
منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ
ہر ایک حال میں اللہ کے لئے ہے ثنا
زمانہ کیوں نہ کوئی دردناک لائے بلا
اور حادثات بھی کیوں نہ عظیم ہو جائیں
(مصیبتیں بھی نہ کیوں مستقیم ہو جائیں)
گواہی دیتا ہوں جز اس کے کردگار نہیں
کوئی خدائی میں اس کا شریک کار نہیں
محمد ص عبد ہیں اس کے رسول ہیں اس کے
( کتاب اس کی فروع و اصول ہیں اس کے)
شفیق و باخبر و مہربان ناصح کی
مخالفت کا نتیجہ ہے شرم و ناکامی
بتا چکا تھا میں تحکیم کا عمل کیا ہے
اور اپنی قیمتی رائے کا ما حصل کیا ہے
اے کاش مان لی جاتی اگر ”قصیر“ کی بات
تو پیش آتے نہ اس طرح کے کبھی حالات
مگر حریفٍ جفاجو کی طرح پیش آئے
تم ایک عہد شکن خو , کی طرح پیش آئے
کہ شک میں پڑ گیا ناصح ہوئی نصیحت شاق
طبیعت اس کی ہوئی لوگو صورت چقماق
کہ جس نے شعلوں کو بھڑکانا چھوڑ ڈالا ہو
کہ جس نے آگ کو برسانا چھوڑ ڈالا ہو
تمہارا اور مرا حال ایسا ہے آخر
کہ جیسے آلٍ ہوازن کا کہتا ہے شاعر
لوی (1) کے موڑ پہ میں نے تمہیں تو دی تھی خبر
نہ اس کو مانا نہ تم نے عمل کیا اس پر
پھر اس کے بعد سحر اگلے دن کی جب آئی
تو تم نے دیکھ لی میرے سخن کی سچائی

(1) منعرج اللوی
ختم شد




