شمع زندگی

330۔ احمق

مَنْ نَظَرَ فِىْ عُيُوْبِ النَّاسِ فاََنْكَرَهَا ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِهٖ فَذٰلِكَ الْاَحْمَقُ بِعَيْنِهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۴۹)
جو لوگوں کے عیب دیکھ کر ناک بھوں چڑھائے اور پھر انھیں اپنے لیے چاہے وہ سراسر احمق ہے۔

وہ شخص جو ایک چیز کو عیب اور برائی سمجھتا ہے اور اس سے نفرت کا اظہار کرتا ہے اور دوسری طرف وہی عمل اپنی زندگی میں انجام دیتا ہے یعنی اس کام کو اچھا سمجھتا ہے تو یہ حماقت کی نشانی ہے کہ ایک ہی کام دوسرے میں ہے تو غلط اور خود میں ہے تو اچھا تصور کرے۔ اس چیز کی احمق سے ہی توقع کی جا سکتی ہے۔ کوئی جھوٹ بولے تو اسے برا لگے اور پھر خود جھوٹ بولے تو یہ تضاد ہے جو حماقت کی نشانی ہے۔

امامؑ کےبیان کردہ اصول زندگی کے مطابق عاقل وہ ہے جس کی زندگی میں تضاد نہ ہو۔ جو غلط ہے وہ سب کے لیے غلط ہے اور جو اچھا ہے وہ سب کے لیے اچھا ہونا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button