
مقدمہ
تاریخ یعنی سر گذشت۔ فردی و اجتماعی سرگذشت، قومی و قبائلی سرگذشت ،تلخ و شیریں سرگذشت! ایک ایسی سرگذشت جس کا ہر پیچ و خم عصر حاضر کی نسلوں کو اپنی طرف دعوت دے رہا ہے کہ آؤ میرے سنہرے اوراق کی ورق گردانی کرو، مجھ میں غور و فکر کرو! میں تمہارے لئے مکنونات و مستورات کو ہویدا کر دوں گا جس کے ذریعہ تم باطل اور اس کی حیلہ گری سے واقف ہو جاؤ گے اور حق اور اس کے حسن و جمال سے آشنا۔
اب نہ تمہیں کوئی نا تجربہ کار کے لقب سے ملقب کرے گا، نہ ہی تمہارے استحصال کی کوشش کرے گا مگر میرا دامن عبرت اتنا وسیع ہے کہ تمہاری زندگی کے ہر موڑ پر اس طرح سایہ فگن رہے گا کہ ضلالت و گمراہی کی دھوپ تمہیں چھو بھی نہ پائے گی۔ اگر تم نے میرے دامن عبرت کا اپنے سروں پر شامیانہ بنا لیا تو استکباری نظام اور سامراجی طاقتیں تمہارے مقابل طفل مکتب نظر آئیں گی۔ ہدف حیات معین اور راہ ہدایت ہموار ہو جائے گی۔ میں تمہیں سعادت کی شاہراہ پر گامزن کر سکتی ہوں۔
تم مجھے اپنا استاد بنالو، میری باتوں کو دھیان سے سنو اور اس پر عمل پیرا ہوجاؤ جیسے جیسے تم میری گفتار پر عمل کرو گے ویسے ویسے اپنے کمال کی منزل سے نزدیک ہو تے جاؤ گے اور ایک واقعی اور حقیقی انسان بنتے جاؤ گے اور اگر تمہیں اس بات پر یقین نہ ہو تو قلب ختمی مرتبت ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب سے پوچھ لو! تم جب اس سے میری بات کی تصدیق چاہو گے تو وہ جواب دے گی: ہاں ہاں! تاریخ کا کہنا بالکل درست ہے وہ تمہارے کمال و تکامل میں دخالت رکھتی ہے اسی لئے تو میرے اندر ایک سوّم تاریخ پائی جاتی ہے۔ یہی نہیں ،خداوند منان نے میرے اندر ایسی آیتوں کو قرار دیا ہے جو مستقیم طور پر انسانوں کو حکم د ے رہی ہیں کہ تاریخ سے عبرت حاصل کرو، مثال کے طور پر قصہ حضرت یوسفؑ کے بیان کے بعد ارشاد ہوتا ہے: ولقد کا ن فی قصصہم عبرة لاولی الالباب (1) ”اور بتحقیق ان کے قصوں میں عقل مندوں کے لئے عبرت ہے“۔
اسی طرح سورۂ آل عمران میں جنگ بدر میں کفار کے کثیر لشکر کی شکست اور مسلمانوں کی قلیل تعداد کی فتح و ظفر کا تذکرہ کرنے کے بعد ارشادہوتا ہے: انّ فی ذٰلک لعبرة لاولی الابصار (2) ”اور اس میں صاحبان نظر کے واسطے سامان عبرت و نصیحت ہے”۔ سورۂ مومن میں حضرت موسیٰ اور فرعون کے تذکرہ کے بعد ارشاد رب العزت ہوتا ہے کہ (افلم یسیروافی الارض فینظروا کیف کان عاقبة الذین من قبلہم کانوا اکثر منھم و اشد قوة ًو آثاراً فی الارض فما اغنیٰ عنھم ما کانوا یکسبون) (3) ”کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے تاکہ دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا جو ان کے مقابلے میں اکثریت میں تھے اور زیادہ طاقت ور بھی تھے اور زمین میں آثار کے مالک بھی تھے لیکن جو کچھ بھی کمایا تھا کچھ کام نہ آیا اور مبتلائے عذاب ہو گئے“۔
اسی طرح دیگر مقامات پر بھی قرآن مجید انسانوں کو تاریخ میں غور و فکر اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ انسان اور قرآن کی باہمی گفتگو جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ سے عبرت ضرور حاصل کی جائے، لیکن یہ عبرت ہے کیا؟
عبرت کا معنی
عبرت حاصل کرنا یعنی ماضی کے تلخ و شیریں حوادث و واقعات کو مستقبل کا آئینہ قراردینا۔ عبرت حاصل کرنا یعنی ماضی کو مستقبل کے لئے مشعل راہ بنانا۔ عبرت حاصل کرنا یعنی ماضی کو ایک درس کے عنوان سے دیکھنا۔ عبرت حاصل کرنا یعنی ماضی کے مردہ واقعات کو عصر حاضر میں بھی زندہ سمجھنا۔ عربی لغت میں عبرت ”عبور“ سے اخذ کیا گیا ہے۔ جس کے معنیٰ ہیں ”کسی چیز سے گزرنا“ اسی لئے آنسو کو عربی میں ”عبرہ“ کہتے ہیں کیونکہ آنسو آنکھوں سے عبور کرتا ہے اور اسی مناسبت سے جو حوادث و واقعات انسان کے لئے با عث وعظ و نصیحت ہوں ان کو بھی ”عبرت“ کہتے ہیں۔ (4)
لہٰذا عبرت حاصل کرنا یعنی حال سے ماضی کی طرف سفر کرنا اور تحقیق و تحلیل کے بعد اس سے نصیحت لینا، بہ الفاظ دیگر تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان اپنا اور اپنے معاشرے اور سماج کا اس تاریخ سے موازنہ کرے تاکہ وہ خوبیوں اور برائیوں کو سمجھ سکے اور موجودہ مشکلات کے حل کے لئے چارہ اندیشی کرسکے۔
ہو جس تاریخ میں عبرت وہی تاریخ ہے مطلوب
نہ ہو تاریخ میں عبرت تو پھر تاریخ ہی کیا ہے
عبرت حضرت علی کی نظر میں
اقوال حضرت امیر میں ایسی نصیحتیں پائی جاتی ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان سعادت کی منزلوں پر فائز ہو سکتا ہے۔ انہی نصیحتوں کا ایک عنصر عبرت حاصل کرنا ہے جو آپ کے گراں بہا اقوال میں کثرت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے عبرت کے مختلف پہلؤوں پر روشنی ڈالی ہے جن کو ہم آئندہ سطور میں مختلف عناوین کے تحت ذکر کریں گے۔ ان میں سے بعض نورانی کلمات میں عبرت کے شیریں نتائج کی طرف اشارہ کیا ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ عبرت حاصل کرنے والے، حوادث تاریخ کو پیش نظر رکھ کر زندگی کی صحیح راہ کو انتخاب کر تے ہیں اور اس دام آفت و مصیبت سے محفوظ رہتے ہیں جس سے گذشتہ قومیں دوچار ہوئیں، آپ فرماتے ہیں:
الاعتبار منذر ناصح (5) ”عبرت سے خوف اور نصیحت حاصل ہوتی ہے“۔
الاعتبار یثمر العصمة (6) ”عبرت حاصل کرنا خطاؤں سے امان کا باعث ہے“۔
من کثر اعتبارہ قل عثارہ (7) ”جو شخص جتنا زیادہ عبرت حاصل کرے گا اس قدر ہی لغزشوں سے محفوظ رہے گا“۔
اب اس مقام پر نہج البلاغہ میں موجود حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں عبرت کے مختلف پہلؤوں کومختلف عناوین کے تحت پیش کیا جا رہا ہے ۔
تاریخ سے عبرت لینے کی وجہ
اگرچہ بعض لوگوں نے تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے (8) لیکن ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ اسلامی نقطہ نظر سے عبرت کافی اہمیت کی حامل ہے۔
حضرت امیر المومنینؑ حارث ہمدانی کے نام ایک مکتوب میں عبرت حاصل کرنے کی وجہ اور اس کے سبب کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”و اعتبربما مضیٰ من الدّنیا لما بقی منہا فانّ بعضھا یشبہ بعضاً وآخرھالاحق باوّلھا“ (9) ”دنیا کے ماضی سے اس کے مستقبل کے لئے عبرت حاصل کرو کیونکہ اس کا ایک حصہ دوسرے سے مشابہت رکھتا ہے اور آخر اوّل سے ملحق ہونے والا ہے“۔
اس گراں قدر جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ دنیا کے حوادث و واقعات ایک دوسرے سے کافی حد تک مشابہت رکھتے ہیں اور انسانی معاشرہ تاریخ دہراتا رہتا ہے لہٰذا اس سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت بالکل واضح و آشکار ہے۔ ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: ذمّتی بما اقول رہینة و انا بہ زعیم ۔ انّ من صرّحت لہ العبر عمّا بین یدیہ من المثلات حجزتہ التقوی عن تقحم الشبھات (10) ”میں اپنے قول کا خود ذمّہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوںکہ جس شخص پر گذشتہ اقوام کی سزاؤں نے عبرتوں کو واضح کر دیا ہو اسے تقویٰ شبہات میں وارد ہونے سے یقیناً روک دے گا“۔
حضرت امیرؑ اس کلام میں اپنی پوری ذمّہ داری و ضمانت کا اظہار کرتے ہوئے عبرت کے فوائد و آثارکو بیان فرما رہے ہیں اور آپ کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ عبرت حاصل کرنے کے فوائد میں سے ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کے اندر ایک طرح کا تقویٰ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ جب وہ ان گنہگار قوموں کی تاریخ و سر گذشت پر نظر ڈالے گا جنہوں نے خدا کے سامنے سرکشی اختیار کی اور پھر ان کے انجام کا مطالعہ کرے گا تو ظاہر ہے کہ اس کے قلب میں تقویٰ اور خشیت الہی کی کرن پھوٹ پڑے گی لیکن اگر اس کے بر عکس اس پر یہ تاریخ اثر انداز نہ ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غفلت کی تاریک نگری میں حیرت و سرگردانی کا شکار ہے۔
آباء و اجداد اور فانی دنیا سے عبرت
حضرت امیرؑ انسانوں کو اپنے آباء و اجداد کی سرگذشت کی طرف متوجہ ہونے کی سفارش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”او لیس لکم فی آثار الاوّلین مزدجر، و فی آبائکم الماضین تبصرة و معتبر، ان کنتم تعقلون ! او لم تروا الیٰ الماضین منکم لا یرجعون و الیٰ الخلف الباقین لا یبقون“ (11) ”اگر تم عقل سے کام لیتے تو کیا تمہارے لئے گذشتہ لوگوں کے آثار میں سامان تنبیہ نہیں ہے؟ کیا آباء و اجداد کی داستانوں میں بصیرت و عبرت نہیں ہے؟ کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ جانے والے پلٹ کر نہیں آتے، اور بعد میں آنے والے رہ نہیں پاتے؟
امامؑ کا یہ کلام اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ہم اور ہماری نسلوں میں آنے والے بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح ایک نہ ایک دن اس دنیا سے چلے جائیں گے۔ لہٰذا اس دنیا سے دل لگی اچھی بات نہیں، کیونکہ یہ ایک ایسی عروس زیبا کی مانند ہے جس نے کبھی کسی سے وفا نہ کی اور جو بھی اس کی زرق و برق کے دام مہلک میں گرفتار ہوا اسے ذلّت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔
دنیا ایک عارضی جگہ ہے جہاں ہم اعمال کے بیج بونے آئے ہیں تاکہ اس کی لہلہاتی ہوئی ہری بھری فصل سے آخرت میں بہرہ مند ہوں۔ اسی لئے حدیثِ شریف میں وارد ہوا ہے ”انّ الدّنیا مزرعة الآخرة“ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دنیا اور انسان کی مثال در حقیقت دریا اور کشتی کی مثال ہے یعنی جب تک کشتی دریا کے سینے پر سوار رہتی ہے اس وقت تک وہ صحیح و سالم اپنا سفر برقرار رکھتی ہے، لیکن جب دریا کا پانی کشتی میں داخل ہو جاتا ہے تو کشتی غرق ہو جاتی ہے۔ اسی طرح انسان جب اس دنیا کو اپنے قدموں تلے رکھتا ہے اور اسے اپنے اوپر مسلّط نہیں ہونے دیتا تو اس کی سعادت و نجات کا سفر جاری رہتا ہے لیکن جب یہی دنیا انسان کے اوپر مسلّط ہو جاتی ہے تو پھر انسان ضلالت و گمراہی کے گہرے سمندر میں غرق ہوتا نظر آتا ہے۔
اس فانی و فریبی دنیا سے دوری اختیار کرنے کی نصیحت اور گذشتگان کی پر پیچ و خم داستان بیان کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ”اعتبروا بما قد رایتم من مصارع القرون قبلکم قد تزایلت اوصالہم و زالت ابصارھم و اسماعھم ، وذھب شرفھم ، و عزھم وانقطع سرورھم و نعیمھم ، فبدّلوا بقرب الاولاد فقد ھا وبصحبةالازواج مفارقتھا لا یتفاخرون ، ولا یتناسلون ، ولا یتزاورون ، ولا یتحاورون“ (12) ”اور عبرت حاصل کرو ان مناظر کے ذریعہ جو تم نے خود دیکھ لئے ہیں کہ گذشتہ نسلیں ہلاک ہو گئیں، ان کے جوڑ بند الگ الگ ہو گئے، ان کی آنکھیں اور ان کے کان زائل ہو گئے، ان کی شرافت اور عزت چلی گئی، ان کی نعمت و مسرت کا خاتمہ ہو گیا، اولاد کا قرب فقدان میں تبدیل ہو گیا اور ازواج کی صحبت فراق میں بدل گئی، اب نہ باہمی مفاخرت رہ گئی اور نہ نسلوں کا سلسلہ، نہ ملاقاتیں رہ گئی ہیں نہ با ت چیت“۔
شیطان سے عبرت !!
عبرت کے مقامات میں سے ایک مقام ان باغی و سرکش افراد کی داستانیں ہیں جنہوں نے پروردگار عالم کے سامنے پرچم طغیان بلند کیا اور اس وحدہ لا شریک کے مقابلہ میں اپنا قد علم کرنے کی کوشش کی۔ جنہوں نے چراغ ہدایت سے منہ پھیر لیا اور تاریکی ضلالت کے پجاری بن بیٹھے جس کے نتیجہ میں انہیں اسی دنیا میں سزا و عقاب الٰہی میں گرفتار ہونا پڑا۔ ان طاغوتوں میں سر فہرست اس شیطان خبیث کا نام نظر آتا ہے جس نے ایک لمحہ میں اپنی ہزار ہا برس کی عبادت و بندگی پر پانی پھیر دیا۔ وہ بھی خدا کی وحدا نیت کا قائل تھا، وہ بھی معاد و قیامت پر ایمان رکھتا تھا، وہ بھی چھ ہزار سال خدا کی عبادت میں مشغول رہا تھا لیکن ان تمام فضیلتوں کے باوجود صرف ایک تکبر نے اسے رفعت عبودیت سے پستیٔ طغیان کی طرف دھکیل دیا؟
حضرت امیر المومنینؑ اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں : ”فاعتبروا بما کان من فعل اللہ بابلیس اذا احبط عملہ الطویل و جھدہ الجھید و کان قد عبد اللہ ستة آلاف ، سنة لا یدری امن سنّی الدّنیا ام من سنّی الآخرة عن کبر ساعة واحدة فمن ذا بعد ابلیس یسلم علی اللہ بمثل معصیتہ؟“ (13) تو اب تم سب پروردگار کے ابلیس کے ساتھ برتاؤ سے عبرت حاصل کرو کہ اس نے اس کے طویل عمل اور بے پناہ جد و جہد کو تباہ و برباد کر دیا جب کہ وہ چھ ہزار سال عبادت کر چکا تھا، جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہے کہ وہ دنیا کے سال تھے یا آخرت کے، مگر ایک ساعت کے تکبر نے سب کو ملیا میٹ کردیا تو اب اس کے بعد کون ایسی معصیت کرکے عذاب الٰہی سے محفوظ رہ سکتا ہے؟
سامراجیت کے انجام سے عبرت
گذشتہ عنوان کے تحت بیان ہوا کہ سر کش اور سامراجی طاقتوں کے انجام سے بھی عبرت حاصل کرنا اشد ضروری ہے اس لئے کہ کتنی ہی ایسی استکباری اور سامراجی طاقتیں تاریخ کے اوراق پر ثبت و ضبط ہیں جن کے برے انجام کو دیکھ کر ہر دور کے مستضعفین کے قلوب میں امید کی کرنیں پھوٹ پڑتی ہیں اور پاک و پاکیزہ کتاب قرآن مجید میں بھی مستضعفین سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ آخر کار زمین کے ورثہ دار وہی ہوں گے اور استکبار و سامراجیت قبر تاریخ میں دفن ہو کر رہ جائے گی ”و نرید ان نمّن علیٰ الذین استضعفوا فی الارض و نجعلہم ائمة و نجعلہم الوارثین“ (14) ”اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں“۔
استکباری اور سامراجی طاقتوں سے عبرت حاصل کرنے کے سلسلے میں مو لائے کائنات ارشاد فرماتے ہیں: ”فاعتبروا بما اصاب الامم المستکبرین من قبلکم من بأس اللہ و صولاتہ’ و وقائعہ و مثلاتہ’ واتعظوا بمثا وی خدودہم ، ومصارع جنوبھم ، و استعیذوا باللہ من لواقح الکبر، کما تستعیذونہ من طوارق الدھر“ (15) ”دیکھو تم سے پہلے استکبار کر نے والی قوموں پر جو خدا کا عذاب، حملہ، قہر اور عتاب نازل ہوا ہے اس سے عبرت حاصل کرو ، ان کے رخساروں کے بل لیٹنے اور پہلوؤں کے بل گرنے سے نصیحت حاصل کرو اور اللہ کی بارگاہ میں تکبر کی پیداوار منزلوں سے اس طرح پناہ مانگو جس طرح زمانے کے حوادث سے پناہ مانگتے ہو“۔
ایک مقام پر حضرت امیرؑ نے نمونہ کے طور پر بعض سرکش قوموں کے نام بھی بیان فرمائے ہیں ”وانّ لکم فی القرون السالفة لعبرة، این العمالقة و ابناء العمالقة! این الفراعنة و ابن الفراعنة! این اصحاب مدائن الرس الذین قتلوا النبیّین، واطفئوواسنن المرسلین، و احیوا سنن الجبّارین، این الذین ساروا بالجیوش و ھزموا بالالوف و عسکرو ا العساکر و مدّ نوا المدائن“ (16) ”کہاں ہیں (شام و حجاز) کے عمالقہ اور ان کی اولادیں؟ کہاں ہیں (مصر کے) فرعون اور ان کی اولاد؟ کہاں ہیں (آذر بائیجان کے) اصحاب الرس جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کو قتل کیا، مرسلین کی سنتوں کو خاموش کیا اور جباروں کی سنتوں کو زندہ کیا۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو لشکر لے کر بڑھے اور ہزار ہا ہزار کو شکست دے دی؟ لشکر کے لشکر تیار کئے اور شہروں کے شہر آباد کر دیے“۔
امام نے خطبہ کے اس طلائی جملوں میں ایسی مستکبر قوموں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے دین سے مقابلہ کیا جس کے نتیجہ میں خداوند عالم نے انہیں ہلاک کر دیا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ عصر حاضر کا انسان ان کھلی ہو ئی نشانیوں سے عبرت حاصل نہیں کرتا، وہ بھی انہی قوموں کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ اسے انبیاء نہیں ملتے تو وہ انبیاء کے پیروکاروں کی قتل و غارت گری میں مصروف ہے، دینی مقدسات کی توہین اس کا مشغلہ بن چکا ہے، سنتیں معاشرہ سے ختم کی جا رہی ہیں اور بدعتوں کو رواج بخشا جا رہا ہے، فرعونیت نے سر اٹھا رکھا ہے، اصحاب الرس کی سنتیں زندہ ہو چکی ہیں، قوم لوط کی سیرت اپنائی جا رہی ہے۔
لیکن کیا کوئی ہے جو سسکتی ہوئی انسانیت کے آنسوں کو خشک کر سکے؟ کوئی ہے جو نالۂ و شیون میں مبتلا انسانیت کی صدائے استغاثہ پر لبّیک کہہ سکے؟ کیا اس دنیا میں اب ایسا کوئی موجود نہیں جو غفلت کے شکار ان انسانوں کے خفتہ ضمیروں کو جھنجھوڑ سکے؟ کیا کوئی ہے جو صدائے علیؑ کو ان کے کانوں تک پہنچا سکے؟!!
کیوں یہ انسان عبرت حاصل نہیں کرتا؟ کیوں یہ انسان نصیحتوں پر عمل نہیں کرتا؟ ”کہاں ہیں سننے والے کان“۔
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا درد خود حضرت امیر المومنینؑ اپنے سینۂ اقدس میں لئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آپ فرماتے ہیں: ”ما اکثر العبر و اقل الاعتبار“ (17) ”عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور اس کے حاصل کرنے والے کتنے کم ہیں!“۔
حضرت علیؑ کی وصیت
عبرت حاصل کرنے کی اہمیت اور قدر و منزلت اس وقت بہتر طور پر معلوم ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں حضرت امیر المومنینؑ نے صفین سے واپسی کے موقع پر مقام ”حاضرین“ میں اپنے فرزند ارجمند حضرت امام حسن علیہ السلام کے نام ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا اور اس میں تاکید فرمائی: ”ای بنی ّانّی و ان لم اکن عمّرت عمر من کان قبلی فقد نظرت فی اعمالھم و فکّرت فی اخبارھم و سرت فی آثارھم حتّیٰ عدت کاحدھم بل کانّی بما انتھیٰ الیّ من امورھم قد امرت مع اوّلھم الیٰ آخرھم“ (18) ”اے میرے بیٹے! اگرچہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جیسی مجھ سے پہلے والوں کی ہوا کرتی تھی لیکن میں نے ان کے اعمال پر غور کیا ہے، ان کی باتوں میں فکر کی ہے اور ان کے آثار میں سیر و سیاحت کی ہے، اس طرح کہ گویا میں انہی میں سے ایک ہو گیا ہوں بلکہ ان کے بارے میں اپنی معلومات کی بنا پر اس طرح ہو گیا ہوں جیسے پہلے سے آخر تک میں ان کے ساتھ رہا ہوں“۔
اس گراں بہا وصیت نامہ کے مقدس جملوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عبرت حاصل کرنے اور گذشتگان کی تاریخ، ان کے آثار اور ان کی باتوں میں غور و فکر کے ذریعہ انسان اپنے اندر اتنے تجربوں کو سمو سکتا ہے کہ گویا وہ گذشتہ لوگوں کے ساتھ مختلف زمانوں میں رہا ہو۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ عبرت حاصل کرنے سے انسان کی عمر بڑھ جاتی ہے کیونکہ ممکن ہے انسان کی ظاہری عمر ساٹھ یا ستّر برس ہو لیکن جب وہ تاریخ سے عبرت حاصل کر لیتا ہے تو اس کی حقیقی عمر میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ جس قدر تاریخ سے عبرت حاصل کرتا ہے، اتنا ہی عمر میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی حقیقی عمر، ظاہری عمر کے بر خلاف ساٹھ ستّر ہزار سال ہو جاتی ہے، اس لئے کہ اب وہ اکیلا انسان نہیں رہ جاتا، بلکہ ہزاروں سال کی تاریخ اور اس میں موجود انسانوں کے تجربات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔
مسلماں لیتا گر عبرت …!!
کاش مسلمان تاریخ سے عبرت لیتا! کاش مسلمان قرآن کی عبرت آموز باتوں پر عمل پیرا ہو تا! کاش یہ مسلمان حضرت امیرؑ کی نصیحتوں پر کان دھرتا! کاش یہ مسلمان گوش شنوا رکھتا! تو عالم اسلام کی شان و شوکت نہ چھنتی، اسلامی عزّت و اقتدار پامال نہ ہوتا، آتش تفرقہ میں عالم اسلام نہ سلگتا، اندلس کی سینکڑوں سالہ اسلامی حکومت کا تختہ نہ الٹتا، مسلمان ظلم کا شکار نہ ہوتے، جہالت ان کا مقدّر نہ بنتی، پسماندگی ان کا نصیب نہ ہوتی، کوئی اسلامی مقدّسات کی توہین کی جرأت نہ کرتا، قرآن نہ جلائے جاتے، ہتک رسالت ﷺ نہ ہوتی، فلسطین کی عوام آزادی کے لئے نہ ترستی، عراق کی سر زمین پر لہو کے دریا نہ بہتے، امّت مسلمہ طاقت ور و سر بلند ہوتی، ملّت اسلامیہ سر بلند جیتی… اے کاش! اے کاش! یہ مسلمان عبرت لے لیتا…
حُسنِ ختام ”صبح قریب“
زمانہ ہو گیا دشمن کچھ ایسا تھا مرام اپنا
نہ بدلا پر قعود قہقرائی میں قیام اپنا
تجھے اے عزم راسخ، قلب محکم ہو سلام اپنا
نہ توڑا اندھیوں کے ڈر سے تو نے انسجام اپنا
ہزاروں آتشیں خاروں بھرے رستوں کو کاٹا ہے
مگر دشمن کے حربے ڈگمگا پائے نہ گام اپنا
مگر افسوس اس دور ستم پرور کے مسلم پر
کہ کھوتا جا رہا ہے دھیرے دھیرے احترام اپنا
تدین بھول بیٹھا ہے نہیں معلوم ہے اس کو
مباح و مستحب اپنا حلال اپنا حرام اپنا
مسلماں متحد ہوں گر قسم مولود کعبہ کی
دوبارہ ہوگا سب سے اعلیٰ و ارفع مقام اپنا
وہ رعب و دبدبہ اور شان و شوکت ہوگی دنیا میں
کہ U-N-Oم یں ہوگا حرف آخر ہر کلام اپنا
یہ اسرائیل و امریکا کو کہنا ہوگا بالآخر
چلو بھاگیں یہاں سے اب نہ پیڑ اپنا نہ آم اپنا
ألیس الصبح کی آیت نے عابد کو دیا مژدہ
کہ لکھا ہوگا ہر فتح و ظفر پر صرف نام اپنا
حوالہ جات
[1] سورہ یوسف 111[2] آل عمران 13
[3] غافر 82
[4] مجمع البحرین ،ج/ 2 ، ص/ 1156 ، تفسیر نمونہ ،ج/ 23، ص/ 491
[5] بحار الانوار ،ج/ 78، ص/ 92
[6] فہرست غرر، ص/ 229
[7] فہرست غرر، ص/ 231
[8] فلسفہ تاریخ شہید مطہری، ج/ 1 ،ص /13
[9] نہج البلا غہ ،مکتوب /69
[10] نہج البلا غہ، خطبہ / 16
[11] نہج البلا غہ ،خطبہ/99
[12] نہج البلا غہ ،خطبہ/161
[13] نہج البلا غہ، خطبہ/192
[14] سورہ قصص 5
[15] نہج البلا غہ ،خطبہ/192
[16] نہج البلا غہ، خطبہ/182
[17] نہج البلا غہ، حکمت/ 297
[18] نہج البلا غہ، مکتوب/ 31




