
منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ
رسول اللہ نے فرمائی اس دنیا سے رحلت جب
اور عباس و ابو سفیان آئے کرنے بیعت جب
تو فرمایا کہ لوگو فتنہ و شورش کی موجوں کو
نجات و فوز کی کشتی سے چیرو اور نکل جاؤ
الگ ہو جاؤ راہوں سے عداوت اور تنافر کی
کلاہوں کو اتارو اپنے سر سے تم تفاخر کی
وہی ناجی ہے جو اٹھے تو بال و پر کے ساتھ اٹھے
نہیں تو دوسرے کے واسطے کرسی کو دے بیٹھے
بڑا گندلا یہ پانی ہے یہ لقمہ ایسا لقمہ ہے
کہ جس کے کھانے والے کے لیے اچھو کا خطرہ ہے
کہ قبل از وقت دیکھو پھل کو چننے والا ایسا ہے
کہ جیسے غیر آمادہ زمیں میں کھیتی کرتا ہے
اگر میں بولتا ہوں تو حریص تخت کہتے ہیں
میں چپ رہتا ہوں تو الزام خوف مرگ دھرتے ہیں
بہت افسوس! اب یہ بات! جب کہ کل مراحل کو
میں دیکھے بیٹھا ہوں ,طئے کرچکا ہوں سب منازل کو
ابو طالب کا بیٹا موت سے مانوس ہے اتنا
کہ جتنا ماں کی چھاتی سے بھی اک بچہ نہیں ہوتا
مگر اک علم میرے سینہ کے اندر ہے پوشیدہ
جسے ظاہر اگر کردوں تو ایسا طاری ہو رعشہ
کسی گہرے کنویں میں جس طرح رسی لرزتی ہے
دہلتی کانپتی بل کھاتی ہلتی تھرتھراتی ہے
ختم شد





