مقالاتنهج البلاغه مقالات

مقدمۂ نہج البلاغہ حصہ اول

استاد شیخ محمد عبدہ مفتی دیار مصریہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

استاد شیخ محمد عبدہ مفتی دیار مصریہ و مقدمۂ نَہْجُ الْبَلَاغَہ

مفتی دیار مصریہ علامہ شیخ محمد عبدہ متوفی ۱۳۲۳ھ جن کی اس سعی جمیل کے مشکور ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے مصر اور بیروت وغیرہ  اہل سنت کے علمی مرکزوں کو نہج البلاغہ کے فیوض سے بہرہ مند بنانے کا سامان کیا اوروہاں کے باشندوں کو ان کے سبب سے اس  جلیل القدر کتاب کا تعارف ہوسکا، انہوں نے نہج البلاغہ کو اپنے تفسیری حواشی کے ساتھ مصر میں چھپوایا جس کے بہت سے ایڈیشن اب تک شائع ہوچکے ہیں، وہ اپنے اس مقدمہ میں جو شروع کتاب میں درج کیا ہے، اپنی اس دہشت و حیرت کا اظہار کرتے ہوئے جو نہج البلاغہ کے حقائق آگیں عبارات سے ان پر طاری ہوئی ہے، تحریر کرتے ہیں:

کَانَ يُخَيَّلُ اِلَیَّ فِیْ كُلِّ مَقَامٍ اَنَّ حُرُوْبًا شُبَّتْ، وَ غَارَاتٍ شُنَّتْ، وَ اَنَّ لِلْبَلَاغَةِ دَوْلةً وَّ لِلْفَصَاحَةِ صَوْلَةً، وَ اَنَّ لِلْاَوْهَامِ عَرَامَةً وَّ لِلرَّيْبِ دَعَارَةً، وَ اَنَّ جَحَافِلَ الْخِطَابَةِ، وَ كَتَآئِبَ الذَّرَابَةِ، فِیْ عُقُوْدِ النِّظَامِ، وَ صُفُوْفِ الْاِنْتِظَامِ، تَنَافَحَ بِالصَّفِيْحِ الْاَبْلَجِ وَ الْقَوِيْمِ الْاَمْلَجِ، وَ تَمْتَلِجُ الْمُهَجُ بِرَوَاضِعِ الْحُجَجِ، فَتَفَلَ مِنْ دَعَارَةِ الْوَسَاوِسِ وَ تُصِيْبُ مَقَاتِلَ الْخَوَانِسِ. فَمَا اَنَا اِلَّا وَ الْحَقُّ مُنْتَصِرٌ، وَ الْبَاطِلُ مُنْكَسِرٌ، وَ مَرَجَ الشَّكُّ فِیْ خُمُوْدٍ وَ هَرَجَ الرَّيْبُ فِیْ رُكُوْدٍ. وَ اَنَّ مُدَبِّرَ تِلْكَ الدَّوْلَةِ،وَ بَاسِلَ تِلْكَ الصَّوْلَةِ، هُوَ حَامِلُ لِوَآئِهَا الْغَالِبِ، اَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ.

ہر مقام پر(اس کے اثناء مطالعہ میں(مجھے ایسا تصور ہورہاتھا کہ جیسے لڑائیاں چھڑی ہوئی ہیں، نبرد آزمائیاں ہورہی ہیں، بلاغت کا زور ہے اور فصاحت پوری قوت سے حملہ آور ہے، توہمات شکست کھارہے ہیں، شکوک و شبہات پیچھے ہٹ رہے ہیں، خطابت کے لشکر صف بستہ ہیں، طلاقت لسان کی فوجیں شمشیر زنی اورنیزہ بازی میں مصروف ہیں، وسوسوں کا خون بہایا جارہا ہے اور توہمات کی لاشیں گررہی ہیں اور ایک دفعہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ بس حق غالب آگیا اور باطل کی شکست ہوگئی اور شک و شبہ کی آگ بجھ گئی اور تصورات باطل کازورختم ہوگیا اور اس فتح و نصرت کا سہرا اس کے علمبردار اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب(ع)کے سرہے۔

بَلْ كُنْتُ كُلَّمَا انْتَقَلْتُ مِنْ مَّوْضِعٍ اِلٰی مَوْضِعٍ اُحُسُّ بِتَغَيُّرِ الْمَشَاهِدِ، وَ تَحَوُّلِ الْمَعَاهِدِ:

بلکہ اس کتاب کے مطالعہ میں جتنا جتنا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا، میں نے مناظر کی تبدیلی اورمواقف کے تغیر کو محسوس کیا:

فَتَارَةً كُنْتُ اَجِدُنِیْ فِیْ عَالَمٍ يَّعْمَرُهٗ مِنْ الْمَعَانِیْ اَرْوَاحٌ عَالِيَةٌ، فِیْ حُلَلٍ مِّنَ الْعِبَارَاتِ الزَّاهِيَةِ، تَطُوْفُ عَلَی النُّفُوْسِ الزَّاكِيَةِ، وَ تَدْنُوْ مِنَ الْقُلُوْبِ الصَّافِيَةِ، تُوْحِیْۤ اِلَيْهَا رَشَادُهَا، وَ تَقُوْمُ مِنْهَا مُرَادُهَا، وَ تَنْفِرُ بِهَا عَنْ مَّدَاحِضِ الْمَزَالِ، اِلٰی جَوَادِ الْفَضْلِ وَ الْكَمَالِ.

کبھی میں اپنے کو ایسے عالم میں پاتا تھا جہاں معانی کی بلند روحیں خوش نما عبارتوں کے جامے پہنے ہوئے پاکیزہ نفوس کے گرد چکر لگاتی اور صاف دلوں کے نزدیک آکر انہیں سیدھے رستے پر چلنے کااشارہ کرتی اور نفسانی خواہشوں کا قلع قمع کرتی اور    لغزشِ مقامات سے متنفر بناکر فضیلت و کمال کے راستوں کا سالک بناتی ہیں،

وَ طَوْرًا كَانَتْ تَتَكَشَّفُ لِیَ الْجُمَلُ عَنْ وُّجُوْهٍ بَاسِرَةٍ، وَ اَنْيَابٍ كَاشِرَةٍ، وَ اَرْوَاحٍ فِیْۤ اَشْبَاحِ النُّمُوْرِ، وَ مَخَالِبِ النُّسُوْرِ، قَدْ تَحْفَزَتْ لِلْوَثَّابِ، ثُمَّ انْقَضَتْ لِلِاخْتِلَابِ. فَخَلِبَتِ الْقُلُوْبَ عَنْ هَوَاهَا، وَ اَخَذَتِ الْخَوَاطِرَ دُوْنَ مَرْمَاهَا، وَ اغْتَالَتْ فَاسِدَ الْاَهْوَآءِ وَ بَاطِلَ الْاٰرَآءِ۔

اور کبھی ایسے جملے سامنے آجاتے ہیں جو معلوم ہوتا ہے کہ تیوریاں چڑھائے ہوئے اوردانت نکالے ہوئے ہولناک شکلوں میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ایسی روحیں ہیں جو چیتوں کے پیکروں میں اورشکاری پرندوں کے پنجوں کے ساتھ حملہ پرآمادہ ہیں اور ایک دم شکار پر ٹوٹ پڑتے ہیں اوردلوں کو ان کے ہوا و ہوس کے مرکزوں سے جھپٹ کر لے جاتے ہیں اور ضمیروں کوپست جذبات سے زبر دستی علیحدہ کردیتے اورغلط خواہشوں اورباطل عقیدوں کا قلع قمع کردیتے ہیں۔

وَ اَحْيَانًا كُنْتُ اَشْهَدُ اَنَّ عَقْلًا نُوْرَانِيًّا لَّا يَشْبَهُ خَلْقًا جَسَدَانِيًّا، فَصَلَ عَنِ الْمَوْكِبِ الْاِلٰهِیِّ وَ اتَّصَلَ بِالرُّوْحِ الْاِنْسَانِیِّ، فَخَلَعَهٗ عَنْ غَاشِيَاتِ الطَّبِيْعَةِ، وَ سَمَا بِهٖ اِلَی الْمَلَكُوْتِ الْاَعْلٰی، وَ نَمَا بِهٖ اِلٰی مَشْهَدِ النُّوْرِ الْاَجْلٰی. وَ سَكَنَ بِهٖ اِلٰی عَمَارِ جَانِبِ التَّقْدِيْسِ، بَعْدَ اسْتِخَلَاصِهٖ مِنْ شَوَآئِبِ التَّلْبِيْسِ.

اور بعض اوقات میں ایسے مشاہدہ کرتا تھا کہ ایک نورانی عقل جو جسمانی مخلوق سے کسی حیثیت سے بھی مشابہ نہیں ہے، خداوندی بارگاہ سے الگ ہوئی اور انسانی روح سے متصل ہوکراسے طبیعت کے پردوں سے اورمادیت کے حجابوں سے نکال لیا اور اسے عالم ملکوت تک پہنچادیا اورتجلیات ربانی کے مرکز تک بلند کردیا اور لے جاکر عالم قدس میں اس کو ساکن بنادیا۔

وَ اٰنَاتٍ كَاَنِّیْۤ اَسْمَعُ خَطِيْبَ الْحِكْمَةِ يُنَادِیْ بِاَعْلِيَآءِ الْكَلِمَةِ، وَ اَوْلِيَآءِ اَمْرِ الْاُمَّةِ، يُعَرِّفِهُمْ مَوَاقِعَ الصَّوَابِ، وَ يُبْصِرُهُمْ مَوَاضِعَ الْاِرْتِيَابِ، وَ يُحَذِّرُهُمْ مَزَالِقَ الْاِضْطِرَابِ، وَ يُرْشِدُهُمْ اِلٰی دَقَآئِقِ السِّيَاسَةِ، وَ يَهْدِيْهِمْ طُرُقَ الْكِيَاسَةِ، وَ يَرْتَفِعُ بِهِمْ اِلٰی مَنَصَّاتِ الرِّئَاسَةِ وَ يُصْعِدُهُمْ شَرَفَ التَّدْبِيْرِ، وَ يَشْرَفُ بِهِمْ عَلٰی حُسْنِ الْمَصِيْرِ.

اور بعض لمحات میں معلوم ہوتا تھا کہ حکمت کاخطیب صاحبان اقتدار اور قوم کےا ہل حل وعقد کو للکار رہا ہے اور انہیں صحیح راستے پر چلنے کی دعوت دے رہا ہے اور ان کی غلطیوں پر متنبہ کررہا ہے اور انہیں سیاست کی باریکیاں ا ور تدبر و حکمت کےدقیق نکتے سمجھا رہا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو حکومت کے منصب اور تدبر و سیاست کی اہلیت پیدا کرکے مکمل بنارہا ہے۔

اس میں علامہ محمد عبدہ نے جس طرح یقینی طور پر اس کو کلام امیر المومنین(ع)تسلیم کیا ہے، اسی طرح اس کے مضامین کی حقانیت اوراس کے مندرجات کی سچائی کابھی اعتراف کیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اس کتاب کے مضامین حق کی فتح اورباطل کی شکست اورشکوک واوہام کی فنا اور توہمات و وساوس کی بیخ کنی کا سبب ہیں اور وہ شروع سے آخر تک انسانی روح کیلئے روحانیت و طہارت اور جلال و کمال کی تعلیمات کی حامل ہیں۔

علامہ محمد عبدہ کو نہج البلاغہ سے اتنی عقیدت تھی کہ وہ اسے قرآن مجید کے بعد ہر کتاب کے مقابلہ میں ترجیح کامستحق سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنا یہ اعتقاد بتایا ہے کہ جامعہ اسلامیہ میں اس کتاب کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہونا اسلام کی ایک صحیح خدمت ہے اور یہ صرف اس لئے کہ وہ امیر المومنین(ع)ایسے بلند مرتبہ مصلح عالم کاکلام ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

لَیْسَ فِیْ اَھْلِ ھٰذِہِ اللُّغَۃِ اِلَّا قَآئِلٌ بِاَنَّ کَلَامَ الْاِمَامِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ھُوَ اَشْرَفُ الْکَلَامِ وَ اَبْلَغُہٗ بَعْدَ کَلَامِ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَ کَلَامِ نَبِیِّہٖ وَ اَغْزَرُہٗ مَادَّۃً وَ اَرْفَعُہٗ اُسْلُوْبًا وَ اَجْمَعُہٗ لِجَلَآئِلِ الْمَعَانِیْ، فَاَجْدَرُ بِالطَّالِبِیْنَ لِنَفَآئِسِ اللُّغَۃِ وَ الطَّامِعِیْنَ فِی التَّدَرُّجِ لِمَراقِیِّھَا اَنْ یَّجْعَلُوْا ھٰذَا الْکِتَابَ اَھَمَّ مَحْفُوْظَھُمْ وَ اَفْضَلَ مُاْثُوْرِھُمْ مَعَ تَفَھُّمِ مَعَانِیْہِ فِی الْاَغْرَاضِ الَّتِیْ جَآءَتْ لِاَجْلِھَا وَ تَاَمُّلِ اَلْفَاظِہٖ فِی الْمَعَانِی الَّتِیْ صِیْغَتْ لِلدَّلَالَۃِ عَلَیْھَا، لِیَصِیْبُوْا بِذٰلِکَ اَفْضَلَ غَایَۃٍ وَ یَنْتَھُوْۤا اِلٰی خَیْرِ نِھَایَۃٍ.

اس عربی زبان والوں میں کوئی ایسا نہیں جو اس کاقائل نہ ہو کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب(ع)کا کلام، کلام خدا و کلامِ رسولؐ  کے بعد ہر کلام سے بلند تر، زیادہ پر معانی اور زیادہ فوائد کاحامل ہے۔ لہٰذا زبانِ عربی کے نفیس ذخیروں کے طلاب کیلئے یہ کتاب سب سے زیادہ مستحق ہے کہ وہ اسے اپنے محفوظات اور منقولات میں اہم درجہ پر رکھیں اور اس کے ساتھ ان معانی و مقاصد کے سمجھنے کی کوشش کریں جواس کتاب کے الفاظ میں مضمر ہیں۔

یہ واقعہ ہے کہ علامہ محمد عبدہ کی یہ کوشش پورے طور پر بار آور بھی ہوئی۔ ایسے تنگ نظری کے ماحول میں جبکہ علمی دنیا کا یہ افسوسناک رویہ ہے کہ خود اہل سنت کی وہ کتابیں جو اہل بیت معصومین(ع) سے یا حضرت علی ابن ابی طالب(ع)سے متعلق ہیں، انہیں زیادہ تر ایران کے شیعی مطبعوں نے شائع کیا ہے مگر مصر و بیروت وغیرہ کے علمی مرکزوں نے انہیں کبھی قابل اشاعت نہ سمجھا۔ مثلا: ’’سبط ابن جوزی‘‘ کتب سیر میں پوری علمی جلالت سے یاد کئے گئے ہیں، مگر ان کی کتاب ’’تذکرہ‘‘ صرف اس لئے سوادِ اعظم کی بارگاہ میں درخور اعتنا نہیں سمجھی گئی کہ اس میں اہل بیت رسول ﷺ کے حالات زیادہ ہیں۔ اسی طرح حافظ نسائی کی خصائص وغیرہ۔ مگر نہج البلاغہ اپنے تمام مندرجات کے باوجود جن سے سواد اعظم کو اختلاف ہوسکتا ہے، پھر بھی مصر اور بیروت کے علمی حلقوں میں پوری پوری مقبولیت اور مرکزیت رکھتی ہے۔ اس کے مسلسل ایڈیشن شائع ہوتے ہیں اورمدارس اور یونیورسٹیوں کے نصابوں میں داخل ہے۔ یہ صرف ہندوستان یا پاکستان کی مناظرانہ ذہنیت اور اس کی مسموم فضا ہے کہ یہاں کے مدارس میں اکثر اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جو خالص شیعی کتاب سے ہونا چاہیے۔

علامہ شیخ محمد عبدہ نے نہ صرف اس کتاب پر حواشی لکھ دیئے اور اسے طبع کردیابلکہ وہ اپنی گفتگوؤں میں برابر اس کی تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ’’مجلّۃ الہلال‘‘ مصر نے اپنی جلد نمبر ۳۵ کے شمارہٴ اول بابت نومبر ۱۹۲۶ء کے صفحہ ۷۸ پر چار سوالات علمی طبقہ کی توجہ کیلئے شائع کئے تھے جن میں پہلا سوال یہ تھا کہ:

مَا ھُوَ الْکِتَابُ اَوِ الْکُتُبُ الَّتِیْ طَالَعْتُمُوْھَا فِیْ شَبَابِکُمْ، فَاَفَادَتْکُمْ وَ كَانَ لَھَااَثَرٌ فِیْ حَیَاتِکُمْ؟

وہ کونسی کتاب یا کتابیں ہیں، جن کاآپ نے دور شباب میں مطالعہ کیاتو انہوں نے آپ کو فائدہ پہنچایا اور ان کا آپ کی زندگی پر اثر پڑا؟

اس سوال کا جواب استاد شیخ مصطفی عبد الرزاق نے دیا ہے جو شمارہٴ دوم بابت دسمبر ۱۹۲۶ھ کے صفحہ ۱۵۰ پر شائع ہوا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:

طَالَعْتُ بِاِرْشَادِ الْاُسْتَاذِ الْمَرْحُوْمِ الشَّیْخِ مُحَمَّد عَبْدُہٗ دِیْوَانَ الْحِمَاسَۃِ وَ نَھْجَ الْبَلَاغَۃِ.

میں نے استاد مرحوم شیخ محمد عبدہ کی ہدایت سے دیوان حماسہ اور نہج البلاغہ کا مطالعہ کیا۔

 عبد المسیح انطاکی نے بھی جن کی رائے اس کے بعد آئے گی، اس کا ذ کر کیا ہے کہ علامہ محمد عبدہ نے مجھ سے فرمایا کہ :’’اگر تم چاہتے ہو کہ انشا پردازی کا درجہ حاصل کرو توا میر المومنین حضرت علی(ع)کو اپنا استاد بناؤ اور ان کے کلام کو اپنے لئے چراغ ہدایت قرار دو‘‘۔

موصوف کا یہ عقیدہ نہج البلاغہ کے متعلق کہ وہ تمام و کمال امیر المومنین(ع)کا کلام ہے، اتنا نمایاں تھا کہ ان کے تمام شاگرد جو ان کے بعدسے اب تک مصر کے بلند پایہ اساتذہ میں رہے، اس حقیقت سے واقف تھے۔ چنانچہ استاد محمد محی الدین عبد الحمید مدرس کلیہ لغت عربیہ جامعہ ازہر جن کے خود خیالات ان کی عبارت میں اس کے بعد پیش ہوں گے، اپنے شائع کردہ ایڈیشن کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

عَسَيْتُ اَنْ تَسْئَلَ عَنْ رَّاْىِ الْاُسْتَاذِ الْاِمَامِ الشَّيْخِ مُحَمَّد عَبْدُهٗ فِىْ ذٰلِكَ، وَ هُوَ الَّذِىْ بَعَثَ الْكِتَابَ مِنْ مَّرْقَدِهٖ، وَ لَمْ يَكُنْ اَحَدٌ اَوْسَعَ مِنْهُ اطِّلَاعًا ، وَ لَاۤ اَدَقَّ تَفْكِيْرًا، وَ الْجَوَابُ عَلٰى هٰذَا التَّسَاؤُلِ: اَنَّا نَعْتَقِدُ اِنَّهٗ رَحِمَهُ اللّٰهُ كَانَ مُقْتَنِعًا بِاَنَّ الْكِتَابَ كُلَّهٗ لِلْاِمَامِ عَلِىٍّ رَّحِمَهُ اللّٰهُ.

ممکن ہے تم اس بارے میں استاد امام شیخ محمد عبدہ کی رائے دریافت کرنا چاہتے ہو جنہوں نے اس کتاب کو خوابِ گمنامی سے بیدارکیا اور ان سے بڑھ کر کوئی وسعتِ اطلاع اور باریکیٴ نگاہ میں مانا بھی نہیں جاسکتا تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس کتاب کو تمام و کمال امیر المومنین(ع)کا کلام سمجھتے تھے۔

علامہ محمد عبدہ کایہ مقدمہ جس کے اقتباسات ہم نے درج کئے ہیں، خوددنیائے ادبیت میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ سیّد احمد ہاشمی نے اپنی کتاب ’’جواہر الادب‘‘ حصہ اول میں صفحہ ۳۱۷،۳۱۸ پر اسے تمام و کمال درج کردیا ہے اور اس پر عنوان قائم کیا ہے:

 وَصْفُ نَہْجِ الْبَلَاغَۃِ لِلْاِمَامِ الْمَرْحُوْمِ الشَّیْخِ مُحَمَّدٍ عَبْدُہُ الْمُتَوَفّٰی ۱۳۲۲ھ۔

اب یہاں پر استاد شیخ محمد عبدہ مفتی دیار مصریہ کے مقدمہ نہج البلاغہ کا کامل اردو متن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے جسے ڈاکٹر سید تلمیذ حسنین رضوی صاحب نے ترجمہ کیا ہے :

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمۂ نَہْجُ الْبَلَاغَہ از استاد شیخ محمد عبدہ مفتی دیار مصریہ
ترجمہ: ڈاکٹر سید تلمیذ حسنین رضوی

حَمدِ بے کَراں اور ثَنائے بے پایاں اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کی باڑ ہے جس نے اطراف و جوانب سے اس کی نعمتوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ اور نبی مکرم پر درود و سلام  اِیفَائےِعہد ہے اور بَارانِ رحمت ہو، ان کی آلِ (اطہار) پر جو اَولِیاء ہیں۔ اور اُن کے اَصحابِ (اَمجاد) پر جو منتخبِ روزگار ہیں۔ جنھیں (حسین) و جمیل کا عِرفان اور راہ حق (وصداقت) کی پہچان ہے۔

 امّابعد مَشیتِ خداوندی اور قَضا و قَدَر کے فیصلے نے مجھے کتاب نہج البلاغہ سے مُطّلَع اور آگاہ کیا اور بغیر کسی تگ و دو اور کوشش وکاوش کے مجھے یہ کتاب میسّر آ گئی۔ جب اس تک میری رسائی ہوئی تو میری حالت دِگرگُوں تھی اور میرا دل پریشان تھا مَشَاغِل کی رکاوٹیں تھیں،  کاروبارمُعَطّل تھا۔ ایسے عالم میں کتابِ نہج البلاغہ کو مَیں نے اپنے لیے تَسْلِیَتْ کا سامان جانا اور تنہائی کی تدبیر گردانا۔ میں نے اس کے بعض صَفَحَات میں جستجو کی اور عبارتوں کے جملوں پر غَور و خَوض کیا اور مختلف مَقامات اور مُتَفَرِّق موضوعات کا مُطَالعہ کیا تو ہر مقام پر مجھے یہ دکھائی دیا کہ جنگ و جدال پورے شباب پر ہے اور دشمن پر حملے جاری و ساری ہیں ۔ اور بلاغَت کی حُکومت ہے اور فَصاحت کا غلبہ ہے، شکوک و شبہات کے ہجوم پر خیالات کا حملہ ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ خِطَابَت کا ایک عظیم لشکر ہے اور سپاہی دستے تلوار سونتے ہوئے ہیں، گویا کہ موتی ہوں اک لڑی میں پروئے ہوئے اور مُنظّم صَف بندی کئے ہوئے شمشیر بَرّاں ہوں اورگندم گوں نیزوں سے گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے، دلائلِ وَاضِحہ بَراہینِ سَاطِعہ اور حُجَجِ قَاطِعہ کا ایک ہجوم ہے جنہوں نے وسوسوں اور شیطانی جنگجوؤں کی تلواروں کو کُند کر دیا ہے، باطل شکست سے دوچار ہے شک وشبہے کی آگ بجھ چکی ہے اور فتنہ و فساد پر سنّاٹا چھایا ہوا ہے اور اس سلطنت کا رُوحِ رَواں اور اس غلبہ کا سُورما حَامِلِ پرچم ِغَالب امیر المومنین علی ابن ابی طالب ہے۔

 میں نہج البلاغہ کی سیر کرتا ہوا جب بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہوں تو میرے مُشَاہدات میں تَغیُّر رونما ہوتا ہے اور میرے عہد و پَیماں میں ایک ہَیجَان برپا ہوتا ہے تو کبھی میں خود کو ایسے عالم میں پاتا ہوں کہ بلندوبالا اَرْوَاح مَعانی و مَطالِب کے سمندر میں تہہ تک پہنچ گئی ہیں اور عبارتیں خوبصورت زیورات سے آراستہ  وپیراستہ ہیں اور وہ پاک و پاکیزہ ذواتِ مُقَدَّسَہ کا طواف کر رہی ہیں اور صاف و شفّاف دلوں کی قُربت حاصل کر رہی ہیں ان کی جانب رہنمائی کی وحی ہو رہی ہے اور ان کے ذریعہ سے منزلِ مُراد کی راہ ہموار ہو رہی ہے جن کے ذریعہ سے فضل و کمال  کےرہوار پر سوار ہو کر میں قعِر مذلت سے نکل کرراہِ فرار اختیار کر رہا ہوں۔

اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جملے میرے سامنے ایسے چہروں کے ساتھ منکشف ہوتے ہیں جو تندخو ہوتے ہیں جن کی ڈاڑھیں واضح ہوتی ہیں جن کی روحیں چیتوں کی مانند ہوتی ہے اورگِدھوں کے چُنگل جیسی ہوتی ہے جو حملے کے لیے گھات لگائے ہوئے ہیں اور جھپٹنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جنہوں نے مکروفریب کے لیے اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں اورپھر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اس نے دلوں کو بےجا خواہشات سے بچا لیا ہے اوران تیروں کے نشانوں سے قلوب کو محفوظ کر لیا ہے اور فَاسِد تمنّاؤں اور باطل آرا کا قَلع قَمع کر دیا ہے اور ایسا لمحہ بھی آتا ہے کہ میں مشاہدہ کرتا ہوں کہ ایک نورانی عقل ہے، جو جسمانی نفوس سے  مُشَابَہَتْ نہیں  رکھتی وہ الہی سواری سے جدا ہوئی ہے اور انسانی روح سے آکرمُتَصِّل ہو گئی ہے اور اس نے فِطرت کے پردوں کو چاک کرکے اندھیروں اور ظلمتوں سے نکال کر مَلکُوتِ اعلیٰ تک پہنچا دیا ہے اور اسے نُمو عَطا کر کے نورِ روشن کی جلوہ گاہ تک رَسَائی دلادی ہے اور اُسے تَلبِیس و تَشْکِیک کے شُبْہَات سے نجات دلاکر تَقْدِیْسکے پہلو کو بسانے کے لئے وہاں ٹھہرا دیا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکمت و دانائی کے ایسے خطیب کو سن رہا ہوں جو کلمہ کی سَرفَرازی کی صدا دے رہا ہے اور اُمّت کے اَمر کی سرپرستی کے لئے کوشاں ہے اور انھیں درست مقامات کی نشاندہی کر رہا ہے اور شکوک و شبہات کے مقامات و منازل سےآگاہ کر رہا ہے اور اضطراب کی پھسلن سےانہیں مُتَنَبّہ کر رہا ہے اور سیاست کی باریک بینیوں کی جانب ان کی رہنمائی کر رہا ہے۔ انھیں ذَہَانَت و فَطَانَتْ کی راہیں دکھا رہا ہے اور انھیں ریاست کےحَجلہ تک بلندی اور رِفْعَت عطا کرتا ہےاور تدبیر کے کنگروں تک انہیں بلند کرتا ہے اور ان کے خوب صورت منازل تک انھیں پہنچاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button