مقالات

علی کی شخصی زندگی میں عدالت

یہاں ہم علی ؑ کی شخصی ،اجتماعی قانونی،اقتصادی آزاد،اور سیاسی زندگی میں عدل وانصاف کی نشانیوں کا سراغ لگائیں گے۔

شخصی زندگی میں عدالت:

علی علیہ السلام کی شخصی زندگی کا ہر پہلو عدل وانصاف کا مظہر ہے اور نہج البلاغہ میں بھی بہت سارے پہلوؤں کو بیان کیاگیا ہے لیکن ہم یہاں صرف رفتاری وکرداری موارد میں سے چار موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱۔حضرت اپنے ایک صحابی علاء بن زیادہ حارثی کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے ہیں اور اس کے گھر کی وسعت دیکھ کر اس کے افراطی ہونے پر اعتراض کرتے ہیں تو (بجائے اپنا دفاع کرنے کے)کہتا ہے یا امیر المؤمنین ! مجھے اپنے بھائی عاصم کی آپ سے شکایت کرنا ہے۔حضرت پوچھتے ہیں کیوں اسے کیا ہوا؟کہتا ہے اس نے بالوں کی چادر اوڑھ لی ہے اور دنیا سے بالکل بے لگاؤ ہو گیا ہے۔

حضرت اسے اپنے پاس بلواکر  اس کے تفریطی اور تارک الدنیا ہونے پر اعتراض کرتے ہیں کہتا ہے یا امیر المؤمنین ! آپ کا پہناوا بھی تو موٹا چھوٹا اور کھانا روکھا سوکھا ہوتا ہے ۔حضرت فرماتے ہیں:

’’وَیْحَکَ اِنِّی لَسْتُ کَأَنْتَ،اِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ فَرَضَ عَلٰی آئِمَّۃِ العَدلِ اَن یُقَدِّر وا اَنْفُسَھمْ بِضَعَفَۃِ النَّاس،کَیْلاَ یَتَبَیَّغَ بِالْفَقِیْرِ فَقْرُہٗ۔‘‘(۱)

’’(عاصم)تم پر حیف ہے۔میں تمہارے مانند نہیں ہوں۔خدانے ائمہ عدل پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنے کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں تاکہ مفلوک الحال اپنے فقرکی وجہ سے پیچ وتاب نہ کھائے۔‘‘

۲۔عثمان بن حنیف والی بصرہ کو وہاں کے لوگوں کی دعوت میں شریک ہونے پر سر زنش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’أٔلاَ وَاِنَّ اِمامَکم قد اکتَفٰی مِن دنیاہُ بِطِمْرَیہِ، ومن طُعْمِہِ بِقُرصَیْہِ۔۔۔‘‘(۲)

’’دیکھو تمہارے امام کی حالت تویہ ہے کہ اس نے دنیا کے ساز وسامان میں سے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔۔۔‘‘

خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا۔۔۔اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد ،عمدہ گیہوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کے لئے ذرائع مہیا کر سکتا تھا ۔لیکن ایسا کہاں ہو سکتا ہے کہ خواہشات مجھے مغلوب بنالیں۔(۳)

 ۳۔رات کا وقت ہے اور اشعث بن قیس شہد میں گندھا ہوا حلوہ لے کر آتا ہے اور حضرت کی خدمت میں پیش کرتا ہے حضرت فرماتے ہیں:

’’وَاللّٰہ لَو اُعطِیْتُ الاَقَالِیمَ السَّبْعَۃَ بِما تَحْتَ اَفلاکِھا علٰی اَن اَعصِیَ اللّٰہ فی نَمْلَۃٍ اَسْلُبُھَا جِلبَ شَعِیرَۃٍ مَا فَعَلْتُہٗ۔‘‘(۴)

’’خدا کی قسم!اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دے دیئے جائیں تاکہ صرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا۔‘‘

اسی خطبہ کی ابتداء میں یوں فرماتے ہیں:

خدا کی قسم!مجھے سعدان کے کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گذارنا اور طوق زنجیر میں مقید ہو کر گھسیٹا جانا اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول  ﷺسے اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے کسی بندے پر ظلم کیا ہو۔۔۔

’’وَکَیْفَ أَظْلم احداً لِنَفْسٍ یُسْرِعْ اِلٰی البِلیٰ قُفُولھا وَیَطُولُ فی الثَّریٰ حُلُولُھا؟‘‘(۵)

’’میں اس نفس کی خاطر کیونکر کسی پر ظلم کر سکتا ہوں جو جلد ہی فنا کی طرف پلٹنے والا اور مدتوں تک مٹی کے نیچے پڑا رہنے والا ہے۔‘‘

حوالہ جات

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۲۰۷۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۴۵۔

(۳)نہج البلاغہ ترجمہ مفتی جعفر حسین ص۷۲۵۔

(۴)نہج البلاغہ فیض الاسلام خطبہ ۲۱۵۔

(۵)نہج البلاغہ فیض الاسلام خطبہ ۲۱۵۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button