شمع زندگی

23۔ نورِ یقین

شمع زندگی

فَهُوَ مِنَ الْيَقِينِ عَلَي مِثْلِ ضَوْءِ الشَّمْسِ۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۸۵)
وہ یقین کی وجہ سے ایسے اجالے میں ہیں جو سورج کی چمک دمک کے مانند ہے۔

انسان ساری زندگی جو سعی و کوشش کرتا ہے، مال و دولت اکھٹی کرتا ہے ،منصب و عہدہ کا طلب گار رہتا ہے وہ ان چیزوں کو عزت کا ذریعہ اور لوگوں میں محبوب ہونے کا سبب سمجھتا ہے۔ لوگوں کا محبوب ہونا خود ایک کمال ہے، البتہ کمال تب ہوگا جب اصول و قوانین کی بنا پر اس محبت کی جگہ دلوں میں بنے گی۔ لوگ اگر طمع و حرص کی وجہ سے دلوں سے محبت کے بجائے زبانوں پر محبت کے ا لفاظ لائیں تو یہ محبت کمال نہیں ہوگی۔ امیرالمؤمنینؑ نے نہج البلاغہ کے اس خطبہ میں بندوں کی محبت سے بڑھ کر خدا کی محبت کے حصول کے طریقے بیان فرمائے ہیں اور ان کی نشانیاں بیان کی ہیں ۔ جب کوئی انسان اللہ کا محبوب بن جاتا ہے تو پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت و مودت ڈال دیتا ہے۔

اس فرمان میں امیرالمؤمنینؑ نے محبوب خدا کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی ہےکہ وہ مقصد اور مشن پر یوں پختہ یقین رکھتا ہے کہ اس کا یقین سورج جیسی چمک دمک رکھتا ہے۔ جو انسان سوچ بچار کے بعد اپنا ہدف معین کرتا ہے، خاص کر جب اس ہدف میں محبت خدا کاحصول مدنظر ہو تو خواہش پرستی کے پردے اور کمال تک پہنچنے کی رکاوٹیں اس کے سامنے سے ہٹ جاتی ہیں ۔ اس کی راہ کے سنگ میل اس کے لیے چمک رہے ہوتے ہیں۔ نفس پرستی کے طوفانی دریاؤں کو عبور کرنے کے اسباب واضح ہو جاتے ہیں اور وہ شخص قرآن جیسے مضبوط ذریعہ کمال کو تھام لیتا ہے اور قرآن کے ذریعے اسے جو راہیں سمجھائی گئی ہیں یقین کے چراغ کی روشنی میں انہیں طے کر لیتا ہے اور اس راہ میں جو مشکلیں آتی ہیں وہ یقین کی قوت سے اطمینان سے عبور کر لیتا ہے۔ یعنی قرآن کے قوانین سے ھدف معین کرتا ہے اور یقین کی طاقت سے ھدف کو حاصل کرتا ہے۔

محبوب خدا کی نشانیوں میں سے پھر امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ وہ خود سازی کی منزل کو یقین کے چراغ سے حاصل کرتا ہے مگر اسے انتہائے منزل نہیں سمجھتا بلکہ پھر مخلوق خدا کی راہنمائی اور خدمت کے لیے چراغ بن جاتا ہے اور انہیں جہالت و گمراہی کے اندھیروں سے نجات دلاتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں “ وہ تاریکیوں میں روشنی پھیلانے والا، مشتبہ باتوں کو حل کرنے والا، الجھے ہوئے مسئلوں کو سلجھانے والا، گنجلکوں کو دور کرنے والا اور لق و دق صحراؤں میں راہ دکھانے والا ہوتا ہے”خلاصہ یہ کہ با کمال وہ ہے جو مخلوق خدا کو با کمال دیکھنا چاہتا ہے اور اس کے اسی کردار کی وجہ سے وہ خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور خدا مخلوق میں اسے محبوب بنا دیتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button