مقالات

بعثت پیامبر اکرم کی غرض و غایت نہج البلاغہ کی نظر میں

اللہ سبحانہ‘ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کے بندوں کو محکم و واضح قرآن کے ذریعہ سے بتوں کی پرستش سے کدا کی پرستش کی طرف اور شیطان کی اطاعت سے اللہ کی اطاعت کی طرف نکال لے جائیں۔ تاکہ بندے اپنے پروردگار سے جاہل و بے خبر رہنے کے بعد اسے جان لیں، ہٹ دھر می ا ور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں۔

 اللہ اُن کے سامنے بغیر اس کے کہ اُسے دیکھا ہو، قدرت کی (ان نشانیوں) کی وجہ سے جلوہ طراز ہے، کہ جو اُس نے اپنی کتاب میں دکھائی ہیں اور اپنی سطوت و شوکت کی (قہرمانیوں سے) نمایاں ہے کہ جن سے ڈرایا ہے اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جنہیں اُسے مٹانا تھا، انہیں کس طرح اس نے اپنی عقوبتوں سے مٹا دیا اور جنہیں تہس نہس کرنا تھا انہیں کیونکر اپنے عذابوں سے تہس نہس کر دیا۔

 میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والاہے جس میں حق بہت پوشیدہ اور باطل بہت نمایاں ہوگا اور اللہ و رسولؐ پر افترا پروازی کا زورہوگا۔ اس زمانہ والوں کے نزدیک قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہ ہوگی جبکہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسے پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں ہوگی۔ اس وقت جبکہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے اور نہ (ان کے) شہروں میں نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی ہوگی۔ چنانچہ قرآن کا بار اٹھانے والے اسے پھینک کر الگ کریں گے اور حفظ کرنے والے اس کی (تعلیم) بھلابیٹھیں گے اور قرآن اور قرآن والے (اہلبیت) بے گھر اور بے در ہوں گے اور ایک ہی راہ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے۔ انہیں کوئی پناہ دینے والانہ ہوگا۔ وہ (بظاہر) لوگوں میں ہوں گے مگر ان سے الگ تھلگ۔ ان کے ساتھ ہوں گےمگر بے تعلق ۔اس لیے کہ گمراہی ہدایت سے سازگار نہیں ہوسکتی اگرچہ وہ یک جاہوں۔

لوگوں نے تفرقہ پردازی پر تو اتفاق کرلیا ہے اور جماعت سے کٹ گئے ہیں۔ گویا کہ وہ کتاب کے پیشوا ہیں کتاب ان کی پیشوانہیں۔ ان کے پاس تو صرف قران کا نام رہ گیا ہے اور صرف اس کے خطوط و نقوش کو پہچان سکتے ہیں۔ اس آنے والے دور سے پہلے وہ نیک بندوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچا چکے ہوں گے اور اللہ کے متعلق ان کی سچی باتوں کا نام بھی بہتان رکھ دیا ہوگا اور نیکیوں کے بدلہ میں انہیں بری سزائیں دی ہوں گی۔

تم سے پہلے لوگوں کی تباہی کا سبب یہ ہے کہ وہ امیدوں کے دامن پھیلاتے رہے اور موت کو نظروں سے اوجھل سمجھا کیے- یہاں تک کہ جب وعدہ کی ہوئی (موت) آگئی تو ان کی معذرت کو ٹھکرا دیا گیا اور توبہ اٹھا لی گئی اور مصیبت و بلااُن پر ٹوٹ پڑی۔

اے لوگو! جو اللہ سے نصیحت چاہے اسے ہی توفیق نصیب ہوتی ہے اور جو اس کے ارشادات کو رہنما بنائے وہ سیدھے راستہ پر ہولیتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ کی ہمسائیگی میں رہنے والاامن و سلامتی میں ہے اور اس کا دشمن خوف و ہراس میں۔ جو اللہ کی عظمت و جلالت کو پہچان لے اسے کسی طرح زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی عظمت کی نمائش کرے چونکہ جو اس کی عظمت کو پہچان چکے ہیں ان کی رفعت و بلندی اسی میں ہے کہ اس کے آگے جھک جائیں اور جو اس کی قدرت کو جان چکے ہیںاُن کی سلامتی اسی میں ہے کہ اس کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیں۔ حق سے اس طرح بھڑک نہ اٹھو جس طرح صحیح و سالم خارش زدہ سے یا تندرست بیمار سے۔

 تم ہدایت کو اس وقت تک نہ پہچان سکو گے جب تک اس کے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور قرآن کے عہد و پیمان کے پابند نہ رہ سکو گے جب تک کہ اس کے توڑنے والے کو نہ جان لو اور اس سے وابستہ نہیں رہ سکتے جب تک اسے دور پھینکنے والی کی شناخت نہ کرلو۔جو ہدایت والے ہیں انہی سے ہدایت طلب کرو، وہی علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں۔ وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا (دیا ہوا) ہر حکم ان کے علم کا اور ان کی خاموشی ان کی گویائی کا پتہ دے گی اور ان کا ظاہر ان کے باطن کا آئینہ دار ہے۔ وہ نہ دین کی مخالفت کرتے ہیں نہ اس کے بارے میں باہم اختلاف رکھتے ہیں۔ دین ان کے سامنے ایک سچا گواہ ہے اور ایک ایسا بے زبان ہے جو بول رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button