مقالات

حضرت علی علیہ السلام کے متعلق دانشمندوں کے اقوال

پوری کائنات میں ایسی کوئی شخصیت نھیں جو ادبا ء کے قلم اورشعراء کے افکار کا مرکز بنی رھی ھو،صرف حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ایسی ھے جن کی شخصیت اور سیرت کو بیان کرتے ھوئے صاحبان قلم نے اپنے قلم توڑ دئےے ھیں ۔اس زمانے کے شعراء، مفکرین اور دانشمندوں نے آپ کی منقبت اور فضیلت میں ایسی تحرر یں پیش کی ھیں جن سے دل ودماغ کو ناقابل بیان لذت اور سرور حاصل ھوتا ھے ۔
البتہ یہ کوئی عجیب بات نھیں ھے بلکہ حضرت امیر علیہ السلام کی پاک و پاکیزہ زندگی میں ھمیشہ عدل وانصاف کے جلوے نظر آتے ھیں۔جنگوں میں جن فاسق اور فاجر لوگوں سے آپ کا سامنا ھوتا تھا وہ بھی آپ کے خلوص ،انصاف اور انسان دوستی کو بیان کرتے ھوئے نظر آتے ھیں۔
بھر حال آپ کے فضائل اور کمالات اتنے بلند وبالا ھیں کہ پہاڑوں کی چوٹیاں ان کے مقابلے میںنیچا دکھائی دیتےں ھیں۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی شان میں ارشاد فرمایا :
یاعلی ماعرف اللہ حق معرفتہ غیری وغیرک وما عرفک حق معرفتک غیراللہ وغیری۔
یاعلی ابن ابی طالب اللہ تبارک وتعالی کے حق کو میرے اور تیرے سوا کسی نے نھیں پہچانا اور تیرے حق کو میرے اور اللہ کے علاوہ کوئی نھیں پہچان سکتا۔[1]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اور موقع پر حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ارشاد فرماتے ھیں :
یاعلی انا وانت ابوا ھذہ الامة۔
یاعلی آپ اور میں امت کے باپ ھیں۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ھو کر ارشاد فرماتے ھیں:
واَلذی نفسی بےدہ لولا اٴن تقولُ طوائفٌ مِن اٴُمتی فیک ماقاَلتْ النصاریٰ فی اِبن مریم لقلت الیوم فیک مقالاً لا تمرَّ بملاء من المسلمین اِلاّ اٴخذوا التراب مِن تحتِ قدَمیکَ للبرکہ۔
مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ھے اگر مجھے یہ خطرہ نہ ھوتا کہ میری امت کے بعض لوگ آپ کے متعلق وھی کچھ کھنا شروع کردیں گے ۔جو عیسائی ابن مریم کے متعلق کھتے ھیں تو آج میں آپ کی شان میں وہ بات کھتا جس کی وجہ سے تمام لوگ آپ کے قدموں کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بناتے ۔[2]
جب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھاکے پاس مہاجرین و انصار کی عورتیں عیادت کے لئے آئیں تو آپ نے فرمایا:
خدا کی قسم ان سے دوری کی وجہ ان کی تلوار سے خوف و وحشت تھی کیونکہ جانتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام قوانین اسلام کو جاری کرنے اور حق و حقیقت کے فیصلہ کرنے میںذرہ برابر بھی رعایت نھیں کرتے اور تمام تر شدت اور کما ل ِ شجاعت و استقامت سے خدا وند عالم کے احکام کو تمام چیزوں میں جاری کرتے ھیں۔
اگر یہ لوگ حضرت کی پیروی کرتے تو وہ راہ مستقیم و ھمیشگی سعادت اور دائمی خوشبختی کی طرف ھدایت کرتے اور دیکھتے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ان کو بھترین طریقہ سے سیراب کرتے اور ان کو بھوک سے نجات دیتے اور ان کی مشکلات کو دور کرتے ،اس طریقہ سے لوگوں کے ساتھ بر تاوٴ کرتے کہ صادق اور کاذب میں تمیز ھو جاتی ۔[3]
حضرت امام حسن علیہ السلام اپنے والد بزرگوار حضرت علی ابن ابی طالب (ع)کی شہادت کے بعد ارشاد فرماتے ھیں: آج رات ایسے شخص کی روح قبض کی گئی ھے جس کا عمل کے میدان میں کوئی مثل ونظےر نھیں تھا، عمل میں ان کو اولےن پر سبقت حاصل تھی اور آخرین میں کوئی بھی ان کے عمل تک نھیں پھنچ سکتا۔انھوں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کیا حضرت نے اسے علمدار بنایا جبرئےل (ع) ان کے دائےں جانب اور میکائےل بائےں جانب ھوتے جب تک اللہ انھیں فتح وکامیابی نصےب نہ فرماتا وہ واپس نہ لوٹتے تھے[4]
حضرت ابوبکر کھتے ھیں کہ جو اس راز کو جاننا چاھتے ھیں اور یہ دیکھنا چاھتے ھیں کہ کون سی ھستی ھے جو پوری کائنات میں حضرت رسول خدا (ص)کے سب سے زیادہ قریب اور سب سے افضل اور سب سے زیادہ عظیم ھے اسے چاھیے کہ وہ اس شخصےت کو دےکھے اور یہ کہہ کر انھوں نے حضرت علی (ع) کی طرف اشارہ فرمایا۔[5]
جب حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غدیرخم میں اس طرح ارشاد فرمایا:
مَن کنتُ مولاہ فھذا علیٌّ مولاہ۔
جس جس کا میں مولا ھوں اس علی مولاھے۔
اس وقت حضرت ابوبکر کھتے ھیں:
بخٍ بخٍ لکَ یابن اٴبی طالب اٴصبحت واٴمسےت مولای ومولیٰ کل موٴمن وموٴمنة۔
مبارک ھو مبارک ھو اے ابن ابی طالب آپ ھی ھر زمانہ اورھر وقت میں میرے اور تمام مومنین اور مومنات کے مولاھیں۔[6]
حضرت ابن عباس روایت کرتے ھیں کہ حضرت عمر نے کھاکہ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت و فضیلت میں ےھی بات کافی ھے کہ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے متعلق یہ فرماتے ھوئے سناھے کہ حضرت علی ابن ابی طالب (ع)میں تےن ایسی خصوصیات ھیں ۔اگر وہ میرے پاس ھوتےں، تو مجھے کائنات کی ھر چیز سے محبوب تر ھوتےں۔ میں اور حضرت ابو بکر، ابو عبےدہ بن جراح اور دوسرے اصحاب رسول خدا وہاں موجود تھے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ابن ابی طالب (ع)کے شانہ پرہاتھ مار کر فرمایا:
اٴنت یاعلی اٴوّل الموٴمنین اِیماناً ،واٴوّلھم اِسلاماً۔
ائے علی فقط آپ ھی وہ ھیں جو سب سے پھلے ایمان لائے اوراسلام قبول کیا۔
اور پھر ارشاد فرمایا:
اٴنتَ منّی بمنزلةِ ھارونَ مِن موسیٰ وکذب علیَّ مَن زَعِم اٴنہ یحبنی و ےُبغضُک۔
آپ کی قدرو منزلت میرے نزدیک وھی ھے جوہارون کی موسیٰ سے تھی اور جو شخص یہ کھے کہ وہ مجھ محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت رکھتا ھے اور آپ سے بغض وعدوت رکھتا ھو (وہ پوری دنیا میں) سب سے بڑاجھوٹا ھے۔[7]
حضرت عمر ابن خطاب کھتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی تےن ایسی فضیلتےں ھیں اگر ان میں سے ایک فضیلت بھی مجھ میں پائی جاتی تو وہ پوری کائنات کی نعمتوں سے اھم اور افضل قرار پاتی۔سائل نے پوچھا ائے مومنوں کے امیر تےن فضائل کون سے ھیں؟۔حضرت عمر نے کھاوہ یہ ھیں کہ ان کی حضرت فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھابنت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شادی ھوئی،حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی رہائش رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ھی مسجد میں تھی اور ان پر بھت سی ایسی چیزےں جائز اور حلال ھیں جو ھم پر نھیں ھیں اور تےسری فضیلت یہ ھے کہ جنگ خےبر میں انھیں پرچم اسلام سپرد کیا گیا۔[8]
حضرت عمر بن خطاب کے مشھور اقوال میں سے ایک یہ ھے کہ لولا علی لھلک عمراگر حضرت علی( علیہ السلام) نہ ھوتے تو عمر ھلاک ھوجاتا۔[9]
حضرت عمر کا یہ بھی ایک مشھور قول ھے :
اٴعوذُ باللّٰہ مِن مُعضِلة لیس لھا اٴبو الحسن علیبن اٴبی طالب ۔
میں اللہ تعالی سے ھراس مشکل کی پناہ مانگتا ھوں جس مشکل کو حل کرنے کے لئے حضرت ابو الحسن علی ابن ابی طالب علیہ السلام موجودنہ ھوں۔[10]
حضرت عبداللہ بن عباس حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ارشاد فرماتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلا م کی ذات:
علمُ الھٓدیٰ وکھفِ التُقیٰ و طود النُھیٰ و محل الحجا ، غیث الندیٰ ومنتھیٰ العلم للوری و نوراًاٴسفر فی الدّجٰی وداعیا ًاِلیٰ المحجة العظمیٰ ، اتقیٰ مَن تقمصَ وارتدیٰ واٴکرم من شَھَد النجوی، ھیں[11]
حضرت عائشہ کھتی ھیں کہ میں نے ان(حضرت علی علیہ السلام) جیسا کوئی شخص بھی نھیں دیکھا جس کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس قدر محبت کرتے ھوں۔[12]
حضرت عائشہ ایک اور موقع پر حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ارشادفرماتی ھیں:بے شک آپ ھی پوری انسانےت سے زیادہ سنت کو جاننے والے تھے۔[13]
ابو سعید خدری کھتے ھیں کہ ھم لوگ منافقےن کو حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ پہچانتے تھے۔[14]
سعید بن مسےب کھتے ھیں تمام بنی نوع انسان میں فقط حضرت علی علیہ السلام ھی ایسی شخصےت ھیں جنھوں نے سلونی کا دعویٰ کیا۔[15]
جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے کھاکہ تم حضرت علی علیہ السلام کو سب شتم کیوں نھیں کرتے تو سعد ابن ابی وقاص نے کھاکیا تجھے وہ تےن فضائل یاد نھیں ھیں جوحضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں بیان فرمائے ھیںمیں تو ھرگز انھیں گالی نہ دوں گا۔کاش ان تےن صفات میں سے میںایک کا مالک ھوتا تو وہ صفت مجھے کائنات کی پوری نعمتوں سے محبوب تر ھوتی میں، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں یہ فرماتے ھوئے سنا جب آپ جنگ تبوک کے لئے جا رھے تھے آپ نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں خلیفہ مقرر فرمایا تو حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی :
یا رسولَ اللہ تخلّفنی مع النساء والصبیان ؟
کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنا کے جارھے ھیں۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اٴما ترضیٰ اٴن تکون منّی بمنزلةِ ھارونَ مِن موسٰی اِلاّ اٴنہ لانبی بعد ی۔
کیا آپ اس بات پر راضی نھیں ھیں کہ آپ میرے نزدیک وھی رتبہ اور منزلت رکھتے ھیں جو ہارون کی موسیٰ کے نزدیک تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نھیں ۔
اور میں نے جنگ خےبر کے دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں یہ فرماتے ھوئے سنا،
لاٴُعطےنَّ الرایة رجلاً یحبُ اللّہَ ورسولَہ ویحبہ اللہُ رسولُہُ۔
میں یہ علم اس مرد کودوں گا جو اللہ اور اس کے رسول (ص)کے ساتھ محبت رکھتا ھو اور اللہ اور اس کے رسول (ص)اس سے محبت رکھتے ھونگے ۔
اس وقت ھم سب لوگ اس کی خواھش کررھے تھے کہ کل ھمیں علم ملے لیکن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا علی(ع) کو میرے پاس بلایا جائے،جب آپ تشریف لائے تو آپ آشوب چشم میں مبتلا تھے لیکن حضرت رسول اکرم(ص) نے انپا لعاب دھن لگایا تو آنکھیں ٹھیک ھو گئیں۔آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو علم دے کر علمبردار بنایا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو نصرت اور فتح سے ھمکنار کیا۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالی نے ان کی شان میں اس آیت کرےمہ کو نازل فرمایا:
<ِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَاءَ نَا وَاٴَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَاءَ کُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ>[16]
اے رسول ان سے کہ دیجیے کہ ھم اپنے بےٹوں کو لاتے ھیں تم اپنے بےٹوں کو لاؤ ھم اپنی خواتےن کو بلاتے ھیں تم اپنی خواتےن کو بلاؤ اور ھم اپنے نفس کو لاتے ھیں اور تم اپنے نفسوں کولاؤ ، اور اس کے بعد جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں۔
اس وقت حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت (علی علیہ السلام)حضرت فاطمة الزھرا سلام اللہ علیھااور حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کو بلا کر ارشاد فرمایا اللّھم ھٰوٴلاء اھلی پروردگار ایھی میرے اھلبیت ھیں۔[17]
حضرت عبداللہ ابن مسعود کھتے ھیں ھم سب لوگوں کا یھی خیال ھے کہ سب سے بڑے قاضی حضرت علی علیہ السلام ھی ھیں۔[18]
جناب حافظ عاصمی اپنی کتاب زےن الفتیٰ فی شرح سورہ ھل اتیٰ میں اس مشھور واقعہ کو بیان کرتے ھیں۔ جس میں حضرت علی علیہ السلام نے سائل کے سوالوں کا جواب دے کر حضرت عثمان بن عفان کی جان چھڑائی اور اس وقت عثمان بن عفان نے کہا: لو لاعلی لھلک عثمان اگر آج علی نہ ھوتے تو عثمان ھلاک ھوجاتا۔[19]
زید بن ارقم کھتے ھیں حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے پھلے نماز پڑھنے والے حضرت علی علیہ السلام ھیں۔[20]
جب نافع بن ارزق نے کھاکہ میں حضرت علی علیہ السلام سے بغض رکھتا ھوں تو اسے عبد اللہ بن عمر نے جواب دیا:
اٴبغضَکَ اللّٰہُ اٴ تبغضُ رجلاً سابقةٌ مِن سوابقہِ خیرُ من الدنیا وما فیھا۔
اللہ تجھ سے بغض رکھے( اللہ تیرا برا کرے) کیا تو اس شخص سے بغض رکھتا ھے جو سابق الاسلام ھے وہ دنیا اور جو کچھ اس میں ھے سب سے افضل و بھتر ھے۔[21]
حضرت عبداللہ بن عمر ایک دوسرے موقع پر کھتے ھیں کہ مجھے بھت افسوس ھے کہ میں نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ مل کر باغی گروہ سے جنگ نہ کی۔(۲)
معاویہ نے مختلف لوگوں کے پاس خط لکھاتاکہ اپنے مسائل حل کر سکے جب اس کے پاس یہ خبر پھنچی کہ آپ کو شھید کر دیا گیا ھے تو اس وقت معاویہ جیسا دشمن کھتاھے :
ذھبَ الفقہُ والعلم بموتِ علی بن اٴبی طالب (علیہ السلام)۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت سے فقہ اور علم کا باب بند ھوگیا اس کے بھائی عتبہ نے اس سے کھاکھیں تیری یہ بات اھل شام نہ سن لیں معاویہ نے کھامجھے تنھاچھوڑدو۔[22]
حضرت امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں کہ میں مروان بن حکم کے پاس گیا تو اس نے کہا:میں نے آپ کے دادا کے علاوہ کسی شخص کو اےسا نھیں پایا جو اپنے دشمن پر کرم کرتا ھو جنگ جمل میں ھم نے ان کی یہ آواز سنی کہ بھاگنے والے کو قتل نہ کرنا اور زخمی کو کچھ نہ کھنا۔[23]
ایک دن معاویہ ابن سفیان ضرار بن ضمرہ الکنانی سے کھتا ھے مجھے حضرت علی علیہ السلام کے فضائل سناؤ ضرار نے کھاتم مجھ پر غصہ کرو گے معاویہ نے کھاکہ میں تم پر غضبناک نھیں ھوں گا ،چنا نچہ ضرار کھتے ھیں،
خدا کی قسم حضرت علی علیہ السلام بعےد المدیٰ اور شدےد القویٰ تھے وہ ھمیشہ درست اور مناسب بات کھتے تھے اور عدل وانصاف سے فےصلہ کرتے ان کے اطراف سے علم کے چشمے پھوٹتے اور ان گرد حکمت ھی حکمت نظر آتی۔ دنیا ومافیھا سے وحشتناک ھوجاتے رات سے وہ محبت کرتے تھے۔
خدا کی قسم وہ بڑی بصارت والے اور عظےم مفکر تھے اپنے بازو چڑھالیتے اور خود سے مخاطب ھوتے۔ کھردرا لباس پسند فرماتے اور ان کاکھانا جو کی روٹی تھا۔
خدا کی قسم ! اگر وہ ھمیں کچھ نہ سمجھاتے تو ھم میں سے کسی کے پاس دین کی دولت نہ ھوتی جب ھم ان سے سوال کرتے تو وہ ھمیں جواب عناےت فرماتے وہ ھمیں تقرب بخشتے اور ھمارے قریب تر ھوجاتے۔ھم ان کی ھیبت کی وجہ ان سے بات تک نہ کر سکتے جب وہ مسکراتے تو معلوم ھوتا کہ لوء لوء کے موتی نکھررھے ھیںدینداروںکی تعظیم فرماتے۔ مسکینوں سے محبت کرتے ۔ طاقتور اور دولتمند انھیں اپنے مال ودولت کی لالچ نھیں دے سکتے تھے۔اور کمزور آپ کے عدل سے مایوس نہ تھے۔
میں خدا وند متعال کو گواہ بنا کر کھتا ھوں میں نے بعض مواقع پر آپ کو رات کے اندھیرے میںمحراب عبادت میں رےش مبارک کو ہاتھوں میں پکڑے ھوئے مار گزیدہ کی طرح تڑپ رھے تھے اور غمزدہ کی طرح رو رھے تھے اور فرما رھے تھے پروردگارا پروردگارا پھر تضرع وزاری فرمانے لگے اور پھر دنیا کی طرف مخاطب ھو کر ارشاد فرمایا:
اِلیَّ تغررت اِلیَّ تشوقتِ ھیھات ھیھات غرّی غیری قد بنتک ثلاثاً فَعمرک قصیر ومجلسک حقیر (وعیشُک حقیر ) وخطرُک یسر (کبیر)۔
کیا تومجھے دھوکہ دینا چاھتی ھے اور مجھے اپنا فرےفتہ بنانا چاھتی ھے تو مجھے ھرگز فرےب نھیں دے سکتی،جا کسی اور کو دھوکہ دے میں تو تجھے تےن بار طلاق دے چکا ھوں کہ جس کے بعد رجوع کی گنجائش نھیں ھے تیری زندگی تھوڑی ھے تیری محفل ومجلس بھت کم مدت والی ھے اور تیری زندگی بھت ھی کم ھے اور تیری اھمیت بھی بھت کم ھے۔
اور پھر ارشاد فرمایا تے:
آہ آہ مِن قلّة الزاد وبُعد السفر و وحشة الطریق
افسوس زاد راہ بھت کم ھے اور سفر طولانی ھے اور راستہ وحشت ناک ھے۔
یہ سن کر معاویہ کے آنسو نکل آئے جو اس کی داڑھی تک جاپھنچے اور وہ آنسو صاف کرنے لگا اور لوگوں کو اس کے رونے کا پتہ چل گیا تو اس نے کھاخدا ابو الحسن پر رحم کرے وہ واقعا ایسے ھی تھے پھر ضرار سے مخاطب ھو کر کہا:
اے ضرار ان کی مفارقت میں تمھارے رنج واندوہ کی کیا حالت ھے۔ضرار نے کہا:
بس یہ سمجھ لو کہ میرا غم اتنا ھے جتنا اس ماں کو ھوتا ھے جس کی گود میں اس کا اکلوتا بچہ ذبح کر دیا جائے۔ اور اسے اپنے حزن ملال سے کبھی بھی سکون نصےب نھیں ھوتا[24]
شعبی کھتے ھیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی اس وقت وھی مثال اور منزلت ھے جو بنی اسرائےل میں حضرت عیسیٰ ابن مریم کی تھی ۔
ایک قوم نے اس قدر محبت کی کہ کفر کی حد تک پھنچ گئی اور دوسری قوم نے آپ کے ساتھ اس قدر بغض کیا کہ وہ کفر کی حد ھی پار کر گئے۔[25]
حضرت عمر بن عبد العزےز کھتے ھیں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اس پوری امت میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ ھم کسی کو سب سے زیادہ زاھد نھیں جانتے ۔[26]
اخنف بن قےس معاویہ سے کھتا ھے خدا کی قسم علی ابن ابی طالب کی خوبیاں خدا وند عالم کی جانب سے ھیں اور علی (ع) خدا کی راہ میں اپنے نفس پر ھر شئی کو مقدم رکھا جو نہ تیرے اور نہ تیرے علاوہ کسی کے بس میں ھیں ۔[27]
محمد ابن ابو بکر بن ابو قحافہ، معاویہ ابن سفیان کو مخاطب کر کے کھتا ھے کہ وہ تو (حضرت علی علیہ السلام)سب سے پھلے حضرت رسول خدا کی بےعت کرنے والے،سب سے پھلے ایمان لانے والے ،سب سے پھلے حضرت کی تصدیق کرنے والے اور سب سے پھلے اسلام لانے والے اور پیغمبر(ص) کا اتباع کرنے والے اور ان کے چچازاد بھائی ھیں۔
انھوں نے آپ کی تصدیق کی، ھر مصیبت میں سےنہ سپر رھے اورآپ کی حمایت میںلڑتے رھے اور آپ کی ھمےشہ حفاظت کرتے رھے،دن رات کی گھڑیوں،خوف وخطر کے ماحول اور ھر مصیبت میں انھوں نے آنحضرت کا ساتھ دیا، حضرت کا اتباع کرنے والوں میں کوئی بھی ان کا مثل ونظےر نھیں ھے وہ قول وعمل میں حضرت کے قریب تر تھے اور میں نے تجھے بھی دیکھا ھے تو، تو ھے اور وہ ، وہ ھیں ،جب کہ وہ کائنات کے تمام لوگوں میں سب سے سچے ھیں ان کی اولاد تمام لوگوں سے افضل ھیں۔
ان کی زوجہ خیرالناس ھیں ان کے چچا افضل الناس ھیں ان کے بھائی جعفر طیار ھیں۔ ان کے چچاکو جنگ احد میں سید الشھداء کی سند ملی تھی اور ان کے والد نے حضرت رسول خدا کی پرورش کی ھے ۔
اے معاویہ ایسے باکمال انسان کے ساتھ تجھ جیسا بد بخت کیا مقابلہ کرے گا ۔تیرا سانس لینا علی (ع) کا احسان ھے۔ اور وہ وارث رسول اور ان کے وصی ھیں اور اس کے بچوں کا باپ ھے۔ سب سے پھلے حضرت کا اتباع کرنے والاھے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عھد کو سب سے پھلے پورا کرنے والے ھیں حضرت نے صرف آپ کو ھی اپنے رازوں سے باخبر کیا اور اپنے امر سے مطلع کیا۔[28]
انس بن مالک سے سوال کیا گیا کہ آپ کے خیال میںحضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوگوں میں سب سے زیادہ قدر ومنزلت والا کون تھا ؟انس بن مالک نے کھاھم نے حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی کو اس شان کا مالک نھیں پایا اگرحضرت آدھی رات کو انھیں بلوا بھےجتے تو وہ آپ کے پاس حا ضر ھوجاتے تھے اور پوری دنیا کو چھوڑ دیتے۔ انس مزید کھتے ھیں میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سناکہ آپ نے فرمایا:
”یا اٴنس تُحِبُّ علیاً۔“
اے انس کیا تجھے علی سے محبت ھے ؟
میں نے عرض کی یا رسول خدا کی قسم جس طرح آپ علی سے محبت کرتے ھیں میں بھی علی سے اسی طرح محبت کرتا ھوں۔چنا نچہ حضرت نے ارشاد فرمایا :
بے شک اگر تو اس سے محبت کرے گا تو اللہ تجھ سے محبت کرے گا اور اگر تو اس سے بغض وعدوات رکھے گا تو اللہ تجھ سے بغض عداوت رکھے گا اور اللہ کا تجھ پر غضب ھوگااور وہ تجھے جھنم میں ڈالے گا۔[29]
حسن بصری حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق کھتے ھیں : خدا کی قسم حضرت علی علیہ السلام کے دشمن خدا کے لئے چمکتی ھوئی تلوار تھے۔ آپ اس امت کے مربی اوراس میں صاحب فضل وکمال تھے ۔اور آپ سابق الاسلام ھیںاور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے نزدیک قرابت دار تھے۔
اور حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ھیں۔ اور آپ نے کبھی بھی حکم خدا کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا نھیں کی۔اللہ تعالیٰ کے مال کا ناجائز تصرف نھیں کیا آپ کے عمل پر قرآنی آیات نازل ھوئیں اورآپ جنت کے کامیاب ترےن شخص ھیں یہ تمام خصوصیات وصفات وفضائل صرف اور صرف حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام میں ھیں۔[30]
جناب سفیان ثوری کھتے ھیں حب علی من العبادہ و افضل العبادہ ماکتم حضرت علی علیہ السلام کی محبت عبادت ھے اوروہ افضل ترےن عبادت ھے جسے مخفی رکھا جا سکتا ھے۔[31]
حضرت امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں کہ مروان بن حکم نے کھااس قوم میں ایک شخص بھی تمھارے سردار کے علاوہ نھیں ھے جسے ھمارے سردارنے دور کرنے کی کوشش نہ کی ھو ( ےعنی عثمان نے حضرت علی علیہ السلام کو ھر وقت دور رکھنے کی کوشش کی ھے )۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں کہ میں نے مروان سے کھااتنی بڑی اور بزرگ ھستی کو تم لوگ منبروں سے کیوں گالیاں دیتے ھو مروان نے جواب دیا اس کے بغیر ھماری حکومت مستحکم نھیں ھو سکتی۔[32]
حضرت ابوذر کے غلام ابو ثابت روایت بیان کرتے ھیں:
ایک دن میں ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ھوا میں نے دےکھا کہ آپ حضرت علی علیہ السلام کا نام لے کر خوب گریہ کر رھی ھیں اور کھتی ھیں میں نے حضرت رسول(ص) کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے۔
علیٌ مع الحقِ والحقُ مع علی ولن ےفترقا حتیٰ ےرِدا علیَّ الحوض یوم القیامة۔
علی حق کے ساتھ ھے اور حق علی کے ساتھ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ھوں گے اور روز قیامت دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے ۔[33]
احمد بن حنبل کھتے ھیں: حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کے فضائل میں کسی کے متعلق اتنی روایات اور آیات بیان نھیں ھوئیں جتنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق بیان ھوئیں۔[34]
جورج جرادق کھتے ھیں اے دنیا تجھے کیا ھوگیا ھے اگر چاھتی ھے کہ تیری طاقت اور قوت کو بیان کیا جائے تو ھر زمانے میں ایک علی (ع) کی ضرورت ھے جو اپنے دل عقل ،زبان اور فتانت سے طاقت عطا کرے۔[35]
لوٴماس کارلیل کھتے ھیں جہاں تک حضرت علی علیہ السلام کی شخصےت کا تعلق ھے ان کی خصوصیات ھی ایسی ھیں کہ ھم ان سے محبت اور عشق کرنے پر مجبور ھیں ۔حضرت علی علیہ السلام بڑے دل والے جوان تھے اور بڑی عظمت کے مالک تھے اور ان کا وجودرحمت اور نیکیوں کافیض تھا ان کا دل وحی کے رازوں سے لبرےز تھا آپ شےر سے زیادہ شجاع تھے۔اور آپ کی شجاعت لطف، مھربانی اوراحسان کا مرقع تھی۔[36]

________________________________________
[1] بحار ج ۳۹ ص ۸۴ ۔
[2] شےروانی کی کتاب ،ماروتہ العامہ فی مناقب اھل بیت(اسی روایت کو اھل سنت نے مناقب اھل بیت کے عنوان کے تحت بیان کیا ھے )ص۱۷۹۔
[3] احتجاج طبرسی ج۱ص۱۰۸–،۱۰۹ ۔
[4] مقاتل الطالبین ص ۳۵۔
[5] مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر ج ۱۷ ص ۳۲۰۔
[6] الغدیر علامہ امینی ج ۱ ص ۱۱ ،الھیات شیخ سبحانی ج ۲ ص ۵۸۶۔
[7] کنزالاعمال ج ۶ ص ۳۹۵۔
[8] مختصر تاریخ دمشق ابن عساکر ج ۱۷ ص ۳۳۵۔
[9] ذخائر عقبی ص ۸۲ ۔
[10] مختصر تاریخ دمشق:ج۱۸‘ص۲۵ ۔
[11] ذخائر عقبی محب طبری ص ۷۸ ۔
[12] عقد الفرید ج ۲ ص ۲۱۶۔
[13] استعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبد البرج ۳ ص ۴۰۔
[14] الائمہ اثنیٰ عشر ابن طولون ص ۵۶۔
[15] الائمہ اثنا عشر ابن طولون ص ۵۱ ۔
[16] آل عمران آیت ۶۱۔
[17] اسد الغابہ ابن اثیر ج ۶ ص ۲۶ ۔
[18] اسد الغابہ ج ۴ ص ۲۲۔
[19] الغدیر ج۸ ص۲۱۴ ۔
[20] استعاب ج ۳ ص ۳۲۔
[21] آئمتنا، علی محمد علی دخیل ج ۱ ص۹۰ ۔
[22] استعاب فی ھامش الاصابہ ج ۳ ص ۴۵۔
[23] سنن بھیقی ج۸ ص ۱۸۱ ۔
[24] حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۸۴ تا ۸۵ ۔
[25] عقد الفرید ج ۲ ص ۲۱۶ ۔
[26] اسد الغابہ ج۴ ص۲۴۔
[27] آئمتنا ،علی محمد علی دخیل ص ۹۵۔
[28] مروج الذھب المسعودی ج ۲ ص ۴۳ ۔
[29] کشف الغمہ فی معرفت آئمہ، علی ابن عیسیٰ الاربلی ج۱ ص ۱۱۸۔
[30] عقد الفریدج۲ ص ۲۷۱۔
[31] مختصر تاریخ دمشق ج۱۸ ص ۸۰ ۔
[32] مختصر تاریخ دمشق ج۱۸ ص ۴۰۔
[33] مختصر تاریخ دمشق ج۸ ص ۴۵۔
[34] مختصر تاریخ دمشق ج ۸ص۳۱۔
[35] امام علی صوت العدالة الانسا نیہ ۔ج۱ص۴۹۔
[36] امام علی ،روکسن بن زائدالغدیزی ص ۱۰۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button