شمع زندگی

199۔ سخاوت

لَاتَسْتَحِ مِنْ اِعْطَاءِ الْقَلِيلِ فَاِنَّ الْحِرْمَانَ اَقَلُّ مِنْهُ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۶۷)
تھوڑا دینے سے شرماؤ نہیں کیونکہ خالی ہاتھوں پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے۔

سخاوت انسانی شرافت کی دلیل ہے۔ اس فرمان میں امیرالمومنینؑ نے بڑے لطیف و خوبصورت انداز میں سخاوت کی ترغیب دلائی ہے۔ بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ سائل سوال کرتا ہے اور انسان دینے کی خواہش کے باوجود گنجائش کی کمی کی وجہ سے اس سوال کو پورا نہیں کر سکتا اور کم دینے سے شرماتے ہوئے اسے کچھ نہیں دیتا۔ آپؑ نے فرمایا کہ بالکل کچھ نہ دینے سے بہتر ہے کہ جو دے سکتے ہیں خواہ کم ہی ہو،دے دیں۔ اس سے ایک تو دینے کی تمنا پوری ہو جائے گی، سائل کی مکمل نہیں تو کچھ مشکل تو حل ہو جائے گی آئندہ دینے کی ہمت بڑھے گی اور یوں سخاوت کی روح پرورش پائے گی۔ دوسرا یہ کہ جو اس کے بس میں تھا اس نے دے دیا، یوں اس کا دل مطمئن ہوگا اور جس مالک کی خوشنودی کے لیے دے رہا ہے اسے معلوم ہے کہ اس کے پاس کتنا ہے تو وہ بھی یقیناً اس دینے پر راضی ہوگا۔

ارسطو سے پوچھا گیا سخاوت کا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ ہر ایک کو دیا جا سکے تو کہا ہاں ہر ایک کے لئے اچھائی اور خیر کی نیت کرو یعنی اگر ہر ایک کو دے نہیں سکتے تو جسے دے سکتے ہو اسے دو اور جسے نہیں دے سکتے نیت کر لو کہ اگر دے سکا تو اسے دوں گا۔ امیرالمومنینؑ کے اس فرمان میں یہی سکھایا جا رہا ہے کہ جس حد تک دے سکتے ہو دے دو اس طرح آپ کی نیت کا اظہار ہو گیا کہ اگر سائل کے سوال کو پورا کر سکتا ہوتا تو ضرور کرتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button