مقالات

امر بالمعروف روایات کی روشنی میں 

پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ امر بمعروف کرنے والے زمین پرخدا کے خلیفہ ہیں([1] )

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ خدائے تعالی بے دین مؤمن کا دشمن ہے ، سوال کیا گیا یا رسول اللہ کیا مومن بھی دین ہوسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ سلمان جو امر بالمعروف نہ کرے وہ بے دین ہے ۔

حضرت علی نے فرمایا : نہی از منکر فاسقوں کی ناک زمین پر رگڑنے کے برابر ہے ۔ امر بالمعروف اور نہی از منکر اخلاق الہی میں سے دو اخلاق ہیں جو بھی ان دو خدا ئی فرائض کی نفرت کرتا ہے خدا ئے تعالی اسے عزت دیتا ہے ۔([2] )

حضرت امام محمد باقر شکایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ایسے بھی لوگ ہیں کہ اگر نماز ، ان کے مال وجان کو نقصان پہنچائے تو اسے ترک کردیتے ہیں جس طرح امر بمعروف و نہی از منکر کو جو عظیم اور شریف ترین واجبات میں سے ہے ترک کردیتے ہیں( [3]  )

منکرات کو نہ روکنے والے کی مثال اس شخص کی جیسی ہے جس نے ایک زخمی کو سڑک کے کنارے چھوڑ دیا ہو تاکہ وہ مر جائے([4] )

اگر تم ایک ڈسنے والے جانور کوکسی سوئے ہوئے شخص کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھو شور

نہ مچاؤتو اس کے قتل میں شریک ہو([5] )

رسول خدا نے فرمایا کچھ لوگ نہ پیغمبر ہیں اور نہ شہیدلیکن جو مرتبہ انہوں نے امر بمعروف کی وجہ سے پایا ہے اس پر لوگ رشک کریں گے([6] )

اگر لوگ منکر کے مقابلہ میں خاموش رہیں توسب کے سب خدا کے غضب کا شکار ہوں اس آیۃ کے متعلق روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جہنم کی آگ سے نجات امر بمعروف اور نہی از منکر کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے ۔([7] )

امام حسین کے نهی از منکر سے چند سبق

امام حسین (ع) اپنی زندگی کے اخری لمحہ میں جب دیکھا که یزید لشکر اهل بیت کے خیموں کی طرف حملہ آورہورہا ہے تو یہ آخری جملہ ان سے مخاطب ہو کر فرمایا : ٫٫اگر تم لوگ دین نہیں رکھتےہو تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد رہو ،،اس جملہ نے اتنا اثر کیا کہ جب تک امام زندہ تھے فوج نے خیموں پر حملہ کرنے سے اجتناب کیاہم امام کے اس آخری جملہ سے  مندرجہ ذیل سبق حاصل کرسکتے ہیں

١: نہی از منکر زندگی کے آخری لمحہ تک واجب ہے

٢: نہی از منکر وحشی ترین افراد کے بارے میں بھی واجب ہے

٣: اگر چند منکرات انجام پاتےہوں اورہم ان میں سے ایک کو روک سکیں تو اسکے بارے میں بھی قدم اٹھانا واجب ہے

٤: ناموس کا تحفظ بڑے واجبات میں سے ہے

امام سجاد کا انتہائی مشکل حالات میں نہی از منکر کرنا

امام سجاد کے سامنے ان کے باپ ، بھائی ، چچا اور پیغمبر کی اولاد کو شہید کیا گیا اور خود ان کو قیدی بنا یاگیا اور کوفہ وشام کے شہروں میں پھرایا گیا ۔ جب آپکو شام کی مسجد میں پہنچایا گیا اور آپنے دیکھا کہ خطیب منبر پر یزید کی تعریفیں کررہا ہے تو آپ نے تن تنہا یزید کے سامنے فریاد بلند کرتےہوئے فرمایا اے خطیب تونے اس چاپلوسی اور ستائش سے یزید کی رضامندی کا خدا کے قہر سے سودا کیا ہے تجھ پر خدا کا غضب ہے مجھے ان لکڑی کے ٹکڑوں (منبر) پر چڑھ کر اس چاپلوس خطیب کی جگہ پر بیٹھنا چاہئے تاکہ سب سے بڑے معروف یعنی حضرت محمد و اہل بیت پیغمبر کے اسلام کو زندہ کروں،،

اسکے بعد امام سجاد منبر پر تشریف لے گئے اور اپنی تقریر کے ذریعہ فکری ، ثقافتی ،جذباتی اور سیاسی طور سے انقلاب برپا کر دیا ۔([8])

 سعی ناچیز :  منظور حسین الحسینی

[1]: تفسیر نمونہ ج ٣ ص٣٨

[2]:لئالی الاخبار ص ٢٧٠

[3] : فروع کافی ج ٤ ص٥٥

[4] : کنز ج ٣ ص١٧٠

[5] : مستدرک ج١٢ ص١٨٤

[6] : مستدرک ج٢ ص٣٥٧

[7] : سورہ انفال آیہ ٢٥

[8] لہوف سید ابن طاوؤس

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button