
مقدمہ
تمام دانشمندوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد نہج البلاغہ فصاحت و بلاغت اور دیگر معارف کو اپنے دامن میں سمونے کے لحاظ سے اس کا اپنا خاص مقام ہےـ نہج البلاغہ ”اخت القرآن“ سے مشہور ہےـ
رہبر معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: ہم نے کافی عرصہ تک کو نہج البلاغہ سے رابطہ قطع کرکے رکھا ہوا ہے اور آج جو فرصت ہمیں ملی ہے اس سے ان نقائص کو جبران کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ [1]
نہج البلاغہ میں بہت سے حقائق کو امیر کلام علیہ السلام نے روشن کیا ہے اور اسے تشگان معرفت کے لیے پیش کیا ہے خلاصہ یہ کہ نہج البلاغہ کتاب حقیقت ہے انسان کو زندگی اور بندگی کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہےـ
عظمت نہج البلاغہ کے لیے اتنا کافی ہے کہ کہا جاتا ہے: «دون کلام خالق و فوق کلام مخلوق» لہذا یہ کتاب اسی راہ کی راہنمائی کرتی ہے جس کی خاطر قرآن نازل ہوا تھا۔
نہج البلاغہ جس کی زبان مبارک سے صادر ہوا ہے ان کے بارے میں اس نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے جن کے لب وحی کے بغیر جنبش نہیں کرتے: «علی مع القرآن و القرآن مع علی لن یفترقا حتی یردا عليّ الحوض» [2] ؛ علی علیہ السلام حق کے ساتھ اور حق، علی علیہ السلام کے ساتھ ہے اور یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر تک پہنچ جائیں۔
نہج البلاغہ کی عظمت یہ ہے جسے امام خمینی نے اپنی الٰہی وصیت نامہ میں افتخار سے فرمایا ہے: ہم مفتخر ہیں کہ نہج البلاغہ جو قرآن کے بعد معنوی اور مادی زندگی کا دستور ہیں اور بشر کو آزادی دینے والی اور اس کےمعنوی اور حکومتی دستورات بالا ترین راہ نجات ہیں وہ ہمارے معصوم امام کے فرامین ہیں۔ [3]
رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہای فرماتے ہیں: آج کی شرائط امیر المؤمنین علیہ السلام کی حکومت کی شرائط جیسی ہیں۔ پس ہمارا زمانہ نہج البلاغہ کا زمانہ ہے، آج ممکن ہے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی دقیق اور عمیق فکر سے دنیا کی واقعیت اور معاشرے پر نظر کرے اور بہت سے حقائق کو دیکھے اور پہچانے اور ان کا علاج کرے لہذا آج ہر زمانے کی نسبت ہم نہج البلاغہ کے محتاج ہیں۔ [4]
شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں کہ: علیؑ کے لیے ان کے فرامین ہدف نہیں تھا بلکہ وسیلہ تھا آپؑ یہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ادبی شاہکار یا ہنر کا مظاہرہ کریں۔ اس کے علاوہ آپؑ کے خطبات کلی ہیں کسی زمان و مکان اور افراد کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ ان کا مخاطب انسان ہے یہی وجہ آپ کا کلام محدود نہیں ہےـ نہج البلاغہ تمام جہات سے قرآن سے متأثر ہے بلکہ حقیقت میں یہ فرزند قرآن ہے۔ [5]
اس مختصر مقالہ میں گنجائش نہیں ہے کہ نہج البلاغہ کی روشنی میں حضرت علی علیہ السلام کی زبانی ان کی تمام اوصاف اور خصوصیات کو بیان کیا جائے اس کے لیے ایک بڑی کتاب کی ضرورت ہے لہذا ہم یہاں یہ کوشش کریں گے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے علمی مقام کو مختصراً نہج البلاغہ کی روشنی میں زیر قلم لائیں اور اس موضوع کی تیاری میں نہج البلاغہ کے علاوہ نہج البلاغہ کے شروح اور اس سے مربوط دوسری کتابوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے البتہ محور اصلی نہج البلاغہ ہی کو قرار دیا گیا ہےـ




