مقالات

امیرالمومنین علی (ع)کے درد و پیغامات(۲)

تحریر: محمد اشرف ملک malikashraf110@gmail.com
و نظم امرکم
امیرالمومنین حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اور جس اہم کام کی طرف متوجہ کرتے ہیں وہ اپنے امور میں نظم دینا اور ان کو منظم کرنا ہے۔ کائنات کی ہر شئ اللہ کے دئیے ہوئے اور بنائے ہوئے ایک نظام کے تحت منظم ہے جبکہ بہت سارے انسانوں کی زندگی غیر منطم ہوا کرتی ہے۔ غیر منطم زندگی میں جہاں پر وقت اور عمر کا اتلاف ہوتا ہے وہاں پر بہت سارا مادی اور معنوی سرمایہ بھی ضائع ہوتا ہے۔آج اسلامی ممالک کی اندر بی نظمی اور ناامنی کی کیفیت سب کے سامنے ہے۔ کوئی بلند مدت منصوبہ بندی نہیں ہوتی ، آراء اور پروگرام منتشر و پراکندہ ہوتے ہیں ،ملکر ایک نظم کے تحت زندگی گزارنے کےلئے کوئی حاضر ہی نہیں ہے۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اداروں کے اندر قوموں کی ترقی اور بلندی کی منازل طے کرنے کے لئے منظم منصوبہ بندی بہت کم ہوتی ہے۔دینی افراد اور مدارس کے مدرسین و پرنسپلز اس مہم ترین کام سے غافل ہیں۔ حقائق کو بیان کرنا آج اس زمانے میں انتہائی ضرورت ہے ،میری زندگی کا ایک طویل عرصہ جو اٹھارہ سال پر مشتمل ہے حوزہ علمیہ قم میں گزرا ہے اور کسی حد تک حوزہ علمیہ نجف کے حالات سے بھی آگاہی ہے ، اہلسنت جماعت کے بھی جامعات اور بڑی سطح کے مدارس سے اجمالی آگاہی ہے، ان تمام تعلیمی دینی اداروں میں بھی جس چیز کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی وہ امور میں نظم ہے۔ بیس، تیس سال افراد کی ان مدارس میں گزرتی ہے لیکن ان کےنہ اپنے امور میں نطم ہوتا ہے اور نہ یہ افراد اپنی قوموں میں کوئی نظم ایجاد کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی تنظیمیں بھی بناتے ہیں تو وہ تنظیمیں بھی بی نظمی کا شکار ہوتی ہیں۔ اس طرح کتنا سرمایا ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ کتنے افراد کی عمریں اور زندگیاں ضایع ہو جاتی ہیں۔ البتہ امیرالمومنین حضرت علی (ع)کی زندگی کے آخری لمحات کی وصیت پر جب امام خمینی عمل کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے تمام امور میں ایسا نظم دیتے ہیں کہ اپنے مطالعہ، قرآن مجید کی تلاوت، اللہ کی عبادت، شخصی زندگی کے امور، اجتماعی سیاسی اور ملکی امور ، سونے اور جاگنے کے معمولات حتی اپنی ورزش اور سیر کے اوقات کو ایسا منظم کرتے ہیں کہ لوگ ان کے منظم شدہ اوقات پر منظم شدہ کاموں کو دیکھ کر اپنی گھڑیوں کے اوقات درست کیا کرتے تھے۔ اسلام میں نماز کے اوقات، ماہ رمضان کے روزہ کے اوقات، حج کے معین دن اور پھر حج کے اعمال کے معین اوقات ا گر کئی اور اہداف و فوائد رکھتے ہیں تو ان میں سے ایک انسانی زندگی میں نظم پیدا کرنا ہے۔اگر انسانی زندگی میں نظم آجائے تو یہی انسان جو آج پریشان و حیران ہے اس کی زندگی میں اور قوموں کی زندگی میں انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔
و صلاح ذات بینکم
صلاح ذات ، بعض معاملات میں صرف اتحاد کی حد تک نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپس میں ہمدلی ایجاد ہو، دل میں ایک دوسرے کے بارے میں محبت ، ہمدردی اور خیرخواہی ایجاد ہو، ایک دوسرے کے بارے میں ذہن صاف ہوں۔ ایک دوسرے کی تکلیف و درد کو اپنی تکلیف و درد سمجھیں۔ امیرالمومنین، پیغمبراکرم (ص)کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ:
فَإِنِّی سَمِعْتُ جَدَّکُمَا یَقُولُ: صَلاَحُ ذَاتِ الْبَیْنِ أَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلاَةِ وَالصِّیَامِ
آنحضرت نے فرمایا آپس میں اصلاح کی کوشش نماز اور روزہ جیسی عبادت سے افضل ہے یعنی اگر ایک شخص لوگوں کے دل آپس میں قریب کرنے کی اور ان کے ذہنوں سے کدورت اور نفرتیں ختم کرتا ہے اور دوسرا شخص مستحب نمازیں اور مستحب روزے رکھتا ہے تو، جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کی کوشش کر رہا ہے اس کا ثواب مستحب نمازیں اور مستحب روزے رکھنے والے سے کئی گنا زیادہ ہے. یہ ایک ایسا کام ہے جس کی موجودہ دور میں اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آج ہر گھر کے اندر، میاں اور بیوی کے درمیان، اولاد اور والدین کے درمیان، بہن اور بھائیوں کے درمیان، ایک تنظیم و ایک ادارہ میں ہمدردی و محبت ختم ہوتی جا رہی ہے اور اس کا نقصان اتنا زیادہ ہے کہ جس کو تقریبا ۹۵ فیصد لوگ اپنی زندگیوں میں محسوس کر رہے ہیں۔ پریشانی، بی چینی، اختلافات اور دوریاں روز بروز اتنا بڑہتی جا رہی ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتیں، بعض لوگ دوسروں کی کردار کشی پر اترتے ہیں تو بعض تو اس حد تک انسانی حدوں کو عبور کر جاتے ہیں کہ مخالفین کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر صفحہ ہستی کے منصوبے بنا لیتے ہیں۔ مولا علی اس امر کی طرف متوجہ تھے اسی لئے اپنے اولاد کے ساتھ ساتھ ہر اس شخص کو بھی کہ جس تک مولا کا یہ پیغام پہنچے اپنی زندگی کے حساس ترین لمحات میں ان سب کو فرما رہے ہیں کہ لوگوں کے درمیان صلح و ہمدردی کی فضا ایجاد کریں۔
شہادت
آج شب ، شب قدر اور امیرالمومنین حضرت علی (ع)کی شہادت کی رات ہے، آج رات مولا امام حسن (ع)، مولا امام حسین (ع)کے کوفہ میں اور خصوصا حضرت زینب(ع) و ام کلثوم (ع)اور علی (ع)کی باقی اولاد کے یتیم ہونے کی رات ہے۔ آج رات سادات ، مومنین اور پوری امت مسلمہ کے یتیم ہونے کی رات ہے اس لئے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ میں اور علی اس امت کے باپ ہیں۔ اس رات کو جب مولا کی نازک حالت کو دیکھ کر امام حسن گریہ کرتے تو مولا ان کو تسلی دیتے اور امام حسن سے کہتے کہ ان کو تسلی دیں اور جب مولا امام حسین گریہ کرتے تو یہی امام حسن سے فرماتے، لیکن جب ایک دفعہ بی بی ذینب و کلثوم کاگریہ بلند ہوا تو مولا تحمل نہ کر سکے اور خود بھی گریہ کرنا شروع کر دیا۔ مولا آپ آج اپنے گھر میں زینب کا گریہ نہ سن سکے جب روز عاشور ہو گا اور تیری یہی ذینب ہو گی اس وقت کیا حال ہو گا۔
بارگاہ رب العزت میں دعا کرتے ہیں کہ پروردگارا بحق امیرالمومنین ہم سب کو آج رات ،واقعا شب قدر کو درک کرنے کی توفیق عطا فرما، پروردگارا ہم سب کو تقوی، اپنے امور میں نظم اور مومنین کے درمیان صلح و صفا برقرار کرنے کی توفیق عطا فرما۔میرے اللہ پریشان حال مومنین کی پریشانیوں کو مولا علی کے صدقہ ختم فرما اور ہم سب کو مولا کا حقیقی اور عملی شیعہ بننے کی ہمت عطا فرما، آمین ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button