کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 252: فرائض کے حکم و مصالح

(٢٥٢) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۲۵۲)

فَرَضَ اللهُ الْاِیْمَانَ تَطْهِیْرًا مِّنَ الشِّرْكِ، وَ الصَّلٰوةَ تَنْزِیْهًا عَنِ الْكِبْرِ، وَ الزَّكٰوةَ تَسْبِیْبًا لِّلرِّزْقِ، وَ الصِّیَامَ ابْتِلَآءً لِّاِخْلَاصِ الْخَلْقِ، وَ الْحَجَّ تَقْوِیَۃً لِّلدِّیْنِ، وَ الْجِهَادَ عِزًّا لِّلْاِسْلَامِ، وَ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ مَصْلَحَةً لِّلْعَوَامِّ، وَ النَّهْیَ عَنِ الْمُنْكَرِ رَدْعًا لِّلسُّفَهَآءِ، وَ صِلَةَ الرَّحَمِ مَنْمَاةً لِّلْعَدَدِ، وَ الْقِصَاصَ حَقْنًا لِّلدِّمَآءِ، وَ اِقَامَةَ الْحُدُوْدِ اِعْظَامًا لِّلْمَحَارِمِ، وَ تَرْكَ شُرْبِ الْخَمْرِ تَحْصِیْنًا لِّلْعَقْلِ، وَ مُجَانَبَةَ السَّرِقَةِ اِیْجَابًا لِّلْعِفَّةِ، وَ تَرْكَ الزِّنٰى تَحْصِیْنًا لِّلنَّسَبِ، وَ تَرْكَ اللِّوَاطِ تَكْثِیْرًا لِّلنَّسْلِ، وَ الشَّهَادَةَ اسْتِظهَارًا عَلَى الْـمُجَاحَدَاتِ، وَ تَرْكَ الْكَذِبِ تَشْرِیْفًا لِّلصِّدْقِ، وَ السَّلَامَ اَمَانًا مِّنَ الْـمَخَاوِفِ، وَ الْاَمَانَاتِ نِظَامًا لِّلْاُمَّةِ، وَ الطَّاعَةَ تَعْظِیْمًا لِّلْاِمَامَةِ.

خداوند عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کیلئے، اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کیلئے، اور زکوٰة کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کیلئے، اور روزہ کو مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کیلئے اور حج کو دین کے تقویت پہنچانے کیلئے، اور جہاد کو اسلام کو سرفرازی بخشنے کیلئے، اور امر بالمعروف کو اصلاح خلائق کیلئے، اور نہی عن المنکر کو سرپھروں کی روک تھام کیلئے، اور حقوقِ قرابت کے ادا کرنے کو (یار و انصار کی) گنتی بڑھانے کیلئے، اور قصاص کو خونریزی کے انسداد کیلئے، اور حدود شرعیہ کے اجراء کو محرمات کی اہمیت قائم کرنے کیلئے، اور شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کیلئے، اور چوری سے پرہیز کو پاک بازی کا باعث ہونے کیلئے، اور زنا کاری سے بچنے کو نسب کے محفوظ رکھنے کیلئے، اور اغلام کے ترک کو نسل بڑھانے کیلئے، اور گواہی کو انکارِ حقوق کے مقابلہ میں ثبوت مہیا کرنے کیلئے، اور جھوٹ سے علیحدگی کو سچائی کا شرف آشکارا کرنے کیلئے، اور قیامِ امن کو خطروں سے تحفظ کیلئے، اور امانتوں کی حفاظت کو اُمت کا نظام درست رکھنے کیلئے، اور اطاعت کو امامت کی عظمت ظاہر کرنے کیلئے۔

احکامِ شرع کی بعض حکمتوں اور مصلحتوں کا تذکرہ کرنے سے قبل ’’ایمان‘‘ کی غرض و غایت کا ذکر فرمایا ہے۔ کیونکہ ’’ایمان‘‘ شرعی احکام کیلئے اساس و بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بغیر کسی شرع و آئین کی ضرورت کا احساس ہی پیدا نہیں ہوتا۔

’’ایمان‘‘ ہستی خالق کے اقرار اور اُس کی یگانگت کے اعتراف کا نام ہے اور جب انسان کے قلب و ضمیر میں یہ عقیدہ رچ بس جاتا ہے تو وہ کسی دوسرے کے آگے جھکنا گوارا نہیں کرتا اور نہ کسی طاقت سے مرعوب و متاثرہوتا ہے، بلکہ ذہنی طور پر تمام بندھنوں سے آزاد ہو کر خود کو خدائے واحد کا حلقہ بگوش تصور کرتا ہے۔ اور اس طرح توحید سے وابستگی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا دامن شرک کی آلودگیوں سے آلودہ ہونے نہیں پاتا۔

’’نماز‘‘ عبادات میں سب سے بڑی عبادت ہے جو قیام و قعود اور رکوع و سجود پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ اعمال غرور و نخوت کے احساسات کو ختم کرنے، کبر و انانیت کو مٹانے اور عجز و فروتنی کے پیدا کرنے کا کامیاب ذریعہ ہیں۔ کیونکہ متکبرانہ افعال و حرکات سے نفس میں تکبّر و رُعونت کا جذبہ اُبھرتا ہے، اور منکسرانہ اعمال سے نفس میں تذلل و خشوع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ ان اعمال کی بجا آوری سے انسان متواضع و منکسر المزاج ہو جاتا ہے۔ چنانچہ وہ عرب کہ جن کے کبر و غرور کا یہ عالم تھا کہ اگر ان کے ہاتھ سے کوڑا گر پڑتا تھا تو اُسے اُٹھانے کیلئے جھکنا گوارا نہ کرتے تھے اور چلتے ہوئے جوتی کا تسمہ ٹوٹ جاتا تھا تو جھک کر اسے درست کرنا عار سمجھتے تھے، سجدوں میں اپنے چہرے خاکِ مذلّت پر بچھانے لگے اور نماز جماعت میں دوسروں کے قدموں کی جگہ پر اپنی پیشانیاں رکھنے لگے اور غرور و عصبیت جاہلیت کو چھوڑ کر اسلام کی صحیح روح سے آشنا ہو گئے۔

’’زکوٰة‘‘ یعنی ہر با استطاعت اپنے مال میں سے ایک مقررہ مقدار سال بسال ان لوگوں کو دے کہ جو وسائل حیات سے بالکل محروم یا سال بھر کے آذوقہ کا کوئی ذریعہ نہ رکھتے ہوں۔ یہ اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے جس سے غرض یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کا کوئی فرد محتاج و مفلس نہ رہے اور احتیاج و افلاس سے جو برائیاں پیدا ہوتی ہیں ان سے محفوظ رہیں اور اس کے علاوہ یہ بھی مقصد ہے کہ دولت چلتی پھرتی اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہے اور چند افراد کیلئے مخصوص ہو کر نہ رہ جائے۔

’’روزہ‘‘ وہ عبادت ہے جس میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا اور نہ حسنِ نیّت کے علاوہ کوئی اور جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ چنانچہ تنہائی میں جبکہ بھوک بے چین کئے ہوئے ہو اور پیاس تڑپا رہی ہو، نہ کھانے کی طرف ہاتھ بڑھتا ہے، نہ پانی کی خواہش بے قابو ہونے دیتی ہے۔ حالانکہ اگر کھا پی لیا جائے تو کوئی پیٹ میں جھانک کر دیکھنے والا نہیں ہوتا۔ مگر ضمیر کا حُسن اور خلوص کا جوہر نیت کو ڈانواں ڈول نہیں ہونے دیتا اور یہی روزہ کا سب سے بڑا فائدہ ہے کہ اس سے عمل میں اخلاص پیدا ہوتا ہے۔

’’حج‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ حلقہ بگوشانِ اسلام، اطراف و اکنافِ عالم سے سمٹ کر ایک مرکز پر جمع ہوں، تاکہ اس عالمی اجتماع سے اسلام کی عظمت کا مظاہرہ ہو اور اللہ کی پرستش و عبادت کا ولولہ تازہ اور آپس میں روابط کے قائم کرنے کا موقع حاصل ہو۔

’’جہاد‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ جو قوتیں اسلام کی راہ میں مزاحم ہوں اُن کے خلاف امکانی طاقتوں کے ساتھ جنگ آزما ہوا جائے، تاکہ اسلام کو فروغ و استحکام حاصل ہو۔ اگرچہ اس راہ میں جان کیلئے خطرات پیدا ہوتے ہیں اور قدم قدم پر مشکلیں حائل ہوتی ہیں، مگر راحتِ ابدی و حیات دائمی کی نوید، ان تمام مصیبتوں کو جھیل لے جانے کی ہمت بندھاتی رہتی ہے۔

’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ دوسروں کو صحیح راہ دکھانے اور غلط روی سے باز رکھنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اگر کسی قوم میں اس فریضہ کے انجام دینے والے ناپید ہو جاتے ہیں تو پھر اس کو تباہی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی اور وہ اخلاقی و تمدنی لحاظ سے انتہائی پستیوں میں جا گرتی ہے۔ اسی لئے اسلام نے اور فرائض کے مقابلہ میں اُسے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے پہلو بچالے جانے کو ’’ناقابلِِ تلافی جُرم‘‘ قرار دیا ہے۔

’’صلۂ رحمی‘‘ یہ ہے کہ انسان اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے اور کم از کم باہمی سلام و کلام کا سلسلہ قطع نہ کرے، تاکہ دلوں میں صفائی پیدا ہو اور خاندان کی شیرازہ بندی ہو کر یہ بکھرے ہوئے افراد ایک دوسرے کے دست و بازو ثابت ہوں۔

’’قصاص‘‘ یہ ایک حق ہے جو مقتول کے وارثوں کو دیا گیا ہے کہ وہ قتل کے بدلہ میں قتل کا مطالبہ کریں، تاکہ پاداش جرم کے خوف سے آئندہ کسی کو قتل کی جرأت نہ ہو سکے اور وارثوں کے جوشِ انتقام میں ایک جان سے زیادہ جانوں کے ہلاک ہونے کی نوبت نہ پہنچے۔ بیشک عفو و درگزر اپنے مقام پر فضیلت رکھتی ہے، مگر جہاں حقوقِ بشر کی پامالی اور امن عالم کی تباہی کا سبب بن جائے، اُسے اصلاح نہیں قرار دیا جا سکتا، بلکہ اس موقع پر قتل و خونریزی کے انسداد اور حیات انسانی کی بقا کا واحد ذریعہ قصاص ہی ہو گا۔ چنانچہ ارشادِ قدرت ہے:

﴿ وَ لَـكُمْ فِى الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّٰٓـاُولِىْ الْاَلْبَابِ﴾

اے عقل والو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔ (سورۂ بقرہ، آیت۱۷۹)

’’اجرائے حدود‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ محرماتِ الٰہیہ کے مرتکب ہونے والے کو جرم کی سنگینی کا احساس دلایا جائے تاکہ وہ سزا و عقوبت کے خوف سے منہیات سے اپنا دامن بچا کر رکھے۔

’’شراب‘‘ ذہنی انتشار، پراگندگیٔ حواس اور زوالِ عقل کا باعث ہوتی ہے، جس کے نتیجہ میں انسان وہ قبیح افعال کر گزرتا ہے جن کی ہوش و حواس کی حالت میں اس سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس کے علاوہ یہ صحت کو تباہ اور طبیعت کو وبائی امراض کی پذیرائی کیلئے مستعد کر دیتی ہے اور بے خوابی، ضعفِ اعصاب اور نقرس وغیرہ امراض اس کا لازمی خاصہ ہیں اور انہی مفاد و مفاسد کو دیکھتے ہوئے شریعت نے اسے حرام کیا ہے۔

’’سرقہ‘‘ یعنی دوسروں کے مال میں دست درازی کرنا وہ قبیح عادت ہے جو حرص اور ہوائے نفس کے غلبہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور چونکہ مشتہیاتِ نفس کو حدِ افراط سے ہٹا کر نقطۂ اعتدال پر لانا عفّت کہلاتا ہے، اس لئے بڑھتی ہوئی خواہش اور طمع کو روک کر چوری سے اجتناب کرنا عفّت کا باعث ہو گا۔

’’زنا و لواطہ‘‘ کو اس لئے حرام کیا گیا ہے کہ نسب محفوظ رہے اور نسل انسانی پھلے پھولے اور بڑھے۔کیونکہ زنا سے پیدا ہونے والی اولاد، اولاد ہی نہیں قرار پاتی کہ اس سے نسب ثابت ہوتا۔ اسی لئے اُسے مستحق میراث نہیں قرار دیا جاتا اور خلافِ فطرت افعال سے نسل کے بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ان قبیح افعال کے نتیجہ میں انسان ایسے امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے جو قطع نسل کے ساتھ زندگی کی بربادی کا سبب ہوتے ہیں۔

’’قانونِ شہادت‘‘ کی اس لئے ضرورت ہے کہ اگر ایک فریق دوسرے فریق کے کسی حق کا انکار کرے تو وہ شہادت کے ذریعہ اپنے حق کا اِثبات کرکے اسے محفوظ کر سکے۔

’’کذب و دروغ‘‘ سے اجتناب کا حکم اس لئے ہے تاکہ اس کی ضد یعنی صداقت کی عظمت و اہمیت نمایاں ہو اور سچائی کے مصالح و منافع کو دیکھ کر جھوٹ سے پیدا ہونے والی اخلاقی کمزوریوں سے بچا جائے۔

’’سلام‘‘[۱] کے معنی امن و صلح پسندی کے ہیں اور ظاہر ہے کہ صلح پسندانہ روش خطرات سے تحفظ اور جنگ و جدال کی روک تھام کا کامیاب ذریعہ ہے۔ عموماً شارحین نے ’’سلام‘‘ کو باہمی سلام و دعا کے معنی میں لیا ہے، مگر سیاق کلام اور فرائض کے ذیل میں اس کا تذکرہ اس معنی کی تائید نہیں کرتا۔ بہرحال اس معنی کی رو سے سلام خطرات سے تحفظ کا ذریعہ اس طرح ہے کہ اسے امن و سلامتی کا شعار سمجھا جاتا ہے اور جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر سلام کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی خیر خواہی و دوستی کا اعلان کرتے ہیں جس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔

’’امانت‘‘ کا تعلق صرف مال ہی سے نہیں، بلکہ اپنے متعلقہ امور کی بجا آوری میں کوتاہی کرنا بھی امانت کے منافی ہے۔ تو جب مسلمان اپنے فرائض و متعلّقہ امور کا لحاظ رکھیں گے تو اس سے نظم و نسق ملت کا مقصد حاصل ہو گا اور جماعت کی شیرازہ بندی پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔

’’امامت‘‘ کے اجرا کا مقصد یہ ہے کہ اُمت کی شیرازہ بندی ہو اور اسلام کے احکام تبدیل و تحریف سے محفوظ رہیں۔ کیونکہ اگر اُمت کا کوئی سربراہ اور دین کا کوئی محافظ نہ ہو تو نہ اُمت کا نظم و نسق باقی رہ سکتا ہے اور نہ احکام دوسرے کی دستبرد سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اور یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب اُمت پر اس کی اطاعت بھی واجب ہو۔ اس لئے کہ اگر وہ مطاع اور واجب الاطاعت نہ ہوگا تو وہ نہ عدل و انصاف قائم کر سکتا ہے، نہ ظالم سے مظلوم کا حق دلا سکتا ہے، نہ قوانین شریعت کا اجرا و نفاذ کر سکتا ہے اور نہ دنیا سے فتنہ و فساد کے ختم ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

[۱]۔ نہج البلاغہ کے عام نسخوں میں لفظ ”سلام“ ہی تحریر ہے، مگر ابن میثم نے اسے لفظ ”اسلام“ قرار دیتے ہوئے اس کی شرح کی ہے اور لفظ ”سلام“ بھی روایت کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی نسخہ میں لفظ ”اسلام“ بھی ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button