مقالات

علیؑ مطیع رسول ﷺ نہج البلاغہ کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مقدمہ

اس موضوع کا انتخاب کیوں؟

میں نے اس موضوع کا انتخاب اس لئے کیا کہ:

1: اطاعت رسول ایک ایسا موضوع ہے جس کو قرآن مجید نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور ایک باایمان شخص کی زندگی کی سعادت کا دارومدار، پیغمبر کی اطاعت کو قرار دیا ہے۔ قرآن کریم کی بیسیوں آیات میں پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ سورہ نساء میں ارشاد ہوا ”وما ارسلنا من رسول الا لیطاع بذن اللہ“ ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کے خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں۔ (1)

2: قرآن کے اس واضح حکم پر جس شخصیت نے کماحقہ عمل کیا وہ علی ابن ابی طالبؑ کی ذات اقدس ہے۔

3: مولائے کائنات کی عظیم شخصیت سے محبت کا دم بھرنے والے شیعہ اثنا عشری افراد پر ایک الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ حضرات حضرت علیؑ کو پیغمبر ﷺ کا مقام دیتے ہیں اور پیغمبر اکرم ﷺ کی اس قدر و منزلت کے قائل نہیں جو خدا نے ان کو عطا کی ہے۔ لہذا اس مختصر سی تحریر کو ضبط تحریر میں لانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اہل فکر کو یہ بتائیں کہ ہم حضرت علی  ابن ابی طالبؑ کو پیغمبرﷺ کے بعد اسلام کی دوسری عظیم شخصیت سمجھتے ہیں اور خود علی ابن ابی طالبؑ پیغمبر اکرمﷺ کے کس قدر مطیع اور فرمانبردار تھے اور انہوں نے اپنے ماننے والوں کو پیغمبر کی کیسے اتباع اور اطاعت کا حکم دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر یوں کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا کہ میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ہم مولا علیؑ کی اس عظیم قدر و منزلت کے بھی اس لئے قائل ہیں کیونکہ پیغمبر ﷺ کی ذات اقدس نے ان کا یہ مقام بیان فرمایا۔ لہذا ہم ”من یطع الرسول فقد اطاع اللہ“ کے مصداق کہلاتے ہیں۔

امام علی علیہ السلام کی ذات اقدس عقیدہ رسالت کی ایک عملی تصویر ہے، اگر کوئی شخص عقیدہ رسالت کو عملی صورت میں دیکھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ امام علیؑ کی سیرت کا مطالعہ کرے۔ ضمناً لازم الذکر سمجھتی ہوں کہ اگر یہ موضوع ”علی مطیع رسول“ ہوتا تو یہ ایک نہایت وسیع و گستردہ موضوع تھا کیونکہ مولا علیؑ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت میں گزرا۔ جیسا کہ خود مولائے کائناتؑ نے فرمایا: اصحاب پیغمبر محمد ﷺ میں سے شریعت کے امانتدار افراد جانتے ہیں کہ میں نے ایک لحظہ بھی خدا اور رسول ﷺ کے فرمان کی مخالفت نہیں کی۔ (2)

اس طرح مولائے کائنات کی پوری زندگی کو مختلف پیراؤں میں بیان کیا جاسکتا تھا، لیکن میرا موضوع علیؑ مطیع رسول ﷺ نہج البلاغہ کی روشنی میں تھا۔ لہذا میں نے کوشش کی کہ پیغمبر ﷺ کی اطاعت کے سلسلہ میں علیؑ  کے اس گوشہ حیات کو ذکر کروں جس کا نہج البلاغہ میں ذکر ہوا ہے۔ اس حوالے سے یہ موضوع مجھ جیسی ناتوان طالبہ کیلئے مشکل تھا۔ بہر حال خداوند متعال سے دعا ہے کہ خدا میری اس ناچیز سی کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں پیغمبر اکرم ﷺ کی اسی طرح اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس طرح امام علیؑ نے پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت کی۔ کیونکہ یہی سب سے بڑی کامیابی اور سعادت و خوش بختی ہے۔

والسلام

نہج البلاغہ اور اطاعت رسول ﷺ

نہج البلاغہ جو خود حضرت علی علیہ السلام کی عظیم شخصیت کی طرح ایک عظیم کلام ہے اور ایک ایسے بیکراں سمندر کی مانند ہے جس کی تہہ تک کسی کی رسائی نہیں۔ دیگر موضوعات کی طرح مولائے کائناتؑ نے اطاعت رسول ﷺ کے سلسلہ میں بھی ایسے گراں بہا جملے ارشاد فرمائے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر انسان دنیا و آخرت کی سعادتوں سے سرفراز ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت امیر المومنینؑ نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں رسول اعظم ﷺ کی اطاعت کے سلسلہ میں یوں رطب اللسان ہیں:

”فتس بنبیّک الاطیب الاطہرصلی اللہ علیہ وآلہ فن فیہ سوة لمن تسیٰ و عزاً لمن تعزی…“۔
یعنی ”تم  لوگ اپنے طیب اور طاہر پیغمبر ﷺ کی اتباع کرو کہ ان کی زندگی میں پیروی کرنے والے کیلئے بہترین نمونہ اور صبر اور سکون کے طلب گاروں کیلئے بہترین سامان صبر و سکون ہے۔ اللہ کی نظر میں محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے پیغمبر ﷺ کا اتباع کرے اور اس کے نقش قدم پر چلے“۔ (3)

ایک اور جگہ پر فرمایا:  ”جعلہ اللہ بلاغا لرسالتہ’ و کرامة لامتہ …“ یعنی ”اللہ نے انہیں پیغام رسانی کا وسیلہ، امت کی کرامت، اہل زمانہ کی بہار، اعوان و انصار کی بلندی کا ذریعہ اور یار و مددگار افراد کی شرافت کا واسطہ قرار دیا ہے“۔ (4)

اب مولائے کائناتؑ جنہوں نے ہمیں اس عظیم پیغمبر ﷺ کی اطاعت و پیروی کا حکم دیا ہے، سب سے پہلے آپ نے خود اس عظیم شخصیت کی لحظہ بہ لحظہ، قدم بہ قدم اطاعت کی، جیسا کہ خود فرمایا:

”انی لم ارد علی اللہ و لا علی رسولہ ساعة قط…“۔
”میں نے ایک لمحہ کیلئے بھی خدا اور رسول کی نافرمانی نہیں کی“۔ (5)

اور یہ کیسے نہ ہوتا کیونکہ مولائے کائناتؑ کے قول و فعل، کردار و گفتار میں رسول اکرم ﷺ سے مطابقت پائی جاتی ہے۔ خود نہج البلاغہ میں ایک جگہ پر فرمایا: ”ایھا الناس، انی واللہ ما احثکم علی طاعة الا و اسبقکم الیھا…” یعنی ”اے لوگو! خدا کی قسم میں اس وقت تک تمہیں کسی نیک عمل کی تشویق و ترغیب نہیں دلاتا جب تک کہ میں خود اس پر عمل نہ کر لوں اور کسی گناہ سے نہیں روکتا مگر یہ کہ میں پہلے خود اس سے محفوظ رہوں“۔ (6)

گود سے گور تک حضرت علیؑ اطاعت رسول ﷺ میں

ولادت سے بعثت پیغمبر ﷺ تک

1: زمانہ بچپن اور اتباع رسول ﷺ: اس پاک مولود کی زندگی کا مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ولادت کی اساس ہی پیغمبر اکرم ﷺ کی رسالت پر ایمان اور ان کی مدد و نصرت اور و اطاعت پر استوار تھی۔

حضرت ابو طالبؑ کا گھر پیغمبر اکرم ﷺ کی تربیت کا مرکز تھا، آپ کی تمام خصوصیات آپ کے ابن عم علی ابن ابی طالبؑ میں منتقل ہوئیں۔ یہی وجہ تھی کہ مولائے کائناتؑ ابھی چار سال کے نہ تھے کہ رسول اکرم ﷺ نے ان کو اپنے سے نسبت دی اور ان کو اپنا بھائی کہا۔ ان کی زندگی کا یہ اہم حصہ جس میں انسان کی شخصیت نشو و نما پاتی ہے پیغمبر ﷺ کے زیر سایہ تربیت میں گذرا۔

جب مکہ میں ایک سال سخت قحط پڑا، تو حضرت ابو طالبؑ کے ایک بیٹے جناب جعفر کو پیغمبر ﷺ کے چچا حضرت عباس اور جناب علیؑ کو آپ ﷺ خود اپنے گھر میں کفالت کیلئے لے آئے اور حضرت علیؑ پیغمبر ﷺ کی بعثت تک آپ کے گھر میں رہے اور حضرت علیؑ نے آپ ﷺ کی سب سے پہلے تصدیق کی اور آپ ﷺ کی پیروی کی۔ (7)

اور شارح نہج البلاغہ محمد تقی تستری نے مقاتل ابی الفرج سے بھی اسی طرح کے کلام کو نقل کیا ہے۔ (8)

جب پیغمبر اکرم ﷺ حضرت علیؑ کو اپنے گھر لے آئے تو فرمایا: ”میں نے علیؑ کو ایسے ہی منتخب کیا ہے جیسے خدا نے اس کو میرے لئے منتخب کیا ہے“۔

حضرت امیر المومنین نہج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ میں اپنی زندگی کے اس حصے کو اس طرح بیان کرتے ہیں: ”و قدعلمتم  موضعی من رسول اللہ بالقرابة و المنزلة الخصیصة وضعنی فی حجرہ و انا ولد یضمنی الی صدرہ…“۔ تمہیں معلوم ہے مجھے رسول اکرم ﷺ سے کس قدر قرابت اور مخصوص منزلت حاصل ہے انہوں نے بچپنے سے مجھے اپنی گود میں جگہ دی کہ مجھے اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے، اپنے بستر پر جگہ دیتے تھے، اپنے کلیجے سے لگا کر رکھتے تھے اور مجھے مسلسل اپنی خوشبو سے سرفراز فرمایا کرتے تھے اور غذا کو اپنے دانتوں سے چبا کر مجھے کھلاتے تھے۔ نہ انہوں نے میرے کسی بیان میں جھوٹ پایا اور نہ میرے کسی عمل میں غلطی دیکھی…“ْ

یہاں تک کہ آپؑ نے فرمایا:

”ولقد کنت اتبعہ اتباع الفصیل ثر مہ …“ْ۔
میں ان کے پیچھے اس طرح چلتا تھا جس طرح ناقہ کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے، وہ روزانہ میرے سامنے اپنے اخلاق کا ایک درس پیش کرتے تھے ”و یامرنی بالاقتداء بہ“ اور پھر مجھے اپنی اقتداء اور اطاعت کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ (9)

2: غار حرا میں پیغمبر ﷺ کی اتباع اور ہمراہی

حضرت محمد ﷺ مبعوث بہ رسالت ہونے کے پہلے سال میں ایک مہینہ غار حرا میں عبادت بجا لاتے تھے، ایک ماہ مکمل ہونے کے بعد آپ گھر تشریف لے جانے سے پہلے مسجد الحرام میں سات مرتبہ یا جتنا خدا چاہتا، خانہ خدا کا طواف بجا لاتے تھے۔ (10)

مختلف شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی حضرت علیؑ سے ایک خاص قسم کی وابستگی اور توجہ کے نتیجے میں اس ایک ماہ کی مدت میں بھی حضرت علیؑ، پیغمبر ﷺ کی اقتداء و اطاعت میں ان کے ہمراہ رہتے تھے۔ جب جبرائیل امین پہلی دفعہ غار حرا میں پیغمبر اکرم ﷺ پر نازل ہوئے اور آپؐ کو مبعوث بہ رسالت ہونے کی خوش خبری دی تو حضرت علی پیغمبر ﷺ کے جوار میں موجود تھے اور یہ دن اسی مہینے کا ایک روز تھا جس میں آپ غار حرا میں عبادت کیا کرتے تھے۔

حضرت علیؑ نہج البلاغہ کے خطبہ میں پیغمبر اکرم ﷺ کے ساتھ اپنی اس ہمراہی اور اتباع کو ذکر کرتے ہوئے یوں بیان کرتے ہیں: ”و لقد کان یجاور فی کل سنة بحراء فراہ ولا یراہ غیری…“ ”وہ سال میں ایک زمانہ غار حرا میں گزارا کرتے تھے جہاں صرف میں انہیں دیکھتا تھا اور کوئی دوسرا نہ ہوتا تھا“۔

یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: ”ولقد سمعت رنة الشیطان حین نزل الوحی علیہ…“ میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کی چیخ کی آواز سنی اور عرض کیا یا رسول اللہ! یہ چیخ کیسی ہے؟ تو فرمایا یہ شیطان کی چیخ ہے جو آج اپنی عبادت سے مایوس ہوگیا ہے، تم وہ سب دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں، اور وہ سب سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں صرف فرق یہ کہ تم نبی نہیں ہو۔ لیکن تم میرے وزیر بھی ہو اور منزل خیر پر بھی ہو“۔ (11)

اگرچہ پیغمبر اکرم ﷺ کی یہ عبادت مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے تھی لیکن پیغمبر اکرم ﷺ کی تربیت و اطاعت کا یہ نتیجہ تھا کہ امام علیؑ کی پاک روح اس کم سنی کے عالم میں اپنے نورانی قلب اور پر تاثیر نگاہوں اور صاف و پاک قوت سماعت سے ایسے امور کا مشاہدہ اور ایسی صداؤں کو سن رہی تھے کہ جو کسی عام انسان کے بس کا روگ نہ تھا۔ اسی سلسلہ میں ابن ابی الحدید معتزلی نہج البلاغہ کی شرح میں یوں رقمطراز ہیں:

صحاح ستہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ جب جبرائیل امین پہلی دفعہ پیغمبر ﷺ پر نازل ہوئے اور بعثت کی خوشخبری دی تو حضرت علیؑ ان کے جوار میں موجود تھے۔ (12)

اطاعت پیغمبر ﷺ بعثت سے ہجرت تک

حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کا دوسرا مرحلہ پیغمبر اکرم ﷺ کی بعثت سے لیکر آپ ﷺ کی مدینہ ہجرت تک کا زمانہ ہے۔ جو زمانے کے لحاظ سے تیرہ سال بنتا ہے۔ آئیے نہج البلاغہ کی رو سے ان کی اس مجاہدانہ اور مخلصانہ زندگی پر اطاعت رسول ﷺ کے حوالے سے ایک اجمالی نظر دوڑائیں۔

ا۔ اطاعت پیغمبر ﷺ میں سب سے پہلے ایمان لانے والے:

یہ صرف حضرت علیؑ کا امتیاز ہے کہ آپ نے پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ بلکہ صحیح تو یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ آپ نے سب سے پہلے اپنے اسلام کا اظہار کیا کیونکہ آپ بچپن ہی سے موحد تھے اور بت پرستی سے آپ کا دامن محفوظ و مصون تھا۔ (13)

اس مطلب کی تائید کیلئے یہی کافی ہے کہ آپ ہی وہ شخصیت ہیں جسے (کرم اللہ وجہہ) کا لقب ملا۔ یعنی ایسی ذات جو ایک لمحہ کیلئے بھی غیر خدا کے سامنے سر بسجود نہ ہوئی ہو۔

کتاب نہج الصباغہ میں خطیب سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس کی سند میں یحیٰ بن حسین نے حضرت جابر سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر ﷺ نے فرمایا: ”تین افراد ایسے ہیں جنہوں نے پلک جھپکنے کی مقدار میں بھی کفر اختیار نہیں کیا۔ مومن آل یاسین 2: علی ابن ابی طالبؑ 3: آسیہ زوجہ فرعون۔ (14)

یہ ایک ایسا امتیاز اور کمال ہے جسے قرآن نے برتری کا ایک معیار اور کسوٹی قرار دیا اور ایک خاص اہمیت دی ہے۔ ارشاد ہوا ”والسابقون السابقون اولئک المقربون“۔ 15

جن لوگوں نے (اسلام قبول کرنے میں) سبقت کی ہے ان کا مقام خدا کی بارگاہ میں بلند و برتر ہے۔

قرآن مجید نے فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے اور خدا کی راہ میں جان و مال کا انفاق کرنے والوں کو ان افراد سے افضل و برتر قرار دیا ہے جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے اور جہاد کیا۔ ”لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل…“۔ (16) ”تم میں سے جس شخص نے فتح (مکہ) سے پہلے (اپنا مال) خرچ کیا اور جہاد کیا اور (جس) نے بعد (میں) وہ برابر نہیں، ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا“۔

جب معیار یہ ٹھہرا تو قابل غور ہے کہ پھر ان افراد کا مقام و منزلت کس قدر بلند ہے جو ہجرت سے پہلے اور ظہور اسلام کی ابتداء میں مسلمان ہوئے اور پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت کی، تو اس بنا پر علی ابن ابی طالبؑ کا مقام و منزلت تو خدا ہی جانتا ہے کہ جس نے پیغمبر اکرم ﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کی اطاعت و فرمانبرداری کا اس وقت اعلان کیا اور اس وقت ان کی تصدیق کی جب پیغمبر اکرم ﷺ مبعوث بہ رسالت ہوئے۔

اسی اطاعت و ایمان کے بارے میں حضرت نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:  ”و لم یجمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول اللہ و خدیجہ و انا ثالثھما“۔ اس وقت رسول اکرم ﷺ اور خدیجہؑ کے علاوہ کسی گھر میں اسلام کا گرر نہ تھا اور ان میں تیسرا میں تھا، میں نور وحی و رسالت کا مشاہدہ کرتا تھا، اور خوشبوئے رسالت سے دماغ کو معطر کرتا تھا۔ (17)

اسی طرح ایک اور جگہ پر فرمایا: ”اللھم انی اول من اناب، سمع و اجاب، لم یسبقنی الا رسول اللّٰہ بالصلاة“۔ خدایا تجھے معلوم ہے میں نے سب سے پہلے تیری طرف رخ کیا اور تیرے پیغام کو سنا اور پیغمبر اکرم ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا، تیری بندگی میں رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی نے مجھ پر سبقت نہیں کی۔ (18)

اسی لئے پیغمبر اکرمﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ”اولکم ورودا علی الحوض و اولکم اسلاما علی ابن ابی طالب“۔ تم میں سب سے پہلے حوض کوثر پر جو شخص مجھ سے ملاقات کرے گا وہ علی ابن ابی طالبؑ ہے جس نے تم سب سے پہلے اسلام کا اظہار کیا۔ (19)

امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے ایک اور مقام پر اپنی اسی سبقت کو یوں بیان کیا ”میں خدا کا بندہ ہوں اور اللہ کے رسول ﷺ کا بھائی، اور صدیق اکبر ہوں، میرے بعد یہ دعویٰ، جھوٹا اور بہتان باندھنے والا ہی کر سکتا ہے میں نے لوگوں سے سات سال پہلے پیغمبر ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی“۔ (20)

دعوت ذوالعشیرہ اور اطاعت پیمبر ﷺ

بعثت کے تین سال بعد دعوت عام کے آغاز کا حکم دینے کیلئے پیغمبر اکرم ﷺ کی خدمت میں جبرائیل امین آیہ انذار ”و انذر عشیرتک  الاقربین واخفض جناحک لمن اتبعک“۔ لیکر آئے پیغمبر اکرم ﷺ نے امام علیؑ کو جب کہ ان کی عمر مبارک تیرہ سال کی تھی، حکم دیا کہ کھانے کا بندوبست کیا جائے اور حضرت عبد المطلب کی اولاد میں سے چالیس افراد (مرد و زن) کو دعوت دی جائے۔ حضرت علیؑ نے پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے کھانے کا انتظام کیا۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے اس بھرے مجمع میں کھانے کے بعد اپنی دعوت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا : ”تم میں سے کون ہے جو میرا حامی و مددگار ہو ……”۔ سب نے سر جھکا لیا۔ تین مرتبہ ایسے ہی ہوا اور تینوں مرتبہ امام علیؑ کے علاوہ کسی نے پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت و حمایت کا اعلان نہ کیا تو بالآخر پیغمبر اکرم ﷺ نے اپنا ہاتھ علیؑ کے ہاتھ پر مارتے ہوئے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ”اے میرے اقرباء! تمہارے درمیان یہ علیؑ میرا بھائی، و صی اور خلیفہ ہے“۔ (21)

امام علی علیہ السلام اپنے اس قول پر ثابت قدم رہے اور پیغمبر اکرم ﷺ کی ہمیشہ اطاعت اور حمایت کرتے رہے جیسا کہ خود نہج البلاغہ میں اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”و لقد کنت معہ …صلی اللہ علیہ وآلہ لما تا ہ الملاء من قریش……“۔ میں اس وقت بھی حضرت محمد ﷺ کی اطاعت میں ان کے ہمراہ تھا جب قریش کے سرداروں نے آ کر کہا محمد (ﷺ)! تم نے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے جو تمہارے گھر خاندان والوں میں سے کسی نے نہیں کیا“۔

امیر المومنین امام علی علیہ السلام آگے چل کر فرماتے ہیں: ”جب قریش والوں نے آپ سے (معجزہ کے طور پر) درخت کو جڑ سے اکھاڑنے کا مطالبہ کیا تو قسم ہے اس ذات کی جس نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا کہ درخت جڑ سے اکھڑ گیا اور اس عالم میں حضور اکرم ﷺ کے سامنے آ گیا کہ اس میں سخت کھڑکھڑاہٹ تھی اور پرندوں کی آوازوں جیسی پھرپھراہٹ بھی تھی۔ اس کی ایک شاخ سرکار کے سر پر سایہ افگن تھی اور ایک میرے کاندھے پر، جب کہ میں آپ کے دائیں پہلو میں تھا“۔ (22)

پیغمبر اکرم ﷺ کی اعلانیہ دعوت سے لیکر مدینہ ہجرت تک امام علیؑ آنحضرت ﷺ کے قدم بہ قدم ان کی اقتدا میں رہے اور ہر مقام پر آپ کا تحفظ کیا۔ جب قریش والوں نے بنی ہاشم کا اقتصادی بائیکاٹ کیا اور پیغمبر اکرم ﷺ چالیس افراد کے ساتھ شعب ابی طالب میں قیام پذیر ہوئے تو حضرت ابو طالب پیغمبر ﷺ کی حفاظت کے سلسلہ میں رات کے آخری حصہ میں آپ ﷺ کو مختلف جگہوں پر منتقل کر دیتے۔ تو امام علی علیہ السلام، پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے آپ ﷺ کے بستر پر استراحت کرتے، آپ نے اس مدت میں ایسی اطاعت اور فداکاری کا ثبوت دیا جس کی کہیں مثال نہیں ملتی، جب کہ آپ کی عمر مبارک اس وقت سترہ سے بیس سال کے درمیان تھی۔ (23)

اسی طرح شہر طائف میں جب پیغمبر اکرم ﷺ نے دس دن یا تیس دن قیام کیا تاکہ طائف کے بزرگان و اشراف کو اسلام کی دعوت دے کر طائف کو اسلام کا مرکز بنایا جائے تو اس مدت میں بھی امام علی علیہ السلام پیغمبر اکرم ﷺ کی ہمراہی و اقتداء میں رہے۔ بلکہ جب اس شہر والوں نے اسلام قبول نہ کیا اور آنحضرت ﷺ کو شہر سے نکال دیا اور آپ پر پتھروں کی بارش کی تو پیغمبر اکرم ﷺ کے دفاع میں امام علی علیہ السلام کا سر بھی زخمی ہوگیا۔ (24)

اطاعت پیغمبر ﷺ میں علی علیہ السلام کی بت شکنی

پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت میں آپ ﷺ کے کندھوں پر کھڑ ے ہو کر کعبہ میں موجود بت کو چکنا چور کر دینا بھی علی ابن ابی طالبؑ کی انفرادی خصوصیت ہے۔ جس کی تفصیل معتبر منابع اہل سنت میں موجود ہے جس کے ذکر کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔ خود حضرت نے ابو بکر سے مخاطب ہو کر اسی ماجرا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کیا وہ تم تھے جس نے پیغمبر اکرم ﷺ کے شانوں پر سوار ہو کر کعبہ میں بتوں کو نیچے گرایا تھا اور ان کو توڑا تھا، یا یہ کارنامہ انجام دینے والا میں تھا؟ ابو بکر نے جواب دیا:  یقیناً آپ ہی تھے۔ (25)

شب ہجرت، اطاعت رسول ﷺ کی ایک جھلک

بعثت کے چودھویں سال دارالندوہ میں مشرکین نے میٹینگ کرکے پیغمبر اکرم ﷺ کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا اور خداوند عالم نے مشرکین کے اس ناپاک عزم سے پیغمبر اکرم ﷺ کو آگاہ کر دیا اور حکم دیا آپ مکہ کو یثرب روانہ ہونے کی نیت سے ترک کر دیں۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے اس مسئلہ کو حضرت علی علیہ السلام کے سامنے رکھا اور کہا مشرکین کا یہ ارادہ ناکام کرنے کیلئے تم آج رات میرے بستر پر سو جاؤ اور پوچھا علی تم کیا کہتے ہو؟

دیکھیے اطاعت علیؑ! حضرت علیؑ نے ایک ایسا جواب دیا جس کو تاریخ نے اپنے سنہری حروف میں قلم بند کیا، آپ نے کہا:  اے اللہ کے رسول ﷺ اگر میں آپ کی جگہ پر سو جاؤں تو کیا آپ محفوظ رہیں گے؟ حضور ﷺ نے جواب دیا ہاں جبرائیل امین نے مجھے خبر دی ہے۔ حضرت علی مسکرا دئیے اور سر سجدہ میں رکھ دیا اور شکر خدا بجا لائے، علی کا سجدہ شکر اس وجہ سے ہے کہ علی  رسولﷺ کی اطاعت میں آپ ﷺ پر فدا ہورہے ہیں۔

سجدہ شکر سے سر اٹھایا اور کہا اے اللہ کے رسول جو آپ چاہتے ہیں اس کو انجام دیجئے میرا تن من آپ پر قربان ہو، آپ مجھے جو بھی حکم دیں گے میں اطاعت کروں گا۔ (26)

نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں حضرت فرماتے ہیں: ”فجعلت اتبع فاخذ رسول اللہ…“۔ میں مسلسل رسول اکرم ﷺ کے نقش قدم پر چلتا رہا اور ان کے ذکر کردہ خطوط پر قدم جماتا رہا یہاں تک کہ مقام عروج تک پہنچ گیا“۔ (27)

پیغمبر اکرم ﷺ غار ثور میں تین دن قیام کرنے کے بعد مدینہ روانہ ہوئے اور بارہ دن کے بعد مقام قبا پر پہنچ کر علیؑ کا انتظار کرنے لگے، یہاں تک کہ علی ابن ابی طالبؑ آپ کی خدمت میں پہنچ گئے۔  صاحب منہاج البراعہ نے تفصیل کے ساتھ اس واقعہ کو ذکر کیا ہے۔ (28)

اسی اطاعت و فد اکاری کو خود حضرت نے چھ افراد پر مشتمل شوریٰ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے بتاؤ، میرے علاوہ کون تھا جو اس پر خطر رات میں کہ جب پیغمبر اکرم ﷺ غار ثور تشریف لے گئے، آپ ﷺ کے بستر پر سویا اور خود کو مصیبتوں کے سپرد کیا ؟ سب نے کہا آپ کے سوا کوئی نہ تھا (29)

ہجرت سے وفات پیغمبر ﷺ تک

جنگ و جہاد میں اطاعت رسول اکرم ﷺ کی ایک جھلک

جنگی میدانوں میں پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت میں آپ کی عظیم فدا کاریاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ پیغمبر اکرم ﷺ کے مشرکین اور یہودیوں کے ساتھ 27 غزوں میں سے 26 میں امام علیؑ نے شرکت کی۔ فقط غزوہ تبوک میں کچھ خاص شرائط کی بنا پر پیغمبر اکرم ﷺ کے حکم سے مدینہ میں رہے۔ اس مختصر مقالہ میں تمام غزوات میں اتباع رسول ﷺ میں امام علیؑ کے کارناموں کو تفصیل سے بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔ فقط حضرت علی علیہ السلام کے نہج البلاغہ میں موجود فرامین کی روشنی میں ان کارناموں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔

نہج البلاغہ میں پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت میں جنگ و جہاد کے سخت لمحات کو حضرت نے ان الفاظ میں بیان کیا ”و لقد کنا مع رسول اللّہ، نقتل آبائنا و ابنائنا و اخواننا…“۔ ہم رسول اللہ کے ساتھ اپنے خاندان کے بزرگوں، بچوں، بھائیوں اور چچاؤں کو قتل کر دیا کرتے تھے اور اس سے ہمارے ایمان اور جذبہ تسلیم و اطاعت میں اضافہ ہوتا تھا۔ اور ہم برابر سیدھے راستے پر بڑھتے ہی جارہے تھے…الخ، یہاں تک کہ فرمایا: مجھے میری جان کی قسم! اگر ہمارا کردار بھی تمہارے جیسا ہوتا تو نہ دین کا کوئی ستون قائم ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی شاخ ہری ہوتی۔ (30)

جنگ بدر جو کہ مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان ایک عظیم معرکہ تھا، جس میں مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ مشرکین 950 سے لیکر 1000 کی تعداد میں تھے۔ فقط اس جنگ میں مشرکین کے 70 مقتولین میں نصف سے زائد امام علی علیہ السلام کی تلوار سے واصل جہنم ہوئے۔ شیخ مفید نے 36 افراد کے نام ذکر کئے ہیں جو امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی تلوار سے قتل ہوئے۔ شیخ مفید کہتے ہیں شیعہ اور سنی محدثین کا اتفاق ہے کہ ان افراد کو بہ نفس نفیس امام علی علیہ السلام نے قتل کیا۔ (31)

نہج البلاغہ میں ایک خط میں جو آپ نے معاویہ کو لکھا تھا، اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”و عندی سیف الذی اعضضتہ بجدک و خالک واخیک فی مقام واحد“۔ اور میرے پاس وہ تلوار ہے جس سے تمہارے نانا، ماموں، اور بھائی کو ایک ٹھکانے تک پہنچا چکا ہوں۔

اسی جنگ بدر کے بارے میں ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا: ”فنا ابوالحسن قاتل جدک…“۔ میں وہی ابو الحسن ہوں جس نے روز بدر تمہارے نانا (عتبہ بن ربیعہ) ماموں (ولیدبن عتبہ) اور بھائی (حنظلہ بن ابی سفیان) کا سرتوڑ کر خاتمہ کر دیا تھا۔ (32)

آپ علیہ السلام نے جنگ احد میں بھی پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت میں ایمان کے جذبہ سے سرشار ہو کر مشرکین کی سپاہ کے نو پرچمداروں کو اپنی تلوار سے واصل جہنم کیا اور خود اسی موضوع کی طرف چھ نفری شوریٰ میں اپنے حق کے لئے احتجاج کرتے ہوئے فرمایا: میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تمہارے درمیان میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس نے (جنگ احد میں) بنی عبدار کے نو پرچم داروں کو واصل جہنم کیاہو؟ (33)

اس جنگ میں ابو دجانہ اور سہل بن حنیف جیسے اصحاب بھی پیغمبر اکرم ﷺ کو تنہا چھوڑ کر میدان جنگ سے فرار ہو گئے لیکن علی پیغمبر اکرم ﷺ کا دفاع کرتے رہے۔ یہاں تک کہ فرشتوں نے علی علیہ السلام کی اس فدا کاری پر تعجب کیا  اور ”لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار“۔ کی صدا بلند ہوئی اور جب صدا بلند کرنے والانظر نہ آیا تو پیغمبر اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ یہ کون ہے؟ آپ ﷺ نے تو فرمایا یہ جبرائیل امین ہے۔ (34)

اسی بارے میں نہج البلاغہ میں فرمایا: ”ولقد واسیتہ بنفسی فی المواطن التی ……“۔  میں نے پیغمبر اکرم ﷺ پر اپنی جان ان مقامات پر قربان کی جہاں بڑے بڑے بہادر بھاگ کھڑے ہوئے تھے اور ان کے قدم پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ یہ صرف اس بہادری کی بنا پر تھا جس سے پروردگار نے مجھے سرفراز فرمایا تھا۔ (35)

شارح نہج الصباغہ فرماتے ہیں مواطن سے مراد فقط احد، حنین اور خیبر نہیں بلکہ سب غزوات مراد ہیں جن میں علی علیہ السلام  کی بدولت فتح نصیب ہوئی۔ (36) اور جنگ خندق میں آپؑ کے مخلصانہ جہاد کی ایک ضربت، جن و انس کی عبادت سے افضل قرار پائی۔

آپ خود اپنی شجاعت کے بارے میں نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: ”انا وضعت فی الصغر بکلاکل العرب و کسرت نواجم قرون ربیعة و مضر…“۔ مجھے پہچانو میں نے کم سنی ہی میں عرب کے سینوں کو زمین سے ملا دیا تھا اور ربیعہ اور مضر کے سینگوں کو توڑ دیا تھا“۔ (37)

آپ نے  ایک جگہ پر پیغمبر ﷺ کی اتباع اور اطاعت اور اپنے جہاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں فرمایا: ”وذلک السیف معی، بذلک القلب القی عدوی مااستبدلت دینا ولا استحدثت نبیّا…“۔ اور ابھی وہ تلوار میرے پاس ہے اور اسی ہمت قلب کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کروں گا، میں نے نہ دین تبدیل کیا ہے اور نہ نیا نبی اختیار کیا ہے۔ میں اس راستے پر چل رہا ہوں جسے تم نے اختیاری حدود تک چھوڑ رکھا تھا۔ پھر مجبوراً داخل ہوگئے تھے۔ (38)

وفات پیغمبر ﷺ سے ضربت تک

زہد و ورع میں اطاعت

نہج البلاغہ میں امامؑ نے پیغمبر اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کی پیروی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: ”ولقد کان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم … یاکل علی الارض، و یجلس جلسة العبی۔۔“۔ پیغمبر اسلام ﷺ فرش زمین پر بیٹھ کر غذا نوش فرماتے، غلاموں کے انداز میں بیٹھتے تھے، اپنی جوتیوں کو اپنے ہاتھوں سے سیتے اور لباس میں اپنے دست مبارک سے پیوند لگاتے۔

پھر آپؑ نے تفصیل کے ساتھ پیغمبر اکرم ﷺ کے زہد اور دنیا سے ان کی بے نیازی پر روشنی ڈالتے ہوئے اور پیغمبر اسلام ﷺ کی اطاعت و پیروی پر فخر و مباہات کرتے ہوئے اپنے زہد و تقویٰ کو یوں بیان کیا: ”واللہ لقد رقعت مدرعتی ھذہ حتی …“۔ خدا کی قسم یہ کپڑا جو میں پہنے ہوئے ہوں اس میں، میں نے اس قدر پیوند لگائے ہیں کہ اب پیوند لگاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے، ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ آپ یہ لباس اتار کیوں نہیں دیتے، میں نے جواب دیا: میری نظروں سے دور ہو جاؤ کیونکہ صبح ہونے کے بعد قوم کو رات میں سفر کرنے کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ (39)

پیغمبر اکرم ﷺ کے بارے میں فرمایا: ”قضم الدنیا قضمًا …“۔ انہوں نے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھر کر دیکھا بھی نہیں، ساری دنیا سے سب سے زیادہ خالی شکم زندگی گذارنے والے وہی تھے۔ ان کے سامنے دنیا پیش کی گئی تو اسے قبول کرنے سے انکار کردیا … (40)

آپ نے عثمان بن حنیف کو جو خط لکھا اس میں تحریر کیا کہ تمہارے امامؑ نے اس دنیا میں سے صرف دو بوسیدہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر اکتفاء کیا ہے… پھر پیغمبر اکرم ﷺ کی سنّت کی اطاعت کے سلسلے میں اپنے بارے میں فرمایا: ”ولو شئت لا ھتدیت الطریق، الی مصفّٰی ھذا العسل…“۔ میں اگر چاہتا تو اس خالص شہد، بہترین صاف شدہ گندم اور ریشمی کپڑوں کے راستے بھی پیدا کر سکتا تھا، لیکن خدا نہ کرے مجھ پر خواہشات کا غلبہ ہوجائے… (41)

اسی خط میں ایک اور جگہ پر فرمایا: گویا میں دیکھ رہا ہوں تم میں سے بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں جب ابو طالبؑ کے فرزند کی غذا ایسی معمولی ہے تو انہیں ضعف نے دشمن سے جنگ کرنے اور بہادروں کے ساتھ میدان میں اترنے سے بٹھا دیا ہوگا، یاد رکھنا جنگل کے درختوں کی لکڑی زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور تر و تازہ درختوں کی چھال کمزور … میرا رشتہ رسول اللہ ﷺ سے وہی ہے جو نور کا رشتہ نور سے ہوتا ہے یا ہاتھ کا رشتہ بازؤوں سے ہوتا ہے۔ (42) یوں دو ٹوک الفاظ میں زہد و ورع اور دنیا سے بے توجہی میں پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت کو بیان کیا۔

سیاسی کردار میں اطاعت رسول ﷺ

قانون کی یکسانیت، اصول اخلاق کی پاسداری اور حکومت اور طاقت کو خدمت کا ذریعہ سمجھنے میں آپ پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت کا سراپا تھے۔ حکومت کو حاصل کرنے کیلئے کسی کے ساتھ خیانت یا دھوکہ کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ جیسے پیغمبر اکرمﷺ نے مدینہ میں حکومت کے ذریعہ عدالت کو قائم کرنے کی حتیٰ المکان سعی و کوشش کی۔ آپ نے بھی پیغمبر اکرم ﷺ کی اس سنّت کو زندہ کیا۔ اس لئے نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: ”لو لا حضور الحاضر و قیام الحجة بوجود الناصر…“۔ اگر حاضرین کی موجودگی اور انصار کے وجود سے حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور اللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر چین سے نہ بیٹھنا، تو میں آج بھی اس ناقہ خلافت کی رسی کو اس کے کوہان پر ڈال کر اسے ہنکا دیتا…“۔ (43)

آپ نے حکومت حاصل کرنے کیلئے کبھی بھی نا جائز وسیلہ کا سہار ا نہ لیا۔ آپؑ اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ”واللّہ ما معاویہ بدھی منی و لکنہ یغدرو و یفجر…“۔ خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ ہوشیار نہیں لیکن کیا کروں وہ مکر و فریب اور فسق و فجور بھی کر لیتا ہے اور اگر یہ چیز مجھے ناپسند نہ ہوتی تو مجھ سے زیادہ کوئی ہوشیار نہ ہوتا… (44)

صبر و شکیبائی میں اطاعت رسول ﷺ

آپ نے پیغمبر اکرم ﷺ کی اطاعت میں صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا اس  بارے میں آپؑ نے فرمایا : ”کہ یہ صبر اور سکون کے طلب گاروں کیلئے بہترین سامان صبر و سکون ہے“۔ (45)

لہذا اسی سنت کی اتباع کرتے ہوئے حتیٰ اس وقت بھی جب آپ کی خلافت کو چھین لیا گیا، آپ نے صبر کیا اور اس بارے میں فرمایا: ”فسدلت دونھا ثوبا وطویت عنھا…“۔ میں نے کنارہ کشی اختیار کی اور سوچا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس بھیانک اندھیرے میں صبر کر لوں، میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں …“۔ (46)

پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت جیسی عظیم مصیبت میں بھی آپؑ نے اتباع کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، رسول اللہ ﷺ کے جسد اطہر کو غسل و کفن دیتے وقت ارشاد فرمایا: ”ببی انت وامی یا رسول اللہ……“۔ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں آپ ﷺ کے انتقال سے وہ الٰہی احکام، آسمانی اخبار کا سلسلہ منقطع ہوگیا جو آپ کے علاوہ کسی کے مرنے سے منقطع نہیں ہوا تھا… یہاں تک کہ فرمایا: اگر آپ نے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور نالہ و فریاد سے منع نہ کیا ہوتا۔ تو ہم آپ کے غم میں آنسوؤں کا ذخیرہ ختم کر دیتے اور یہ درد بھی کسی درمان کو قبول نہ کرتا اور یہ رنج و الم ہمیشہ ساتھ رہ جاتا۔ (47)

ضربت کے وقت اطاعت رسول ﷺ

پیغمبر اکرم ﷺ کی سنت تھی کہ باوجود اس کے کہ لوگوں نے آپ کو دکھ درد دئیے لیکن آپ نے ان کیلئے بددعا نہ کی، امیر المومنین امام علیہ السلام نے بھی پیغمبر اکرم ﷺ کی اسی سنت کی اطاعت کی۔ آپ علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے خطبہ میں فرمایا: ”ملکتن عینی و انا جالس، فسنح لی رسول اللّہ ﷺ …“۔ میں بیٹھا ہوا تھا، اچانک آنکھ لگ گئی ایسا محسوس ہوا کہ رسول اللہ ﷺ میرے سامنے تشریف فرما ہیں، میں نے عرض کی میں نے آپ ﷺ کی امت سے بے پناہ کج روی اور دشمنی کا مشاہدہ کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: بد دعا کرو، میں نے یہ دعا کی: خدا مجھے ان سے بہتر قوم دے دے اور انہیں مجھ سے سخت تر حکمران۔ (48)

حوالہ جات

[1] سورہ نساء آیة، 64
[2] نہج البلاغہ ترجمہ و تشریح ذیشان حیدر جوادی، خطبہ 197، ص 410
[3] نہج البلاغہ، ترجمہ ]جوادی، خطبہ /160 ص/300
[4] ایضا، خطبہ/ 198،ص/416
[5] ایضا خطبہ قاصعہ /197 ص/410
[6] ایضا، خطبہ/ 175 ص/332
[7] ابن اثیر، الکامل فی التاریخ ج/2 ص/58، ابن ہشام عبد الملک، السیرة النبویہ  ج/2 ص/26
[8] نہج الصباغہ فی شرح نہج البلاغہ، شیخ محمد تقی تستری ج/4 ص/109
[9] ترجمہ نہج البلاغہ، جوادی خطبہ/ 192، ص/396
[10] السیرة النبویہ، ابن ہشام، ج1 ص252
[11] نہج البلاغہ ترجمہ، جوادی،خطبہ 192،ص396
[12] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج13 ص218
[13] احطب حوارزم المناقب ص18
[14] نہج الصباغہ فی شرح نہج البلاغہ ج4 ص118
[15] سورہ واقعہ 10۔11
[16] سورہ حدید آیة 10
[17] نہج البلاغہ خطبہ 192 ص396
[18] ایضا خطبہ 131 ص252
[19] استیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبد البر ج3 ص28،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج13 ص119
[20] تاریخ الامم و الملوک، محمد بن جریر طبری ج2 ص312
[21] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج3 ص211
[22] نہج البلاغہ خطبہ 192 ص398
[23] شرح ابن ابی الحدید،ج13ص256
[24] اسد الغابة، ابن اثیر ج5 ص186
[25] طبرسی، الاحتجاج ج1ص311،الخصال شیخ صدوق ص 552
[26] ابن ہشام سیرة النبویہ ج2 ص123
[27] نہج البلاغہ خطبہ 236، ص 470 ترجمہ جوادی
[28] منہاج البراعة فی الشرح نہج البلاغہ حبیب اللہ ہاشمی خوئی ج15 ص114
[29] سیرة النبویة ابن ہشام ج/2 ص/189
[30] ترجمہ نہج البلاغہ، جوادی خطبہ/56،ص/106
[31] ارشاد، شیخ مفید /39
[32] ترجمہ، نہج البلاغہ، جوادی،نامہ /10،ص/292۔
[33] الخصال، شیخ صدوق، تصحیح علی اکبر غفاری ص/560
[34] شرح ابن ابی الحدید ج/14 ص/253
[35] نہج البلاغہ ترجمہ جوادی، خطبہ /197 ص/411
[36] نہج الصباغہ، ج/4 ص/81
[37] نہج البلاغہ ترجمہ جوادی خطبہ 192 ص 396
[38] نامہ نہج البلاغہ 10 ص494
[39] خطبہ نہج البلاغہ، 160 ترجمہ جوادی 302
[40] خطبہ 160 ص 300
[41] نہج البلاغہ ترجمہ جوادی، نامہ 45 ص556
[42] ایضا
[43] ایضا، خطبہ 3 ص42
[44] ایضا خطبہ 200 ص 420
[45] ایضا خطبہ 160 ص 300
[46] نہج البلاغہ ترجمہ جوادی خطبہ 3 ص38
[47] ایضا خطبہ 235 ص470
[48] ایضا خطبہ 70 ص118

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button