مقالات

نہج البلاغہ کے خدمت گزار باپ بیٹا

مولانا سید علی اظہر، مولانا سید علی حیدر

اُردو زبان میں نہج البلاغہ کو عام کرنے کی ایک عمدہ کوشش جناب مولانا سید علی اظہر نے کی۔ آپ 1277ھ/1861ء کو کھجوہ ضلع سارن بہار میں پیدا ہوئے۔ ایک علمی گھرانے میں پیدا ہونے والی ذہین شخصیت تعلیمی مراحل کو طے کر چکی اور مصروف خدمت ہوئی تو ایک خاص واقعہ نے انہیں نہج البلاغہ کے ترجمہ کی طرف مائل کیا۔ آپ نے نہج البلاغہ کا ستتر (77) صفحات پر مشتمل مقدمہ لکھا جس میں لکھتے ہیں:

مَیں شہر عظیم آباد میں مقیم تھا، میرے جاننے والے ہندو سے مسلمان ہو کر اہلِ حدیث کے عالم بننے والے شخص سے گفتگو ہوئی دوران گفتگو کہنے لگے ہم اس وقت شیعہ ہو سکتے ہیں اگر آپ شیعہ میں سچی پیشنگوئیوں والی کوئی ایسی کتاب دِکھائیں جو اہلِ سنت میں نہ ہو۔ میں نے اسی وقت جواب دیا ہم آپ کی فرمائش کے مطابق ایک ایسی کتاب پیش کرتے ہیں جس کو آپ کے تمام علماء قبول کرتے ہیں۔ نام اس کا نہج البلاغہ ہے۔ دیکھئے اس میں کس قدر مغیبات کی خبریں ہیں اور کس طرح اس کی تصدیق ہوئی ہے۔

یہ نام سنتے ہی ان کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا اور خاموش ہو گئے۔ اسی وقت سے یہ ارادہ میرے دِل میں موجزن ہوا کہ کسی طرح اس کنزِ مخفی کو عالم شہود میں لاؤں اور اپنی قوم کو اس دولتِ لا زوال سے فائدہ پہنچاؤں۔ الحمد للّٰہ کہ اب وطن میں بیٹھ کر یہ خدمت انجام دے رہا ہوں۔ خدا کرے ہماری قوم اس دُرِّ نایاب سے مستفید ہو اور میرے حق میں دُعائے خیر کرے۔ (مقدمہ نہج البلاغہ، خلاصہ ص ۱۳)

یہ ایک محققانہ اور درد بھرا مفصّل مقدمہ ہے جو الگ کتابی صورت میں شائع ہوتا رہا۔

مولانا شہوار حسین نقوی لکھتے ہیں: آپ نے مفصّل مقدمہ نہج البلاغہ لکھا مطبع اصلاح کھجوہ سے کتابی شکل میں شائع ہوا، جس کا راقم نے رامپور رضا لائبریری میں مطالعہ کیا۔ (شارحینِ نہج البلاغہ، ص۱۴۰)

مولانا سید حسین عارف نقوی نے بھی اس مقدمہ کا یُوں تذکرہ کیا:
”مقدمہ نہج البلاغہ: مولانا سید علی اظہر متوفٰی 1352ھ۔ 77ص، مطبع اصلاح کھجوہ سارن، تاریخ تکمیل 29 محرم الحرام 1324ھ۔
(بر صغیر کے امامیہ مصنفین کی مطبوعہ تصانیف و تراجم، ص۱۰۷)

مولانا سید حسین عارف نقوی علماء کے حالات پر خاص کام انجام دے چکے ہیں۔ تذکرۂ علماء امامیہ پاکستان کے نام سے علماء کے مفصّل حالات پر آپ کی کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں“۔

سید حسین عارف نقوی نے اپنی کتاب برصغیر کے امامیہ مصنفین شیعہ میں نہج البلاغہ پر لکھی جانے والی کتابوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ نہج البلاغہ (ترجمہ، شرح اور حواشی) اور متعلقاتِ نہج البلاغہ۔ انہوں نے مولانا سید علی اظہر کے مقدمہ کو ترجمہ والے حصہ میں نہیں بلکہ متعلقاتِ نہج البلاغہ میں درج کیا ہے۔

علّامہ سید مرتضیٰ حسین صدر الافاضل نے مولانا علی اظہر کے دو صفحات پر مشتمل حالات لکھے اور بائیس تصنیفات کا نام لکھا لیکن مقدمۂ نہج البلاغہ کا نام نہیں لکھا۔ (مطلع الانوار، ص ۳۴۶)

مقدمہ نہج البلاغہ میں جناب مولانا علی اظہر نے نہج البلاغہ کے ترجمہ کا سبب، نہج البلاغہ کے کلام امیر المؤمنین علیہ السلام ہونے کا علماء اہلِ سنت کا اقرار، جامع نہج البلاغہ سید رضیؒ کے مفصّل حالات اور نہج البلاغہ اور سید رضیؒ پر ہونے والے اعتراضات کا جواب، ابن ابی الحدید کے اہلِ سنت ہونے، اہلِ سنت علماء جنہوں نے نہج البلاغہ کے حوالے دیے اور جن علماء اہلِ سنت نے نہج البلاغہ کی شرحیں لکھی ہیں اور شیعہ شارحینِ نہج البلاغہ کا تفصیل سے تذکرہ کیا۔ آپ نے مقدمہ کے آخری صفحہ پر عربی میں لکھا: ہم نے اس مقدمہ میں شرح و ترجمہ کے مقاصد واضح کیے اور یہ اُس کا اختتام ہے۔ اس مقدمہ کی فوٹو کاپی ہمیں کراچی کی ایک لائبریری سے دستیاب ہوئی۔

مولانا علی اظہر کے مقدمہ کے بارے میں اتنی تفصیل لکھنے کے دو مقاصد ہیں پہلا یہ کہ یہ مقدمہ واقعاً مفید مقدمہ ہے اس سے قوم کو آگاہ ہونا چاہیے اور ان شاء اللّٰہ کوشش ہوگی کہ مرکز افکارِ اسلامی کی طرف سے اس کو نئے سرے سے الگ شائع کیا جائے۔

دوسرا مقصد یہ کہ نہج البلاغہ کے ترجموں کا ذکر ہوتا ہے تو جناب مولانا علی اظہر کو مترجم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اصل مترجم جو اِن کے فرزند مولانا علی حیدر ہیں اُنہیں فراموش کر دیا جاتا ہے۔

آغا بزرگ تہرانیؒ نے الذریعہ میں یُوں لکھا: شرح النھج: سید علی اظھر کھجوی الھندی متوفیٰ 1352 نے بین السطور اردو ترجمہ لکھا ہے اور حاشیہ پر تعلیقہ کے طور پر اس کی شرح لکھی ہے۔ یہ کتاب ہندوستان میں طبع ہو چکی ہے۔ (الذیعہ،ج۱۴،ص۱۴۱)

مولانا علی حیدر:

مولانا علی اظہر کے بڑے اور سعادت مند بیٹے مولانا علی حیدر نے اپنے عظیم باپ کے کاموں کو آگے بڑھایا۔ اِن کاموں میں سے ایک نہج البلاغہ کا ترجمہ تھا۔ اِن کے حالات زندگی کو تفصیل سے اور احترام و تجلیل سے علامہ سید مرتضیٰ حسن صدر الافاضل نے مطلع انوار، ص 354 میں بیان کیا۔

ایک مقام پر لکھتے ہیں: مولانا علی حیدر صاحب 1328ھ میں لاہور آئے اور انٹیل کالج میں داخلہ لیا۔ دو سال پڑھنے کے بعد مولوی فاضل کا امتحان دیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں فرسٹ پوزیشن کے ساتھ مولوی فاضل کی سند نے علمی حلقے میں ان کی دھاک بٹھا دی۔

علامہ سید مرتضیٰ حسین صدر الافاضل نے ان کے حالات کے ضمن میں ان کے ساتھ مدرسہ میں رہنے والے اور نہج البلاغہ کے مترجم مولانا مرزا یوسف حسین کی زبانی تفصیلی حالات لکھے آخر میں اِن کی پچیس تصانیف کا ذکر کیا اور اُن میں سے ایک ”ترجمہ و شرحِ نہج البلاغہ 107 خطبات“ ہیں۔ (مطلع انوار، ص۴۵۴)

اس تفصیل کا حوالہ رسالہ، اصلاح ماہ مئی 1961ء ہے۔ اور اصلاح آپ کے بڑے بھائی سید محمد باقر اور خود آپ کی نگرانی میں جاری ہوتا تھا لہٰذا باقی سب حوالوں سے یہ حوالہ معتبر ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ نہج البلاغہ کا ترجمہ باپ کا نہیں بلکہ بیٹے کا کام ہے۔ بیٹے نے باپ کے مقدمہ کے بعد ترجمہ کا کام جاری رکھا مگر یہ ترجمہ مکمل نہ ہو سکا بلکہ 107 خطبات تک کا ترجمہ ہوا۔ افسوس ہے کہ ان 107 خطبات میں سے بھی ہمیں جو دستیاب ہو سکے وہ 70 خطبات ہیں۔ تعجب ہے کہ مولانا مرزا یوسف حسین نے 1974 میں جب خود نہج البلاغہ کے خطبات کے حصے کا ترجمہ کیا تو وہاں جن ترجموں کا ذکر کیا ہے وہ مولانا مفتی جعفر حسینؒ، رئیس احمد جعفری، مولانا ظفر مہدی اور مولانا سید محمد صادق کے ترجمے ہیں اور مولانا سید علی حیدر سے اتنے قرب کے باوجود اِن کے ترجمے کا ذکر نہیں کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ عام دستیاب نہیں تھا۔

جناب مولانا علی حیدر کے 107 خطبات کے ترجموں میں سے 70 خطبات کا ترجمہ ہمیں جناب سید انصار حسین رضوی ماہلی کے مرتّبہ ترجمہ نہج البلاغہ میں ملا یہ ترجمہ پہلی بار اپریل 1970 میں شائع ہوا۔

ہمارے پاس اِس ترجمہ کا چوتھا ایڈیشن ہے جو ستمبر 1975 میں احباب پبلشرز، لکھنؤ سے شائع ہوا۔ اس میں پہلے 70 خطبات جناب مولانا علی حیدر کا ترجمہ ہے اور باقی خطبات کا مفتی جعفر حسینؒ کا ترجمہ ہے۔ خطوط کا ترجمہ مولوی عبد الرزاق ملیح آبادی کا ہے اور حِکَمْ کا ترجمہ علامہ سید مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی کا ہے۔ ماہلی صاحب والے مرتّبہ ترجمہ کی تفصیل الگ پیش کی جائے گی۔

ہم نے جناب مولانا علی اظہر کے پوتے اور جناب مولانا سید علی حیدر کے فرزند بر صغیر کے علماء میں ایک خاص مقام رکھنے والی شخصیت جناب علامہ سید رضی جعفر دام ظلہ کراچی کو فروری 2025 میں ایک نشست میں آپ کے دادا کا مقدمہ اور والد کے ترجمہ کے70 خطبات دکھائے تو اُنہوں نے اپنی مخصوص دُعاؤں سے بھی نوازا اور اس کی تصدیق بھی کی کہ مقدمہ دادا کا ہے ترجمہ والد کا ہے۔

جناب علی حیدر کے اِس ترجمہ کے بارے میں جناب سید انصار حسین ”عرضِ ناشر“ کے ضمن میں شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور والے ترجمہ اور مفتی جعفر حسینؒ کے ترجمہ کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں: ان ترجموں کے علاوہ ایک ترجمہ حجۃالاسلام جناب مولانا سید علی حیدر صاحب قبلہ طاب ثراہ جیسے یگانۂ روزگار عالم و محقق کے قلم سے تھا جن کی علمی خدمات اور مذہبی احسانات سے بر صغیر کا شاید ہی کوئی گھرانا نا واقف ہو۔ یہ ترجمہ ہی نہیں بلکہ مختصر سی شرح بھی ہے اور محققانہ انداز سے کہ اگر اسی انداز سے پوری کتاب مکمل ہو گئی ہوتی تو پھر کسی اور ترجمے اور شرح کی احتیاج نہ ہوتی مگر افسوس کہ جناب مرحوم کا قلم صرف ایک سو سات 107 خطبوں ہی تک اپنی منزل طے کر سکا تھا کہ کس نا گہانی افتاد کے سبب اس کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور یہ کتاب پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔

ہم نے اس کتاب کا آغاز جناب مرحوم ہی کے ترجمہ اور شرح سے کیا ہے تاکہ حقائق اور معارف کا یہ بہترین ذخیرہ جو عرصہ سے نایاب تھا پھر ایک مرتبہ منظرِ عام پر آ جائے۔ جس قدر خطبات کے ترجمے ہمیں دستیاب ہو سکے وہ ہم نے ابتداء میں دیے ہیں اس کےبعد بقیہ کتاب مفتی جعفر حسین صاحب قبلہ اور شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور کے شائع کردہ ترجموں سے مکمل کی ہے۔ ( نہج البلاغہ مع ترجمہ و حواشی، ص ۱۹)

علم دوست طبقہ اور کلام امیر المؤمنین علیہ السلام سے محبت رکھنے والاکوئی شخص بقیہ خطبات کا ترجمہ تلاش کر دے تو مرکز افکارِ اسلامی مکمل 107 خطبات کی اشاعت کا اہتمام کر سکتا ہے۔

والسلام
مقبول حسین علوی
مرکز افکارِ اسلامی
30 ستمبر 2025

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button