مقالات

امامؑ زمان عج اور آپؑ کی اصول پسندی

                 کا ئنا ت میں جتنی بھی چیزیں موجود ہیں ،سب خدا وند عالم نے انسان کے فا ئدہ اٹھا نے کے لئے بنا ئی ہیں جیسا کہ خود قرآن مجید میںبھی اس مطلب کی طر ف مختلف جگہوں پر اشارہ ملتا ہے ۔ لیکن یہ ہم انسانوں کی کم ظرفی ہے کہ جس کی وجہ سے پوری طرح ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کرپاتے ہیں ، اور بعض کا استعمال خود اپنے ہی ضرر میں کر لیتے ہیں ۔ دوسری چیزوںکا کیا ذکر کیا جائے جب کہ قرآ ن میں واضح طور سے خود قرآ ن کے ہی متعلق خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے {یضلّ بہ کثیراً و یھدی  بہ کثیراً  } بقرہ ؍۲۶  ؎  اللہ اس (قرآن) کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اوراسی کے ذریعہ بہت سے لوگوں کی ہدایت کرتا ہے ۔

                تو پتہ چلا کہ تما م موجودات انسان کے فائدہ کے لئے ہیں یہ انسان ہے کہ جو غلط طریقہ سے ان چیزوں کا استعمال کر کے انہیں اپنے لئے مضر بنا لیتا ہے ۔ اس کی ایک واضح اور روشن مثال خود انسان کی توا نائی ، قدرت اور صلا حیت ہے۔ خدا وند عالم نے راہ ہدایت میں ترقی اور تکامل کے لئے انسان کو اس کے بد ن کے مختلف اعضاء و جوارح کی صورت میں بیش بہا تحفے دئے ہیں ، معنوی صلا حیتوں سے نوازا ہے اور امیر المو منین ؑکے قول کے مطابق انسان ہی میں ایک بڑا عالم ہے لیکن یہ بڑا عالم جسے خداوند عالم نے رشد و ہدایت کے لئے بنا یا ہے اور جسے عظمتوں کی چوٹیوں کو پا نے کے لئے خلق کیا ہے جب وہ اپنی توانائیوں اور قدرتوں کو غلط طریقہ سے بروئے کار لاتا ہے تو نہ صرف یہ کہ فا ئدہ نہیں ہوتا بلکہ سنگین نقصان سے اسے روبرو ہونا پڑتا ہے ۔  یہ ضرر اس وقت تک فا ئدہ میں تبدیل نہیں ہو سکتے ہیں جب تک کہ اس کے استعمال کے لئے کو ئی اصول نہ بنایا جا ئے  ، اور چونکہ اسلام کے اصول سب سے کامیاب اصول ہیں ، اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے اصول پر اگر عمل نہ کیا گیا تو رحمتیں زحمت بن جا ئیں گی اور جنت میں لے جا نے کا وسیلہ ہی جہنم میں داخل ہو نے کا سبب بن جا ئے گا ۔

 امام زمانہ ؑکی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپؑ اسلام کے اصولوں کے خود بھی پا بند ہو نگے اور اسی اصول کو دنیا میں رائج بھی  کریں گے ۔جیسا کہ خود امیر المو منین علی  ؑ فرماتے ہیں کہ :  وہ ( امام زمانہ ؑ) دل کی آرزوؤں اور خوا ہشوںکو ہدایت اور راہنما ئی کے را ستہ پر  چلا ئیں گے جب کہ اس زمانہ میں لوگ ہدا یت اور راہنمائی کو اپنے پیروں تلے کچل رہے ہو نگے اور جس زمانے میں تفسیر کے نام پر مختلف(خود ساختہ) نظر یوں کو قرآن پر تھو پا جا رہا ہو گا ، وہ نظر یوں اور فکروںکو قرآن کے مطابق ڈھال دیں گے

نہج البلاغہ ،خطبہ ، ۱۳۸

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button