دروس

غصہ نہج البلاغہ کی نظر میں

غصہ

اَلْحِدَّةُ ضَرْبٌ مِنَ اَلْجُنُونِ لِأَنَّ صَاحِبَهَا يَنْدَمُ فَإِنْ لَمْ يَنْدَمْ فَجُنُونُهُ مُسْتَحْكِمٌ

(حکمت ۲۵۵)

ترجمہ: غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہےکیونکہ غصہ والا آدمی بعد میں پشیمان ضرور ہوتا ہے اور اگر پشیمان نہیں ہوتا تو اس کی دیوانگی پُختہ ہے۔

امام حقیقت میں وہ معالج ہے جو امراض بھی بتاتا ہے اور اس کا علاج بھی کرتا ہے۔ اس فرمان میں امامؑ نے غصہ کو جنون سے تعبیر فرما کر اس مرض کی شدت بتائی اور اس کی دلیل یہ دی کہ جیسے کوئی شخص دیوانگی میں کوئی عمل انجام دیتا ہے اور جب اس کو ہوش آتا ہے تو پریشان ہو جاتا ہے کہ میں نے کیا کیا۔

غصہ والا آدمی بھی اس وقت گویا اپنی عقل کو کھو بیٹھتا ہے اور اس حالت میں کچھ ایسے اقدام کرتا ہے کہ ممکن ہے پھر ساری زندگی ان کا جبران نہ کر سکے۔

امامؑ نے حارث ہمدانی کو جو وصیت ارشاد فرمائی ،اس میں فرمایا:

’’اور غصے سے ڈرو ،کیونکہ یہ شیطان کے لشکروں میں سے ایک بڑا لشکر ہے‘‘۔(وصیت۶۹)

امامؑ نے جنابِ عبد اللہ بن عباس کو نصیحت کے طور پر لکھا:

وَ إِيَّاكَ وَ الْغَضَبَ فَإِنَّهُ طَيْرَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ. (وصیت:۷۶)

’’غصہ سے پرہیز کرو کیونکہ یہ شیطان کے لئے نیک شگون ہے‘‘۔

امامؑ کے ان فرامین میں ایک بات واضح ہے کہ غصہ ور یا مجنون ہے یا شیطان کا سپاہی ہے اور ضروری ہے کہ انسان غصہ کی حالت میں کوئی فیصلہ نہ کرے اور اس کا علاج یہ ہے کہ غضبِ الہی پر نظر رکھے اور سوچے کہ میں کسی پر غضب ناک ہوں گا تو جو مجھ سے بڑا ہے وہ مجھ پر غضب ناک ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button