مقالات

علّامہ مفتی جعفر حسینؒ کا نہج البلاغہ سے عشق

مولانا مقبول حسین علوی دام عزہ

عربی زبان کا اُردو میں ترجمہ اور وہ بھی امیرِ بیان علی علیہ السلام کے نہج البلاغہ جیسے کلام کو اُردو کے قالب میں ڈھالنا ایک نہایت ہی دُشوار کام ہے۔ علّامہ مفتی جعفر حسینؒ نے نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ کے ترجموں کے کام کو جس عرق ریزی سے نبھایا وہ آپ کے ان کتابوں اور صاحبانِ کلام سے عشق و محبت کی نشانی اور آپ کے علمی کمال کا ثبوت ہے ۔ آپ کے ان علمی کارناموں کو جو شہرت و مقبولیت نصیب ہوئی وہ آپ کے اخلاص و حُسنِ عمل کی واضح دلیل ہے۔

نہج البلاغہ کے ترجمہ کو جس عشق سے مفتی صاحبؒ نے مکمل کیا اُس کی گواہی بر صغیر کی عظیم علمی شخصیت علّامہ سید علی نقی نقن صاحب اعلی اللّٰہ مقامہ نے مفتی صاحبؒ کے تعزیت نامے میں تفصیل سے تحریر فرمایا۔ ہم مفتی صاحبؒ کی برسی کے موقع پر نقن صاحب کے تعزیت نامے کا وہ حصہ یہاں پیش کررہے ہیں۔ نقن صاحب لکھتے ہیں۔

ایک جوہر خاص ان کا یہ تھا کہ سوچنے سے زیادہ عمل کے قائل تھے چنانچہ انہوں نے چاہا کہ مجھ سے اپنا ترجمہ نہج البلاغہ کا بسیط مقدمہ لکھوائیں تو اگر وہ بذریعہ خطوط مجھ سے تحریک کرتے رہتے یا تو میں ایک مختصر مقدمہ لکھ کر ان کی فرمائش کی رسمی تعمیل کر دیتا جو انہیں منظور نہ تھا یا میں اس کا ارادہ رکھتے ہوئے وعدہ کر لیتا اس کی تکمیل بلا مبالغہ شاید برسوں میں ہوتی لہذا انہوں نے یہ راہ اختیار کی مجھ سے کہے یا لکھے بغیر ہندوستان پہنچ گئے چونکہ پاسپورٹ اور ویزا وغیرہ کی اتنی پابندیاں اس وقت عائد نہیں ہوئی تھی اور لکھنؤ پہنچ کر غالباً اپنے (مادر درس گاہ) مدرسہ ناظمیہ میں سامان رکھ کر سیدھے میرے مکان (واقع عبدالعزیز روڈ لکھنؤ) پر آگئے اور مجھ سے کہا کہ میں نے یہ سفر فقط آپ سے مقدمہ لکھوانے کے لیے کیا ہے اور وہ بس اس طرح ہو سکتا ہے کہ وقت مقرر کر دیجیے میں روز آؤں گا۔ آپ بولتے جائیے میں لکھتا جاؤں گا۔

چونکہ عرصہ سے میں اپنے ذہن میں اس موضوع پر ایک مقالہ لکھنے کے لیے مواد فراہم کیے ہوئے تھا۔ میں نے ان کی اس پیشکش کو اپنے مقصود کے حصول کے لیے نعمت غیر مترقبہ سمجھا اور فورا وقت مقرر کر دیا چنانچہ روز ایک گھنٹہ کے لیے وقت معین پر پہنچ جاتے تھے۔

میں بولتا جاتا تھا وہ لکھتے جاتے تھے۔ اس ذیل میں محولہ کتابوں اور مندرجہ شخصیات کے نام میں نے اپنے حافظے کی بنیاد پر لکھائے مگر ان کتابوں کی طرف رجوع کرکے ان کے صفحات کے تعین اور جن شخصیات کے نام آئے ہیں ان کے سالہائے وفات کا اندراج یہ تمام خود ان پر چھوڑے جنہیں میرے حسب دلخواہ انہوں نے انجام دیا۔ اس طرح اپنی قلمی کاوش سے میرا علمی ذہنی سرمایہ محفوظ کر دیا جو لوگوں کی نظر میں اتنی اہمیت کا حامل ثابت ہوا کہ اردو اور نیز انگریزی میں الگ بھی اور نہج البلاغہ کا ضمیمہ بنا کر بھی اس کے اتنے ایڈیشن شائع ہوئے جن کا شاید پورا علم بھی مجھ کو نہیں ہے۔

اب یہ واقعہ ایک لطیفہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ ایک صاحب نے لندن سے مجھے خط لکھ کر کسی بیان کی ہوئی ناقابل قبول حقائق سمجھتے ہوئے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا واقعی آپ نے اس مقدمے کو ”قلم برداشتہ“ لکھا تھا؟ میں نے جواب دیا جی نہیں میں نے اس کے لیے قلم اٹھانے کی زحمت برداشت نہیں کی۔ یہ جواب میرا ان کے لیے ضرور ایک لقمے کی حیثیت رکھتا ہوگا مگر؟ اس کی تحریر کی کیفیت میں نے لکھی ہے اس لحاظ سے جواب بالکل واقفیت پر مبنی ہے۔ اس کے ساتھ ان کا یہ کارنامہ بھی ان سے خاص تھا چونکہ اس زمانے میں میرے سفر پنجاب وغیرہ کی طرف سال میں کئی دفعہ ہوتے تھے ان سفروں میں اپنے سب کام چھوڑ کر میرے ساتھ ہو جاتے تھے اور تنہائی کے موقع کی تلاش کیے بغیر حاضرین کی موجودگی کو نظر انداز کرکے بلا تکلف وہ اپنا ترجمہ نہج البلاغہ کا جس کی تحریر میں وہ مصروف تھے مجھے سناتے تھے۔ اس طرح تقریباً پورے ترجمے کو اور بعض حواشی کو بھی جہاں ان کو ضرورت محسوس ہوئی مجھے سنایا۔
سید علی نقی 24 صفر 1404ھ

نقن صاحب کی اِس تحریر سے نہج البلاغہ سے مفتی صاحبؒ کا عشق اور صاحبِ نہج البلاغہ امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام کی زندگی کی سادگی کی جھلک واضح ہوتی ہے۔ خدا رحمت نازل کرے اِن پاک طینت ہستیوں پر۔

والسلام
مقبول حسین علوی
28 اگست 2025

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button