منظوم نہج البلاغہ

منظوم نہج البلاغہ خطبہ 37

اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا

منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ

میں لیکر اپنی ذمہ داریاں کندھوں پہ اٹھا تب

قدم آگے بڑھانے کی نہ تھی لوگوں میں جرآت جب

میں اپنا سر اٹھا کر اس زمانے میں چلا گھر سے

کہ جب گوشوں میں سارے لوگ پوشیدہ و پنہاں تھے

زباں اس وقت میں نے کھولی تھے سب لوگ گونگے جب

بڑھا میں نور رب سے تب کہ جب ٹھہرے ہوئے تھے سب

مری آواز دھیمی تھی قدم پر سب سے آگے تھے

(مری ہمت کے سکے تھے مری سبقت کے چرچے تھے)

حکومت کی عناں آئی ہے میرے ہاتھ جس لمحہ

تو اس میں قوت پرواز سی اک ہوگئی پیدا

فقط میں تھا جو اس میداں میں بازی لے گیا تنہا

پہاڑوں جیسا استحکام میرے پاس تھا گویا

جسے نہ آندھیوں کے تیز جھونکے سرکا سکتے تھے

ہواؤں کے نہ تیز و تند جھکڑ لرزا سکتے تھے

نہ کوئی طنز کا موقع نہ کوئی عیب کی جا تھی

نہ کوئی حرف تھا مجھ میں نہ کوئی ریب کی جا تھی

تمہارا پست طاقتور ہے جب تک حق نہ دلوا دوں

توانا پست ہے جب تک نہ اس سے حق کو میں لے لوں

قضائے رب پہ راضی ہوں اور اس کے حکم کے آگے

سراپا خم ہوں سارے کام میں نے سونپ ہیں ڈالے

تمہارا کیا گماں ہے میں نبی پر جھوٹ باندھوں گا؟

کہ جبکہ سب سے پہلے آپ کا میں ہی مصدق تھا

تو اب میں سب سے پہلےجھوٹ کیسے بول سکتا ہوں

(مگر یہ بات ہے ہر بات کو میں تول سکتا ہوں)

مرے حق میں تو بیعت پر اطاعت ہی مقدم تھی

مری گردن تو پہلے سے وفائے عہد میں خم تھی

ختم شد

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button