منظوم نہج البلاغہ

منظوم نہج البلاغہ خطبہ 22

قتل عثمانؓ کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں

منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ

تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ ٹولے کو اپنے

شروع کر ڈالے ہیں شیطاں نے بھڑکانے کے منصوبے

اکھٹا کرلی ہیں فوجیں کہ ظلم و جور پھر لوٹے

اور اپنے مرکز اصلی پہ باطل پھر پلٹ آئے

نہ ان سب نے کوئی الزام ہی سچا لگایا ہے

نہ میرے اور اپنے درمیاں انصاف برتا ہے

یہ اس حق کے ہیں طالب مجھ سے جس کو خود ہی چھوڑا ہے

اور اس خوں کا عوض ہیں مانگتے جو خود بہایا ہے

اگر اس میں مری شرکت تھی یا میں ان کا ساتھی تھا

تو پھر اس میں نکلتا ہے خود ان کا بھی تو اک حصہ

اگر اس خون کو ان لوگوں نے خود ہی بہایا ہے

تو پھر اس کی سزا بھی صرف ان کو ہی بھگتنا ہے

مری ضد میں کریں گے پیش یہ جو بھی دلیل اپنی

انہی پر وہ پڑے گی اور انہی کی ضد میں جائے گی

یہ نوش جان کرنا چاہتے ہیں دودھ اس ماں کا

نہیں ہے پاس جس کے دودھ کا اب کوئی بھی قطرہ

جو بدعت مر چکی ہے تازہ کرنا چاہتے ہیں یہ

اسی کو از سر نو زندہ کرنا چاہتے ہیں یہ

یہ داعی جنگ کا افسوس , ہے کم بخت کس درجہ

سنی کیوں جارہی ہے بات اس کی ، چاہتا ہے کیا

میں خوش اس بات پر ہوں ان پہ حجت ہوچکی پوری

خدا ان لوگوں کے حالات سے رکھتا ہے آگاہی

اگر میرا نہ مانا حکم یا طاعت کو اب چھوڑا

تو اپنی تیغ کی میں باڑھ ان کے آگے رکھ دوں گا

یہی امراضٍ باطل کی دوا ہے اور درماں ہے

یہی حق کی مدد اور اس کی ہر نصرت کا ساماں ہے

تعجب ہے مجھے پیغامٍ نیزہ بازی دیتے ہیں

یہ تلواروں کی شدت سہنے کی جانب بلاتے ہیں

جو رونے والیاں ہیں روئیں ان کے غم میں چلاکر

نہ میں جنگوں سے گھبرایا نہ کچھ تلواروں کا ہے ڈر

میں پہنچا ہوں بہ امداد خدا ایقاں کے درجے تک

مجھے دیں کی حفاظت میں نہیں ہے کوئی وہم و شک

ختم شد

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button