
منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ
میں ذمہ دار ہوں اپنے سخن اپنی حکایت کا
میں پھر ضامن ہوں اس کی ہر صداقت اور صحت کا
جسے عبرت نے پچھلوں کی سزاوں کو دکھایا ہے
اسے شبہات میں گرنے سے تقوی روک لیتا ہے
وہ دور ابتلا و آزمائش پھر پلٹ آیا
کہ جو اس وقت تھا جب رب نے پیغمبر کو بھیجا تھا
قسم اس رب کی حق کے ساتھ جس نے آپ کو بھیجا
کئے جاؤگے بیحد سختی سے تم سب تہ و بالا
اور اس انداز سے باقاعدہ تم چھانے جاؤگے
کہ چیزوں کو کسی چھلنی سے جیسے چھانا جاتا ہے
کئے جاؤگے تم مخلوط اس انداز سے گویا
ہلائی جاتی ہے جس طرح سے چمچے سے اک ہنڈیا
یہاں تک کہ جو ادنی ہیں وہ سب ہو جائیں گے اعلی
جو اعلی ہیں وہ سب ہو جائیں گے اپنی جگہ ادنی
جو پیچھے رہ گئے تھے بڑھ کے وہ آجائیں گے آگے
سدا جو آگے رہتے تھے چلے جائیں گے وہ پیچھے
قسم رب کی نہ میں نے کوئی بھی کلمہ چھپایا ہے
نہ ہی میں نے کسی موقع پہ کذب اور جھوٹ بولا ہے
مجھے پہلے ہی اس منزل کی٫ مستقبل کے اس دن کی
خبر دے دی گئی تھی جانتا تھا باتیں یہ ساری
خطائیں دیکھو ایسے سرکش و مغرور ہیں مرکب
کہ جن پر بیٹھنے والے بٹھائے جا چکے ہیں سب
اتاری جا چکی ہوں ان کی خاطر جن کی سب باگیں
کہ لے جاکر انہیں قعر جہنم میں وہ گر جائیں
مگر تقوی سنو ایسا مطیع و رام ہے مرکب
کہ جس پر بیٹھنے والے بٹھائے جا چکے ہیں سب
اور ان کی باگیں بھی دیدی گئی ہیں ان کے ہاتھوں میں
کہ لے جاکر انہیں آرام سے جنت میں پہنچادیں
جہاں میں حق بھی ہے ارباب حق بھی پائے جاتے ہیں
یہاں باطل بھی ہے ارباب باطل بھی بہت سے ہیں
اگر باطل زیادہ ہو کہ جیسے ہوتا آیا ہے
اور حق بالفرض کم ہو جیسے اکثر یہ بھی گذرا ہے
تو ممکن ہے کہ اس کے بعد وہ باطل پہ چھا جائے
بہت کم ہوکے بھی کثرت پہ اس کی غالب آجائے
اگر چہ کم ہی ہوتا ہے کہ پیچھے ہٹ کے کوئی شئے
دوبارہ آگے آجائے وہ اس رستے کو کرلے طئے
(اسی خطبہ کا ایک حصہ)
وہ جس کی نظروں میں جنت کا اور دوزخ کا نقشہ ہو
تو اٹھ سکتی نہیں اس کی نظر غیروں پہ اے لوگو
جو قدموں کو بڑھاتا ہے اسی کو کامیابی ہے
جو دھیما چلتا ہے امیدوار خلد وہ بھی ہے
مگر جو جان کر کوتاہی کرنے والا ہوتا ہے
جھنم میں وہ گرتا ہے وہ جنت اپنی کھوتا ہے
وہ دایاں ہو کہ بایاں راستہ ہر ایک ٹیڑھا ہے
مگر جو درمیانہ ہے وہی بس سیدھا رستہ ہے
اسی رستہ پہ مالک کی کتاب دائمی بھی ہے
اسی رستہ پہ آثار نبوت کی نمی بھی ہے
شریعت بھی اسی اک راستہ سے جاری ہوتی ہے
اسی رستہ کی جانب بازگشت آخری بھی ہے
غلط جو ادعا کرتا ہے وہ برباد ہوتا ہے
جو تہمت باندھتا ہے وہ سدا ناشاد ہوتا ہے
جو حق کے آڑے آتا ہے جو حق کی زد میں آتا ہے
تباہی اس کی ہوتی ہے ہلاکت میں وہ پڑتا ہے
اور انساں کی جہالت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی؟
کہ اپنی ذات کے عرفان سے ہے اس کو لاعلمی
ہو جس کی اصل تقوی پر تو وہ باسی نہیں ہوتی
یہ ہو تو قوموں کی کھیتی کبھی پیاسی نہیں ہوتی
تم اپنے گھر کے گوشوں میں رہو باہر نہ نکلو تم
اور اپنے آپسی جھگڑوں کی بھی اصلاح کرلو تم
جو حامد ہے بہر صورت وہ حمد رب بجا لائے
ملامت کرنے والا نفس ہی کو خاطی ٹھہرائے
ختم شد





