہاتھوں گرد ہے۔(20)
ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت امام علیہ السلام کی نصیحتوں میں الگ سے عنوان بندی کیلئے استعمال کی گئی ہے۔
ج: آسمان اور زمین کے بیکار خلق نہ کرنے کو اس طرح بیان فرمایا:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ (ص، آیہ 27)
اور نہ زمین و آسمان اور انکی درمیانی مخلوقات کو بیکار پیدا کیا ہے۔ یہ صرف کافروں کا خیال ہے اور کافروں کیلئے جہنم میں ویل ہے۔ (21)
کلام امام علیہ السلام کا پہلا حصّہ تلمیح ہے اس طرح کی آیات کی طرف:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ (ص، آیہ 27 )
اور ہم نے آسمان اور زمین اور اس کے درمیان کی مخلوقات کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے یہ تو صرف کافروں کا خیال ہے اور کافروں کیلئے جہنم میں ویل کی منزل ہے۔
جبکہ کلام امام علیہ السلام کے دوسرے حصّہ میں جو آیت آئی ہے وہ بصورت تضمین ہے۔
3: تصریح:
قرآن کی آیات کے نہج البلاغہ میں استعمال کا تیسرا طریقہ’’تصریح‘‘ ہے یعنی امام علیہ السلام کاملاً آشکار اور مختلف انداز میں اپنے کلام میں کسی آیت قرآنی کا ذکر کرتے ہیں۔ ذکر آیت تصریح کی حالت میں دو کلی اہداف پر انجام پاتی ہے
1۔ بعض موارد میں امام علیہ السلام فقط نص آیت کو ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اور کسی قسم کی توضیح اور تفسیر پیش نہیں کرتے ہیں۔ ایسے موارد میں فقط قرآن کی محکم دلیل کے استناد اور استشھاد کا قصد ہے خاص طور پر اُن مواردِ کثیر میں کہ جہاں مخاطب وہ لوگ تھے جو آیت کو سمجھنے میں غلط فہمی یا انحراف کا شکار ہو گئے تھے۔ مثال کے طور پر اپنے درد آمیز رنج نامہ خطبہ شقشقیہ میں 25 سال کی حکومتِ خلفاء کے تحمّل کو بیان کرنے کے بعد اپنے مسلمان دشمنوں اور دوستوں سے گلہ شکوہ کرتے ہیں کہ کس طرح جنگ کے علم کو ان کے ساتھ بلند کیا اور امام علیہ السلام کے بہت سے بلند مقاصد کو برآور کرنے میں مانع ہوئے:
…فلما نہضت بالامر نکثت طائفہ و مرقت اخری و قسط آخرون کانہم لم یسمعوا کلام اللہ حیث یقول: تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (قصص، آیہ 83)
لیکن جب میں نے ذمہ داری سنبھالی اور اٹھ کھڑا ہوا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ دی اور دوسرا دین سے باہر نکل گیا اور تیسرے نے فسق اختیار کر لی جیسے کہ ان لوگوں نے یہ ارشاد الہٰی سنا ہی نہیں ہے کہ ’’یہ دار آخرت ہم صرف ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو دنیا میں بلندی اور فساد نہیں چاہتے ہیں اور عاقبت صرف اھل تقویٰ کیلئے ہے۔‘‘ (22)
امام نے اس آیت سے استشھاد کرکے اعلان کردیا کہ ناکثین، مارقین اور قاسطین کے مصادیق وہ لوگ ہیں جو زمین میں فساد اور قتل وغارت گری کے خواہش مند ہوتے ہیں اور اسی قسم کے ارادہ اور خواہش کی بناء پر آخرت میں بھی اُن برکات سے جو پرہیزگاروں کو مہیا ہوں گی یہ لوگ محروم رہیں گے۔ اور جب لوگوں سے چاہا کہ اپنی نماز کے محافظ اور پابند رہیں تو اس آیت کی طرف نسبت دی جس میں جہنمیوں کے شرمسار اور آگ میں جانے کا پہلا سبب ترک نماز کو بیان کیا گیا ہے۔
تعاہدوا امر الصلوہ و حافظوا علیہاللہ الا تسمعون الی جواب اہل النار حین سئلوا: مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ﴿۴۲﴾ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ﴿۴۳﴾ (مدثر، آیہ 42، 43)
دیکھو نماز کی پابندی اور اسکی نگہداشت کرو۔ زیادہ سے زیادہ نمازیں پڑھو اور اسے تقرّب الٰہی کا ذریعہ قرار دو کہ یہ صاحبان ِ ایمان کے لئے وقت کی پابندی کے ساتھ واجب کی گئی ہے۔ کیا تم نے اھل جہنم کا جواب نہیں سنا ہے کہ جب ان سے سوال کیا جائے گا کہ تمھیں کس چیز نے جہنم تک پہنچا دیا ہے تو کہیں گے کہ ہم نمازی نہیں تھے۔ (23)
اسی طرح ایک مقام پر امام اپنی حقانیت اور اولویت کے اثبات کیلئے منصب امامت کو اختیار کرنے کے اعتبار سے چند آیات سے استناد کرتے ہیں کہ جن میں قرابت، و تبعیت، ملاک و اولویت کا اعلان ہوا ہے۔
فاسلا منا قد سمع و جاہلیتنا لا تدفع و کتاب اللہ یجمع لنا ما شذعنا و ہو قولہ: وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ (انفال، آیہ 75) و قولہ تعالی: إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ… (آل عمران، آیہ 68)
ہمارا اسلام بھی مشہور ہے اور ہمارا قبل اسلام کا شرف بھی ناقابل انکار ہے اور کتاب خدا نے ہمارے منتشر اوصاف کو جمع کر دیا ہے۔ یہ کہہ کر کہ ’’قرابت دار بعض بعض کے لئے اولیٰ ہیں‘‘ اور یہ کہہ کر کہ ’’ابراہیم کے لئے زیادہ قریب تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا اتباع کیا ہے اور یہ پیغمبر اور صاحبان ایمان ہیں اور اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے‘‘۔ یعنی ہم قرابت کے اعتبار سے بھی اولیٰ ہیں اور اطاعت و اتباع کے اعتبار سے بھی۔ (24)
امام علیہ السلام کا ان دو آیات سے استفادہ کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امام کا معارف قرآنی پر گہرا اور وسیع احاطہ ہے پہلی آیت اگرچہ کہ میراث کو مُردوں کے اموال سے متعلق کرتی ہے لیکن امام کی نگاہ میں صرف اموال کی میراث میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مفاہیم معنوی مثلاً علم، ہدایت، امامت، وغیرہ کی میراث کو بھی شامل کرتی ہے۔
دوسری آیت اگرچہ پیروان حضرت ابراھیم علیہ السلام سے متعلق ہے مگر امام علیہ السلام کی نگاہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اختصاص نہیں رکھتی ہے اور تنقیح مناط کے اصول کی بنیاد پر دوسرے تمام مواردکو بھی شامل کرتی ہے۔ اس بنا پر اگر علی علیہ السلام پیامبر ﷺ کے داماد اور چچازاد بھائی نہ بھی ہوتے تب بھی اس جہت سے کہ پیامبر ﷺ کی پیروی میں سب سے آگے تھے اور پیامبر ﷺ کی جانشینی کیلئے دوسروں سے زیادہ حقدار تھے۔
امام علی علیہ السلام ایک دوسرے مقام پر علماء کے اختلاف رائے پر اس طرح تنقید فرماتے ہیں۔
ام انزل الیہ سبحانہ دینا تاما فقصرالرسول عن تبلیغہ و ادائہ واللہ سبحانہ یقول … مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ (انعام، آیہ 38) فیہ تبیان کل شی و ذکر ان الکتاب یصدق بعضہ بعضا و انہ لا اختلاف فیہ، فقال سبحانہ: وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (نساء، آیہ 82)
آیا خدا نے دین ناقص نازل کیا ہے اور ان سے اس کی تکمیل کے لئے مدد مانگی ہے یا یہ سب خود اس کی خدائی میں شریک ہیں اور انھیں یہ حق حاصل ہے کہ یہ بات کہیں۔ اور خدا کا فرض ہے کہ وہ قبول کرے یا خدا نے دین کامل نازل کیا تھا اور رسول اکرم ﷺ نے اس کی تبلیغ اور ادائیگی میں کوتاہی کر دی ہے جب کہ اس کا اعلان ہے کہ ہم نے کتاب میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کی ہے اور اس میں ہر شے کا بیان موجود ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اور اس میں کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے۔ یہ قرآن غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بے پناہ اختلاف ہوتا۔ (25)
دوسرے مقام پر امام علیہ السلام اہل بیت علیہم السلام سے دنیا کی چاروں طرف سے بے رخی اور لا پرواہی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔ امام کا کلام حضرت مہدی عجّل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے امام اپنے مدعا کی تصدیق کیلئے قرآن کی اس آیت سے استفادہ فرماتے ہیں کہ قرآن کی آیات کی تاویل راسخون فی علم کیلئے روشن ہے نہ کہ ان لوگوں کیلئے کہ جن کے دلوں میں مرض ہے۔
لتعطفن الدنیا علینا بعد شماسہا عطف الضروس علی ولدہا و تلا عقیب ذلک:
وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (قصص ،آیہ 5)
یہ دنیا منہ زوری دکھلانے کے بعد ایک دن ہماری طرف بہرحال جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی کو اپنے بچہ پر رحم آجاتا ہے۔ اس کے بعد امام نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی۔ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ان بندوں پر احسان کریں جنھیں روئے زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے۔‘‘ (26)
اس کے علاوہ مولائے کائنات نے آیات کے ذکر کے ساتھ ساتھ توضیح اور تفسیر بھی پیش فرمائی ہے کبھی یہ توضیح آیات قرآنی کے نکات سے استفادہ کی صورت میں کی گئی ہے تو کبھی آیات الٰہی کے مخفی پہلوؤں کو آشکار کرنے کی صورت میں۔
نہج البلاغہ میں تفسیر قرآن کے چند نمونے
1) عوامل دفع عذاب الہی:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (انفال، 33)
خدا اس وقت تک عذاب نہیں کرتا ہے جب تک آپ موجود ہیں۔ اور اس وقت تک عذاب کرنے والا نہیں ہے جب تک یہ استغفار کر رہے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام عذاب الٰہی کے دور ہونے کی کیفیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’وحکی عنہ ابوجعفر محمد بن علی الباقر علیہماالسلام انہ قال: کان فی الارض امانان من عذاب اللہ وقد رفع احدہما فدونکم الاخر فتمسکوا بہ .اما الامان الذی رفع فہو رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم. واما الامان الباقی فالاستغفار قال اللہ تعالی :”وماکان اللہ لیعذبہم وانت فیہم وماکان اللہ معذبہم وہم یستغفرون.‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام نے آپ کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ ’’روئے زمین پر عذاب الٰہی سے بچانے کے دو ذرائع تھے۔ ایک کو پروردگار نے اٹھا لیا ہے (یعنی پیغمبر اسلام ﷺ) لہٰذا دوسرے سے تمسک اختیا رکرو۔یعنی استغفار۔ کہ مالک کائنات نے فرمایا ہے کہ ’’خدا اس وقت تک عذاب نہیں کرتا ہے جب تک آپ ﷺ موجود ہیں اور اس وقت تک عذاب کرنے والا نہیں ہے جب تک یہ استغفار کر رہے ہیں۔ (27)
2) شیطان
قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (حجر، 39)
اس نے کہا کہ پروردگار جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکھٹا گمراہ کروں گا
اس آیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام پہلے بیان کرتے ہیں کہ اس جملہ کا کہنے والا شیطان تھا اس کے بعد اس کا تعارف کراتے ہیں۔
پھر انسان کو اس طرح نصیحت کرتے ہیں:
فاعتبروا بما کان من فعل اللہ بابلیس اذا احبط عملہ الطویل و جہدہ الجہید… فی حومۃ ذل. و حلقہ صیق. و عرصۃ موت. و جولۃ بلاء (28)
’’تو اب تم سب پروردگار کے ابلیس کے ساتھ برتاؤ سے عبرت حاصل کرو کہ اس نے اس کے طویل عمل اور بے پناہ جدوجہد کو تباہ و برباد کر دیا جب کہ وہ چھ ہزار سال عبادت کر چکا تھا۔ جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہے کہ وہ دنیا کے سال تھے یا آخرت کے مگر اگر ایک ساعت کے تکبر نے سب کو ملیامیٹ کر دیا تو اب اس کے بعد کون ایسی معصیت کرکے عذاب الہٰی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ جس جرم کی بنا پر ملک کو نکال باہر کیا اس کے ساتھ بشر کو داخل جنت کر دے جبکہ خدا کا قانون زمین و آسمان کے لئے ایک ہی جیسا ہے اور اللہ اور کسی خاص بندے کے درمیان کوئی ایسا خاص تعلق نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے اس چیز کو حلال کر دے جو سارے عالمین کے لئے حرام قرار دی ہے۔
اے بندگان خدا! اس دشمن خدا سے ہوشیار رہو کہیں تمہیں بھی اپنے مرض میں مبتلا نہ کر دے اور کہیں اپنی آواز پر کھینچ نہ دے اور تم پراپنے سوار اور پیادہ لشکر سے حملہ نہ کر دے۔ اس لئے کہ میری جان کی قسم اس نے تمہارے لئے شر انگیزی کے تیروں کو چلّہ کمان میں جوڑ لیا ہے اور کمان کو زور سے کھینچ لیا ہے اور تمہیں بہت نزدیک سے نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ ’’پروردگار جس طرح تو نے مجھے بہکا دیا اب میں بھی ان کے لئے گناہوں کو آراستہ کر دوں گا اور ان سب کو گمراہ کر دوں گا۔‘‘
حالانکہ یہ بات بالکل اٹکل پچو سے کہی تھی اور بالکل غلط اندازے کی بنا بر زبان سے نکلی تھی لیکن غرور کی اولاد، تعصب کی برادری اور تکبر و جاہلیت کے شہسواروں نے اس بات کی تصدیق کر دی یہاں تک کہ جب تم سے منہ زوری کرنے والے اسکے مطیع ہو گئے اور اس کی طمع تم میں مستحکم ہو گئی تو بات پردۂ راز سے نکل کر منظر عام پر آگئی۔ اس نے اپنے اقتدار کو تم پر قائم کرلیا اور اپنے لشکر کا رخ تمہاری طرف موڑ دیا۔ انہوں نے تمہیں ذلّت کے غاروں میں دھکیل دیا اور تمہیں قتل و خون کے بھنور میں پھنسا دیا اور مسلسل زخمی کرکے پامال کر دیا۔ تمہاری آنکھوں میں نیزے چبھو دیئے۔ تمہارے حلق پر خنجر چلا دیئے اور ناک کو رگڑ دیا۔ تمہارے جوڑ بند کو توڑ دیا اور تمہاری ناک میں قہر و غلبہ کی نکیل ڈال کر انھیں اس آگ کی طرف کھینچ لیا جو تمہارے ہی واسطے مہیا کی گئی ہے۔ وہ تمہارے دین کو ان سب سے زیادہ مجروح کرنے والا اور تمہاری دنیا میں ان سب سے زیادہ فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے والا ہے جن سے مقابلہ کی تم نے تیاری کر رکھی ہے اور جن کے خلاف تم نے لشکر جمع کئے ہیں۔ لہٰذا اب اپنے غیظ و غضب کا مرکز اسی کو قرار دو اور ساری کوشش اسی کے خلاف صرف کرو۔
خدا کی قسم اس نے تمہاری اصل پر اپنی برتری کا اظہار کیا ہے اور تمہارے حسب میں عیب نکالا ہے اور تمہارے نسب پر طعنہ دیا ہے اور تمہارے خلاف لشکر جمع کیا ہے اور تمہارے راستے کو اپنے پیادوں سے روندنے کا ارادہ کیا ہے۔ جو ہر جگہ تمہارا شکار کرنا چاہتے ہیں اور ہر مقام پر تمہارے ایک ایک انگلی کے پوت پر ضرب لگانا چاہتے ہیں اور تم نہ کسی حیلہ سے اپنا بچاؤ کرتے ہو اور نہ کسی عزم و ارادہ سے اپنا دفاع کرتے ہو در آنحالیکہ تم ذلّت کے بھنور، تنگی کے دائرہ، موت کے میدان اور بلاؤں کی جولانگاہ میں ہو‘‘۔ (28)
3) معنی عدل و احسان
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ… (نحل، 90)
بیشک اللہ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔
امام علی علیہ السلام اس آیت کی اس طرح تفسیر فرماتے ہیں:
و قال علیہ السلام فی قولہ تعالی ”ان اللہ یأمر بالعدل و الاحسان: العدل الانصاف و الاحسان التفضل“ آیت کریمہ ان اللہ یأمر بالعدل میں عدل، انصاف ہے اور احسان فضل و کرم ہے‘‘۔ (29)
حرف آخر:
پس حاصل کلام یہ کہ قرآن ناطق یعنی حضرت علی علیہ السلام کے کلام نہج البلاغہ میں قرآن صامت سے مختلف مقامات پر خوبصورت انداز میں فصاحت و بلاغت کے مدارج بطور تلمیح، تضمین اور تصریح سے استفادہ کیا گیا ہے۔ جو نہج البلاغہ کے تفسیر قرآن ہونے کو واضح کرتا ہے۔ جس کی گواہی اہل سنت اور شیعوں کے بزرگ علماء نے اس طرح دی ہے کہ نہج البلاغہ تحت کلام خالق اور فوق کلام مخلوق ہے اور یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کلام الامام امام الکلام ہے۔
حوالہ جات:
[1] سورہ آل عمران 3، آیت 61[2] سورہ بینہ98، آیت 7
[3] سورہ مائدہ 5، آیت 55
[4] بحارالانوار، ج18،340
[5] بحارالانوار، ج22،487
[6] بحارالانوار، ج22،457
[7] سیری در نہج البلاغہ، شھید مطّھری، ص9
[8] شرح نہج البلاغہ، محمد عبدہ،ص9۔
[9] الطراز ،ج1،ص165
[10] راہِ روشن ج3 ص20
[11] اُصول کافی ج5 ،ص300
[12] مختصرالمعانی،455؛ التعریفات،290
[13] نہج البلاغہ خطبہ،95
[14] نہج البلاغہ خطبہ،223
[15] نہج البلاغہ خطبہ182
[16] نہج البلاغہ خطبہ 182
[17] بیشتر توضیح کیلئے ر۔ک، علامّہ طباطبائی، المیزان17،24،23
[18] مختصر المعانی 501
[19] نہج البلاغہ خطبہ 193
[20] نہج البلاغہ حکمت 343
[21] نہج البلاغہ حکمت 78
[22] نہج البلاغہ خطبہ3
[23] نہج البلاغہ خطبہ 199
[24]نہج البلاغہ نامہ 28۔
[25] نہج البلاغہ خطبہ 18
[26] نہج البلاغہ حکمت 209
[27] نہج البلاغہ حکمت 88
[28] نہج البلاغہ خطبہ 192
[29] نہج البلاغہ حکمت 231




