نہج البلاغہ اور مصلح عالم حضرت امام مہدی علیہ السلام
مقالہ نگار: محمود حسین حیدری حوزہ علمیہ قم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمہید
نہج البلاغہ امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے خطابات، فرمودات اور مکتوبات کا مجموعہ ہے۔ جنہیں حضرت علامہ محمد بن الحسین موسوی معروف بہ ”رضی“ نے مرتب کیا اور ایک گرانقدر کتاب کی صورت دی۔ نہج البلاغہ آئینہ قرآن ہے کیونکہ اس کی تعلیمات قرآن ہی سے مأخوذ ہیں۔ یہ علوم و معارف کا وہ گران بہا سرمایہ ہے جس کی اہمیت و عظمت ہر دور میں مسلم رہی ہے اور ہر عہد کے علماء اور ادیبوں نے اس کی بلند پائیگی کا اعتراف کیا ہے۔ یہ صرف ادبی شاہکار ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کا الہامی صحیفہ، حکمت و اخلاق کا سر چشمہ اور معارف و ایمان اور تاریخی حقائق کا ایک انمول اور لازوال خزانہ ہے۔ افصح العرب کی آغوش میں پلنے والے نے بلاغت کلام کے وہ جوہر دکھائے کہ ہر طرف سے ”فوق کلام المخلوق، دون کلام الخالق“ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
نہج البلاغہ میں زیر بحث آنے والے موضوعات کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں سے ہر ایک موضوع، بحث و گفتگو کے لائق ہے، ان کا ایک حصہ مصلح عالم حضرت ”امام مہدی“ سے متعلق ہے اور یہی مقالہ حاضر کا عنوان ہے۔ اس موضوع کی تشریح و تفسیر اس مختصر مقالہ میں مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ لہذا موقع کی مناسبت اور ظرفیت کے مطابق چند عناوین کے تحت اس موضوع پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور تفصیلی بحث کو کسی اور موقع کے لئے چھوڑ تے ہیں۔
وجود اور غیبت حضرت امام مہدیؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اَللّٰهُمَّ بَلٰى! لَا تَخْلُو الْاَرْضُ مِنْ قَآئِمٍ لِلّٰهِ بِحُجَّةٍ، اِمَّا ظَاهِرًا مَّشْهُوْرًا، اَوْ خَآئِفًا مَّغْمُوْرًا، لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللهِ وَ بَیِّنَاتُهٗ. وَ كَمْ ذَا وَ اَیْنَ اُولٰٓئِكَ؟ اُولٰٓئِكَ ـ وَاللّٰهِ ـ الْاَقَلُّوْنَ عَدَدًا، وَ الْاَعْظَمُوْنَ عِنْدَ اللّٰہِ قَدْرًا،یَحْفَظُ اللهُ بِهِمْ حُجَجَهٗ وَ بَیِّنَاتِهٖ، حَتّٰى یُوْدِعُوْهَا نُظَرَآءَهُمْ،اُولٰٓئِكَ خُلَفَآءُ اللهِ فِیْۤ اَرْضِهٖ، وَ الدُّعَاةُ اِلٰى دِیْنِهٖ، اٰهِ اٰهِ شَوْقًا اِلٰى رُؤْیَتِهِمْ!.
”اے کمیل! ہاں زمین ایسے افراد سے خالی نہیں رہتی کہ جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتے ہیں۔ چاہے وہ ظاہر ہوں اور مشہور یا خائف و پوشیدہ، تاکہ پرودگار کی دلیلیں اور اس کی نشانیاں مٹنے نہ پائیں۔ لیکن یہ افراد ہیں کتنے اور کہاں؟ واللہ ان کی تعداد بہت کم ہے لیکن ان کی قدر و منزلت بہت عظیم ہے۔ اللہ انہی کے ذریعے اپنے دلائل اور نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے، یہی روئے زمین پر اللہ کے خلیفہ اور اس کے دین کی طرف بلانے والے ہیں۔ ہائے! مجھے ان کے دیدار کا کس قدر اشتیاق ہے“۔ (1)
اس خطبہ میں ان اہم نکات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے:
1۔ اتمام حجت بہر حال ایک اہم اور ضروری مسئلہ ہے۔ لہذا ہر دور میں حجت خدا کا ہونا ضروری ہے تاکہ لوگ صراط مستقیم سے بھٹکنے نہ پائیں۔ ”اللّہم بلیٰ لاتخلو الارض من حجة“۔ دوسرے لفظو ں میں جب تک روئے زمین پر نوع انسان کا وجود ہے اس وقت تک ان کے درمیان ایک کامل اور معصوم انسان کا وجود بھی ضروری ہے کہ جس میں اس نوع انسان کے تمام کمالات جلوہ گر ہوں، علم و عمل سے لوگوں کی ہدایت کرتا ہو اور ان کو ان کے کمالات و مقامات کی طرف بلاتا ہو، حلال و حرام سے آگاہ کرتا ہو اوران کو راہ خدا کی طرف بلاتا ہو تاکہ پروردگار کی دلیلیں اور نشانیاں مٹنے نہ پائیں: ”لئلّا تبطل حجج اللّہ وبیّناتُہ“۔
2۔ چاہے یہ حجتِ خدا منظر عام پر ہو ”امّاظاہراً مشہوراً“ یا پردہ غیبت میں ہو ”وامّا خائفاً مغموراً“ یعنی: اتمام حجت کے لئے امام کا وجود کافی ہے اس کے ظہور کی شرط نہیں ہے۔
3۔ لفظ ”مغموراً“ سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امام زمانہ کا حضور اور فعالیت کا انجام دینا ضروری ہے تاکہ پرودگار کی دلیلیں اور نشانیاں مٹنے نہ پائیں۔ لہذا غیبت امام زمان اور حجت خدا کا معنی معاشرہ سے کنارہ کشی اختیار کرنا نہیں ہے، بلکہ آپ ہمیشہ معاشرے میں فعّال حضور رکھتے ہیں۔ ”لوگوں کے درمیان رفت وآمد رکھتے ہیں، اور ان کے ساتھ رہتے ہیں، مجالس میں بیٹھتے ہیں، مضطر کی فریاد رسی اور ان کی حاجت روائی کرتے ہیں۔ بیماروں کی عیادت کرتے ہیں، لوگوں کو دیکھتے ہیں اور سلام کرتے ہیں اور لوگ آپ کو بھی دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں“۔ (2) مختصر یہ کہ امام زمانہ، زمانہ غیبت میں بھی اسلام کی عظمت اور ارتقاء اور مسلمانوں کے امور کے حل و فصل میں ممکنہ حد تک کوشش فرماتے ہیں۔
4۔ مذکورہ خطبہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ کی غیبت کا ایک سبب ”خوف“ تھا۔ یعنی اس وقت کے حکمران آپ کا خاتمہ چاہتے تھے، لیکن غیبت کی وجہ سے قتل سے نجات پائی۔ دوسری حدیثیں بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں۔(3)
البتہ دین اور حق کی راہ میں قتل ہونے سے امام زمانہ نہیں ڈرتے تھے اور نہ ڈرتے ہیں، لیکن ان کے قتل ہونے میں معاشرہ اور دین کی صلاح نہیں۔ کیونکہ ہر شہید ہونے والے امام اور جانشین پیغمبرﷺبکے بعد دوسرا امام اس کا جانشین بنا ہے، لیکن اگر امام زمانہ شہید ہوجائیں تو پھران کا کوئی جانشین نہیں ہے اور زمین حجت خدا کے وجود سے خالی ہو جائے گی، جبکہ تقدیر کا فیصلہ یہ ہے کہ آخر کار حق باطل پر غالب آئے گا۔ (4) اور امام زمانہ کے ذریعے دنیا کی زمام اقتدار، حق پر ستوں اور اللہ کے نیک اور صالح بندوں کے ہاتھوں میں آئے گی۔ (5)
5۔ غیبت امام زمانہ حتمی ہے: ”فی سُتْرہٍ عن النّاس لایُبصرالقائف اثَرَہ ولو تابع نظرہ“۔ ”وہ امام زمانہ”لوگوں کی نگاہوں سے یوں مخفی رہے گا کہ قیافہ شناس اور کھوج لگانے والے پیہم نظریں جمانے کے باوجود بھی اس کے نقش قدم کو نہ دیکھ سکیں گے“(6)
آخری زمانہ میں رونما ہونے والے حوادث اور فتنے
1۔ سفیانی کا خروج اور مظالم
حضرت امام علی حضرت امام مہدی کی اصلاحات کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
”کأنی بہ قد نعق بالشام، وفحص برایاتہ فی ضواحی کوفان، فعطف الفروس وفرش الأرض بالرؤوس۔۔۔“ یعنی: ”میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ ایک شخص (سفیانی ) شام میں للکار رہا ہے اورکوفہ کے گرد اس کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ وہ اس کی طرف کاٹنے والی اوٹنی کی طرح متوجہ ہے اورزمین پر سروں کا فرش بچھا رہا ہے۔ اس کا منہ کھلا ہوا ہے اورزمین پر اس کی آہٹ محسوس ہورہی ہے۔(7)
2۔ ظالموں کا باہمی عہد و پیمان
امیر المومنین علی فرماتے ہیں: ”یتوار ثہا الظلمة بالعہود، أولّہم قائد لآخرہم وآخرہم مقتدٍ بأولّہم، یتنافسون فی دنیا دنیّة ”یعنی:۔ دنیا کے ظالم باہمی عہد وپیمان کے ذریعے ان کے وارث بنتے ہیں۔اول آخر کا قائد ہوتا ہے اورآخر اول کا مقتدی، حقیر دنیا کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور بدبودار مردار پر آپس میں جنگ کرتے ہیں(8)۔
فتنوں میں لوگوں کی حالت
1۔ امور الٹ جائیں گے رنج و الم طولانی ہوگا اور اس صورتحال کو امیر المومنین امام علی علیہ السلام یوں بیان فرماتے ہیں: ”ألا فتوقعوا مایکون من ادبار امور کم۔۔۔“ ”آگاہ ہوجاؤ اور اس وقت کا انتظار کرو جب تمہارے امور الٹ جائیں گے اور تعلقات ٹوٹ جائیں گے اور بچوں کے ہاتھ میں اقتدار آجائے گا۔ یہ وہ وقت ہوگا جب حلال کے راستے سے ایک درہم حاصل کرنے سے تلوار کا زخم آسان ہوگا۔۔۔ تم بغیر کسی شراب کے عیش و آرام اور نعمتوں کے نشہ میں سرمست ہو گے اور بغیر کسی مجبوری کے بات بات میں قسمیں کھاؤ گے اور بغیر کسی لاچاری کے جھوٹ بولو گے اوریہی وہ وقت ہوگا جب بلائیں تمہیں اس طرح کاٹ کھا لیں گے جس طرح اونٹ کی پیٹھ کو پالان! ہائے یہ رنج و الم کس قدر طویل ہوگا اوراس سے نجات کی امید کس قدر دور تر ہوگی۔ (9)
”آپ مزید فرماتے ہیں اور لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب صرف لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا مقرب بارگاہ ہوا کرے گا، فاجر کو خوش مزاج اور انصاف پسند کو کمزور و ناتوان سمجھا جائے گا، صدقہ کو لوگ خسارہ، صلۂ رحمی کو احسان سمجھیں گے اور عبادت کو لوگوں پر برتری کا ذریعہ قرار دیں گے۔۔۔۔“۔ (10)
2۔ اسلام میں صرف نام اور قرآن کے صرف نقوش باقی رہ جائیں گے اور امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں ”سیأتی علیکم زمان یکتائُ فیہ الاسلام کما یکفائُ الاناء بمافیہ“۔ ”لوگوں عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں اسلام کو اس طرح الٹ دیا جائے گا جس طرح برتن کو اس کے سامان سمیت الٹ دیا جاتا ہے۔ وہ زمانہ ایسا ہوگا جس میں صرف وہی مؤمن نجات پا سکے گا جو گویا سو رہا ہوگا، مجمع میں آئے تو لوگ اسے پہچان نہ سکیں اور غائب ہو جائے تو کوئی تلاش نہ کرے، یہی لوگ ہدایت کے چراغ اور راتوں کے مسافروں کے لئے نشان منزل ہوں گے“۔ (11)
اس سلسلہ میں حضرت مزید فرماتے ہیں: ”اور لوگوں پر ایک ایسا دور بھی آنے والا ہے جب قرآن میں صرف نقوش باقی رہ جائیں گے اسلام میں صرف نام باقی رہ جائے گا، مسجدیں تعمیرات کے اعتبار سے آباد ہوں گی اور ہدایت کے اعتبار سے برباد ہوں گی اس کے رہنے اور آباد کرنے والے سب سے بدترین اہل زمانہ ہوں گے، اور انہی سے فتنہ باہر آئے گا اورانہی کی طرف غلطیوں کو پناہ ملے گی جو اس سے بچ کر جانا چاہے گا اسے اس کی طرف پلٹا دیں گے اور جو دور رہنا چاہے گا اسے ہنکا کرلے آئیں گے“۔ (12)
شاید ہمارا دور، ان ارشادات گرامی کا بہترین مصداق ہو جہاں مساجد کی تعمیر ایک فیشن جبکہ مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماع ایک فنکشن بن کر رہ گئے ہیں۔ روح مسجد فنا ہوگئی ہے اور مساجد سے وہ کام نہیں لیا جا رہا جو مولائے کائنات کے دور میں لیا جا رہا تھا۔ مولائے کائنات کے دور میں اسلام کی ہر تحریک کا مرکز مسجد تھی اور باطل سے مقابلہ کا ہر منصوبہ مسجد ہی میں تیار ہوتا تھا۔ لیکن آج مسجد صرف حکومتوں کے لئے دعائے خیر کا مرکز ہیں اور حکمرانوں کی ترویج اور ان کی شخصیت اجاگر کرنے کا بہترین پلیٹ فارم ہیں۔
آج مسلمانوں کی زندگی پر ایک نظر ڈالئیے قرآن کہاں ہے؟ آیا سرکاری اداروں میں یا اقتصادی نظام میں قرآن کا کوئی وجود ہے؟ روابط کے نظم ونسق میں ہے یا عوام کی باہمی تعلقات میں ہے؟ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں ہے، خارجہ سیاست یا حکومت کے باہمی تعلقات میں ہے؟ عوام کے درمیان قومی سرمایہ کی تقسیم میں ہے؟ اسلامی معاشرے کے سربراہوں کے عادات وخصال میں ہے؟ اقوام و ملل کے مختلف طبقات میں کہیں قرآن نظر آتا ہے؟ اسلامی احکام کی انفرادی رفتار میں، زن و مرد کے روابط، خوراک و لباس میں، زندگی کے کس شعبہ میں قرآن ہے؟ ایوانوں میں، امانتوں اور بینک ڈپازٹ میں، معاشرت میں، انسان کی عوامی اور سماجی تحریکوں میں؟ کیا کہیں قرآن نظر آتا ہے؟
زندگی کے اتنے سارے شعبے ہیں، البتہ مسجدوں، میناروں اور عوام فریبی کے لئے ریڈیو ٹیلویژن کے چند پروگرام مستثنیٰ ہیں، مگر کیا قرآن فقط اسی لئے ہے؟ کیا قرآن صرف ہدیہ دینے اور آرایش و زینت کے لئے سجا کر رکھنے، قبرستان میں تلاوت کرنے اور طاقوں میں سجانے کے لئے ہے؟ کیا امت اسلام اور امت قرآن کی حالت پریشان کن نہیں ہے؟ (13)
3۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”وأخذوا یمیناً وشمالاً طعناً فی مسالک ِ الغیّ وترکاً لمذاہب الرّشد۔۔۔“ لوگ راہ حق سے منحرف ہوکر دائیں بائیں افراط و تفریط کا شکار ہوکر ضلالت وگمراہی کی راہ پر گامزن ہوں گے اور ہدایت کے راستے کو چھوڑ دیں گے۔ (14)
4۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”حتّی تقوم الحرب بکم علی ساق بادیاً نواجذہا مملوئة خلافھا حلوا رضاعھا،علقماً عاقبتہا۔۔۔“ اس دائمی حق کے ظہور سے پہلے نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ ”جنگ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی، دانت نکالے ہوئے اور تھنوں کو پر کئے ہوئے، اس کا دودھ پینے میں شیر یں معلوم ہوگا اور اس کا انجام بہت برا اور ناگوار ہوگا (15) یعنی بہت ہی خطرناک جنگ چھڑ جائے گی اور خوفناک حالات پیدا ہوں گے، اور جنگ چھیڑنے والی استکباری طاقتیں یہ گمان کریں گی کہ اس جنگ کا سو فیصد فائدہ انہی کو پہنچ رہا ہے جب کہ اس کے انجام سے وہ بے خبر ہوں گے۔
روشن مستقبل
مختصر یہ کہ علی علیہ السلام ایک خوفناک مستقبل کی پیشنگوئی کررہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ کاروان انسانیت یونہی ظلم و ستم کا نشانہ بنتا رہے گا؟ کیا اہل حق فنا ہوتے رہیں گے اور صرف باطل قوتوں کی حکمرانی باقی رہے گی؟
نہیں ہرگز نہیں! اگرچہ اکثر لوگ راہ حق سے منحرف ہو کر شرق و غرب کی باطل قوتوں کی اتباع میں ضلالت و گمراہی کی راہ پر گامزن ہوں گے اور دیکھنے میں ہر طرف باطل نظر آئے گا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ اہل حق کی مثال پانی کی طرح ہے اور اہل حق دھات جبکہ اہل باطل پانی کے اوپر جمع ہوجانے والا جھاگ ہیں۔ (16)
جھاگ ہمیشہ ظاہری طور پر غالب دکھائی دیتا ہے لیکن جوش ختم ہوتے ہی فنا ہو جاتا ہے اور سونا وغیرہ باقی رہ جاتا ہے جو کام آنے والا ہے۔ لہذا اہل حق ایک روشن و تابناک مستقبل رکھتے ہیں۔ چنانچہ علی بن ابی طالب فرماتے ہیں:
1۔ ”وما اقرب الیوم من تباشیر غدٍ۔۔۔“ مستقبل کی بشارتیں کتنی قریب ہیں، اب وعدوں کے پورا ہونے اور چیزوں کے ظاہر ہونے کا وقت ہے جنہیں تم نہیں پہچانتے۔ دیکھو! ہم اہل بیتؑ میں سے جو بھی ان فتنوں کا دور پائے گا وہ امام زمانہؑ ہے وہ اس میں ہدایت کے چراغ کے ساتھ قدم اٹھائے گا اور صالحین کے نقش قدم پر چلے گا تاکہ گرہوں کو کھولے (مشکل حل کرے) اسیروں اور غلاموں کو آزاد کرے۔ ”ویصدع شعباً ویشعب صدعاً“ وہ باطل قوتوں کو پراکندہ اور مومن گروہوں کو اسلام سے دفاع کے لئے جمع کریں گے۔ (17)
2۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ثمّ لیشحذنّ فیہا قوم شحذ القینِ النّصل، تجلی باالتنزیل أبصارہم و۔۔۔“ (امام زمانہ کے وجود کی برکت سے زمانہ غیبت میں دین سے دفاع کے لئے) لوگوں کی ایک جماعت کو اس طرح تیز کیا جائے گا، جیسے لوہار تلوار کی دھار کو تیز کرتا ہے ان لوگوں کی آنکھوں کو قرآن کے ذریعہ روشن کیا جائے گا اور ان کے کانوں میں (قرآن کی) تفسیر کو مسلسل پہنچایا جائے گا اور انہیں صبح و شام علوم و معارف اور حکمت کے جاموں سے سیراب کیا جائے گا۔ (18)
حضرت امام مہدی کا ظہور اور آپ کے اصلاحی اقدامات
1۔ علی بن ابی طالب ارشاد فرماتے ہیں: ”فاذا کان ذالک ضرب یعسوب الدّین بذنبہ، فیعتمعون الیہ کما یجتمع قزع الخریف“۔ ”جب وہ وقت آئے گا تو دین کا یعسوب (حاکم دین و شریعت حضرت مہدی) اپنی جگہ برقرار پائے گا اور لوگ (آپ کے اصحاب خاص) اس کے پاس اس طرح جمع ہوں گے جس طرح موسم کے بادل کے ٹکرے۔ (19)
2۔ علی بن ابی طالب علیہما السلام فرماتے ہیں: ”یعطف الہویٰ علی الہدیٰ اذا عطفوا الہدیٰ علی الہویٰ ویعطف الرّای علی القرآن اذا عطفوا القرآن علی الرأی۔“ حضرت مہدیؑ خواہشات کو ہدایت کی طرف موڑ دے گا جب کہ لوگ ہدایت کو خواہشات کی طرف موڑ رہے ہوں گے اور وہ رائے کو قرآن کی طرف جھکا دے گا جب کہ لوگ قرآن کو توڑ مروڑ کر قیاس و رائے کی طرف جھکارہے ہوں گے۔ ( 20)
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دنیا کا ہر فتنہ خواہشات کی پیروی اور بدعتوں کے رواج سے شروع ہوتا ہے اور یہی تاریخی حقیقت ہے کہ اگر امت اسلامی رسول ﷺ اللہ کی وفات کے بعد کتاب خدا کے خلاف خواہشات کے مطابق احکام وضع نہ کرتے اور رسول اللہ ﷺ کے حقیقی جانشینوں کی اتباع کرتے اور حق و باطل میں تمیز باقی رہتی، تو آج اسلام بالکل خالص اور صریح ہوتا اور حق اہل حق سے پوشیدہ نہ رہتا، عناد رکھنے والی زبانیں بھی بند ہو جاتیں لیکن ہوا یہ کہ خواہشات کی پیروی میں کچھ ادھر سے لیا اور کچھ ادھر سے اور حق کو باطل سے ملا دیا جس کے نتیجے میں امت اسلامی ایک دائمی فتنے میں مبتلا ہو گئی۔ آج بھی دنیا میں ایسے افراد بہت کم ہیں جنہوں نے خدا کو خدا سمجھا ہو اور کا درِ پردہ اقرار نہ کیا ہو۔
3۔ مولائے کائنات امام علیؑ فرماتے ہیں: ”یأخذ الوالی من غیر ہا، عمّا لُہا علی مساوی اعمالہا“ جنگ ختم ہو جائے گی اورحضرت مہدی بد کردار حکمرانوں کا ان کی برائیوں کی وجہ سے مؤاخذہ کرے گا اور تمام شہروں اور صوبوں میں لائق اور اہل حکام ضروری احکام کے ساتھ منصوب کئے جائیں گے۔ (21)
4۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”وتخرجُ لہ الأرض أفالیذ کبدِ ہا وتُلقی الیہ سلماً مقالیدہا“ زمین آپ کے سامنے اپنے خزانے اگل دے گی اور تمام جگر کے ٹکروں کو نکال دے گی اور نہایت آسانی کے ساتھ اپنی کنجیاں اس کے حوالے کردے گی۔ (22) یعنی زمین کے خزانے آشکار ہو جائیں گے، عالم طبیعت کے تمام اسرار اور پوشیدہ امور آپ کے ہاتھوں کشف ہوں گے اور دنیا کے تمام ممالک کے حکمران آپ کے مطیع فرمانبردار ہوں گے اور اپنی حکومتوں کا نظم و نسق آپ کے حوالہ کر دیں گے۔
5۔ آپ بظاہر مردہ، اور دم توڑ چکنے والی کتاب کو پھر سے زندہ کریں گے اسے نہج البلاغہ میں امام علیؑ نے یوں بیان کیا ہے: ”ویحی میّت الکتاب والسنّة“ یعنی آپ قرآن کے متروکہ احکام کا نفاذ کریں گے اور لوگوں کو قرآن کی طرف بلائیں گے اور لوگوں کے درمیان رائج غلط رسوم، بری عادات اور باطل قوانین کو ختم کرکے شریعت اسلام پر عمل کرنے کی طرف بلائیں گے۔ (23)
6۔ آپ دنیا کے سامنے عدالت پر مبنی سیرت پیش کریں گے اس سلسلے میں مولائے کائنات امام علیؑ فرماتے ہیں ”فیریکم کیف عدلُ السیرة“ پھر وہ تمہیں دکھلائے گا کہ عادلانہ سیرت کیا ہوتی ہے۔ (24)
حقیقت یہ ہے کہ انسان نے جب سے روئے زمین پر قدم رکھا ہے اب تک اسے آرام و آسائش، چین اور صلح اور سب سے بڑھ کر عزت و شرف، وقار و منزلت اور اپنے حقیقی مقام کی تلاش ہے جو اس کی فطرت کا تقاضا بھی ہے۔
آج تک کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ دنیا میں ایسا دن دیکھنے کو آیا ہو اور انسان کو اس کی دلی مراد نصیب ہوئی ہو کہ دکھ سکھ میں بدلا ہو، ظلم و زیادتی عدل و انصاف میں اور نا امنی صلح و آشتی میں بدل گئی ہو۔
کسی مکتب فکر یا نظام حکومت نے اس کا صحیح مقام عنایت کیا اور اسے شرافت و کرامت نصیب ہو گئی، بلکہ اس کے برعکس وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ناانصافی، ناقدری، نابرابری، ناامنی، قتل و غارت گری، انسانی اقدار کی پامالی، جنسی و اخلاقی انحرافات اور تہذیب و تمدن کے نام پر بے راہ روی بڑھتی گئی اور آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی انسانی حقوق کے نام پر بڑے بڑے بین الاقوامی ادارے بالکل اسی طرح انسانوں کا استحصال کررہے ہیں جس طرح اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں انسانوں کا استحصال ہوتا تھا۔
نہ انسانوں کو کل حقیقی چین و سکون ملا اور نہ آج اسے اپنا حقیقی مقام مل سکا۔ عقل تسلیم نہیں کرتی کہ یہ کاروان انسانیت اسی طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنتا رہے گا اور کچھ لوگ طاقت و قدرت اور مال و زر کے بَل بوتے پر اسی طرح انسانوں کا خون چوستے رہیں گے، انسانی جانیں ضائع ہوتی رہیں گی، بچے یتیم ہوتے رہیں گے، عورتیں بیوہ ہوتی رہیں گی کوئی فریاد رس اور ہمدرد و خیر خواہ مسیحائے زمان، دور تک دکھائی نہیں دے گا!
دوسری طرف خود پروردگار نے قرآن میں متعدد مقامات پر مظلوموں، در مند انسانوں اور مستضعفین عالم کو ڈھارس بندھائی ہے کہ مظلوموں کی فتح و نصرت کا دن بھی آئے گا اور ظالمین اپنے انجام کو پہنچیں گے (25) اور پیغمبر ﷺ کا دین ساری دنیا پر غالب ہو کر رہے گا اور اسلام کے فرامین ایک نہ ایک دن سارے انسانوں کی عزت و سر بلندی کا سبب بنیں گے۔ (26) اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی تکمیل رسول اللہ ﷺ اور ائمہ معصومینؑ کے ارشادات کے مطابق مہدی موعود کی آمد پر موقوف ہے۔
اس کے علاوہ دنیا کے بگڑتے حالات، بڑھتی ہوئی بے سرو سامانی، چین وسکون کا چھن جانا، اشتراکی حکومتوں کا زوال، سرمایہ داری نظام اور سیکولریزم کی تنزلی اور ناتوانی اور دوسری طرف سے قرآن مجید کا واضح اعلان، کہ اسلام پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرے گا اور صالحین کی حکومت کا قیام عمل میں آئے گا، (26) حضور ﷺ کا یہ فرمان کہ میری اور فاطمہؑ کی نسل سے ایک شخص ظہور کرے گا جو ظلم و جور سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ یہ سب وہ عقلی و نقلی اور محکم تاریخی شواہد ہیں جن کی روشنی میں حضرت مہدی علیہ السلام کا ظہور اور عدالت پر مبنی حکومت کا قیام ناقابل انکار حقیقت ہے۔
لہذا یہ دنیا منہ کی کھانے کے بعد پھر پیغمبر ﷺ کے اہل بیتؑ کی دہلیز پر سر جھکائے گی اور آخر کار دنیا پرایک بار پھر اہل بیت علیہم السلام کی عادلانہ حکومت قائم ہوگی۔
چنانچہ امیرالمومنین نہج البلاغہ کے ایک اور خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
”لتعطغنّ الدّنیا علینا بعد شماسہا، عطف الضروس علی وکدہا۔۔۔“ یہ دنیا منہ کی کھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کی طرف جھکتی ہے۔ (27) اس کے بعد حضرت نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ”ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلہم ائمہً ونجعلہم الوارثین“۔ (28)
جی ہاں! جس وقت ساری دنیا ناانصافی اور ظلم و فساد سے بھر جائے گی اس وقت خداوند کریم اس عظیم مصلح کو بھیجے گا تاکہ بے انصافی اور گمراہی کے قلعے آپ کے ہاتھوں تسخیر ہوں اور، توحید، عدالت اور حقانیت کا چراغ انسانیت کے دل و دماغ کو منور کر دے اور کفر و شرک، ظلم و جور کی تاریکی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہو جائے، تمام سلطنتیں اور ظالم حکومتیں ختم ہو جائیں اور ”لیُظہرہ علی الدّین کلہ“ کا مکمل اور عملی نمونہ سامنے آئے گا۔ یہ وعدہ الٰہی ہے جو ہر حال میں پورا ہو کر رہے گا۔
یقیناً آپ کے ظہور سے مظلوموں کا دن پلٹے گا، ظالمین اپنے انجام کو پہنچیں گے اور روئے زمین پر خدا کے نیک و صالح بندوں کی حکمرانی کا پرچم لہرائے گا۔ تو پھر ہم بھی دل و جان سے اس پر مسرت اور عطر آگین پیغام کی راہ میں چشم براہ ہیں۔
حوالہ جات
[٭] ملاحظہ فرمائیں ترجمہ و شرح نہج البلاغہ، مفتی جعفر حسین، ص 26سے 55، مرتضی مطہری، اسرار نہج البلاغہ، ص 15سے 33، مقدمہ شیخ محمد عبدہ، مقدمہ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید وغیرہ۔ [1] حکمت نمبر147، ترجمہ وشرح نہج البلاغہ، مفتی جعفر حسین، ص 851 ؛ علامہ سید ذیشان حید ر جوادی، ص 684؛ محمد دشتی، ص 470؛ نعمانی، الغیبة، باب 8، ص 136، 137؛ ملا صدرا، شرح اصول کافی، ج6، ص 299، مرتضی مطہری، اسرار نہج البلاغہ، ترجمہ محمد علی توحیدی، ص 142، 143۔[2] کلینی، اصول کافی، کتاب الحجة، ج2، باب تسمیة من رآہ، حدیث 15و 6باب فی الغیبة، حدیث 6، 12و19؛ نعمانی، الغیبة، ص 180، 181، حدیث 13، 14، 15، 16۔
[3] کلینی، اصول کافی، ج2باب فی الغیبة، حدیث 29، نعمانی، الغیبة، ص 182، حدیث18، 19، 21۔
[4] توبہ، 33”ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدّین کلہ”۔
[5] ا نبیائ 105، ”ولقد کتب فی الذبور من بعد الذکر اان الارض یرثہا عبادی الصالحون۔”
[6] ترجمہ وشرح نہج البلاغہ، خطبہ، 148، مفتی، ص 392؛ خطبہ نمبر150، جوادی، ص 276، 277 ؛ محمد دشتی، ص 194؛ ابن میثم بحرانی ج 3، خطبہ، 149، ص391، 192، ناصر مکارم شیرازی، پیام امام علی، ج 5، خطبہ 150، 721، 724۔
[7] ناصر مکارم، پیام امیرالمؤمنین، ج5،ص532سے 537؛ جوادی، ص 262، 263؛ دشتی ص 183، مفتی، خطبہ، 136، ص 373؛ ابن میثم، ج3خطبہ 137، ص 312، 313۔
[8] خطبہ نمبر 151، جوادی، ص 280، 281؛ دشتی، ص 196، ابن میثم، ج3، خطبہ نمبر 150، ص 404، 405 مفتی، خطبہ نمبر 149، ص 394، ناصر مکارم، پیام امیر المؤمنین ج6، ص 8،9۔
[9] خطبہ نمبر 187، جوادی، ص 266، 267، دشتی، ص262، مفتی، خطبہ، 185، ص، 501، ابن میثم، ج3خطبہ، 186
[10] حکمت نمبر102، مفتی، ص 833، جوادی ص 663،664، دشتی، ص 460۔
[11] خطبہ نمبر103، جوادی، ص200،201، دشتی، ص 134، خطبہ، 100، ابن میثم، ج3، ص 34، 35؛ خطبہ نمبر101، مفتی، ص 296، 297۔
[12] حکمت نمبر369، جوادی، ص 760، 761، دشتی، ص 512؛ مفتی، ص 925۔
[13] آیة اللہ خامنہ ای کی تقریر سے اقتباس، بحوالۂ مجلہ ٔ میزان، شمارہ 2، ص 1،2۔
[14] خطبہ نمبر150، جوادی، ص 260، 261،؛ دشتی، ص 149، مفتی خطبہ 148، ص392، ابراہیم امینی، آفتاب عدالت، ص 209 ،210؛ ابن میثم بحرانی، ج3، خطبہ نمبر149، ص393، 394؛ مکارم شیرازی پیام امیرالمؤمنین ج5ص 752۔
[15] خطبہ نمبر138 مکارم، ج5ص502، 503، جوادی، ص260، 261 ؛، دشتی، ص 182؛ مفتی خطبہ نمبر136، ص 373، صافی گلپائیگانی، منتخب الاثر، باب 36، ص 262،263؛ ابن میثم، ج3، خطبہ 137، ص 311، 312۔
[16] سورہ انبیاء، آیت 16، سے 18تفصیل کے لئے، مرتضی مطہری، نبرد حق وباطل، ص 41سے56۔
[18-17] خطبہ نمبر 150م جودی، ص 276، دشتی، ص 194، مکارم شیرازی، ج5، ص 724؛ مفتی، خطبہ نمبر148، ص 392، ابن میثم، ج3، خطبہ 129، ص 391، 392۔
[19] کلام غریب نمبر 1، جوادی، ص 720، دشتی، ص 490، مفتی، ص 776۔
[20] سے [24] خطبہ نمبر138 ابن ابی الحدید، ج2، ص209، مکارم شیرازی، ج5، ص531، ابن میثم، ج3، ص 311سے 318 محمد تقی شوستری، نہج البلاغہ، ج6، ص181 سے 192، مرتضی مطہری، مجموعہ آثار، ج18، ص 164، 165، مفتی، ص 136، 137؛ جوادی، ص 161سے 163، دشتی، ص 182، 183۔
[25] قصص 5
[26] توبہ 33
[27] انبیاء، 105
[28] حکمت نمبر109، مفتی، ص 868، جوادی، ص 702، دشتی ص 480۔
[29] قصص 5۔




