
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مقدمہ
خالق کائنات نے مخلوقات کو بیہودہ اور بے مقصدخلق نہیں کیا ہے۔ کیونکہ خداوند متعال کبھی بیہودہ کام انجام نہیں دیتا۔ بلکہ کوئی بھی کام انجام دے تو اس کے پس منظر میں بہت بڑا ہدف اور مقصد ہوتا ہے۔ اگرچہ وه بظاہر ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ۔انہیں مخلوقات میں سے ایک انسان ہے کہ جس کو خداوند متعال نے بیہودہ خلق نہیں کیا بلکہ قرآن مجید میں اس کی وجہ تخلیق کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اسی طرح ہر وہ کام جو خداوند متعال انسان کے لئے انجام دے وہ بھی مصلحت اور مقصد سے خالی نہیں ہے۔ انہیں کاموں میں سے ایک کہ جن کو انسانیت کی خاطر انجام دیا وہ ارسال رسل ہے کہ خدا نے ہر دور میں اپنا رسول بھیجا یہ سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہوا جو حضرت ختمی مرتبت پرختم ہوا اور ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان انبیاء کے بعثت کا مقصد کیا ہے؟ یہ حضرات خلقت کے اعتبار سے خود بھی دوسرے لوگوں کی طرح ایک بشر ہیں ان میں وہ کیا خصوصیات ہیں کہ جن کی بناء پر ان کو اس مقام سے نوازا گیا ہے؟ اور انسانوں کے درمیان آ کر کیا کام انجام دے سکتے ہیں؟
ہم اس مقالہ میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے گہر بار کلمات کی روشنی میں اختصار کے ساتھ ان مقاصد کی طرف اشارہ کریں گے کہ جن کے بناء پر انبیاء مبعوث بہ رسالت ہوئے ہیں۔
اہم لغات کی وضاحت
بعثت: بعثت اسم مصدر ہے اصل میں اس کا معنی ابھارنا ہے، کسی چیز کو روانہ کرنا ہے اور یه مادہ بَعَثَ مورد اور ہدف کے لحاظ سے معنی میں بھی فرق ہے اور قرآن میں ابھارنا، باهر لانااورانسان کو قیامت کی طرف لے جانے کے معنی میں آیا ہے۔
بعث کے اقسام
1- بعث بشری: کسی انسان کو ابھارنا یا کسی اور چیز کو حرکت دینا مثل: اونٹ کو حرکت دینا یا کسی انسان کو کسی نیاز کے بر آوری کے لئے وادار کرنا۔
2- بعث الہی: یہ خود دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے:
(الف) کسی مواد اور کسی چیز کو ایجاد کرنا یعنی عدم سے وجود میں لانے کے معنی پر ہے کہ یہ کام صرف خداوند متعال سے خاص ہے۔
(ب) مردوں کو زندہ کرنا کہ یہ کام خدا نے اپنے بعض اولیاء کو بھی عطاء کیا ہے مانند حضرت عیسی (ع)۔ [1]
انبیاء: انبیاء نبی کی جمع ہے اور یہ نَبَوَ کے مادہ سے ہے کہ اس کا مصدر نبوت آتا ہے۔ نبوت ایسی سفارت کو کہا جاتا ہے جو خدا اور اس کے عاقل بندوں کے درمیان قائم ہے کہ یہ سفارت موجودات کے درمیان سے ان ناتوانیوں اور علتوں کو دور کرتی ہیں جو انکے معاد اور معاش کے کاموں میں پائی جاتی ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ نبی: نبوۃ سے ہے اس کا معنی بلند مرتبہ سے لیا ہے اس جہت سے کہ خداوند نے نبی کو دوسروں پر برتری دی ہے
پس کلمه نبی، آخر میں ہمزہ کے بغیر معنی کے لحاظ سے رساتر اور واضح ہے چونکہ ہر کوئی خبر دینے والا بلند مرتبہ نہیں ہوتا ہے اسی لئے جب پیامبر گرامی اسلام کو کسی نے کہا یا نبئی اللہ، تو آپ (ص) نے فرمایا: لَستُ بنبئ الله ولکن نبیّ الله (میں نبئی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں) چونکہ اس شخص نے کینہ اور دشمنی کے بنا پر ہمزہ کے ساتھ تلفظ کیا تھا تاکہ آپ (ص) کی تحقیر ہو جائے۔ [2]
1- جہالت اور نادانی کو دور کرنا
انبیاء کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ یہ حضرات لوگوں کے درمیان آئے اور اپنی خدداد صلاحیتوں اور علم و حکمت کے ذریعے لوگوں کی جہالت اور نادانی کو دور کرئے کیونکہ ہر وہ معاشرہ جس میں جہالت کا خاتمہ ہو جائے وہ معنوی اور مادی ترقی کے طرف تیزی سے حرکت کرے گا۔ آپؑ فرماتے ہے:
«وَ بَعَثَ إِلَی الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ رُسُله لِیَکْشِفُوا لهمْ عَنْ غِطَائهَا…» [3]
ترجمہ: خداوند متعال نے اپنے رسولوں کو جن و انس کی طرف بھیجا تاکہ وہ نگاہوں سے پردہ (نادانی و گمراہی) اٹھا دیں۔ لوگ دنیا کے حقیقی چہرہ اور اس کی فریب کاریوں سے آگاہ نہیں ہیں اس لئے یہ لوگ دنیا کے زرق و برق دیکھ کر اس کے فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ خداوند متعال نے انبیاء کو مبعوث کیا تاکہ لوگوں کی نگاہوں سے اس جہالت اور نادانی کے پردے کو اٹھا کر بصیرت اور عقل و ادراک جیسی نعمتوں سے مالا مال کرایا جائے۔
قرآن مجید کا ارشاد ہے:
«يَامَعْشرََ الجِْنِّ وَ الْانسِ أَ لَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ ءَايَتى….» [4] ترجمہ: اے گروہ جن و انس! کیا تمہارے پاس خود تم میں سے رسول نہیں آئے تھے جو میری آیات تمہیں سناتے تھے… پس خداوند متعال نے انبیاء کو اس لئے مبعوث کیا ہے کہ یہ حضرات آ کر ان پردوں کو اٹھائیں جو دنیا نے انسان کی آنکھوں کے سامنے آویزاں کئے ہوئے ہیں اور آخرت کی اس زندگی جاوید سے کہ جس کے لئے انسان کو خلق کیا گیا ہے، انسان کو بے خبر رکھا ہے۔ [5]
2- لوگوں کو دنیا کے فریب اور نقصانات سے آگاہ کرنا
خدا نے انبیاء کو بھیجا تاکہ لوگوں کو دنیا کے زرق و برق اور ایک مرغوب چیز کی شکل میں فریب دینے والی مضر اور اس کی زیان کاری سے نجات دیں۔ اسی حقیقت کی طرف یوں اشارہ ہوا ہے:
«وَ بَعَثَ إِلَی الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ رُسُله…… و لیحذّروهم من ضرّائها…» [6] خداوند متعال نے اپنے رسولوں کوجن و انس کی طرف بھیجا تاکہ لوگوں کو دنیا کی برائی اور سختیوں سے ڈرائے اور آگاہ کریں۔ کیونکہ عقل اور درک انسان اس حد تک رشد نہیں کیا تھا کہ یہ لوگ خود ان چیزوں کو سمجھ سکیں بلکہ دنیا کے ظاہری لذات اور زیبائیوں کے فریب میں آکر گمراہ کیا تھا لہذا قاعدہ لطف کا تقاضا یہی ہے کہ خدا نے جب بندوں کو با مقصد خلق کیا ہے اور اس کی خلقت کے پیچھے عظیم مقصد پوشیدہ ہیں تو اس کو گمراہی سے نجات دے کر خدا سے نزدیک کرنے کا ذریعہ فراہم کرے اسی بناء پر انبیاء کو مبعوث کیا تاکہ لوگوں کو دنیا کے مذموم عزائم سے نجات دیں۔ امیرالمؤمنین امام علیؑ فرماتے ہیں: خدا نے انبیاء کو مبعوث کیا تاکہ مثالوں کے ذریعے دنیا کے عیوب اور مضرات کو سمجھائیں۔
« …..و لیضربوا لهم امثالها و لیبصّروهم عیوبها….» [7] خداوند متعال نے بھی قرآن مجید میں لوگوں کے ہدایت اور ان کو تفکر کی طرف دعوت دینے کے لئے مختلف مثالیں دی ہے۔
چنانچہ ایک جگہ فرماتا ہے:
« إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكلُُ النَّاسُ وَ الْأَنْعَامُ حَتىَّ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّيَّنَتْ وَ ظَنَّ أَهْلُهَا أَنهَُّمْ قَدِرُونَ عَلَيهَْا أَتَئهَا أَمْرُنَا لَيْلاً أَوْ نهََارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ كَذَالِكَ نُفَصِّلُ الاَْيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُون» [8]
ترجمہ: دنیاوی زندگی کی مثال یقیناً اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہو گئیں جن میں سے انسان اور جانور سب کھاتے ہیں پھر جب زمین سبزے سے خوش نما اور آراستہ ہو گئی اور زمین کے مالک یہ خیال کرنے لگے کہ اب وہ اس پر قابو پا چکے ہیں تو (ناگہاں) رات کے وقت یا دن کے وقت اس پر ہمارا حکم آ پڑا تو ہم نے اسے کاٹ کر ایسا صاف کر ڈالا کہ گویا کل وہاں کچھ بھی موجود نہ تھا، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے ہم اپنی نشانیاں اس طرح کھول کر بیان کرتے ہیں۔ پس انبیاء علیہم السلام لوگوں کو ان جیسی مثالوں کے ذریعے راہ حق کی طرف بلانے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ [9]
3- بندوں پر اتمام حجت
بعثت انبیاء کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لوگ مبعوث ہوئے ہیں تاکہ دلیل اور براہین کے ذریعہ لوگوں پر اتمام حجت کریں کیونکہ خداوند متعال نے ان کی ہدایت کے بارے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
«فَبَعَثَ فِیهِمْ رُسُلَهُ وَوَاتَرَ إِلَیهِمْ أَنْبِیَائَهُ….وَیَحْتَجُّوا عَلَیهِم بِالتَّبْلِیغِ» [10] ترجمہ: پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے، انبیاء کا تسلسل قائم کیا ….اور تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں. حجت کا معنی غلبہ ہے یعنی جب کوئی مطلب حق کہ جس کا ابلاغ ضروری ہو وہ لوگوں تک پہنچایا جائے ظاہری بات ہے کہ مقام مخاصمہ اور ثواب و عقاب میں خدا ہی لوگوں پر غالب ہے لیکن یہ بات اگر لوگوں تک نہ پہنچائے تو لوگ خدا کے اوپر حجت رکھتے ہیں اور کہیں گے کہ خدایا تو نے مطالب حق کو ہم تک نہیں پہنچایا تھا۔ [11]
انبیاء علیہم السلام عقلی استدلال کے ذریعہ لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہیں اور آسمانی تعلیمات اور فرامین الہی کو ان تک پہنچا دیتے ہیں۔ [12]
دوسری جگہ آپؑ فرماتے ہیں:
«بَعَثَ الله رُسُلهُ بِمَا خَصَّهُمْ بهِ مِنْ وَحْیِهِ وَ جَعَلهُمْ حُجَّةً لهُ عَلَی خَلْقِهِ لِئَلَّا تَجِبَ الْحُجَّة لَهُمْ بِتَرْکِ الْإِعْذَارِ إِلَیهِمْ فَدَعَاهُم بِلِسَانِ الصِّدْقِ إِلَی سَبِیلِ الْحَقِّ» [13]
ترجمہ: پروردگار نے مرسلین کرام کو مخصوص وحی سے نوازکر بھیجا ہے اور انہیں اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا ہے تاکہ بندوں کی یہ حجت تمام نہ ہونے پائے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے پس پروردگار نے ان لوگوں کو اسی لسان صدق کے ذریعہ راہ حق کی طرف دعوت دی ہے۔ امام علیؑ نے یہ بات قرآن کریم کی اس آیت کی بنیاد پر ارشاد فرمائی ہے کہ جس میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:
«رُّسُلًا مُّبَشرِِّينَ وَ مُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلىَ اللَّهِ حُجَّةُ بَعْدَ الرُّسُلِ وَ كاَنَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا» [14] ترجمہ: (یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔
لسان صدق سے مراد زبان دین ہے جوکہ رسالت کے فروغ میں گویا اور نور حق سے منوّر ہے و سبیل حق سے مراد وہ راستہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان خدا تک پہنچتا ہے اور یہ راہ ایسی راہ ہے کہ جس کی راہنمائی کے لئے تمام پیامبران اور اولیاء الہی یک زبان ہیں۔ [15]
امیرطالمؤمنین امام علیؑ کے کلام کی یہ عبارت ایک ایسے اہم نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ جس کی طرف قرآن مجید نے بار بار اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ خداوند جب تک کسی پیامبر کو نازل نہیں کرتا اور اوامر اور نواہی کو وحی کے ذریعہ نازل نہیں کرتا تب تک خلاف کاروں کو مجازات نہیں کرتا ہے۔
«وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتىَ نَبْعَثَ رَسُولًا وَ إِذَا أَرَدْنَا أَن نهُّْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُترَْفِيهَا فَفَسَقُواْ فِيهَا فَحَقَّ عَلَيهَْا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا» [16] ترجمہ: اور جب تک ہم کسی رسول کو مبعوث نہ کریں عذاب دینے والے نہیں ہیں۔ اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر عذاب کرنے کا فیصلہ حتمی ہو جاتا ہے۔ پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔ یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکم عقل کی اسقلالیت کو قبول کرنے کے ساتھ جب انسان کی عقل کسی بھی چیز کے حسن اور قبح کو درک کرتی ہے (جیسے عدالت اچھی چیز ہے اور ظلم بری چیز) تو انسان پر اتمام حجت ہوتی ہے، اور یہاں تک کہ بعثت انبیاء کے بغیر بھی مستحق ثواب و عقاب ہوں گے لیکن یہ بات اس مطلب کے ساتھ جو اس خطبے میں اور قرآن کی متعدد آیات میں آئی ہے، سازگار نہیں ہے؟
اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ درست ہے کہ از نظر عقل مستقلات عقلیہ میں انسان پاداش اور کیفر کے مستحق ہیں لیکن خداوند متعال کا ارادہ بعنوان لطف اس بات پر واقع ہوا ہے کہ جب تک مستقلات عقل واجبات اور محرمات کے ساتھ جو کہ وحی کے ذریعے سے نازل ہوئے ہیں۔ تأیید نہ ہو جائے اپنے بندوں کو سخت اور فراگیر عذاب کے ذریعے مجازات نہیں کرتا ہے۔ [17] امام علیؑ خلقت زمین کے بارے میں تفصیلات بیان کرنے ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہے کہ جب جناب آدمؑ نے اس ممنوعہ شے سے استفادہ کیا تو پروردگار نے انہیں توبہ کے بعد روئے زمین پر بھیجا تاکہ اپنی نسل سے دنیا کو آباد کریں اور آگے فرماتے ہیں:
«وَ لِیُقِیمَ الْحُجّة بِهِ عَلَی عِبَادِہِ وَ لَمْ یُخْلِهمْ بَعْدَ أَنْ قَبَضَهُ مِمَّا یُؤَکِّدُ عَلَیهِمْ حُجة رُبُوبِیَّته وَ یَصِلُ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَعْرِفَتِهِ بَلْ تَعَاهَدَهُم بِالْحُجَجِ عَلَی أَلْسُنِ الْخِیَرَةِ مِنْ أَنْبِیَائهِ وَ مُتَحَمِّلِی وَدَائِعِ رِسَالَاتِهِ قَرْناً فَقَرْناًحَتَّی تَمَّتْ بِنَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ ص حُجَّتُهُ وَ بَلَغَ الْمَقْطَعَ عُذْرُہُ وَ نُذُرُہ…» [18] ترجمہ: اور ان کے ذریعہ سے اللہ کے بندوں پر حجت قائم کرے پھران کو اٹھا لینے کے بعد بھی زمین کو ان چیزوں سے خالی نہیں رکھا جن کے ذریعہ ربوبیت کی دلیلوں کی تأیید کرے اور جنھیں بندوں کی معرفت کا وسیلہ بنائے بلکہ ہمیشہ منتخب انبیاء کرام اور رسالت کے امانت داروں کی زبانوں سے حجت کے پہنچانے کی نگرانی کرتا رہا اور یوں ہی صدیاں گزرتی رہیں یہاں تک کہ ہمارے پیغمبرحضرت محمد ﷺ کے ذریعہ اس کی حجت تمام ہو گئی اور اتمام حجت اور تخویف عذاب کا سلسلہ نقطہ آخرتک پہنچ گیا۔
اس فراز کے اندر نہ فقط قصّہ آدم کی طرف اشارہ ہوا بلکہ آدم سے لے کر خاتم تک انبیاء کے مقصد بعثت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان حضرات کا مقصدبعثت اتمام حجت تھا۔
ایک سؤال: آدمؑ کے بعد کے انبیاء کے بارے میں یہ کہنا درست ہے کہ ان کا مقصد بعثت اتمام حجت ہے کیونکہ ان کے مبعوث بہ رسالت ہوتے وقت لوگ دنیا میں زندگی بسر کر رہے تھے لیکن حضرت آدمؑ کےمخاطب کون لوگ ہیں کہ جن پر اتمام حجت کی جائے؟
جواب: وہ لوگ کہ جن پرحضرت آدم حجت قرار پائے ہیں یا تو ان کی اولاد اور فرزندان ہیں کہ یہ لوگ حضرت آدمؑ کے دور میں زندگی کرتے تھیں کہ بہت ساری روایات ہیں کہ آپؑ کے چالیس فرزند تھے جب آپ دنیا سے گئے۔ یا تو وہ لوگ ہیں جن کو حضرت آدمؑ کے وفات کے بعد ان کی شریعت اور سنّتیں پہنچیں ہیں کیونکہ خداوند متعال کچھ احکام کو مانند مردار، خون، سور کا گوشت ان سب کی حرمت کا حکم حضرت آدمؑ پر نازل ہوا تھا اور یہ دستور حروف معجم کے ساتھ اکیس ورقوں پر مشتمل تھے اور یہ دنیا کی اولین کتاب تھی۔ اور خداوند متعال نے تمام زبانوں کو انہی حروف کے مبناء کے مطابق نازل کیا ہے۔[19] جب انبیاء کا مقصد بعثت اتمام حجت ہے تو سؤال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس چیز کے ذریعہ یہ لوگ اتمام حجت کریں گے؟ اسی حقیقت کی طرف امیرالمؤمنین علیؑ خطبہ اوّل میں اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
«وَ لَمْ یُخْلِ الله سُبْحَانهُ خَلْقهُ مِنْ نَبِیٍّ مُرْسَلٍ أَوْ کِتَابٍ مُنْزَلٍ أَوْ حُجَّةٍ لَازِمةٍأَوْ مَحَجَّةٍ قَائِمَةٍ» [20]
ترجمہ: اس نے (پروردگار) کبھی اپنی مخلوقات کو نبی مرسل یا کتاب منزل یا حجت لازم یا طریق واضح سے خالی نہیں رکھا۔
حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی دامت برکاتہ اس فراز کی شرح میں فرماتے ہیں: حقیقت میں اس عبارت کے اندر ایسے چار موضوعات کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ ہمیشہ ان میں سے کوئی ایک لوگوں کے درمیان موجود ہوتا ہے اور اسی کے ذریعہ اتمام حجت ہوتی ہے۔ وہ چار موضوع یہ ہیں:
1- پیامبران الہی: ان میں کوئی فرق نہیں کتاب آسمانی ساتھ ہو یا نہ ہو کیونکہ پیامبر کا وجود ہی ہدایت اور بیداری کا باعث ہوتا ہے۔
2- آسمانی کتابیں: وہ آسمانی کتابیں جو لوگوں کے درمیان موجود ہیں اگرچہ اس کتاب کا لانے والا دنیا میں موجود نہیں۔
3- اوصیا اور امام معصومؑ: کہ جو حجت لازمہ سے تعبیر ہوئے ہے۔ البتہ بعض نے حجت لازمہ سے مراد دلیل عقلی کو لیا ہے لیکن چونکہ دلیل عقلی تنہا ہدایت کے لئے کافی نہیں لہذا یہ احتمال بعید ہے۔ اور کوئی مانع نہیں کہ دونوں مطلب اسی عبارت میں جمع ہوں۔ [21]
4- پیامبران و امامان اور اوصیاء الہی کی سنتیں: کہ «محجّةً قائمةً» سے تعبیر ہوا ہے محجّةً کا معنی لغت میں واضح طریق اور سیدھا راستہ ہے، وہ راستہ جو انسان کو مقصود تک پہنچا دیتی ہے۔ اسی حساب سے خدا نے ہر زمانے میں اور ہر قرن میں تمام اقوام اور امتوں پر اپنی حجت تمام کی اور ہدایت کے اسباب کو فراہم کرنے میں کوئی دریغ نہیں کی ہے۔
4- لوگوں سے فطرت کی امانت کو واپس لینا
خداوند متعال نے ازل سے ہی لوگوں سے معرفت خداوندی کے علاوہ نبوت پیامبر (ص) یہاں تک کہ آئمہ (ع) کی امامت کے اقرار کا عہد و پیمان لیا ہوا ہے اور انبیاء کو مبعوث کیا تاکہ ان کے ذریعہ لوگوں سے اس عہد و پیمان پر عمل طلب کریں اور عملی میدان میں یہ دیکھا جائے کہ کون اس عہد پر عمل کرتا ہے اور کون عمل نہیں کرتا ہے۔ علیؑ فرماتے ہیں:
«فَبَعَثَ فِیهِم رُسُلَهُ…..لِیَسْتَأْدُوهُم مِیثَاقَ فِطْرَتِهِ» [22] پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے….تاکہ وہ ان سے فطرت کی امانت کو واپس لیں۔
استئداء باب استفعال سے ہے اس کا معنی ادا کرنے کو طلب کرنا ہے یعنی پیامبر ان لوگوں سے طلب کرتے ہیں کہ وہ چیز جو ان کی فطرت درک کرتی ہے اور سمجھتی ہے اس کو انجام دیں۔ حقیقت میں خداوند متعال نے انسان کے جسم کی اس عمارت کو اس طرح قرار دیا ہے کہ اگر اس کی فطرت منحرف نہ ہو جائے تو راہ حق بھی پیدا کر لیتا ہے اور بغیر کسی چون و چرا خدا کی اطاعت کرتا ہے۔ [23]
خداوند متعال نے توحیدی معارف کو انسان کی سرشت میں قرار دیا ہے اور ہر وہ انسان جس کی پاک فطرت کے ساتھ تربیت ہو اور غلط معلومات اس کو منحرف نہ کریں اور مشرک ماں باپ اس کی روح کو آلودہ نہ کریں تو طبیعی طور پر یکتا پرست ہو جائے گا اور اسی پاک و توحیدی فطرت کے سایہ میں اچھائیوں اور حق و عدالت کے پابند ہو جائے گا پیامبران آتے ہیں تا اینکہ منحرف انسانوں کو توحیدی فطرت کی طرف واپس لے آئے۔ [24]
درحقیقت امامؑ کا یہ جملہ اشارہ ہے قرآن کی اس آیت کی طرف کہ جس میں خداوند متعال فرماتا ہے:
«وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَني آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ أَشْهَدَهُمْ عَلى أَنْفُسِهِمْ أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى شَهِدْنا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هذا غافِلين» [25] ترجمہ: اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر پوچھا تھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، (یہ اس لیے ہوا تھا کہ) قیامت کے دن تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔
پس بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ خدا پر ایمان لائیں اور شرک اختیار نہ کریں لیکن شیطان نے انہیں گمراہ کیا اور ہدایت کے اس راہ سے انسان کو ہٹا دیا بعد از اینکہ انسان نے معرفت خداوندی حاصل کی تھی اور اس کا اقرار اور اعتراف بھی کر لیا تھا اور انسان نے خدا کے لئے اپنے خیالات اور تصورات کے مطابق شبیہ قرار دیا اور شیطان نے ان کو معرفت حقیقی اور ایمان صحیح سے منصرف کیا اور خداکے غیر کی، مثل بت اور اصنام کی عبادت کی اور انسان کو اس کی ہوا و ہوس کی پیروی کرائی گئی۔ اور یہ انسان گمراہی کی اس حد تک پہنچ گئے کہ گائے اور اس سے بھی پست چیزوں کی عبادت کرنے لگے اس قسم کی ضلالت اور گمراہیاں سبب بنی کی خداوند متعال نے پیامبران کو مبعوث کیا تاکہ یہ حضرات لوگوں کو اپنی فطرت حقیقی کے طرف بلائے اور ان کو اس عہد و پیمان ازلی کی یاد دہانی کرائی جائے۔ [26]
5- فراموش کرده نعمتوں کو یاد دلانا
خدا نے بنی نوع انسان کو بے پناہ اور بے نہایت نعمات سے نوازا ہے اور ہر قسم کے نعمات مادی اور معنوی سے مالا مال کیا ہے لیکن یہ انسان اپنی گمراہی کے سبب ان نعمات کو فراموش کر دیتے ہیں لہذا خدا نے انبیاء کو بھیجا تاکہ انسان کو ان بھولی ہوئی نعمات کو یاد دلائے۔« وَ یُذَکِّرُوهُم مَنْسِیَّ نِعْمَتِهِ» [27]
چونکہ انسان کے وجود کے اندر بہت ساری مادی اور معنوی نعمات ہیں کہ اگر ان سے بہ خوبی استفادہ کرے تو اسی پر سعادت کی منزل کی بنیاد رکھ سکتا ہے لیکن ان نعمات کی فراموشی سبب بنتی ہے کہ یہ نعمات انسان کے ہاتھ سے نکل جائے بلکل اس باغبان کی طرح جو نہ موجود پانی سے باغ کی آبیاری کرتا ہے اور نہ اس باغ کے درختوں کے میوہ جات کو اپنے وقت پر توڑت اہے، جب کوئی آ جائے اور ان بھولی ہوئی نعمات کی یاد دلائے تو اس نے اس کے حق میں بہت بڑی خدمت کی ہے اور انبیاءؑ بالکل اسی کے مانند ہیں۔[28] در حقیقت فطرت کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہم خود کچھ بھی نہیں ہیں اور کوئی اور ذات ہمیں وجود میں لائی ہے اور ہماری تربیت کرتی ہے اور وہ ذات ایسی قادر و حکیم ذات ہے کہ جس نے ہمیں خلق کیا ہے اور ہمارے وجود کو باقی رکھنا بھی اسی ذات پر منحصر ہے اور یہ نعمت اصل خلقت کو بھی شامل ہے اور رزق و روزی اور مخلوقات کی تربیت کو بھی شامل ہے۔[29]
قرآن مجید میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متعدد آیات آئی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ انبیاء اپنے اپنے دور میں اپنی امت کو ان نعمات کی طرف متوجہ اور یاد دہانی کراتے ہے ان میں سے پہلی آیت جناب ہود (ع) کے متعلق ہے جس کہ جس میں خداوند متعال فرماتا ہے:
«وَ اذْكُرُواْ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَ زَادَكُمْ فىِ الْخَلْقِ بَصْطَةً فَاذْكُرُواْ ءَالَاءَ اللَّهِ لَعَلَّكمُْ تُفْلِحُونَ»[30] ترجمہ: اور یاد کرو جب قوم نوح کے بعد اس نے تمہیں جانشین بنایا اور تمہاری جسمانی ساخت میں وسعت دی (تنو مند کیا)، پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو، شاید تم فلاح پاؤ۔
دوسری آیت جناب صالح کے بارے میں ہے کہ خداوند فرماتا ہے:
«واْ إِذْ جَعَلَكمُْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ وَ بَوَّأَكُمْ فىِ الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَ تَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا فَاذْكُرُواْ ءَالَاءَ اللَّهِ وَ لَا تَعْثَوْاْ فىِ الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ». [31]
ترجمہ: اور یاد کرو جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں جانشین بنایا اور تمہیں زمین میں آباد کیا، تم میدانوں میں محلات تعمیر کرتے ہو اور پہاڑ کو تراش کر مکانات بناتے ہو، پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔
تیسری آیت جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے بارے میں ہے ارشاد ہوتا ہے:
«وَ اذْكُروَ إِذْ قَالَ مُوسىَ لِقَوْمِهِ يَقَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَ جَعَلَكُم مُّلُوكاً وَ آتَئكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِين» [32]
ترجمہ: اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھو جو اس نے تمہیں عنایت کی ہے، اس نے تم میں انبیاء پیدا کیے،تمہیں بادشاہ بنا دیا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو اس نے عالمین میں کسی کو نہیں دیا۔
چوتھی آیت ہمارے آخری نبی حضرت محمد(ص) کے بارے میں ہے کہ خداوندفرماتا ہے:
«يَابَنىِ إِسْرَ ءِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتىَِ الَّتىِ أَنْعَمْتُ عَلَيْكمُْ وَ أَوْفُواْ بِعَهْدِى أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَ إِيَّاىَ فَارْهَبُونِ ، وَ ءَامِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُونُواْ أَوَّلَ كاَفِرِ بِهِ وَ لَا تَشْترَُواْ بَِايَاتىِ ثَمَنًا قَلِيلًا وَ إِيَّاىَ فَاتَّقُونِ ، وَ لَا تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُواْ الْحَقَّ وَ أَنتُمْ تَعْلَمُونَ» [33] ترجمہ: اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا ہے اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور تم لوگ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔ اور میری نازل کردہ اس کتاب پر ایمان لاؤ جو تمہار ے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر مت بنو اور میری آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو اور صرف میرے (غضب) سے بچنے کی فکر کرو۔ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ۔[34]
جب قرآن مجید کی ان آیات اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے اس گوہر بار کلام کو باہم ملا کر نتیجہ لیا جائے تو یہ مطلب ہمارے سامنے آتا ہے کہ انبیاء مبعوث ہوئے تاکہ لوگوں کو خدا کی عطا کردہ ان نعمات کی یاد دہانی کرائیں جن کو یہ لوگ فراموش کرچکے ہیں۔
6- عقل کے دفینوں کو آشکار کرنا
انسان کی عقل ایک ایسی شئی ہے کہ جس میں علم و دانش کے دفینے موجود ہیں اور عقل بڑی استعداد اور توانائی کی مالک ہے لیکن انسان خود اس چیز سے غافل ہے اور خود انسان کے بس سے باہر بھی ہے کہ کسی ہادی اور مرشد کے بغیر اس استعداد کو بروے کار لائے اس لئے خدا نے انبیاء کو مبعوث کیا تاکہ لوگوں کی راہنمائی کریں اور انکی عقل کی استعداد کو آشکار کریں۔ علیؑ فرماتے ہیں:
«وَ یُثِیرُوا لَهُم دَفَائِنَ الْعُقُول» [35] خدانے رسولوں کو بھیجا تاکہ ان کی عقل کے دفینوں کو اجاگر کریں۔ انبیاء تشریف لائے تاکہ لوگوں کی عقول متحرک کریں اور لوگوں سے کہیں کہ زمیں اور آسمان کی خلقت میں تفکر کرو اور اپنے اپنے نفسوں کے متعلق سوچو اور خدا کی مخلوقات اور اس کی ترکیبات اور ان کی خلقت میں دقت اور ظرافت کے بارے میں فکر کرؤ اور ہمیشہ دوسروں کی تقلید نہ کرو چونکہ انسان یہ استعداد رکھتا ہے کہ وہ درک کرئے کہ ہر معلول کے لئے ایک علت ہوتی ہے اور ایک حادثہ کے پس منظر میں اس کو وجود میں لانے والا کوئی ہوتا ہے اور ہر سبب کے لئے مسبب ہوا کرتا ہے۔ یہ چیزیں قانون عقل ہیں اور انسان کی عقل بخوبی درک کرتی ہے ۔خدا نے فطرت انسان کو عطا کی ہے تاکہ وہ اس جہان کے خالق کے وجود پر استدلال کرے۔ پس انبیاء نہیں آئے ہیں کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ اپنی عقل اور ذہنوں کو بروے کار نہ لائیں اور خاموشی سے ہماری پیروی کریں بلکہ انبیاء انسانوں سے کہتے رہے کہ «إِنمََّا يَتَذَكَّرُ أُوْلُواْ الْأَلْبَاب»[36] نصیحت تو بس عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔ اور انبیاء نے لوگوں سے کہا «من لا عقل له لا دین له» ہر وه شخص جس کے لئے عقل نہ ہو اس کے لئے دین بھی نہیں۔ [37]
پروردگار نے بہت ہی عظیم اور قیمتی گنجینوں کو انسان کی عقل میں رکھ دیا ہے کہ اگر یہ گنجینے کشف ہو جائیں علم و دانش اور معارف کے بڑے بڑے دروازے کھل جائیں گے لیکن غفلت اور غلط تعلیمات اور گناہ و اخلاقی آلودگیاں ان علوم پر پردہ ڈالے ہوئی ہیں پیامبران ان پردوں کو ہٹا دیتے ہیں اور ان عظیم گنجینوں کو آشکار کرتے ہیں۔[38] پس شرع و عقل ہمیشہ ساتھ ہے اور شرع میں کوئی ایسا حکم وجود نہیں رکھتا هے جو واقعاً عقل و فطرت کے ساتھ مخالف ہو البتہ ممکن ہے مصلحت اور حکمت کی بناء پر عقل و فطرت بعض حکم کو اہمیت نہ دے۔ اسی بنا پر انبیاء کی تمام گفتار کی بنیاد بلکہ تمام علوم کی بنیاد وہی دفینے ہے جو انسان کی عقل میں ہیں انبیاء کا کام بلکہ تمام علوم بشری کا کام انہی معارف و دفینوں کی تشریح ہے۔ پس تمام بنیادی حقائق و معارف دینی و یا علمی و دنیوی انسان کی عقل میں پوشیدہ ہیں لہذا انسان کسی بھی بات یا مطلب کو قبول کرنے کے لئے ایسی دلیل مانگتا ہے جو اس کی عقل کو قانع کرسکے، اور جب دلیل قانع کنندہ ہو تو اس وقت قبول کرتا ہے۔[39]
7- قدرت الہی کی نشانیوں کو دکھانا
انسان اس وقت کسی کی قدر و قیمت کو جانتا ہے اور اس کی بات ماننے کے لئے آمادہ ہوتا ہے کہ جب کوئی آ کر اس کی خدمات اور اوصاف کو بیان کرے بلکل اسی طرح خداند متعال نے بھی انبیاء کو بھیجا اس لئے کہ لوگوں کے سامنے اس کی قدرت کی نشانیوں کو بیان کریں اور اس کی قدرت بے مثال کا تعارف کرائیں تاکہ لوگ اس ذات کے متعلق صحیح معرفت حاصل کریں «وَ یُرُوهُم آیَاتِ الْمَقْدِرَۃ» [41] خدا نے رسولوں کو بھیجا تاکہ انہیں قدرت الہی کی نشانیاں دکھلائیں۔ اسی جملہ کی شرح کرتے ہوئے علی علیہ السلام قدرت الہی کے کچھ نمونے بیان فرماتے ہے:
«مِنْ سَقْفٍ فَوْ قهمْ مَرْفُوعٍ وَ مِهَادٍ تَحْتَهُم مَوْضُوعٍ وَمَعَایِشَ تُحْیِیهِم وَآجَالٍ تُفْنِیهِم وَأَوْصَابٍ تُهرِمُهُم وَأَحْدَاثٍ تَتَتَابَعُ تَتَابَعُ عَلَیهِم» [42]
ترجمہ: یہ سروں پر بلند ترین چھت، یہ زیر قدم گہوارہ، یہ زندگی کے اسباب، یہ فنا کرنے والی اجل، یہ بوڑھا بنا دینے والے امراض، اور یہ ہے در پیش آنے والے حادثات۔
حقیقت میں یہ امور کچھ ایسے امور ہیں جو مرکب ہیں مختلف عوامل کے ساتھ مانند آسمان و زمیں کی خلقت کا راز، زندگی کے اسباب اور وسائل اور درد و رنج اور فنا کے عوامل، ان میں سے ہر ایک عامل باعث بن سکتا ہے انسان خدا کو یاد کرے اور اسی طرح مختلف حوادث جو کہ انسان کے لئے عبرت اور ہوشیاری کا باعث ہیں۔ اسی حساب سے پیامبران انسان کو تعلیمات کے کچھ ایسے مجموعے فراہم کرتے ہیں کہ جن میں سے ہر ایک مجموعہ انسان کی معرفت کی سطح کو اوپر لے آتا ہے یا اس کی آگاہی اور بیداری میں اضافہ کرتا ہے یا اس کو غفلت کی نیند سے بیدار کرتا ہے۔[43] چونکہ انبیاء لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی اور ان کی پوشیدہ استعداد کو اجاگر کرنے کے لئے آئے ہیں اور انسانوں کی راہنمائی اور ارشاد کے لئے دلائل اور براہین اور مناسب فضا ضروری ہے اور ان دلائل اور براہین کو امامؑ نے اپنے اس کلام میں بیان فرمایا ہے اور بہت بڑی دلیل جو انسان کو برے کام سے روک لیتی ہے اور خدائے متعال کی طرف متوجہ کرتی ہے وہ موت کی یاد اور خدا کی طرف رجوع کرنا ہے۔ لہذا پیامبر گرامی اسلام (ص) نے فرمایا: اس چیز کو جو لذات کو نابود کرتی ہے زیادہ کرؤ اور اسی طرح وہ بیماریاں جو انسان کو بوڑھا کر دیتی ہے اور وہ مصیبتیں جو پے درپے انسان پر عارض ہوتی ہے، یہ سب کے سب ایسی دلیلیں ہیں جن کے ذریعہ انبیاء لوگوں پر استدلال کرتے ہیں تاکہ ان کی توجہ اس بات کی طرف کرائی جائے کہ یہ مصیبتیں ایسی ذات کے طرف سے ایک انتباه ہے جو قدرت مند اور احاطے کا مالک ہے۔
قرآن کریم بھی انہی آیات اور نشانیوں کے طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
«وَجَعَلْنَا السَّمَاءَسَقْفًامحَّْفُوظًا وَهُمْ عَنْ ءَايَاتهَِا مُعْرِضُون» [44]
ترجمہ: اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا اور اس کے باوجود وہ اس کی نشانیوں سے منہ موڑتے ہیں۔
نیز ارشاد ہوتا ہے:
«إِنَّ فىِ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتىِ تجَْرِى فىِ الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتهَِا وَ بَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَ تَصْرِيفِ الرِّيَحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ لاََيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُون» [45] ترجمہ: یقیناً آسمان اور زمین کی خلقت میں، رات اور دن کے آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کے لیے مفید چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمانوں سے برسایا، پھر اس پانی سے زمین کو مردہ ہونے کے بعد (دوبارہ) زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانداروں کو پھیلایا، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں عقل سے کام لینے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
ایک آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
«وَ السَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَهِدُونَ وَمِن كُلِّ شىَْءٍ خَلَقْنَازَوْجَينِْ لَعَلَّكمُْ تَذَكَّرُون». [46] ترجمہ: اور آسمان کو ہم نے اپنی قوت سے بنایا اور ہم ہی وسعت دینے والے ہیں، اور زمین کو ہم نے فرش بنایا اور ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں، اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ [47]
نتیجہ
امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام کے گہربار کلام کی روشنی میں یہ مطلب ہمارے سامنے آتا ہے کہ خداوند متعال نے انسانوں کے درمیان صاحبان رسالت کو مبعوث کیا اور اپنے پیامبروں کو پے درپے ایک کے بعد دوسرے کو بھیجا تاکہ:
1- انسان سے اس عہد و پیمان پر عمل طلب کریں جو خدا نے ازل سے ہی لوگوں سے (اس کی معرفت کے علاوہ نبوت پیامبر ﷺ یہاں تک کہ آئمہ (ع) کی امامت کا) اقرار لیا ہوا ہے۔
2- لوگوں کے درمیان سے جہالت اور نادانی کو دور کریں۔
3- لوگوں کو دنیا کے فریب اور نقصانات سے آگاہ کریں۔
4- مختلف اور متعدد دلیلوں کے ذریعے بندوں پر اتمام حجت کریں۔
5- انسان کی اپنی خطاؤں اور شطان کی فریب کاریوں کی وجہ سے بھولی ہوئی نعمات پروردگار کو یاد دلائیں۔
6- انسان کی عقل کے دفینوں کو آشکار کرکے ان کو بار آور بنائیں۔
7- لوگوں کو قدرت الہی کی نشانیوں کو بیان کرنے کے ذریعے خدا کے بنسبت ان کی معرفت کے مقام کو بلند کریں۔
یہ اہداف جو امام علی (ع) نے بیان کئے ہیں قرآن مجید نے بھی جیسا کہ بعض موارد کو ذکر کیا انہیں اہداف کی طرف صراحت سے اشارہ کیا ہے اور علی (ع) کے کلمات اور ان کی پوری زندگی گویا وہی اہداف بعثت جو قرآن نے بیان کی ہے انہی کے توضیح اور تطبیق کرتی ہے۔ انسانوں کے سرگذشت کو اگر دقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی رسالت فائدہ مند نہیں مگر یہ کہ انہیں موارد کے (جو کہ ذکر ہوا) مصداق اور شاخیں نہ ہوں۔
حوالہ جات
[1] ابوالقاسم حسین بن محمدبن فضل بن معروف بہ راغب اصفہانی، ترجمہ و تحقیق مفردات الفاظ قرآن ، ج/١، ص/٢٨٧،مترجم:خسروی حسینی، غلامرضا، مشخصات نشر : تہران: مرتضوی، چاپ دوم: ؛١٣٧٤[2] ایضاً ج/٤، ص/٢٨٢ ، ٢٨٣، ٢٨٤
[3] خطبہ/١٨٣
[4] الانعام/130
[5] میثم بن علی بن میثم بحرانی مترجم: قربان علی محمدی مقدم-علی اصغرنوایی یحیی زادہ، ترجمہ شرح نہج البلاغہ(ابن میثم)، ج/ 3٫، ص/ 723،ناشر: بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی سال چاپ: ١٣٧٥،نوبت چاپ: او ل
[6] خطبہ/١٨٣
[7] خطبہ/١٨٣
[8] یونس /٢٤
[9] میثم بن علی بن میثم بحرانی مترجم: قربان علی محمدی مقدم-علی اصغرنوایی یحیی زادہ ترجمہ شرح نہج البلاغہ (ابن میثم)، ج/ 3٫، ص/ 723 و عزالدین ابو حامد ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ (ابن ابی الحدید)ج ١٠ ،ص/١١٤، ناشر: کتابخانہ عمومی آیۃاللہ مرعشی نجفی سال چاپ:1337، نوبت چاپ: اول، مکان: قم
[10] خطبه/١
[11] منتظری ، حسین علی ، درسهای ازنهج البلاغه ، ج/1، ص/440 ، سی دی آثار معظم له
[12] ناصر مکارم شیرازی و ہمکاران، پیام اما م شرح تازہ و جامعی برنہج البلاغہ ،ج/١، ص/٢١٦، ناشر: دارالکتب الاسلامیۃ تہران سال چاپ: ١٣٨٤ نوبت چاپ:سوم
[13] خطبه/١٤٤
[14] النساء/١٦٥
[15] میثم بن علی بن میثم بحرانی مترجم: قربان علی محمدیمقدم-علی اصغرنوایی یحیی زادہ ترجمہ شرح نہج البلاغہ(ابن میثم)، ج/ ٣٫، ص/ ٣٤٦
[16] الاسراء/١٥،١٦
[17] ناصر مکارم شیرازی وہمکاران،پیام اما م شرح تازہ وجامعی برنہج البلاغہ ،ج/٥، ص/٦٠٦، ٦٠٧، ناشر: دارالکتب الاسلامیۃ، سال چاپ: ١٣٨٥ ،نوبت چاپ:دوم.
[18] خطبه/٩١ معروف به خطبه اشباح
[19] میثم بن علی بن میثم بحرانی مترجم: قربان علی محمدی مقدم-علی اصغرنوایی یحیی زادہ ،ترجمہ شر ح نہج البلاغہ (ابن میثم)، ج /٢، ص/ ٧٩٥
[20] خطبہ/١
[21] ناصر مکارم شیرازی وہمکاران،پیام اما م شرح تازہ وجامعی برنہج البلاغہ ،ج/١، ص/٢١٧،٢١٨
[22] خطبہ/١
[23] منتظری،حسین علی، درسہایی از نہج البلاغہ، ج/١،ص/٤٣٩، درس /٢٥،سی ڈی آثارمعظم لہ
[24] ناصر مکارم شیرازی وہمکاران،پیام اما م شرح تازہ وجامعی برنہج البلاغہ ،ج/١، ص/٢١٥
[25] الاعراف/١٧٢
[26] سید عباس علی موسوی ، شرح نہج البلاغۃ، ج/١، ص/٤٣،ناشر:دارالرسول الاکرم،دارالمحجۃ البیضاء، سال چاپ: 1376 نوبت چاپ: اول مکان: بیروت)
[27] خطبہ/١
[28] ناصر مکارم شیرازی و ہمکاران،پیام اما م شرح تازہ وجامعی برنہج البلاغہ ،ج/١، ص/٢١٦
[29] منتظری،حسین علی، درسہایی از نہج البلاغہ، ج/١،ص/٤٣٩، درس /٢٥،سی ڈی آثارمعظم لہ
[30] الاعراف/69
[31] ایضاً /74
[32] مائده /20
[33] بقره/40،41،42
[34] شوشتری ، محمد تقی ،بہج الصباغۃفی شرح نہج البلاغۃ، ج /٢،ص/٣٦،ناشر: موسسہ انتشارات امیرکبیر، سال چاپ: ١٣٧٦، نوبت چاپ: اول مکان: تہران
[35] خطبہ/١
[36] الرعد/١٩
[37] سید عباس علی موسو ی ، شرح نہج البلاغۃ،ج/١، ص/٤٣
[38] ناصر مکارم شیرازی وہمکاران،پیام اما م شرح تازہ وجامعی برنہج البلاغہ ،ج/١، ص/٢١٦
[39] منتظری،حسین علی، درسہایی از نہج البلاغہ، ج/١،ص/٤٤١، درس /٢٥،سی ڈی آثارمعظم لہ
[40] خطبہ/١
[41] ایضاً
[42] ناصر مکارم شیرازی وہمکاران،پیام اما م شرح تازہ و جامعی برنہج البلاغہ ،ج/١، ص/٢١٧
[43] انبیاء/٣٢
[44] بقرہ/١٦٤
[45] الذاریات/47،48،49
[46] میثم بن علی بن میثم بحرانی مترجم: قربان علی محمدی مقدم-علی اصغرنوایی یحیی زادہ ،ترجمہ شرح نہج البلاغہ (ابن میثم)، ج /١، ص/٤١٢
[47] جعفری، محمد تقی ترجمہ وتفسیرنہج البلاغہ، ج /٢، ص/ ١٨٧،٨٨١،١٨٩، ناشر:دفترنشرفرہنگ اسلامی ،سال چاپ: ١٣٧٥، نوبت چاپ: ششم ،مکان: تہران
منابع و مآخذ
[1] قرآن مجید، ترجمہ: شیخ محسن علی نجفی[2] نهج البلاغه(ترجمه فارسی)، مترجم: آقای دشتی،محمد، ناشر: انتشارات وجدانی، نوبت چاپ : بهار 85
[3] نهج البلاغه(ترجمه اردو)مترجم:جوادی ،علامه سیدذیشان حیدر، ناشر: انصاریان پبلیکیشنز قم، طبع اول 1999-1420.
[4] ابو القاسم حسین بن محمدبن فضل بن معروف بہ راغب اصفہانی، ترجمہ و تحقیق مفردات الفاظ قرآن ، ج/١ ،٤ مترجم: خسروی حسینی، غلامرضا، مشخصات نشر : تہران: مرتضوی، چاپ دوم: ؛١٣٧٤
[5] میثم بن علی بن میثم بحرانی مترجم:قربان علی محمدی مقدم-علی اصغرنوایی یحیی زادہ، ترجمہ شرح نہج البلاغہ(ابن میثم)، ج/ 3 ناشر: بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی سال چاپ: ١٣٧٥،نوبت چاپ: او ل
[6] عزالدین ابو حامد ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ (ابن ابی الحدید)ج ١٠ ،ص/١١٤، ناشر:کتابخانہ عمومی آیۃاللہ مرعشی نجفی سال چاپ:1337،نوبت چاپ: اول ،مکان: قم
[7] منتظری ، حسین علی ، درسهای ازنهج البلاغه ، ج/1، سی دی آثار معظم له
[8] ناصر مکارم شیرازی وہمکاران،پیام اما م شرح تازہ وجامعی برنہج البلاغہ ،ج/١، ناشر: دارالکتب الاسلامیۃتہران سال چاپ: ١٣٨٤ نوبت چاپ:سوم
[9] ناصر مکارم شیرازی وہمکاران،پیام اما م شرح تازہ وجامعی برنہج البلاغہ ،ج/٥، ص/٦٠٦، ٦٠٧، ناشر: دارالکتب الاسلامیۃ، سال چاپ: ١٣٨٥ ،نوبت چاپ:دوم.
[10] میثم بن علی بن میثم بحرانی ، مترجم: قربان علی محمدی مقدم ، ترجمہ شر ح نہج البلاغہ(ابن میثم)، ج /٢، ناشر: بنياد پژوهشهاى اسلامىآستانقدسرضوىسال چاپ: 1375 نوبت چاپ: اولمكان: مشهد
[11] سید عباس علی موسو ی ، شرح نہج البلاغۃ، ناشر:دارالرسول الاکرم، سال چاپ: 1376 نوبت چاپ: اول ، بیروت
[12] شوشتری ، محمد تقی ،بہج الصباغۃفی شرح نہج البلاغۃ، ج /٢، ناشر: موسسہ انتشارات امیرکبیر، سال چاپ:١٣٧٦، نوبت چاپ: اول مکان: تہران
[13] جعفری، محمد تقی ترجمہ وتفسیرنہج البلاغہ، ج /٢، ص/ ١٨٧،٨٨١،١٨٩، ناشر:دفترنشرفرہنگ اسلامی، سال چاپ: ١٣٧٥، نوبت چاپ: ششم ،مکان: تہران




