
منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ
(جب آپ کو مسلسل یہ اطلاعات ملیں کہ معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے شہروں پر قبضہ کرلیا ہے اور یمن کے دو عامل عبیداللہ ابن عباس اور سعید بن نمران بسر بن ارطات کی زیادتیوں سے گھبرا کر آپ کی خدمت میں آگئے تو آپ نے اپنے اصحاب کی کوتاہی جہاد سے بددل ہوکر یہ خطبہ ارشاد فرمایا)
یہ وہ کوفہ ہے بندوبست میرے ذمہ ہے جس کا
اے شہر کوفہ یوں ہی حال گر چلتا رہا تیرا
یوں ہی چلتی رہیں گر آندھیاں تجھ میں تو یہ ہوگا
کہ رب غارت کرے گا تجھ کو اور ہوگا برا تیرا
(پھر تمثیلا شاعر کا یہ شعر پڑھا)
اے عمرو تیرے اچھے باپ کی جاں کی قسم میں نے
ہے پائی تھوڑی سی چکنائی بس اس ظرف کی تہ سے
یمن تک آگیا ہے ” بُسر” ہے مجھ کو خبر اس کی
یقیں ہے چھین لیں گے سلطنت کو تم سے یہ جلدی
یہ باطل پر ہیں اپنے متحد اور اس پہ ہیں یکجا
مگر تم اپنے حق سے منتشر ہو اور پراکندہ
یہ باطل میں بھی اپنے پیشوا کی کرتے ہیں طاعت
تم اپنے پیشوا کی حق میں بھی کرتے ہو معصیت
یہ اپنے شہروں میں امن و اماں کا رکھتے ہیں دورہ
تم اپنے شہروں میں کرتے ہو برپا شورش و فتنہ
میں تم میں سے کسی کو لکڑی کا پیالہ بھی سونپوں گر
تو اس کا کنڈا لے کر بھاگ جانے کا رہے گا ڈر
خدایا ! ان سے میں تنگ آگیا ہوں اور یہ مجھ سے
لہذا ان کے بدلے میں مجھے کچھ لوگ دے اچھے
مجھے ان لوگوں سے اب اے مرے مالک اماں دیدے
مرے بدلے میں ان کو کوئی بدتر حکمراں دیدے
اور ان سب کے دلوں کو قہر سے اس طرح پگھلادے
نمک پانی میں مالک جس طرح سے گھولا جاتا ہے
قسم رب کی کہ میں یہ چاہتا ہوں ان کے بدلے میں
ہزار آل فراس ابن غنم کے فوجی مل جائیں
کہ جن کے بارے میں مشہور ہے جب بھی صدا دوگے
مدد کے واسطے آئیں گے آگے شہسوار ایسے
کہ جن کی تیز رفتاری بہ مثل ابرِ گرما ہے
پھر اس کے بعد منبر سے اتر آئے ”یہ لکھا ہے“
ختم شد





