شمع زندگی

38۔ اللہ کا اخلاق

اَلْاَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ لَخُلُقَانِ مِن خُلُقِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ۔ (نہج البلاغہ خطبہ۱۵۴)
نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ایسے دو کام ہیں جو اخلاق خداوندی میں سے ہیں۔

معاشرے میں کامیابی کے دعویدار بہت ملیں گے اور ہر کسی کی کامیابی کا اپنا معیار ہوگا ۔کوئی بڑی جائیداد بنا کر خود کو کامیاب سمجھتا ہے اور کوئی سینکڑوں لوگوں کو اپنا تابع فرمان بنا کر خود کو صاحب عزت و وقار شمار کرتا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں با کمال افراد کی دو صفتوں کو بیان کیا ہے اور ان دو صفتوں کی اہمیت عجب انداز سے بیان کی ہے کہ یہ حقیقت میں اللہ کی صفتیں ہیں۔

ان میں سے ایک امر بالمعروف کہلاتی ہے یعنی خود آپ نے کمال کو پا لیا، ہدایت حاصل ہو گئی تو اب اس کمال کی طرف دوسروں کو دعوت دیں، نصیحت کریں، بلائیں اور اگر آپ نے خود کو فساد اور ذلت و پستی سے بچا لیا تو اب اس کی زکات ادا کیجئے اور اس ذلت کی طرف جانے والوں کو روک لیجئے۔

امیرالمومنینؑ نے ان دو صفتوں کو اللہ کی صفات و اخلاق قرار دے کر یہ بھی واضح کیا کہ کسی کو اچھائی کی طرف بلانے یا برائی سے روکنے کے لئے اللہ ہی کا طریقہ اپنائیں۔ اللہ کسی کو اچھائی کا حکم یا برائی سے منع اس لیے نہیں کرتا کہ اس میں اللہ کا کوئی فائدہ ہو بلکہ اللہ نے اپنی طرف سے انبیاء اور کتابیں بھیجیں اور حقیقت میں یہ اللہ اپنے بندوں سے محبت کی وجہ سے کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ پیار سے بلاتا اور منع کرتا ہے، سختی نہیں کرتا۔

اگر معاشرے کے پاکیزہ و با کمال لوگ دوسروں کی محبت کی خاطر پیار سے اس فریضے کو انجام دیں تو وہ معاشرہ بھی با کمال ہو جائے۔ امیرالمومنینؑ نے اس مثال سے معاشرے کے سنجیدہ لوگوں کو احساس ذمہ داری دلایا ہے اور اگر یہ احساس بیدار ہو جائے تو اچھائیوں کی طرف سبقت کا جذبہ پھلے پھولے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button