شمع زندگی

192۔ قناعت

اَلْقَنَاعَةُ مَالٌ لَّا يَنْفَدُ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۵۷)
قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا۔

انسان دولت و سرمایہ اس لئے حاصل کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے اپنی حاجات و ضروریات پوری کرے اور سکون و اطمینان حاصل کرے۔ انسانی فطرت ہے کہ ایک ضرورت پوری ہوتی ہے تو دو مزید ضروریات سامنے آ جاتی ہیں اور پھر یہ سلسلہ کہیں نہیں رکتا اور جتنی دولت بڑھتی جاتی ہےخواہشات بھی بڑھتی جاتی ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بہت سے لوگ سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہیں اور بڑی بے تابی سے مزید کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں قناعت کو نہ ختم ہونے والا سرمایہ قرار دیا۔ یہ ایسا سرمایہ ہے جو انسان کو مطمئن کر دیتا ہے۔قناعت یعنی اپنی بھرپور محنت سے جو حاصل کر سکے اس پر مطمئن ہو جائے۔ قناعت ایک ایسی کیفیت ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان زندگی کی کم سے کم ضروریات پر اکتفا کر لیتا ہے اور دنیا کی رنگینیوں اور سہولیات کا حصول ہی اس کا سارا ہم و غم نہیں ہوتا۔ یہ فکر انسان میں پیدا ہو جائے تو ایک دولت بن جاتی ہے جو دوسروں سے بے نیاز کر دیتی ہے اور زندگی میں اطمینان و سکون آ جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button