منظوم نہج البلاغہ

منظوم نہج البلاغہ خطبہ نمبر 4

آپؑ کی دور رس بصیرت اور یقین کامل

منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ

ہماری وجہ سے ظلمات میں تم کو ملا رستہ

بلندی کے ہر اک کوہان پر تم نے قدم رکھا

ہمارے ہی سبب تاریک راتوں سے جہالت کی

ہدایت کے اجالوں کی طرف تم سب نے ہجرت کی

وہ بہرے اور محروم سماعت کان ہو جائیں

کہ جو چلانے والے کی نہ چلاہٹ کو سن پائیں

مری دھیمی صدا کو سن سکیں گے وہ بھلا کیسے؟

کہ جن کے کان بہرے رہ چکے ہوں صیحۂ رب سے

وہی دل مطمئن ہوتے سکون و چین پاتے ہیں

جو رب کے خوف اور یاد الٰہی میں دھڑکتے ہیں

تمہاری ذات سے ہر لمحہ دیکھی میں نے غداری

رہی مجھ کو توقع بے وفائی کے نتائج کی

تمہیں پہچانا مکاروں کی میں نے شکل و صورت میں

تمہیں دیکھا فریبی لوگوں کی میں نے شباہت میں

نقاب دینداری نے مجھے تم سے چھپایا تھا

مری نیت کی سچائی نے پردوں کو ہٹا ڈالا

میں گمراہی کی راہوں میں تمہاری رہنمائی کو

کھڑا تھا جادۂ حق پر تمہاری ہی بھلائی کو

جہاں اک دوسرے سے آکے تم ملتے ملاتے تھے

مگر رستہ دکھانے والے رہبر کو نہ پاتے تھے

کنواں تم کھودتے تھے پر نہ پانی تم کو ملتا تھا

(نہ ہی انعام و اجر جاں فشانی تم کو ملتا تھا)

کیا ہے آج میں نے اس زبان بستہ کو گویا

بلا کی قوت نطق و بیاں ہے جس میں پوشیدہ

گم اس کی ہوگئی رائے پڑا اس عقل پر پردہ

کہ جس نے مجھ سے روگردانی کی جسنے مجھے چھوڑا

کہ جب سے حق کو میں نے دیکھا ہے اس روز سے ابتک

نہ اس پر شبہ گذرا اور نہ ہی میں نے کیا کچھ شک

خموشی ہے مری مثل سکوت حضرت موسیٰ

نہ تھا ذرہ برابر ان کو اپنی جان کا خدشہ

انہیں ڈر تھا کہ جاہل لوگوں کا قبضہ نہ ہو جائے

کہیں جادوگروں کا عقلوں پر غلبہ نہ ہو جائے

کھڑے ہیں آج ہم سب حق و باطل کے دوراہے پر

بھروسہ ہو جسے پانی پہ وہ پیاسا رہے کیونکر

ختم شد

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button