خطبات

خطبہ (۱۷۸)

(۱٧٨) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۷۸)

فِیْ ذَمِّ اَصْحَابِهٖ

اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا

اَحْمَدُ اللهَ عَلٰی مَا قَضٰی مِنْ اَمْرٍ، وَ قَدَّرَ مِنْ فِعْلٍ، وَ عَلَی ابْتِلَآئِیْ بِكُمْ اَیَّتُهَا الْفِرْقَةُ الَّتِیْۤ اِذَاۤ اَمَرْتُ لَمْ تُطِعْ، وَ اِذَا دَعَوْتُ لَمْ تُجِبْ، اِنْ اُمْهِلْتُمْ خُضْتُمْ، وَ اِنْ حُوْرِبْتُمْ خُرْتُمْ، وَ اِنِ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلٰۤی اِمَامٍ طَعَنْتُمْ، وَ اِنْ اُجِئْتُمْ اِلٰی مُشَاقَّةٍ نَّكَصْتُمْ.

میں اللہ کی حمد و ثنا کرتا ہوں ہر اس امر پر جس کا اس نے فیصلہ کیا اور ہر اس کام پر جو اس کی تقدیر نے طے کیا ہو اور اس آزمائش پر جو تمہارے ہاتھوں اس نے میری کی ہے۔ اے لوگو کہ جنہیں کوئی حکم دیتا ہوں تو نافرمانی کرتے ہیں اور پکارتا ہوں تو میری آواز پر لبیک نہیں کہتے، اگر تمہیں (جنگ سے) کچھ مہلت ملتی ہے تو ڈینگیں مارنے لگتے ہو اور اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو بزدلی دکھاتے ہو اور جب لوگ امام پر ایکا کر لیتے ہیں تو تم طعن و تشنیع کرنے لگتے ہو اور اگر تمہیں (جکڑ باندھ کر) جنگ کی طرف لایا جاتا ہے تو الٹے پیروں لوٹ جاتے ہو۔

لَاۤ اَبَا لِّغَیْرِكُمْ! مَا تَنْتَظِرُوْنَ بِنَصْرِكُمْ وَ الْجِهَادِ عَلٰی حَقِّكُمْ؟ اَلْمَوْتَ اَوِ الذُّلَّ لَكُمْ؟. فَوَاللهِ! لَئِنْ جَآءَ یَوْمِیْ ـ وَ لَیَاْتِیَنِّیْ ـ لَیُفَرِّقَنَّ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ وَ اَنَا لِصُحْبَتِكُمْ قَالٍ، وَ بِكُمْ غَیْرُ كَثِیْرٍ.

تمہارے دشمنوں کا برا ہو! تم اب نصرت کیلئے آمادہ ہو نے اور اپنے حق کیلئے جہاد کرنے میں کس چیز کے منتظر ہو؟ موت کے یا اپنی ذلت و رسوائی کے؟ خدا کی قسم! اگر میری موت کا دن آئے گا اور البتہ آ کر رہے گا تو وہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا، درآنحالیکہ میں تمہاری ہم نشینی سے بیزار اور (تمہاری کثرت کے باوجود) اکیلا ہو ں۔

لِلّٰهِ اَنْتُمْ! اَمَا دِیْنٌ یَّجْمَعُكُمْ! وَ لَا حَمِیَّةٌ تَشْحَذُكُمْ! اَوَ لَیْسَ عَجَبًا اَنَّ مُعَاوِیَةَ یَدْعُو الْجُفَاةَ الطَّغَامَ فَیَتَّبِعُوْنَهٗ عَلٰی غَیْرِ مَعُوْنَةٍ وَّ لَا عَطَآءٍ، وَ اَنَا اَدْعُوْكُمْ ـ وَ اَنْتُمْ تَرِیْكَةُ الْاِسْلَامِ وَ بَقِیَّةُ النَّاسِ ـ اِلَی الْمَعُوْنَةِ وَ طَآئِفَةٍ مِّنَ الْعَطَآءِ، فَتَفَرَّقُوْنَ عَنِّیْ وَ تَخْتَلِفُوْنَ عَلَیَّ؟.

اب تمہیں اللہ ہی اجر دے! کیا کوئی دین تمہیں ایک مرکز پر جمع نہیں کرتا اور غیرت تمہیں (دشمن کی روک تھام پر) آمادہ نہیں کرتی۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ معاویہ چند تند مزاج اوباشوں کو دعوت دیتا ہے اور وہ بغیر کسی امداد و اعانت اور بخشش و عطا کے اس کی پیروی کرتے ہیں اور میں تمہیں امداد کے علاوہ تمہارے معیّنہ عطیوں کے ساتھ دعوت دیتا ہوں مگر تم مجھ سے پراگندہ و منتشر ہو جاتے ہو اور مخالفتیں کرتے ہو، حالانکہ تم اسلام کے رہے سہے افراد اور مسلمانوں کا بقیہ ہو۔

اِنَّهٗ لَا یَخْرُجُ اِلَیْكُمْ مِنْ اَمْرِیْ رِضًی فَتَرْضَوْنَهٗ، وَ لَا سَخَطٌ فَتَجْتَمِعُوْنَ عَلَیْهِ، وَ اِنَّ اَحَبَّ مَاۤ اَنَا لَاقٍ اِلَیَّ الْمَوْتُ! قَدْ دَارَسْتُكُمُ الْكِتَابَ، وَ فَاتَحْتُكُمُ الْحِجَاجَ، وَ عَرَّفْتُكُمْ مَاۤ اَنْكَرْتُمْ، وَ سَوَّغْتُكُمْ مَا مَجَجْتُمْ، لَوْ كَانَ الْاَعْمٰی یَلْحَظُ، اَوِ النَّآئِمُ یَسْتَیْقِظُ! وَ اَقْرِبْ بِقَوْمٍ مِّنَ الْجَهْلِ بِاللهِ قَآئِدُهُمْ مُعَاوِیَةُ! وَ مُؤَدِّبُهُمُ ابْنُ النَّابِغَةِ!.

تم تو میرے کسی فرمان پر راضی ہوتے اور نہ اس پر متحد ہوتے ہو، چاہے وہ تمہارے جذبات کے موافق ہو یا مخالف۔ میں جن چیزوں کا سامنا کر نے والا ہوں ان میں سب سے زیادہ محبوب مجھے موت ہے۔ میں نے تمہیں قرآن کی تعلیم دی اور دلیل و برہان سے تمہارے درمیان فیصلے کئے اور ان چیزوں سے تمہیں روشناس کیا جنہیں تم نہیں جانتے تھے اور ان چیزوں کو تمہارے لئے خوشگوار بنایا جنہیں تم تھوک دیتے تھے۔ کاش کہ اندھے کو کچھ نظر آئے اور سونے والا(خواب غفلت سے)بیدار ہو۔ وہ قوم اللہ (کے احکام)سے کتنی جاہل ہے کہ جس کا پیشرو معاویہ اور معلم نابغہ [۱] کا بیٹا ہے۔

۱؂’’نابغہ‘‘ عمرو ابن عاص کی والدہ لیلیٰ غزیہ کا لقب ہے۔ اسے بجائے باپ کے ماں کی طرف نسبت دینے کی وجہ اس کی عمومی شہرت ہے۔

چنانچہ جب ارویٰ بنت حارث معاویہ کے ہاں گئیں تو دوران گفتگو میں عمرو ابن عاص کے ٹوکنے پر آپ نے اس سے کہا:

وَ اَنْتَ يَا ابْنَ النَّابِغَةِ تَتَكَلَّمُ وَ اُمُّكَ کَانَتْ اَشْهَرُ امْرَاَةً تَغْنِیْ بِمَكَّةَ وَ اٰخَذُهُنَّ اُجْرَةً، ادَّعَاكَ خَمْسَةُ نَفَرٌ مِّنْ قُرَيْشٍ فَسُئِلَتْ اُمُّكَ عَنْهُمْ فَقَالَتْ: كُلُّهُمْ اَتَانِیْ، فَانْظُرُوْا اَشْبَهَهُمْ بِهٖ فَاَلْحِقُوْهُ بِهٖ، فَغَلَبَ عَلَيْكَ شِبْهُ الْعَاصِ بْنِ وَآئِلٍ فُلُحِقْتَ بِهٖ.

اے نابغہ کے بیٹے تم بھی بولنے کی جرات کرتے ہو حالانکہ تمہاری ماں شہرہ آفاق اور مکہ میں گانے بجانے کا پیشہ کرتی تھی اور اجرت لیتی تھی چنانچہ تمہارے متعلق پانچ آدمیوں [۱] نے دعویٰ کیا اور جب تمہاری ماں سے دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ: ہاں! یہ پانچوں آدمی میرے پاس آئے تھے، لہٰذا جس سے یہ مشابہ ہو اس کا اسے بیٹا قرار دے لو تو تم عاص ابن وائل سے زیادہ مشابہ نظر آئے جس کی وجہ سے تم اس کے بیٹے کہلانے لگے۔ (عقد الفرید، ج۱، ص۲۲)

[۱]۔ وہ پانچ آدمی یہ ہیں: ۱۔ عاص ابن وائل، ۲۔ ابو لہب، ۳۔ امیہ ابن خلف، ۴۔ ہشام ابن مغیرہ، ۵۔ ابو سفیان ابن حرب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button