خطبات

خطبہ (۴)حضرت کی دُور رس بصیرت اور دین میں یقین کامل

(٤) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۴)

بِنَا اهْتَدَيْتُمْ فِی الظَّلْمَآءِ، وَ تَسَنَّمْتُمُ الْعَلْيَآءِ، وَ بِنَا انْفَجَرْتُمْ عَنِ الْسَّرَارِ.

ہماری وجہ سے تم نے (گمراہی) کی تیرگیوں میں ہدایت کی روشنی پائی اور رفعت و بلندی کی چوٹیوں پر قدم رکھا اور ہمارے سبب سے اندھیری راتوں کو اندھیاریوں سے صبح (ہدایت) کے اجالوں میں آ گئے۔

وُقِرَ سَمْعٌ لَّمْ يَفْقَهِ الْوَاعِيَةَ، وَ كَيْفَ يُرَاعِی النَّبَاَةَ مَنْ اَصْمَتْهُ الصَّيْحَةُ، رُبِطَ جَنَانٌ لَّمْ يُفَارِقْهُ الْخَفَقَانُ، مَا زِلْتُ اَنْتَظِرُ بِكُمْ عَوَاقِبَ‏ الْغَدْرِ، وَ اَتَوَسَّمُكُمْ بِحِلْيَةِ الْمُغْتَرِّيْنَ، سَتَرَنِیْ عَنْكُمْ جِلْبَابُ الدِّيْنِ، وَ بَصَّرَنِيْكُمْ صِدْقُ النِّيَّةِ. اَقَمْتُ لَكُمْ عَلٰى سَنَنِ الْحَقِّ فِیْ جَوَادِّ الْمَضَلَّةِ، حَيْثُ تَلْتَقُوْنَ وَ لَا دَلِيْلَ وَ تَحْتَفِرُوْنَ وَ لَا تُمِيْهُوْنَ.

وہ کان بہرے ہو جائیں جو چلانے والے کی چیخ پکار کو نہ سنیں، بھلا وہ کیونکر میری کمزور اور دھیمی آواز کو سن پائیں گے جو اللہ و رسولؐ کی بلند بانگ صداؤں کے سننے سے بھی بہرے رہ چکے ہوں۔ ان دلوں کو سکون و قرار نصیب ہو جن سے خوفِ خدا کی دھڑکنیں الگ نہیں ہوتیں۔ میں تم سے ہمیشہ غدر و بیوفائی ہی کے نتائج کا منتظر رہا اور فریب خوردہ لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ کے ساتھ تمہیں بھانپ لیا تھا۔ اگرچہ دین کی نقاب نے مجھ کو تم سے چھپائے رکھا، لیکن میری نیت کے صدق و صفا نے تمہاری صورتیں مجھے دکھا دی تھیں۔ میں بھٹکانے والی راہوں میں تمہارے لئے جادۀ حق پر کھڑا تھا جہاں تم ملتے ملاتے تھے مگر کوئی راہ دکھانے والا نہ تھا، تم کنواں کھودتے تھے مگر پانی نہیں نکال سکتے تھے۔

اَلْيَوْمَ اُنْطِقُ لَكُمُ الْعَجْمَآءَ ذَاتَ الْبَيَانِ، غَرَبَ رَاْیُ امْرِئٍ تَخَلَّفَ عَنِّیْ، مَا شَكَكْتُ فِی الْحَقِّ مُذْ اُرِيْتُهٗ، لَمْ يُوْجِسْ مُوْسٰى عَلَيْهِ‏ السَّلَامُ خِيْفَةً عَلٰى نَفْسِهٖ، اَشْفَقَ مِنْ غَلَبَةِ الْجُهَّالِ وَ دِوَلِ الضَّلَالِ، الْيَوْمَ تَوَاقَفْنَا عَلٰى سَبِيْلِ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ مَنْ وَّثِقَ بِمَآءٍ لَّمْ يَظْمَاْ.

آج میں نے اپنی اس خاموش زبان کو جس میں بڑی بیان کی قوت ہے، گویا کیا ہے۔ اس شخص کی رائے کیلئے دوری ہو جس نے مجھ سے کنارہ کشی کی۔ جب سے مجھے حق دکھایا گیا ہے میں نے کبھی اس میں شک و شبہ نہیں کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام [۱] نے اپنی جان کیلئے خوف کا لحاظ کبھی نہیں کیا، بلکہ جاہلوں کے غلبہ اور گمراہی کے تسلط کا ڈر تھا (اسی طرح میری اب تک کی خاموشی کو سمجھنا چاہئے)۔ آج ہم اور تم حق و باطل کے دوراہے پر کھڑے ہوئے ہیں، جسے پانی کا اطمینان ہو وہ پیاس نہیں محسوس کرتا، (اسی طرح میری موجودگی میں تمہیں میری قدر نہیں)۔

۱؂حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب ان کے مقابلے میں جادوگر بلائے گئے اور انہوں نے رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینک کر اپنا سحر دکھایا تو آپؑ ڈرنے لگے۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰى‏ ۝ فَاَوْجَسَ فِىْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى‏ ۝ قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى‏﴾

(ان کے جادو کی وجہ سے) موسیٰ علیہ السلام کو یوں محسوس ہوا کہ وہ دوڑ رہی ہیں جس سے وہ جی میں ڈرے۔ ہم نے کہا کہ موسیٰ! تم کوئی اندیشہ نہ کرو ۔ یقیناً تم ہی غالب رہو گے۔[۱]

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خوف کھانے کا باعث یہ نہیں تھا کہ وہ چونکہ رسیوں اور لاٹھیوں کو سانپ کی طرح دوڑتے دیکھ رہے تھے، اس لئے انہیں اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو گیا ہو اور وہ اس سبب سے خائف ہو گئے ہوں، بلکہ ان کے ڈرنے کا سبب یہ خیال تھا کہ کہیں دنیا والے ان شعبدہ بازیوں سے متاثر ہو کر گمراہی میں نہ پڑ جائیں اور ان نظر بندیوں سے باطل کی بنیادیں مستحکم نہ ہو جائیں۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ کہہ کر ڈھارس نہیں دی جاتی کہ تمہاری جان محفوط ہے، بلکہ یہ کہا گیا کہ تم ہی غالب رہو گے اور تمہارا ہی بول بالا ہو گا۔ چونکہ انہیں اندیشہ حق کے دب جانے اور باطل کے ابھر آنے کا تھا، نہ اپنی جان کے جانے کا کہ حق کی فتح و کامرانی کے بجائے حفظ جان کی انہیں تسلی دی جاتی۔ حضرتؑ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خوف یہی ہے کہ کہیں دنیا والے ان لوگوں (طلحہ و زبیر وغیرہ) کی فریب کاریوں کے پھندے میں نہ پھنس جائیں اور حق سے منہ موڑ کر ضلالت و گمراہی میں نہ جا پڑیں، ورنہ مجھے اپنی جان کی کبھی پرواہ نہیں ہوئی۔

[۱]۔ سورۂ طہٰ، آیت ۶۶-۶۸۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button