منظوم نہج البلاغہ

منظوم نہج البلاغہ خطبہ نمبر 2

صفین سے پلٹنے کے بعد ستائش پروردگار

منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ

خدا کی حمد و ثنا اس لئے میں کرتا ہوں

کہ نعمتوں کی ہو تکمیل بخششیں ہوں فزوں

اور اس کی آبرو کے آگے سر جھکاتے ہوئے

پناہ مانگتا ہوں اس کے میں گناہوں سے

اور اس سے نصرت و امداد مانگتا ہوں سدا

وہی ہے کافی اسی کا ہوں میں فقیر و گدا

جسے وہ دیدے ہدایت، وہ پھر بھٹکتا نہیں

وہ دشمنی کرے جس سے ، اماں وہ پاتا نہیں

کرے وہ جسکی کفالت بنے وہ جس کا کفیل

نہ ہو کسی کا وہ محتاج ، ہو کبھی نہ ذلیل

یہ وہ عظیم طلب ہے یہ وہ ہے حمد و ثنا

کہ جس کا بھاری ہے ہر بھاری چیز سے پلہ

اور ایسی چیز ہے یہ حمد خالق اکبر

ہر ایک گنج گراں مایہ سے جو ہے بہتر

گواہی دیتا ہوں اس کا کوئی شریک نہیں

یہ وہ گواہی ہے شک کرنا جس میں ڻھیک نہیں

خلوص جس کا مجرب ہے اور جسکا مآل

مرے یقین و عقیدے کا بن چکا ہے جمال

میں تا حیات اسی کو رہوں گا تھامے ہوئے

ذخیرہ اس کو بناوں گا حادثوں کے لئے

یہی گواہی ہے ایمان کی بنائے قوی

یہی گواہی ہے حسن عمل کی پہلی کڑی

یہی ذریعہ ہے رحمان کی رضایت کا

یہی سبب بھی ہے شیطان کی ہلاکت کا

گواہئ دیتا ہوں پھر حضرت محمد ص بھی

خدا کے بندے ہیں اور اس کے آخری ہیں نبی

کہ جن کو بھیجا ہے دین شہیر و نامی کے ساتھ

جزا میں ڈوبی ہوئی پر اثر نشانی کے ساتھ

کتاب روشن و نور تجلی بار کے ساتھ

چمکتی روشنی اور امر آشکار کے ساتھ

کہ جس سے دور ہوں اوہام – اور بزور دلیل

تمام حجت رب ہو بہ حکم رب جلیل

نشانیوں کو دکھا کر ڈرایا جائے سدا

عقوبتوں کے وسیلے سے دل ہوں خوف زدہ

اور ایسے فتنوں میں اس وقت لوگ تھے مشغول

جہاں نہ دین کے بندھن تھے اور نہ اس کے اصول

ستوں یقین کے سب ہل چکے تھے حال یہ تھا

کہ اختلاف اصولوں میں تھا کمال یہ تھا

کہ اختلاف اصولوں میں تھا کمال یہ تھا

اور انتشار سے خالی نہ تھا کوئی گوشہ

تمام راہیں تھیں مسدود اور اندھیرا تھا

ہدایت اور نصیحت تھی ہر جگہ گمنام

تھا گمرہی و ضلالت کا رقص بر سر عام

خدائے پاک کی ہوتی تھی معصیت اس میں

عدو کی ہوتی تھی ہر لمحہ تقویت اس میں

پرے تھا نظروں سے ایمان ، گر چکے تھے ستوں

اور اس کے سارے معالم کا یو چکا تھا خون

اجڑ چکے تھے نشاں مٹ چکی تھیں سب راہیں

زمانہ چلنے لگا تھا عدو کی سب چالیں

اتر رہے تھے سبھی لوگ اس کے چشموں پر

انہیں کی وجہ سے اس کے علم تھے بالا تر

اور اپنے پنجوں کے بل خود جو ہوگئے تھے کھڑے

وہ لوگ جاہل و مفتون اور حیراں تھے

اک ایسے گھر میں خدا کی طرف سے بھیجے گئے

جو بہترین مکاں، بدتریں تھے ہمسائے

کہ جس زمین کی ہوتی تھی نیند بیداری

کہ جس کی آنکھوں کا سرمہ تھا اشک اور زاری

لگی ہوئی تھی جہاں عالموں کے منہ میں لگام

اں کے جاہل و نا اہل تھے ذوی الاکرام

یہ لوگ سر خدا کے امین ، دین کا گھر

آل رسول ﷺ

یہ لوگ علم خدا کا ہیں مرکز و محور

یہ حکمتوں کا ہیں مرجع کتابوں کا ہیں محل

یہ دیں کا کوہ گراں ہیں ، ہیں انتہائی اڻل

انہی سے سیدھا کیا رب نے دیں کی پشت کا خم

اور اس کے جوڑوں کا رعشہ بھی اس نے کر دیا کم

ایک دوسری قوم کے بارے میں

انہوں نے فسق و برائی کا بیج ہے بویا

فریب و مکر کے پانی سے پھر اسے سینچا

ہلاکت اور تباہی کی جنس حاصل کی

یہ یاد رکھو ! کہ آل نبی ص پہ امت کا

قیاس ہو نہیں سکتا موازنہ تو کجا؟

(کہاں یہ آل نبی جن کی بٹتی ہے خیرات)

کہاں وہ لوگ کہ جن پر ہیں انکے احسانات

یہ دین کی ہیں بنا اور یقین کا ہیں ہدف

جو بڑھنے والا ہے آتا ہے وہ انہی کی طرف

جو پیچھے والا ہے اس کو بھی ان سے ملنا ہے

انہی کے پاس ولایت کے حق کا درجہ ہے

اور اب جو حق پلٹ آیا ہے اپنے اصل کے پاس

اور اب جو حق پلٹ آیا ہے اپنے اصل کے پاس

یہ اپنی منزل اصلی میں ہے خدا را سپاس

ختم شد

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button