شمع زندگی

312۔ کچھ ہی سہی

فَاعْلَمُوْا اَنَّ اَخْذَ الْقَلِيْلِ خَيْرٌ مِنْ تَرْكِ الْكَثِيْرِ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۲۸۹)
واضح رہے کہ تھوڑی سی چیز حاصل کر لینا پورے کو چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔

ایک حقیقی رہبر و راہنما اپنی پوری کوشش کرتا ہے کہ اپنے ماتحت افراد کو بھی راہ کمال تک پہنچائے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس فرمان میں سب سے پہلے بھائی کہ کر ان گیارہ اوصاف کے حامل کی تعریف بیان فرمائی۔ یعنی صاحب فضیلت کی تعریف کر کے دوسروں کو فضائل کے حصول کی تشویق کی۔ پھر گیارہ صفات بیان کیں اور انہیں اپنانے کی اور سیکھنے کی تاکید فرمائی مثلاً ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ وہ بھائی بولنے سے زیادہ سننے کا خواہش مند رہتا تھا۔ اس صفت میں واضح فرمایا کہ ہر صاحب فضیلت و سعادت سننے کی خواہش رکھتا تھا اس لیے کہ سننا سیکھنے کا بہترین ذریعہ ہے اس لیے جو سیکھنے کے طلب گار ہوتے ہیں وہ سننے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس دستور العمل کے آخر میں آپؑ فرماتے ہیں کہ ان فضائل و اوصاف کو حاصل کرو، ان پر عمل کرو، ان کے خواہشمند رہو اگر ان تمام کو حاصل کرنا تمہاری قدرت و طاقت میں نہیں تو اس بات کو جان لو کہ تھوڑی سی چیز حاصل کرنا پوری کو چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔ اس آخری حصے میں امیرالمؤمنینؑ نے خصوصیت کے ساتھ بتلائے ہوئے اوصاف کے حصول کی ہمت بندھائی ہے۔ تمام صفات کو اپنا نہیں سکتے تو کچھ کو تو اپنا لو، ایک وصف کو مکمل نہیں تو اپنی طاقت کے مطابق کچھ اختیار کرلو اور آخری جملے میں فرمایا کہ سب نہیں تو کچھ تو پا لو گے۔

اکثر لوگ کسی بڑے کام کو خواہ مادی ہو یا معنوی شروع کرنے سے ڈرتے اور گھبراتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ بڑا مشکل ہے نہیں ہو سکے گا۔ حقیقی معلم یہاں ہمت بندھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سب نہ ملا تو کچھ تو ملے گا اور کچھ مل جائے تو وہ سب کو چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔ اس ہمت کے بعد اگر کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خوف برطرف ہو جاتا ہے، مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں اور کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ اگر کوئی ڈر سے قدم ہی نہ اٹھائے تو کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button