دوست اور دوستی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
دوستی کی اہمیت
انسان کی زندگی میں ایک ساتھی کا ہونا انتہائی ضروری ہے جس کا انسان کی سرنوشت میں اہم کردار ہوتا ہے اس لئے انسان میں دوست بنانے کی صلاحیت بھی انتہائی ضروری ہے اور جس میں یہ صلاحیت نہ ہو، اسے واقعاً انسان نہیں کہا جا سکتا‘‘۔ [1]
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’التودد نصف العقل‘‘ [2]، دوستی کرنا عقل کا حصہ ہے اور دوستی کرنے کے لئے ضروری ہے انسان لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرے حالانکہ لوگوں کے دل صحرائی جانوروں جیسے ہیں جو انہیں سدھار لے گا اس کی طرف جھک جائیں گے امام المتقین علیہ السلام نے فرمایا: ’’قلوب الرجال وحشیۃ فمن تألفھا اقبلت الیہ‘‘ [3]، اور سدھارنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان بہترین اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرے تاکہ یہ دل وحشی رام ہو جائے ورنہ بد اخلاقی اور بد سلوکی سے وحشی جانور مزید بھڑک جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور اس کے رام ہو جانے کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ [4]
امام علی علیہ السلام کی نظر میں دوستی ایک بہترین سرمایہ ہے جس کے پاس دوستی نہ ہو وہ غربت کا شکار ہے [5]، اور امام نے فرمایا ’’والغریب من لم یکن لہ حبیب‘‘ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔[6] دوستی کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے امام علی علیہ السلام نے فرمایا: رشتہ داری دوستی کے لئے محتاج ہے لیکن دوستی رشتہ داری کی محتاج نہیں بسا اوقات رشتہ دار دور سے بھی دور ہوتا ہے حالانکہ بسا اوقات دور کا شخص (دوستی کے ذریعے) نزدیک سے بھی نزدیکتر ہوتا ہے۔ [7]
اس لئے امام المتقینؑ کی نظر میں عاجز ترین انسان وہ ہے جو دوست بنانے سے عاجز ہو اور اس سے بھی زیادہ عاجز وہ ہے جو بنے ہوئے دوستوں کو کھو دے۔ [8] امامؑ اس فرمان مبارک میں اخلاق کریمہ کی طرف رغبت دے رے ہیں چونکہ دوست کو نیک اخلاق ہی کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں مولانے دوست بنانے سے عاجز ہونے والے کو اس لئے عاجز ترین انسان قرار دیا کہ دوست بنانے کے لئے نہ جسمی طاقت کی ضرورت ہے اور نہ عقلی طاقت کی بلکہ یہ امر صرف نیک اخلاق گشادہ روئی اور حسن معاشرے کے ذریعہ امکان پزیر ہے عموما لوگوںکے لئے سب سے زیادہ آسان کام یہی ہے اور جو آسان کام انجام نہ دے سکتا ہو یقینا وہ دیگر افراد کی نسبت عاجز کہلایاجائے گا اور امام نے اپنے بنائے ہوئے دوستوں کو کھو دینے والے کو سب سے زیادہ عاجز قرار دینے کی علت بھی یہ بیان کی کہ کسی دوست کو بنانے کے لئے یقینا زحمت اٹھانی پڑتی ہے دوست بنانے کے بعد دوستی پر برقرار رہنا آسان ہوتا ہے اس کے باوجود جو شخص آسان چیز کو بھی محفوظ نہ رکھ سکے وہ سب سے زیادہ عاجز ہے۔ [9]
دوستی کا معیار:
امام المتقین علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے مختلف مقامات پر دوستی کے معیار بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا:
’’والصاحب مناسب و الصدیق من صدق غیبہ …‘‘ [10] یعنی ساتھی ایک طرح کا شریک نسب ہوتاہے اور دوست وہ ہے جو غیبت میں بھی تمہارا سچا دوست رہے ایک اور مقام پر آپ نے فرمایا: ’’لایکون الصدیق صدیقا حتی یحفظ أخاہ فی ثلاثۃ، فی نکبتہ و غیبتہ و وفاتہ‘‘ [11] یعنی دوست اس وقت تک دوست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے دوست کے تین مواقع پرکام نہ آئے:
۱۔مصیبت کے موقع پر
۲۔ اس کی غیبت میں
۳۔ مرنے کے بعد
لہذا نسان کو چاہئیے کہ دوستی کے لئے ایسے فرد کا انتخاب کرے جس میں دوستی کی خصوصیات پائی جاتی ہوں اور انسان کی طرف رغبت رکھتا ہو چنانچہ امام نے فرمایا: ’’زھدک فی راغب فیک نقصان حظ و رغبتک فی زاہد فیک ذل نفس‘‘ [12] یعنی جو تمہاری طرف رغبت کرے اس سے کنارہ کشی خسارہ ہے اور جو تم سے کنارہ کش ہو جائے اس کی طرف رغبت اور اس کے پیچھے دوڑنا ذلت نفس ہے۔
دوستوں کی اقسام
امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں دوست تین قسم کے ہوتے ہیں چنانچہ فرمایا:
’’اصدقائک ثلاثۃ صدیقدک، صدیق صدیقک، عدوعدوک‘‘ [13]
یعنی تمہارے دوست تین قسم کے ہیں:
۱۔ تمہارا دوست
۲۔ تمہارے دوست کا دوست
۳۔ تمہارے دشمن کا دشمن
اگر یہ دوسی حقیقی معنوں میں ہو تو دوست کبھی بھی دشمن نہیں بنے گا بلکہ دوست کی خوشنودی کے لئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کو تیار ہو گا جیسا کہ امام علی علیہ السلام اپنے متعلق دوستی اور دشمنی کے بارے میں فرمایا: ’’لو ضربت خیشوم المومن بسیفی ھذا علی ان یبغضنی ما ابغضنی ولو صببت الدنیا بجماتھا علی المنافق علی ان یحبنی ما احبنی‘‘ [14] یعنی اگر میں اس تلوار سے مومن کی ناک بھی کاٹ دوں کہ مجھ سے دشمنی کرنے لگے تو ہرگز نہ کرے گا اور اگر دنیا کی تمام نعمتیں منافق پر انڈیل دوں کہ مجھ سے محبت کرنے لگے تو ہرگز محبت نہ کرے گا۔
امام علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کی دوستی ہمارے لئے نمونہ عمل ہے جن کی دوستی کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر واجب قرار دیا ہے۔ ’’قل لا اسئلکم علیہ اجراالا المودۃ فی القربی‘‘ [15] یعنی کہو میں صرف اقرباء کی محبت اور دوستی کے کوئی اجررسالت نہیں مانگتا اور ان کے در سے درس حاصل کرتے ہوئے اپنے واقعی دوستوں کے ساتھ وفاکرنا چاہئیے۔
دوستی میں اعتدال
دوستوں کی دوستی کا حد و مرز معین ہونا چاہئیے کہ امام علی علیہ السام نے اپنی دوستی کا حدود بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’سیھلک فیّ صنفان حب مفرط یذھب بہ الحب الی غیر الحق و مبغض مفرط یذھب بہ البغض الی غیر الخق و خیر الناس فی حالاالنمط الأوسط فألزموہ …‘‘
یعنی میرے بارے میں دو طرح کے لوگ گمراہ ہوں گے ۱۔ محبت میں غلو کرنے والے جنہیں محبت غیر حق کی طرف لے جائے گی۔ ۲۔ عداوت میں زیادتی کرنے والے جنہیں عداوت باطل کی طرف کھینچ لے جائے گی اور بہترین افراد وہ لوگ ہیں جو درمیانی منزل پر فائز ہوں۔
(نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۷)
اسی لئے مولی الموحدین امام علی علیہ السلام نے لوگوں کو بھی یہ نصیحت کی تاکہ آپس کی دوستی میں افراط اور تفریط کا شکار نہ ہو جائیں یعنی دوستی اور دشمنی دونوں میں زیادہ روی نہ ہو جائے۔ محبت میں زیادہ روی اس طرح ہوتی ہے کہ انسان اپنے دوست کو تمام ذاتی حالات اور اسرار سے آگاہ کر دیتا ہے اگر بعد میں کبھی ان کی دوستی میں خلل آجائے اور دوستی دشمنی میں بدل جائے تو ایسی دوستی چونکہ دوست اسرار اور رازوں سے واقف ہے انسان کو برباد کر نے کے لئے کافی ہے۔ (اور جب دشمن بنے گا تو اس کے جتنے راز اور اسرار تھے سب کو فاش کر دے گا اور باعزت شخص کی رسوائی اور ذلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ لوگ اس کے ذاتی حالات اور اسرار سے واقف ہو جائیں)
دشمنی میں زیادہ روی اس طرح ہوتی ہے کہ جب دو شخص آپس میں دشمن ہو جائیں تو ایک دوسرے کو رسوا کرنے کے درپے ہوتے ہیں اور یہ چیز کینہ اور عداوت میں زیادتی کا باعث بنتی ہے لہذا دوستی کی مانند دشمنی میں بھی اعتدال ضروری ہے تاکہ شرمساری کا سامنا نہ ہو۔ [16]
جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے حکمت آمیز جملے میں فرمایا: ’’احبب حبیبک ھونا ما عسی ان یکون بغیضک یوما ما ابغض بغیضک ھونا ما عسی ان یکون حبیبک یوما ما‘‘ [17] یعنی اپنے دوست سے ایک محدود حد تک دوستی کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن دشمن ہو جاؤ اور دشمن سے بھی ایک حد تک دشمنی کرو شاید ایک دن دوست بن جائے۔ (تو شرمندگی نہ ہو)
دوستی کے آداب
امام متقین امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے: ’’الٓاداب حلل مجدۃ‘‘ [18] یعنی نیک آداب نو بہ نو زیورات ہیں جو زمانہ کے حالات کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔ [19] اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا اپنی زندگی میں خوش و خرم رہنا اچھے اور نیک اعمال انجام دینے کا نتیجہ ہے جس طرح زیورات سے آراستہ شدہ شخص تازہ دم اور ہشاش بشاش نظر آرہا ہے (اسی طرح اچھے اور نیک آداب کی رعایت کرنے والا بھی تازہ دم اور ہشاش بشاش نظر آتا ہے) [20]
اس لئے امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’لا تدوم علی عدم الانصاف المودۃ‘‘ [21] دوستی، بے انصافی (اور آداب دوستی کی رعایت نہ کرنے) سے پائیدار نہیں ہوتی ایک اور مقام پر فرمایا: ’’ان الناس الی صالح الأدب احوج منھم الی الفضۃ والذھب‘‘ [22] بے شک لوگ نیک آداب کے لئے سونا چاندی سے بھی زیادہ نیاز مند ہیں چونکہ سونے اور چاندی کے ذریعہ انسان ظاہری بدن کو آراستہ کر سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ دنیوی چیزوں پر فخرو مباہات کر سکتا ہے لیکن آداب کے ذریعہ روح و آخرت اسی طرح معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بھی سنوار سکتا ہے۔
اسی طرح دوستی میں بھی آداب کی رعایت کرنا ضروری ہے تاکہ دوستی میں کسی قسم کی کمی نہ آنے پائے نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام کے ایسے نصائح اور ارشادات موجود ہیں جن کی رعایت کرنے سے دوستی ہمیشہ کے لئے باقی رہ سکتی ہے۔
۱۔ دوستی اللہ تعالی کی رضایت کے لئے ہو
امام علیہ السلام نے فرمایا: ’’ان افضل الدین الحب فی اللہ‘‘ [23] بہترین دین وہ ہے جس میں دوستی اللہ تعالی کے لئے ہو۔
۲۔ دوستی میں زیادہ روی سے پرہیز:
جس کی تفصیل ’’دوستی میں اعتدال‘‘ کے عنوان کے ذیل میں بیان کی جا چکی ہے: کہ امام المتقین نے فرمایا : ’’أحبب حبیبک ھونا ماعسی أن یکون بغیضک یوما ما و أبغض بغیضک ھوناما عسی ان یکون حبیبک یوما ما‘‘ [24]، اپنے دوست سے ایک محدود حد تک دوستی کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن دشمن ہو جائے اور دشمن سے بھی ایک حد تک دشمنی کرو شاید ایک دن دوست بن جائے (تو شرمندگی نہ ہو)
۳۔ دوست کو ناراض کرنے سے پرہیز:
کبھی دوستوں کے آپس میں مذاق کے دوران ایسے نامناسب الفاظ کا استعمال ہو جاتاہے ایسے الفاظ جو دوست کی رنجش کا باعث بنتے ہوں ان سے پرہیز کرنا چاہیے امام الموحدین امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’اذا احتشم المومن أخاہ فقد فارقہ‘‘ [25] جب کوئی مومن اپنے دوست کو غضبناک کرے تو سمجھو کہ اس سے جدا ہوگیا ہے اس کلام کے ذریعہ امام المومنینؑ نے مومن کو دوست کی ناراضگی سے روکا ہے اگر مومن اپنے دوست کو شرمندہ کرے تو یہ عمل آپس میں نفرت اور جدائی کا باعث بنے گا [26]۔
۴۔ حسد سے پرہیز:
خالص دوستی کا لازمہ یہ ہے کہ انسان جو چیز اپنے لئے چاہے اسی کو اپنے دوست کے لئے بھی پسند کرے اور جس چیز کو اپنے لئے نہیں چاہتا دوست کے لئے بھی پسند نہ کرے لیکن حسد کا لازمہ یہ ہے کہ اچھائی اور نیکی محسود (جس شخص کے متعلق حسد کیا جا رہا ہے) سے زائل ہو جائے (حاسد خیر واصلاح میں کبھی بھی اس کا حامی نہیں ہے اسی لئے حاسد کی دوستی درحقیقت دوستی نہیں) بلکہ حاسد کی دوستی ناقص اور کمزور ہے۔ [27]
جیسا کہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’حسد الصدیق من سقم المودۃ‘‘ [28] دوست کا حسد کرنا محبت کی کمزوری ہے۔ اگر تمہارا دوست نعمت ملنے پر تم سے حسد کرے تو اس کی دوستی واقعی نہیں ہے کیونکہ دوست تمہارے نفس کی مانند ہے اور انسان اپنے نفس کے ساتھ کبھی بھی حسد نہیں کرتا کسی حکیم سے دوست کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا: وہ انسان (دوست) توہی ہے لیکن تمہارے علاوہ ہے۔ [29] پس معلوم ہوا کہ دو دوستوں کی مثال ایک روح دو بدن کی طرح ہے جس نے دوست کے ساتھ حسد کیا گویا اپنے نفس کے ساتھ حسد کیا اور جس نے حسد کیا اس کا ایمان ضائع ہو گیا چنانچہ امام المتقین نے فرمایا: ’’ولاتحاسدوا فان الحسد یأکل الایمان کما تأکل النار الحطب‘‘ [30] ایک دوسرے سے حسد نہ کرنا حسد ایمان کو اس طرح کھا جاتاہے جس طرح آگ سوکھی لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ نیز امام علیہ السلام نے فرمایا: ’’الحسد داء عیالا یزول الا یھلک الحاسد او بموت المحسود‘‘ [31] حسد ایک ایسی مہلک بیماری ہے جو حسد کرنے والے کی ہلاکت یا محسود (جس کے متعلق حسد کیا جا رہاہے) کی موت کے بغیر زائل نہیں ہوتی۔
دوستوں کے حقوق:
دوستی کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے ہمیشہ کے لئے محفوظ رکھنا ہر انسان کے لئے ضروری ہے۔ لہذا امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے زندگی کے مختلف مقامات اور مراحل میں اسے ثابت رکھنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ آپؑ کا ارشاد گرامی ہے: ’’احمل نفسک من اخیک عند صربہ علی الصلہ و عند صدودہ علی للطف و المقاربۃ و عند جمودہ علی البذل و عند تباعدہ علی الدنو و عند شدتہ علی اللین و عند جرمہ علی العذر حتی کانک لہ عبد و کانہ ذو نعمۃ علیک‘‘ [32] اپنے نفس کو اپنے بھائی کے بارے میں قطع تعلق کے مقابلہ میں تعلقات، اعراض کے مقابلہ میں مہربانی، بخل کے مقابلہ میں عطا، دوری کے مقابلہ میں قربت، شدت کے مقابلہ میں نرمی اور جرم کے موقع پر معذرت کے لئے آمادہ کرو کہ گویا تم اس کے بندے ہو اور اس نے تم پر کوئی احسان کیا ہے۔
اور جو شخص بھی اپنے دوست کے دین کی پختگی اور طریقہ کار کی درستگی کا علم رکھتا ہے اس بارے میں دوسروں کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئیے کہ کبھی کبھی انسان تیر اندازی کرتا ہے اور اس کا تیر خطا کر جاتا ہے اور باتیں بناتا ہے اور حرف باطل پر بہر حال فنا ہو جاتا ہے اور اللہ سب کا سننے والا ہے اور گواہ بھی ہے۔ [33] اگر انسان دوسروں کے بارے میں تیر کی طرح جھوٹی باتوں کا سہارا لے تو وہ غیبت میں شمار ہو گی جس کو اللہ تعالی نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا ہے) اللہ تعالی نے سورہ حجرات میں فرمایا: ’’ولا یغتب بعضکم بعضا أیحب احدکم ان یاکل لحم أخیہ میتا فکرھتموہ‘‘ [34] ایک دوسرے کے عیب تلاوش نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو کہ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اسے برا سمجھو گے۔
دوستانہ زندگی کو ہمیشہ کے لئے برقرار رکھنے اور دوست کی حقوق کی تحفظ کے لئے انسان کو دوست کے دشمن کے ساتھ دوست نہیں بننا چاہئیے اس کی دلیل یہ ہے کہ دوست کے دشمن کے ساتھ دوستی کرنا دوست کی بیزاری اور دوری کا باعث بنے گی چونکہ وہ اپنے دشمن سے بیزار ہے اور تمہارا دوست یہ خیال کرے گا کہ تم اس کے دشمن کے ساتھ تمام حالات میں (حتیٰ دشمنی میں) شریک ہو اور یہ خیال اس کو تمہارے ساتھ دشمنی پر ابھارے گا جس کے نتیجے میں آپس میں نفرت اور بیزاری وجود میں آئے گی کسی شاعر نے اپنی شعر میں اس مطلب کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ: میرے دشمن کے ساتھ دوستی کرنے کے بعد تم یہ خیال کرتے ہو کہ اب بھی میں تمہارا دوست ہوں بے شک عقل تمہارے سر سے اڑ گئی ہے [35] ۱۔ چنانچہ امام علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے: ’’لا تتخذن عدو صدیقک صدیقا فتعادی صدیقک‘‘ [36] اپنے دوست کے دشمن کو اپنا دوست نہ بنانا کہ تم اپنے دوست کے دشمن ہو جاؤ۔
برے دوست
خالص دوستی کا لازمہ دوستوں کے آپس میں خوش رہنا اور ایک دوسرے کی زحمتوں کو ختم کرنا ہوتا ہے اگر دوستی میں یہ چیزیں نہ ہوں خوشی نہ ہو اور زحمتیں ختم نہ ہوں تو یہ دوستی خالص نہیں۔ [37] اس سلسلے میں امام علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے: ’’شرالأخوان من تکلف بہ‘‘ [38] بدترین دوست وہ ہے جس کے لئے زحمت اٹھانی پڑے یعنی ہر وہ شحص جو زحمات اور مشقتوں کا باعث بنے وہ بدترین دوست ہے۔ [39] چونکہ ایسے لوگ وقتی اور مصلحت پسند دوست ہوا کرتے ہیں نفع کے وقت دوستی کے لئے آگے بڑھتے ہیں اور مایوسی کے موقع پر دور بھاگ جاتے ہیں۔ [40] تو امام نے ایسے افراد کے سات دوستی کرنے سے منع کیا ہے۔
۱۔ فاسقوں سے دوستی نہ کرنا: امام المتقین علیہ السلام نے فرمایا ’’ایاک و مصاحبۃ الفساق فان الشر بالشر ملحق‘‘ [41] خبردار فاسقوں کی صحبت اختیار نہ کرنا کہ شر بالآخر شر سے مل جاتا ہے (جب فاسق کا دوست بنو گے تو اس کے برے صفات تم پر بھی اثر کریں گے)
۲۔ بے وقوف لوگوں سے دوستی نہ کرنا: مولی الموحدین نے بیوقوف کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’من نظر فی عیوب الناس فانکرھا ثم رضیھا لنفسہ فذالک الاحمق بعینہ‘‘ [42] جو لوگوں کے عیب کو دیکھ کر، ناگواری کا اظہار کرے اور پھر اسی عیب کو اپنے لئے پسند کرے تو اسی کو احمق کہا جاتا ہے اور امام علیہ السلام نے احمق کے اس کام کو سب سے بڑا عیب سمجھا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا ’’اکبر العیب ان تعیب ما فیک مثلہ‘‘۔[43] بدترین عیب یہ ہے کہ انسان کسی عیب کو براکہے اور پھر اسی میں وہی عیب پایا جاتا ہو اگر عقلمند اور احمق کو پہچاننے کے لئے امام سے رجوع کریں تو امام کی حکیمانہ نصیحتوں سے ہمیں نشانیاں مل جائے گی۔
’’لسان العاقل وراء قلبہ و قلب الاحمق وراء لسانہ‘‘ [44] عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے رہتی ہے اور احمق کا دل اس کی زبان کے پیچھے رہتاہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عقل مند انسان غورفکر کرنے کے بعد بولتا ہے اور احمق انسان بلا سوچے سمجھے کہہ ڈالتا ہے گویا عاقل کی زبان دل کی تابع ہے اور احمق کا دل اس کی زبان کا پابند ہے جیسا کہ امام المتقینع نے فرمایا: ’’قلب الأحمق فی فیہ و لسان العاقل فی قلبہ‘‘ [45]، احمق کا دل اس کے منہ کے اندر رہتا ہے اور عقل مند کی زبان اس کے دل کے اندر۔
اسی لئے امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے لوگوں کو احمق کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ’’لاتصحب المائق فانہ یزین لک فلعہ و یود ان تکون مثلہ‘‘ [46]۔ بیوقوف کی صحبت مت اختیار کرنا کہ وہ اپنے عمل کو خوبصورت بنا کر پیش کرے گا اور تم سے بھی ویسے ہی عمل کا تقاضا کرے گا اور آپ نے اپنے فرزند امام حسن نے فرمایا: ’’اکبر الفقر الحمق … ایاک و مصادفۃ الاحمق فانہ یرید ان ینفعک فیضرک‘‘ [47]، بدترین فقر حماقت ہے خبردار کسی احمق کی دوستی اختیار نہ کرنا کہ تمہیں فائدہ بھی پہنچانا چاہے گا تو نقصان پہنچا دے گا۔
۳۔ بخیل لوگوں سے دوستی نہ کرنا: مولی الموحدین نے فرمایا: ’’البخل جامع لمساوی العیوب و ھو زمام یقاربہ الی کل سوء‘‘ [48]، بخل عیوب کی تمام برائیوں کا جامع ہے اور یہی وہ زمام ہے جس کے ذریعہ انسان کو ہر برائی کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے اس لئے امام علیہ السلام نے بخیل لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کیا ہے جیسے آپ کا ارشاد ہے: ’’ایاک و مصادفۃ البخیل فانہ یقعد عنک أحوج ما تکون الیہ‘‘ [49] خبردار! کسی بخیل سے دوستی نہ کرنا کہ تم سے ایسے وقت میں دور بھاگے گا جب تمہیں اس کی شدید ضرورت ہوگی۔ نیز امام علیہ السلام نے فرمایا: ’’عجیب للبخیل یستعجل الفقر الذی منہ ھرب ویفوتہ الغنی الذی ایاہ طلب فیعیش فی الدنیا عیش الفقر و یحاسب فی الآخرۃ حساب الاغنیاء‘‘ [50]، مجھے بخیل کی حال پر تعجب ہوتا ہے کہ اسی فقر میں مبتلا ہوتا ہے جس سے بھاگ رہا ہے اور پھر اسی دولت مندی سے محروم ہو جاتا ہے جس کو حاصل کرنا چاہتا ہے دنیا میں فقیروں جیسا زندگی گزارتا ہے اور آخرت میں مال داروں جیسا حساب دینا پڑتا ہے۔
یہاں تک کہ امام علیہ السلام کی نگاہ میں انسان کو جان اور مال میں بھی بخل نہیں کرنا چاہئیے جیسا کہ فرمایا: ’’فلااموال بذلتموھا للذی رزقھا و لا انفس خاطر تم بھا للذی خلقھا‘‘ [51]، نہ تم نے مال کو اس راہ میں خرچ کیا جس نے تمہں عطا کیا تھا ور نہ جان کو اس کی خاطر خطرے میں ڈالا جس نے اسے پیدا کیا تھا (تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی راہ میں، شعائر اللہ کے لئے ضرورت کے وقت جان اور مال کے خرچ کرنے سے پہلے بخل نہیں کرنا چاہئیے)۔
۴۔ فاجر سے دوستی نہ کرو: مولی الموحدین نے فرمایا: ’’ایاک و مصادفۃ الفاجر فانہ یبیعک بالتافہ‘‘ [52] خبردار! کسی فاجر کے ساتھ دوستی اختیار نہ کرنا کہ وہ تم کو حقیر چیز کی عوض میں بیچ ڈالے گا۔
۵۔ جھوٹے لوگوں سے دوستی نہ کرو: امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’ایاک و مصادفۃ الکذاب فانہ کالسراب یقرّب علیک البعید و یبعدک علیک القریب‘‘ [53] خبردار، جھوٹے کے ساتھ دوستی اختیار نہ کرنا وہ مثل سراب ہے جو دور کو قریب کر دیتا ہے اور قریب والے کو دور کر دیتا ہے۔
۶۔ جاھل کے ساتھ دوستی نہ کرنا: امام المتقینؑ نے جاھل کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ’’قطعۃ الجاھل تعدل صلۃ العاقل‘‘ [54] جاہل سے قطع تعلق عاقل سے تعلقات کے برابر ہے۔
اللہ تعالی اور اہلبیت کے ساتھ دوستی:
اگر انسان اللہ کی عظمت کو سمجھے تو اس کی ذات کے ساتھ محبت اور دوستی کرنا بھی ضرور ی سمجھے گا اس لئے امام علی علیہ السلام نے اللہ تعالی کی عظمت کا اعتراف کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ’’وقر اللہ واحبب احباء‘‘ [55] اللہ کی عظمت کا اعتراف کرو اور اس کے محبوب بندوں سے محبت کرو (جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے پیغمبر اسلام اور اہل بیت اطہار علیہم السلام ہیں اور وہ لوگ ہیں جو اہل بیتؑ کے ساتھ دوستی اور محبت کریں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوستی اور محبت کرتے ہیں وہی پیامبر ﷺ اور عترت کے ساتھ دوستی کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا: ’’قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ‘‘ [56]، اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اور سورہ شوری میں ارشاد فرمایا۔
’’قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی‘‘ [57] کہہ دیجیئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میر ے اقربا سے محبت کرو تو پیامبر اکرم ﷺ نے بھی اجررسالت کے بدلے اہل بیت پاک کی محبت کا تقاضا کیا ہے چونکہ جس کے ساتھ دوستی کرتے ہیں اس کی پیروی کرتے ہیں اور جو شخص اللہ سے دوستی کرتا ہے وہ پیغمبر اسلام اور اہل بیت کے ساتھ محبت اور دوستی کرتا ہے اور انہی کی پیروری کرتا ہے اور ان کی پیروی کا نتیجہ سعادت اور ہدایت ہے) اور جو اللہ تعالی کے واقعی دوست ہیں ان کی بینش واقعی ہوتی ہے۔
جیسا کہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’ان اولیاء اللہ ھم الذین……‘‘ [58]۔ اولیاء خدا وہ لوگ ہیں جو دنیا کی حقیقت پر نگاہ رکھتے ہیں جب لوگ صرف اس کے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور آخرت کے امور میں مشغول رہتے ہیں جب لوگ دنیا کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان خواہشات کو مردہ بناد یتے ہیں جن سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ انہیں مارڈالیں گی اور اس دولت کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ ایک دن ان کے ساتھ چھوڑ دے گی (یعنی جو دولت دنیا انہیں چھوڑ دینے والی ہے اور اسے پہلے ہی چھوڑ دیتے ہیں) یہ لوگ اس چیز کو قلیل تصور کرتے ہیں جسے لوگ کثیر سمجھتے ہیں اور اس چیز کو فوت ہونا سمجھتے ہیں جسے لوگ حاصل کر لینا تصور کرتے ہیں اس چیز کے دشمن ہیں جس سے لوگوں کی دوستی ہے اور اس چیز کے دوست ہیں جس کے لوگ دشمن ہیں انہیں کے ذریعہ قرآن کو پہچانا گیا ہے اور یہ بھی قرآ ن ہی کے ذریعہ پہچانے گئے ہیں قرآن ان کے کردار سے قائم ہے اور یہ قرآن کی برکت زندہ ہیں (ان کے اور قرآن کے درمیان ایسا اتحاد کردار ہوتاہے کہ دونوں ایک دوسرے سے پہچانے جاتے ہیں (یہ جس چیز کے امیدوار ہیں اس سے بالاتر کوئی تمنا نہیں سمجھتے ہیں اور یہ جس چیز سے خوفزدہ ہیں اس سے زیادہ خوفناک کوئی مصیبت نہیں سمجھتے ہیں [59]
ایک مقام پر امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے اہل بیت علیہم السلام کی دوستی کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’نحن شجرۃ النبوۃ و محط الرسالۃ …‘‘ [60]، اھل بیت) ہم نبوت کا شجرہ ،رسالت کی منزل، ملائکہ کی رفت و آمد کی جگہ، علم کے معدن اور حکمت کے چشمے ہیں ہمارا مدد گار اور محب ہمیشہ منتظر رحمت رہتا ہے اور ہمارا دشمن اور کینہ پرور منتظر لعنت اور انتقام رہتا ہے۔
خداوند ہمیں اللہ تعالیٰ، اہل بیت اطہار اور ان کے دوستوں کےدوست بننے کی توفیق عنایت فرمائے! آمین یا رب العالمین
حوالہ جات
[1] ترجمہ نہج البلاغہ علامہ ذیشان حیدر جوادی ص ۶۳۱[2] نہج البلاغہ ، حکمت ۱۴۷
[3] نہج البلاغہ حکمت ۵۰
[4] ترجمہ نہج البلاغہ علامہ ذیشان حیدر جوادی ص ۶۴۷
[5] نہج البلاغہ حکمت ۶۵ (فقد الأحبہ غربۃ)
[6] نہج البلاغہ مکتوب ۳۱
[7] ترجمہ و شرح نہج البلاغہ ابن میثم ج ۵ ص ۸۹
[8]نہج البلاغہ حکمت ۱۲ (اعجز الناس من عجز اکتساب الأخوان و اعجز منہ ضیع من ظفر بہ)
[9] ترجمہ و شرح نہج البلاغہ ابن میثم بحرانی ج ۵ ص ۴۱۷
[10] نہج البلاغہ مکتوب ۳۱
[11] ایضاً حکمت ۳۴
[12] حکمت ۴۵۱
[13] حکمت ۲۹۵
[14] حکمت ۴۵
[15] سورہ شوری آیت ۲۳
[16] ترجمہ وشرح نہج البلاغہ خطبہ ، ابن میثم ج ۵ص ۱۲۷
[17] نہج البلاغہ حکمت ۲۶۸
[18] حکمت ۵
[19] ترجمہ نہج البلاغہ علامہ ذیشان حیدر جوادی ص ۶۲۹
[20] شرح نہج البلاغہ ابن میثم جلد ۵ ص ۴۰۸
[21] شرح غرر الحکم خوانساری ج ۶ ص ۴۱۲
[22] جلوہ ھای حکمت ص ۲۹
[23] جلوہ ھای حکمت ص۱۴۹
[24] نہج البلاغہ حکمت ۲۶۸
[25] نہج البلاغہ حکمت ۴۸۰
[26] ترجمہ و شرح نہج البلاغہ ابن میثم ج ۵ص۷۹۳
[27] شرح نہج البلاغہ ص ۵۹۹حکمت
[28] نہج البلاغہ حکمت ۱۲۸
[29] شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید جلد ۱۹ ص ۴۰
[30] نہج البلاغہ خطبہ ۸۶
[31] ترجمہ گویا نہج البلا غہ(مکارم)
[32] مکتوب ۳۱
[33] خطبہ ۱۴۱
[34] سورہ حجرات آیہ ۱۲
[35] شرح ابن میثم ج ۵ ص ۸۳
[36] نہج البلاغہ مکتوب ۳۱
[37] ترجمہ و شرح نہج البلاغہ ابن میثم ج۵ ص ۷۹۱
[38] حکمت ۴۷۹
[39] ابن میثم ج ۵ ص ۴۹۱
[40] فی ظلال نہج البلاغہ جلد ۴ ص ۴۸۵
[41] مکتوب ۶۶
[42] مکتوب ۳۴۹
[43] مکتوب ۳۵۳
[44] مکتوب ۴۰
[45] مکتوب ۴۱
[46] مکتوب ۲۹۳
[47] مکتوب ۳۸
[48] مکتوب ۳۷۸
[49] حکمت ۳۸
[50] مکتوب ۱۲۶
[51] تفسیر الصافی , جلد۲ , صفحہ ۳۸۲
[52] مکتوب ۳۸
[53] مکتوب ۳۸
[54] مکتوب۳۱
[55] مکتوب ۶۹
[56] سورہ آل عمران آیہ ۳۱
[57] سورہ شوری آیہ ۲۳
[58] نہج البلاغہ مکتوب ۴۳۲
[59] نہج البلاغہ مکتوب ۴۳۲
[60] خطبہ ۱۰۹
مصادر
[1] القرآن الحکیم[2] نہج البلاغہ
[3] ترجمہ نہج البلاغہ ، علامہ ذیشان حیدر جوادی
[4] ترجمہ گویا و شرح فشردہ ای بر نہج البلاغہ (مکارم )مترجم محمد رضا آشتیانی و …
[5] ترجمہ شرح نہج البلاغہ، میثم بن علی بن میثم بحرانی، مترجم ، قربان علی محمدی مقدم و۔۔۔۔۔
[6] جلوہ ھای حکمت سید اصغر ناظم زادہ قمی
[7] شرح نہج البلاغہ، میثم بن علی بن میثم بحرانی
[8] شرح غرر الحکم و در ر الکلم ،جمال الدین محمد خوانساری
[9] شرح نہج البلاغہ، عز الدین ابو حامد ابن ابی الحدید
[10] فی ظلال نہج البلاغہ، محمد جواد مغنیہ




