منظوم نہج البلاغہ

منظوم نہج البلاغہ خطبہ نمبر 1

ابتدائے آفرینش زمین و آسمان اور خلقت آدمؑ کا بیان

منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ

تمام حمد ہے مخصوص اس خدا کے لئے

کہ جس کی مدح سے قاصر ہیں بولنے والے

اور اس کی نعمتوں کو گننا چاہیں بھی تو ہزار

شمار کر نہیں سکتے کبھی بھی اہل شمار

نہ اہل جہد سے حق اس کا ہو سکے گا ادا

"محال ہے کہ احاطہ کرے کوئی اس کا”

نہ ہمتوں کی بلندی میں آ ہی سکتا ہے

نہ عقل و فہم کی تہ میں سما ہی سکتا ہے

نہ اس کی ذات ہے محدود اور نہ اس کے لئے

ہیں ایسی لفظیں کہ تعریف جن سے کی جائے

نہ کوئی وقت مقرر ہے ابتدا کے لئے

نہ کوئی آخری مدت ہے انتہا کے لئے

اور اس نے خلق کو قدرت سے اپنی پیدا کیا

ہوائیں اپنی ہی رحمت سے جاری کیں بخدا

پہاڑوں اور چٹانوں کی میخوں سے اس نے

زمیں کی حرکت و گردش کو تھام رکھا ہے

اساس دین و عقیدہ ہے معرفت اس کی

اور اعتراف ہے اس معرفت کی "پہلی کڑی”

اور اعتراف کا سارا کمال ہے توحید

کمال وحدت و توحید ہے خلوص شدید

خلوص دل کی بلندی ہے صرف نفئی صفات

کہ خود صفات ہیں شاہد کہ غیر اسکی ہے ذات

اور اسکی ذات ہے شاہد الگ ہے اس سے صفت

صفت کو مانا تو لازم ہے غیر کی شرکت

شریک مانا کسی کو تو دوئی کی پیدا

جو دوئی پیدا کرے اس نے چز بنا ڈال

اور اس کے واسطے اجزا کا جو ہوا قائل

تو اس سے ہوگیا گویا وہ آدمی غافل

جو بے خبر رہا اس سے اشارہ اس نے کیا

اشارہ جس نے کیا اس نے حد کو مان لیا

وہ جسنے اس کو کسی ایک حد میں مان لیا

تو گویا اس نے عدد میں اسے شمار کیا

کہا یہ جس نے کہ کس چیز میں وہ مضمر ہے

تو گویا اسنے کسی ضمن میں ہے سمجھا اسے

سوال جس نے کیا یہ کہ کس پہ قائم ہے

تو اس نے دوسری جگہوں سے خالی جانا اسے

وہ ہے ہوا نہیں ، اس کے بغیر دنیا نہیں

مگر عدم کی وہ تاریکیوں سے نکلا نہیں

وہ سب کے ساتھ ہے دیکھو تو اتصال نہیں

ہر ایک شئے سے الگ ہے پہ انفصال نہیں

ہے فاعل ایسا کہ آلات کا اسیر نہیں

مثال اس کی نہیں اور کوئی نظیر نہیں

بصیر تب بھی وہ تھا جبکہ خلق میں کوئی

دکھائی دینے کے قابل تو کوئی شئے ہی نہ تھی

وہ ایک ہے وہ اکیلا ہے اور تنہا ہے

وہ اپنی ذات میں یکتا ہے اور یگانا ہے

نہ کوئی ساتھی جسے پاکے شاد و فرحاں ہو

نہ کوئی دوست جسے کھو کے وہ پریشاں ہو

اور اس نے خلق کو از علم غیب پیدا کیا

نہ ابتدا میں نمونہ کوئی نگاہ میں تھا

تفکرات کی جولانیاں دکھائے بغیر

کسی بھی تجربے سے فائدہ اڻھائے بغیر

نہ حرکتوں سے مدد لی نہ گردشوں میں پڑا

نہ ولولہ تھا نہ فکروں کی الجھنوں میں پڑا

ہر ایک چیز کو اوقات کے حوالے کیا

تضاد تھا تو توازن کا پیرہن بخشا

ہر ایک چیز کو اک منفرد طبیعت دی

طبیعتوں کو بھی مخصوص شکل و صورت دی

تمام چیزوں کو ان کے وجود سے پہلے

وہ جانتا تھا وہ واقف تھا ان کی غایت سے

نفوس اور انکے قرائن کا بھی تھا اس کو پتہ

تمام چیزوں کے اطراف کو بھی جانتا تھا

فضا کو خلق کیا اس کو وسعتیں بخشیں

کنارے اس کے ہوائیں بھی اسنے پیدا کیں

پھر ایسا پانی بہایا کہ اس کی لہروں میں

بلا کا جوش تھا تہ دار جسکی تھیں موجیں

اور اس کو تیز ہواوں کے دوش پر لادا

پھر انکو پانی الٹ دینے کا بھی حکم دیا

ہوا اور آب کی یوں سرحدیں ملا ڈالیں

کہ نیچے رقص ہوا اوپر اس کے موجیں تھیں

پھر اس نے ایک ہوا اور ایسی کی ایجاد

کسی بھی طرح کی تولید سے جو تھی آزاد

اور اس کو روک کے مرکز پہ دے دیا قابو

شدید کردئے جھونکے اڑا دیا ہر سو

پھر اس نے حکم ہوا کو دیا کہ لہروں کو

الٹ پلٹ دے ، اچھالے وسیع موجوں کو

ہوا نے پانی کو کچھ اس طرح سے متھ ڈالا

کہ جس طرح سے متھا جائے ایک مشکیزہ

پھر اس کو لیکے فضائے بسیط میں وہ گئی

ڈھکیلتی ہوئی تیزی کے ساتھ ایسے چلی

کہ پہلے حصہ کو آخر پہ یوں الٹ ڈالا

جمے ہوئے کو یوں سیال پر پلٹ ڈالا

کہ اونچی ہوگئی اک سطح آب اور اس پر

اڑھا دی جھاگ نے اپنی دبیز اک چادر

کھلی فضا میں اسی جھاگ کو بلند کیا

اور اس سے ساتوں فلک رب نے ہیں کئے پیدا

کہ جس کا پہلا فلک مثل موج راکد تھا

(نہ گردش اسمیں نہ حرکت وہ ایساجامد تھا)

اور اس کا اوپری حصہ کہ جیسے اک چھت ہو

بلند و برتر و بالا سی اک عمارت ہو

نہ تھا ستون کہ جو دے سکے سہارا اسے

نہ باندھنے کی ضرورت تھی روکنے کے لئے

پھر آسمانوں کو تاروں سے اس نے زینت دی

چمک دمک سے سجایا عطا کی زیبائی

جلائی شمع درخشاں رواں قمر کو کیا

اور اس کو گھومتی چھت چلتی لوح میں رکھا

پھر آسمانوں میں اس نے شگاف پیدا کئے

طرح طرح کے فرشتے بھی اسمیں بھر ڈالے

کہ جنمیں بعض تو سجدے میں محو ہیں ایسے

کہ سر اڻھا نہیں سکتے رکوع کے بھی لئے

کچھ ایسے بھی ہیں جو محِو رکوع ہیں ایسے

قیام کرنے کی فرصت بھی جو نہیں رکھتے

کچھ انمیں ایسے بھی ہیں جوصفوں کو باندھےہوئے

کھڑے ہیں، اپنی جگہ سے جو ہل نہیں سکتے

کچھ ایسے بھی ہیں جو تسبیح سے نہیں تھکتے

نہ نیند آتی ہے جن کو نہ سہو ہو ان سے

بدن میں سستی نہیں جسم خستہ حال نہیں

دماغ ایسے کہ غفلت کا احتمال نہیں

کچھ ان میں وحئی الہی کے حاملین بھی ہیں

رسولوں کے لئے احکام کے امین بھی ہیں

کچھ انمیں بندوں کے نگران و پشتیبان بھی ہیں

در بہشت کے دربان و پاسبان بھی ہیں

کچھ انمیں ایسے ہیں پاتال میں ہیں جن کے قدم

اور ان کی گردنوں کے آگے سر ہے عرش کا خم

بدن اک وسعِت عالَم کو ہیں سمیڻے ہوئے

اور ان کے شانوں پہ ہیں پایہ ہائے عرش رکے

جھکی ہوئی ہیں نگاہیں اس عرش کے آگے

اور اس کے نیچے ہیں وہ بال و پر سمیڻے ہوئے

خدا کی اور جو مخلوق اس مکان میں ہے

حجاِب عزت و جبروت درمیان میں ہے (1)

خدا کو شکل و شباہت میں وہ نہیں لاتے

صفاِت خلق کو منسوب وہ نہیں کرتے (2)

اسے محل و مکاں میں کبھی نہیں رکھتے

شباہتوں سے اشارہ کبھی نہیں کرتے

پھر اس نے جمع کی ہر اک زمین کی مڻی

جو سخت و نرم تھی شیرین و شورہ زار بھی تھی

پھر اس قَدر اسے ، اس نے بھگویا پانی سے

کہ صاف ہوگئی وہ رب کی حکمرانی سے

پھر اتنا گوندھا کہ لَس اس میں ہوگیا پیدا

اور اس سے ، اس نے بنائی وہ صورت زیبا

کہ جسمیں موڑ بھی تھے اور جوڑ بند بھی تھے

تمام طرح کے اعضائے دل پسند بھی تھے

پھر اس کو اتنا سکھایا کہ خود ہی تھمنے لگی

اور اتنا سخت کیا گویا کھنکھنانے لگی

اور ایک مدت معلوم تک اسے رکھا

پھر اس میں روح بھری آدمی بنا ایسا

دماغ و ذہن کے جس میں تحرکات بھی تھے

تمام فکر کے جس میں تصرفات بھی تھے

قوائے عقل بھی خدمت گذار جسم بھی تھا

الگ کرے حق و باطل کو جو وہ علم بھی تھا (3)

مزوں کی رنگوں کی خوشبو کی معرفت بھی تھی

تمیز کرنے کی جس میں صلاحیت بھی تھی

یہ رنگا رنگ کی مٹی سے ہے بنایا گیا

کہ جس میں مشترک اور ملتے جلتے ہیں اجزا

ضدیں بھی اس میں ہیں ہر طرح کا بھی ہے عنصر

کہ گرمی، سردی، تری، خشکی کا ہے یہ پیکر

مطالبہ یہ فرشتوں سے پھر کیا اس نے

جو دی گئی تھی امانت ادا وہ کردیں اسے

جو عہد سجدہ آدم کے بارے میں تھا ہوا

جھکا کے سر کو کریں اپنا عہد وہ پورا

چنانچہ کہدیا ، آدم کو تم کرو سجدہ

بہ جز لعین کے آدم کو سب نے سجدہ کیا

جہالت اور تعصب نے اس کو گھیر لیا

شقاوت اور سیہ بختی نے کیا غلبہ

وہ سمجھا آگ کی خلقت دلیلِ عزت ہے

تراب و خاک کی خلقت ثبوت ذلت ہے

خدائے پاک نے بھی اس لعیں کو مہلت دی

غضب کا پوری طرح مستحق بنے وہ شقی

ہو آزمائِش نسل ابو البشر پوری

اور اپنا وعدہ بھی پورا کرے خدائے جلی

چنانچہ کہدیا معلوم وقت تک کے لئے

مری طرف سے اے ابلیس تجھ کو مہلت ہے

اور ایسے گھر میں پھر آدم کو اس نے ڻھہرایا

تھی ان کی زیست جہاں خوشگوار و آسودہ

انہیں عدو کی عداوت سے با خبر بھی کیا

مگر عدو نے سکونت سے جل کے دھوکہ دیا

یقیں کو وہم سے آدم نے بھی بدل ڈالا

اور اپنا عزم ضعیفی کے ہاتھوں بیچ دیا

اور اس طرح سے مسرت کو خوف سے بدلا

فریب کھا کے عدو سے ہوئے وہ شرمندہ

خدا نے پھر انہیں اسباِب توبہ بتلائے

جو نام رحمت و برکت کے تھے وہ سکھلائے

دوبارہ خلد میں پہنچانے کا کیا وعدہ

اور امتحان کی دنیا میں لاکے چھوڑ دیا

پھر ان کی نسل میں نبیوں کا انتخاب کیا

کہ جن سے وحئی خدا کی بقا کا عہد لیا

اور ان کو کار رسالت کا عہدہ بھی سونپا

امین ان کو بنایا طریقہ بتلایا

بدل دیا تھا خدا کا وہ عہد لوگوں نے

اور اس کے حق سے وہ بے بہرہ اور غافل تھے

بنا چکے تھے وہ اوروں کو اسکے ساتھ خدا

عبادتوں سے عدو کر چکا تھا ان کو جدا

خدا نے ان میں پیمبر کئی روانہ کئے

اور ان کے بیچ لگاتار انبیاء بھیجے

کہ ان سے عہد خو فطرت کے تھے وہ پورے کرائیں

اور اس کی بھولی ہوئی نعمتوں کو یاد دلائیں

سنائیں ان کو خداوند بحر و بر کا پیام

اور ان پہ حجت پروردگار کردیں تمام

دفینے عقل و خرد کے ابھاریں باہر لائیں

اور ان کو قدرت رب کی نشانیاں دکھلائیں

یہ سر پہ اونچی سی چھت اور یہ فرش زیِر قدم

یہ زندگی کی معیشت یہ موت اور یہ عدم

یہ ناتوانی کے اسباب اور یہ بیماری

یہ حادثاِت مسلسل یہ رنج و غمخواری

اور اس نے خلق کو اپنی کبھی نہیں چھوڑا

نبئی مرسل اور اپنی کتاِب حق کے بنا

طریقِ روشن و برہان لازمی کے بغیر

دلیلِ قاطع و تبلیِغ دائمی کے بغیر

رسول ایسے عدد کی کمی نہ روکے جنہیں

نہ اہلِ کذب کی کثرت ہی باز رکھے جنہیں

اور ان میں پہلے جو تھا اس نے آنے والے کا

تمام حال بتایا معے نشاں و پتہ

اور ان میں بعد جو آیا وہ پہلے والے کا

کرا چکا تھا تعارف بتا چکا تھا پتہ

اور یوں ہی مدتیں گذریں زمانے بیت گئے

تھے باپ دادا جہاں بس گئے وہاں بچے

یہاں تلک کہ وفا کرنے اپنے وعدے کو

نبوت اور رسالت کے ختم کرنے کو

محمد عربی کو خدا نے بھیج دیا

کہ جن کے بارے میں نبیوں سے عہد تھا اسکا

علامتیں تھیں نمایاں اور ان کی پیدائش

بہت مبارک و مسعود وجِہ آسائش

اور اس زمانے میں اہلِ زمین کے ببیشک۔

جدا جدا تھے عقیدے ، الگ الگ مسلک۔

نہ خواہشوں میں تھی وحدت نہ کوئی یکرنگی

خدا کو خلق سے تشبیہ دے رہا تھا کوئی

کوئی بگاڑ رہا تھا خدا کے ناموں کو

کوئی بتاتا تھا معبود اپنا اوروں کو

خدا نے آپ کی برکت سے پھر ہدایت دی

نکالا جہل سے ان کو ہڻائی تاریکی

چنا پھر آپ کو اس نے برائے قرب و لقا

اور اپنا خاص کرم آپ کے لئے رکھا

بلند کرلیا اور آپ کو نجات بھی دی

چھڑا لیا غم و آلام سے زمانہ کی

اڻھا لیا بڑی عزت سے آپ کو اس نے

بلا لا لیا بڑی چاہت سے آ پ کو اس نے

نظام ویسا ہی امت کے بیچ چھوڑ گئے

کہ جیسا چھوڑا تھا نبیوں نے آپ سے پہلے

کہ پچھلے نبیوں نے بھی یوں ہی منہ کو موڑا نہیں

اور اپنی قوم کو بے قید و بند چھوڑا نہیں

کہ جس کے آگے کوئی راہ آشکار نہ ہو

نشان محکم و برہان پائیدار نہ ہو

تمہارے بیچ گئے چھوڑ کر وہ رب کا کلام

کہ جس میں صاف ہے مرقوم سب حلال و حرام

بیان فرض بھی ہے ذکر مستحب بھی ہے

وہ جس میں ناسخ و منسوخ کا سبب بھی ہے

ہے رخصت اور عزیمت کا ذکر بھی موجود

ہے خاص و عام کا عبرت کا ذکر بھی موجود

ہے مطلق اور مقید کا بھی بیاں جس میں

ہے محکم و متشابہ کی داستاں جس میں

ہے مجملات کی تفسیر اور وضاحت بھی

اور اس کی گتھیوں کا ،ہے بیان حکمت بھی

کچھ ایسی آیتیں بھی ہیں کہ جن کے جاننے کی

ہر ایک شخص ہر انسان پر ہے پابندی

وہ آیتیں بھی ہیں اس میں کہ جنکی لا علمی

گرفت کے نہیں قابل حرج نہیں کوئی

کچھ ایسے حکم ہیں جن کا وجوب لکھا ہے

مگر حدیث میں منسوخ ہونا آیا ہے

وہ حکم بھی ہیں کہ جو فرض تو ہیں سنت سے

مگر کتاب میں متروک ہیں وضاحت سے

کچھ ایسے حکم ہیں جن کا وجوب وقتی ہے

عمل ہمیشہ ہو جن پر یہ غیر حتمی ہے

محرمات کے ما بین بھی لکیریں ہیں

صغیرہ اور کبیرہ کی اس میں فصلیں ہیں

ہیں کچھ کبیرہ کہ جن پر سزائے آتش ہے

ہیں کچھ صغیرہ کہ جن پر امید بخشش ہے

عمل ہیں وہ بھی کہ جن کا قلیل بھی ہے قبول

بڑھائے جانے کا امکان بھی ہے اصلِ اصول

اور اس نے فرض کیا تم پہ حج بیت حرام

جسے بنایا ہے قبلہ برائے خاص و عام

جہاں کچھ اس طرح آتے ہیں لوگ سب کھنچ کے

کہ جیسے گھاٹ پہ آتے ہیں جانور پیاسے

اور ایسا بڑھتے ہیں وارفتگی سے سوئے ہدف

کہ جیسے بڑھتے کبوتر ہیں گھونسلوں کی طرف

اور اس نے حج کو کیا صرف اس لئے واجب

یہ انکساری ہے اس کی بڑائی کی جانب

اور ایسے بندوں کو مخلوق میں سے اپنی چنا

کہا جنہوں نے ہے لبیک سن کے اس کی صدا

اور اس کی باتوں کی تصدیق جن نفوس نے کی

(طواف خانہ کعبہ کے مستحق ہیں وہی)

انہوں نے نبیوں کی جگہوں پہ ہے وقوف کیا

فرشتگانِ سماوی سا حج بجا لایا

عبادتوں کی وہ منڈی سے نفع لیتے ہیں

وہ وعدہ گاِہ معافی کی سمت بڑھتے ہیں

خدا نے کعبہ کو دیں کا علم بنایا ہے

جو بے پناہ ہیں ان کا حرم بنایا ہے

حج اس کا فرض کیا "حق کو قرض کر ڈالا”

اور اس کی راہ نوردی کو فرض کر ڈالا


(1) درمیان میں ہے۔
(2) درمیان کے بعد میں کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔
(3) یہاں زائد ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button