مقالات

حضر ت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا

اسلام کی پر نشیب وفراز تاریخ میں جناب خدیجہ  ؑ کی مانند بہت کم خواتین سامنے آئی ہیں عالی صفات اور محکم عقائد کی بدولت جناب خدیجہ  ؑایک ایسی عظیم المرتبت خاتون بن کر نمایاں ہوئیں کہ ان کی جانسوز رحلت کے سالہا  بعد بھی رسول  ﷺجب بھی ان کانام نامی سنتے تھے تو آپ کی آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے تھے اور جناب انہیں عظمت وبزرگی کیساتھ یادکرتے تھے ۔

یہاں پر اس عظیم المرتبت خاتون شخصیت کے چند اہم اور نمایاں پہلووں کو بطور اختصار بیان کیاجارہا ہے تاکہ وہ مسلمان عورتوں کے لئے بہترین اسوہ حسنہ قرار پا سکیں :

جناب خدیجہ  ؑکی منزلت اور امتیازات

خاتون ایمان و طہارت حضرت خدیجہ ؑ کی پوری زندگی افتخارات اور امتیازات سے بھری ہوئی ہے جن میں سے بعض یہ ہیں :

۱۔منتخب پروردگار

  قرآن کریم جناب مریم  ؑ کے بارے میں فرماتا ہے :{ وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفٰکِ  عَلٰی نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ}[1]

اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا: اے مریم!بیشک اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں پر برگزیدہ کیا ہے۔

رسول خدا  ﷺنے اس آیت کریمہ کا ایک مصداق اپنی جان نثار زوجہ جناب خدیجہ ؑ کو قرار دیا ہے ۔ حضر ت  امام علی  ؑفرماتے ہیں کہ رسول  خدا  ﷺ نے مذکورہ بالا آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا :اے علی! کائنات کی چار عورتیں سب سے برتر وافضل ہیں :مریم بنت عمران ،خدیجہ بنت خویلد ،فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،اور آسیہ بنت مزاحم  [2]

۲۔مستحق درود وسلام خدا وجبرائیل

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے منقول ہے کہ آپ نے ارشاد  فرمایا : سفر معراج سے واپسی پر میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ کیا کوئی پیغام ہے ؟تو انہوں نے عرض کیا کہ خدا وند عالم اور اسکے فرمانبردار فرشتہ کا سلا م خدیجہ ؑ کو پہنچا دیجئے گا ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واپسی پر جب جناب خدیجہ  ؑآپ کے استقبال کے لئے آیئں تو خدا اور فرشتہ وحی کا پیغام انہیں پہنچایااور اس خاتون نے ادب کے ساتھ اسطرح جواب دیا:  ان اللہ ہو السلام ومنہ السلام والیہ السلام وعلی جبرائیل السلام [3]

  خداوند عالم خود سلام ہے اور سلام وسلامتی اسی کی جانب سے ہے اور اسکی بازگشت بھی اسی کی جانب ہے اور جبرائیل پر درود وسلام ہو ۔ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ ایک دن فرشتہ وحی جناب رسول اکرم  ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جناب خدیجہ ؑکو وہاں نہ پایا تو رسول خدا سے عرض کیا :جب حضرت خدیجہ ؑ آ ئیں تو ان سے کہہ دیجئے گا کہ ان کا پروردگار انہیں سلام کہہ رہا ہے ۔

۳۔باعث فخر ومباحات پروردگار

جب رسول خدا  کو یہ حکم ہوا کہ چالیس دن تک اپنی باوفا زوجہ سے دور رہ کر عبادت پروردگار انجام دیں تو آنحضرت نے جناب خدیجہ ؑ کو یہ پیغام بھیجا کہ :اے خدیجہ ؑ!یہ گمان نہ کرنا کہ تم سے میری دوری تم سے بیزاری کی بنا پر ہے بلکہ میرے پروردگار نے مجھے اس بات کا حکم دیا ہے تاکہ میں اسکی فرمانبرداری کروں ۔پس اے خدیجہ ؑ!حسن ظن رکھو کہ خدا وند عزیز وجلیل ہر روز کئی مرتبہ تمہارے شائستہ وجود پر اپنے عظیم الشان فرشتوں پر فخر ومباحات کرتا ہے ۔[4]

۴۔نسل پیغمبر  ﷺکی مادری کا فخر

حضرت خدیجہ ؑ کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ دنیاکی تمام عورتوں اور نبی کریم  ﷺکی دیگر ازواج میں صرف آپ ہی کو حضرت فاطمہ اطہر سلام اللہ علیہا کی مادری کاشرف حاصل ہوا اور آپ ہی رسول اعظم کی پاکیزہ اور طیب وطاہر نسل کیلئے مناسب قرار پائیں ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بیت الشرف میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ جناب خدیجہ ؑکسی سے باتیں کررہی ہیں ۔آپ نے دریافت فرمایا ؟کس سے باتیں کررہی ہیں؟جناب خدیجہ نے عر ض کیا : وہ بچی جو میرے شکم میں ہے وہ مجھ سے باتیں کرتی ہے اور مجھ سے مانوس ہے  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے خد یجہ  ؑ !یہ جبرائیل ہیں جو مجھے خبر دے رہے ہیں کہ یہ بچی ایک پاک و پاکیزہ نسل ہے خدا وند عالم عنقریب میری نسل کو تم سے قرار دے گا اور اس سے وہ امام وجود میں آیئں گے جو زمین پر سلسلہ وحی کے منقطع ہونے کے بعد خدا کے خلیفہ اور جانشین ہوں گے ۔

۵۔انسانی کمالات سے بہرہ مندی

جناب خدیجہ  ؑ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ خود سازی اور انسانی کمال وجمال کی منزلوں پر فائز تھیں اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :مردوں میں کمال یافتہ افراد بہت سے ہیں  لیکن عورتوں میں صرف چارعورتیں کمال کی (بلند ترین)منزلوں تک پہنچی ہوئی ہیں :آسیہ زوجہ فرعون ،مریم بنت عمران ،خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

۶۔مقرب بارگاہ خدا

قرآن کریم کی روشنی میں جنت کا سب سے بلند ترین درجہ ، سبقت کرنے والے مقربین کا ہے جو دنیا میں صرف ایمان و اعتقاد اور عمل صالح اور صفات حسنہ و اخلا ق میں سبقت کرنے والے ہی نہیں تھے بلکہ راہ کمال و سعادت میں دوسروں کے لئے اسوہ حسنہ اور بہترین نمونہ عمل بھی تھے ۔جناب خدیجہ  ؑ بھی انہیں عظیم المرتبت افراد میں سے ایک ہیں جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورہ مطففین کی آیات کریمہ

 وَ مِزَاجُهُ مِن تَسْنِيمٍ(27) عَيْنًا يَشْرَبُ بهَِا الْمُقَرَّبُونَ(28)

کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :تسنیم سب سے ایک برتر بہشتی چشمہ ہے جس سے محمد وآل محمد نوش کریں گے ۔یہ افراد وہی سبقت کرنے والے مقربین ہیں ،رسول خدا  ﷺ،علی ابن ابی طالب ان کی نسل سے دیگر آئمہ معصومین اور فاطمہ  ؑو خدیجہ ؑکہ ان سب پر خدا کا درود وسلام ہو ۔[5]

۷۔اصحاب اعراف میں سے

اعراف  جنت اور جہنم کے درمیان ایک بلند اوراہم مقام ہے ۔قرآن کے مطابق وہاں کچھ افراد ہوں گے جو اہل جنت اور اہل جہنم پر نظر رکھیں گے اور ہر ایک کو انکے چہرے سے پہچانیں گے وہ اہل جنت پر درود و سلام بھیجیں گے اور جہنمیوں کی مذمت وملامت کریں گے ۔روایات میں آیا ہے کہ جناب خدیجہ ؑ بھی انہیں با عظمت افراد میں ہوں گی جیسا کہ امام جعفر صادق  ؑ سورہ اعراف کی ۴۶ ویں آیت کے بارے میں کئے گئے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: وَ بَيْنَھُمَا حِجَابٌ  وَ عَلىَ الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلَّا  بِسِيمَئهُمْ  وَ نَادَوْاْ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَيْكُمْ  لَمْ يَدْخُلُوهَا وَ هُمْ يَطْمَعُون:اور (اہل جنت اور اہل جہنم) دونوں کے درمیان ایک حجاب ہو گا اور بلندیوں پر کچھ ایسے افراد ہوں گے جو ہر ایک کو ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے اور اہل جنت سے پکار کر کہیں گے: تم پر سلامتی ہو، یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر امیدوار ہوں گے۔

اعراف جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیوار ہے اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،علی  ؑحسن اور حسین  علیہماالسلام ،فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور خدیجہ کبری ہوں گے اور وہ آواز دیں گے ۔ہمارے محب کہاں ہیں ؟ہمارے شیعہ کہاں ہیں ؟ اس وقت وہ ان کی جانب متوجہ ہوں گے اور انہیں ان کے اور ان کے باپ کے نام سے پہچانیں گے اوریہی مطلب ہے پروردگار کے اس قول کا کہ (يَعْرِفُونَ كُلَّا  بِسِيمَئهُمْ)پس وہ ان کے ہاتھ پکڑیں گے اور پل صراط سے گزار کر جنت میں داخل کر دیں گے۔ [6]

 جناب خدیجہ  ؑکے محکم عقائد وبلند کردار

۱۔محکم ایمان اور راسخ عقیدہ

  حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہاصرف یہی نہیں کہ پروردگار اور اس کے رسول پر حقیقی ایمان اور جنت و جہنم اور ثواب و عقاب پر محکم عقیدہ رکھتی تھیں  بلکہ اس راہ میں آپ نے دیگر کمال طلب اور حق جو عورتوں پر سبقت بھی حاصل کر لی تھی جیسا کہ متعدد رویات میں آیا ہے کہ سب سے پہلی عورت جس نے اسلام قبول کیا،خاتم الانبیاء پر ایمان لائی اور آپ کے پیچھے نماز ادا کی وہ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہاتھیں ۔ [7]

جناب عباس سے مروی ہے کہ : اول من آمن برسول اللہ من الرجال علی ومن النسا ء خدیجہ  رسول خدا  ﷺپر سب سے پہلے ایمان لانے والے مردوں میں حضرت علی  ؑ اور عورتوں میں جناب خدیجۃ الکبری ہیں۔        [8]

۲۔نجابت وپا کدامنی

جناب خدیجہ کا ایک اہم لقب جسے آپ کی نجابت و پاکدامنی اور طہارت کی بنا پر جوانی ہی میں قریش نے آپ کو دیا تھا ’’طاہرہ‘‘ہے وہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی سے پہلے بھی طہارت ونجابت کی اس منزل پر تھیں کہ قریش کے سردار اور بنی ہاشم کے سید وسالار جناب ابوطالب نے آپ کی تعریف کچھ اس طرح کی :ان خدیجۃ امراۃ کاملۃ میمونۃ فاضلۃ تخشی العار و تحذر النشار ۔بے شک خدیجہ ایک کامل ،مبارک اور بافضیلت خاتون ہیں وہ ہر عیب و عار سے پرہیز کرتی ہیں اور ہر طرح کی بدنامی اور رسوائی سے دوری کرتی ہیں [9]

۳۔تلاش حق اور قبول حق

ایسے بہت سے افراد ہوتے ہیں جو دنیاوی چمک دمک اور مادی وسائل و امکانات اور مال و دولت اور قدرت و ثروت میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ خود پرستی اور نفس امارہ کی سرکشی میں گھر جاتے ہیں لیکن خدیجہ اس بلند کردار خاتون کو کہتے ہیں جو زرو زیور مال و ثروت ، جمال وکمال ، شہرت وعزت ، اقتدارواستقلال سےبرخوردارہونے کے باوجود ان آفتوں سے دوررہیں اور ہمیشہ حق کو تلاش اور اسےقبول کرنے والی

فطر ت سے بھرہ مند رہیں ۔

روایات میں آیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پے در پے فرشتہ وحی کے نزول اور آیات قرآنی کے لانے کے بعد جناب خدیجہ  ؑ آہستہ آہستہ قرآن کی ہدایت بخش اور زندگی ساز آیات اور جبرائیل امین کانام اور خدا کے نزدیک ان کی منزلت سے باخبر ہوتی رہیں اور حق طلبی کے جذبہ نے انہیں اس سلسلہ میں مزید تحقیق کرنے پر آمادہ کیا تاکہ علم ومعرفت اور صحیح طریقہ سے حق کو پہچان کر اسے قبول کرنے اور اسکی پیروی کرنے میں سبقت حاصل کر لیں ۔

۴۔ایثار وجانثاری

جناب خدیجہ  ؑبخشش ،ایثار اور فدا کاری میں اس حد تک  مشہور ومعروف تھیں کہ جناب ابوطالب  ؑ نے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کے رشتہ کے دوران ان کے گھر والوں سے اسطرح فرمایا تھا:اس وقت میرا بھتیجا آپ کی اس دختر نیک اختر سے رشتہ کے لئے آیا ہے جو صاحب بخشش و سخاوت اور باطہارت وبا عفت ہے ۔[10]

جناب خدیجہ ؑنے بھی اپنی زندگی کے دوران اپنی سخاوت اور بخشش کو دکھایا اور پوری رضایت اور خوشنودی کے ساتھ اپنے مہر کو اپنے مال سے ادا کیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدیہ کر دیا ۔[11]

اس عظیم المرتبت خاتون نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ازدواج زندگی میں اپنی سار ی دولت و ثروت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کردیا یہاں تک کہ ابن عباس کا بیان ہے کہ ٓایہ کریمہ سورہ ضحی ۸ ’’وَ وَجَدَكَ عَائلًا فَأَغْنى ‘‘سے مراد جناب خدیجہ ؑ کی دولت وثروت کے ذریعہ رسول خدا  ﷺکو بے نیاز کرنا ہے ۔[12]

کفار قریش کی جانب سے رسول اکرم  ﷺ اور آپ کے باوفا اصحاب کی تین سال تک شعب ابی طالب میں ناکہ بندی کے سخت اور روح فرسانہ زمانہ میں ان حضرات کی پائیداری اور استقامت کی ایک اہم وجہ جناب خدیجہ کا مالی جہاد تھا ۔آپ نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اسلام کی پائیداری اور مسلمانوں کی نجات کے لیے اپنی ساری دولت قربان کردی اور دین خدا کی سربلندی میں ایک اہم اور نمایا ں کردار اداکیا اسی لئے بعض حق شناس علماء نے کہا ہے کہ:کفا ہا شرفا ان الاسلام لم یقم الا بمالہا وسیف علی ابن ابی طالب کما روی متواترا   اس خاتون کی عظمت وشرف کے لئے یہی کافی ہے کہ اسلام پائیدار نہیں ہوا مگر اسکی دولت وثروت سےاور حضرت علی ابن ابی طالب  علیہما السلام کی تلوار سے جیسا کہ تواتر کے ساتھ اس بات کی روایت کی گئی ہے ۔[13]

۵۔صداقت

جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کا ایک لقب ’’صدیقہ ‘‘ہے جسکے معنی ہیں بہت زیادہ سچی اور نیک کردار۔بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ صدیق اور صدیقہ وہ ہے جس کی گفتار ، عقیدہ اورفکر صحیح ہو اور اپنی سچا ئی اور صداقت کو اپنے صحیح کردار کے ذریعہ ثابت کرے ۔(تاج العروس ،لفظ صدق)

بے شک جناب خدیجہ  ؑصداقت اور سچائی کا بہترین نمونہ تھیں چنانچہ رسول خدا  ﷺکے آپ کی وفات پر اور آپ کو الوداع کرتے وقت اشکبار آنکھوں سےفرمایا : خدیجہ ؑ کے بارے میں گفتگوکی،خدیجہ ؑجیسا صداقت اور سچائی کا نمونہ کہاں مل سکتا ہے ؟ اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور دین خدا کی راہ میں اس نے میری حمایت کی اور اپنی دولت و ثروت کے ذریعے میری مدد کی ۔

۶۔صبر و استقامت

امام جعفر صا دق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :جب سے جناب خدیجہ نے رسول خدا سے شادی کی تھی مکہ کی عورتوں نے ان سے رابطہ قطع کرلیا تھا وہ نہ ان کی گھر آتی تھیں اور نہ ہی ان کو سلام کرتی تھیں اور نہ ہی اس بات کی اجازت دیتی تھیں کہ کوئی عورت ان سے ملاقات کے لئے ان کے پاس جائے ۔اسی لئے جناب خدیجہ  ؑخوف وہراس اور غم و اندوہ کا احساس کررہی تھیں لیکن جب جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا آپ کے شکم میں تھیں تو وہ آپ سے باتیں کرتی تھیں اور اپنی ماں کو صبر و تحمل کی دعوت دیتی تھیں۔[14]  

جب جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ولادت باسعادت کے سخت لمحات قریب ہوئے تو قریش کی کوئی عورت بھی آپ کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئی جس کی وجہ سے حضرت خدیجہ  ؑ زیادہ غمگین تھیں کہ اچانک آپ نے چار بلند قد آور عورتوں کو دیکھا ان میں سے ایک نے کہا : اے خدیجہ ؑ!غمگین نہ ہو کہ ہم آپ کی بہنیں ہیں اور ہم خدا کی جانب سے آپ کی مدد کے لئے آئی ہیں ۔میں سارہ زوجہ ابراہیم ہوں اور یہ آسیہ بنت مزاہم ہیں جو جنت میں آپ کی ہمنشین ہوں گی اور یہ مریم بنت عمران ہیں اور یہ چوتھی خاتون جناب موسی کی بہن کلثوم ہیں اس وقت ان چار خواتین نے جناب فاطمہ کی ولادت باسعادت کے سلسلہ میں جناب خدیجہ ؑکی مدد کی ۔ [15]

ہاں ایک ایسی خاتون جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی سے پہلے ہر طرح کے مادی امکانات اور وسائل سے بھرہ مندتھی اور ایک آرام وسکون کی زندگی بسر کر رہی تھی لیکن  اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ ازدواجی زندگی میں طرح طرح کے رنج و مصا ئب اور محرومیوں کو برداشت کیا ، جیسا کہ اپنے فرزندوں میں سے عبداللہ ،قاسم اور طاہر کا داغ اٹھانا جو بچپنے ہی میں دار فانی کو وداع کہہ گئے ، مکہ کی عورتوں کے طعنے سننا اورمشرکین کے ہاتھوں اپنے شوہرنامدار پر ہونے والے آزار و اذیتوں کو دیکھنا ۔لیکن اس عظیم المرتبت خاتون نے ان سخت اور برے حالات میں بھی صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور اس آیہ کریمہ کی بارز مصداق قرار پائیں کہ  {وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآئَ وَجْہِ  رَبِّہمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہمْ  سِرًا وَّعَلَانِیَۃً وَّ یَدْرَئُوْونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰٓئِکَ لَہمْ عُقْبَی الدَّارِ[16]}

 اور جو لوگ اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو روزی ہم نے انہیں دی ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعے برائی کو دور کرتے ہیں آخرت کا گھر ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :امرت ان ابشر خدیجۃ ببیت من قصب لا ۔۔۔مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خدیجہ ؑکو اس بات کی بشارت دے دوں کہ جنت میں ان کیلئے چاندی کاایک ایسامحل ہے جس میں نہ کسی طرح کا کوئی شور وغل ہوگااور نہ ہی کوئی رنج وبیماری ہوگی ۔[17]

نکتہ ۱:حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا بستر بیماری پر تھیں اپنے شوھر گرامی حضرت خاتم النبین  سے الوداع کررہی تھیں اور کہہ رہی تھیں اگر مجھ سے کوئی کوتاہی ہو گئی ہوتو مجھے معاف کرنا ،لیکن میری ایک درخواست ہے میری بیٹی زہرا سلام اللہ علیھا کا خیال رکھنا اور میری ایک وصیت ہے مجھے آپ سے ڈائیرکٹ با ت کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے میں اپنی بیٹی زہرا سے کہہ دیتی ہوں یہ آپ کو بتا دے گی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے اپنی بیٹی  کوبتایا پھر حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کو رسول خدا نے بلایا اور ان سے پوچھا عرض کی باباجان  میری ماں کہہ رہی ہے میں بہت ہی ثروت مند تھی میں نے رضا خدا میں اور آپکی خوشنودی کی خاطر سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کردیا ہے اب میری قدرت نہیں ہے کہ میں کفن خرید سکوں میں چاہتی ہوں کہ اپنی قبا اور ردا سے مجھے کفن دے دینا اور خاک کے سپر د کردیناتاکہ میں فشار قبر سے محفوظ رہ جاوں جونہی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی یہ بات رسول خدا تک پہنچی جبرائیل نازل ہوا اور ایک بہشت سے کفن لے آیا پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غسل وحنوط وکفن پہنایا ،نمازجنازہ کابندوبست کیا تدفین کااہتمام کیا ۔لیکن میں یہاں پر یہ جملہ بیان کروں گا اے رسول خدا کاش آپ کربلا میں بھی آجاتے تواپنے نواسے کوکفن دے دیتے ۔۔۔[18]

نکتہ ۲:جب حضرت خدیجہ کاانتقال ہوا توپیامبر اکرم بہت غم زدہ تھے آنکھوں سے آنسو جاری تھے

فقط انہی ایام نہیں بلکہ زندگی کاطولانی عرصہ جب بھی حضرت خدیجہ کی یاد آتی یانام سنتے آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے حضرت زہرا سلام اللہ علیھابھی پریشان تھیں بےقرار تھیں اپنے بابا   کےارد گرد چکرلگاتیں اور پوچھتی تھیں (یَااَبَہ اَینَ اُمِّی) باباجان میری کہاں ہے میرادل ماں کے لیے تنگ ہورہا ہے بتاوبابا میری ماں کہاں ہے بارباریہی سوال دہراتی تھیں اللہ تعالی کے فرشتے نازل ہوئے جو بی بی زہرا سلام اللہ علیھا کوتسلی دیتے حضرت خدیجہ کوخبر دیتے پیار کرتے پھر تسلی دیتے یہاں پر یہ بیان کروں گا کہ حضرت زہرکی عمر کم تھی فرشتے آگئے لیکن کربلا میں ایک بچی جوبابا با با کررہی تھی آواز دے رہی تھی میرا بابا کہاں ہےبی بی زینب نے فرمایا سفر پر گیا ہے رو رہی تھی گریہ کررہی تھی آواز دی رہی تھی میرا بابا کہاں ہےتو ایک کٹے ہوئے گلے سے آواز آئی اے میرے سینے پر سونے والی اِلیّ اِلیّ  تیرا بابا ادھر ہے ۔۔۔

رسول خدا نے اس سال کا نا م عام الحزن رکھا دو ہستیاں اس دینا سے گئیں  کاش رسول خدا کربلا میں ہوتے  اور دیکھتے کہ سید سجاد علیہ السلام  پر کیا گزر رہی ہے ۲ نہیں ۱۸  لاشے بنی ہاشم کےبغیر کفن کے پڑے ہیں۔۔۔

[1] . سورہ آل عمران۴۲

[2] . مناقب آل ابی طالب ج۳ ،ص۳۲۲

[3] . (بحار الانوار ج ۲۶،ص۷

[4] ۔ بحار الانوار ج ۱۶،ص۸،۹

[5] . بحارالانوار ج ۸ ،ص۱۵۰

[6] . تاویل الآیات  ا لظاہرہ  ،ص۱۸۲)

[7] . بحارالانوارج ۳۸ ،ص۲۱۱

[8] . بحارالانوارج ۳۸ ،ص۲۱۱

[9] . بحار الانوار ،ج۱۶،ص۵۶

[10]۔بحار الانوار ج۱۶،ص۶۹

[11] . کافی ج ۵،ص۳۷۴

[12] . بحار الانوار ج۳۵،ص۴۲۵

[13] . تنقیح المقال فی علم الرجال  ،ج۳،ص۷۷

[14] . بحار الانوار ج ۱۶،ص۱۸

[15] . بحار الانوار ج ۶،ص۲۴۶

[16] . سورہ توبہ آیۃ۲۲

[17] . بحار الانوار ج ۱۶،ص۷

[18] . گریزھای مداحی ص۵۴

تحریر : مولانا ممتاز حسین بھڈوال

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button