مقالات

امام محمد تقی علیہ السلام

امام محمدتقی علیہ السلام کی مختصر سوانح حیات 

حضرت امام رضا(ع)کی عمر مبارک ۴۷/سینتالیس سال کی ہوچکی تھی اور تاریخ اپنی رفتار کےمطابق ۱۹۵ ہجری کو طے کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی لیکن نویں امام محمدتقی(ع)کی ابھی تک ولادت نہیں ہوئی تھی،جس کی وجہ سے امام رضا (ع)کی جانشینی کے مسئلہ نے حضرت (ع)کے اصحاب اور شیعوں کو مغموم، پریشان، متاثر اور حیرت زدہ کر رکھا تھا۔ یہ غم و اندوہ اس وقت اور بڑھ جاتا تھا کہ جب واقفیہ فرقہ نے مادی دلیلوں کی بناپر،سہم امام میں تصرف اورحضرت امام رضا (ع)کو ان اموال کے واپس نہ کرنے کے لئے امام موسی کاظم (ع)کی غیبت کے قائل ہوگئے تھے۔


واقفیہ فرقہ اپنے شائعات میں حضرت امام رضا (ع)کے کوئی بیٹا نہ ہونے کو اپنے باطل اوربیہودہ دعویٰ کی دلیل جانتا تھا، یہاں تک کی انہیں لوگوں میں سے ایک شخص نے حضرت (ع)کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے ایک خط میں لکھا: آپ کیسے امام ہیں جن کا کوئی بیٹا نہیں ہے!۔ حضرت امام رضا (ع)نے اس کے جواب میں لکھا:تم کو کہاں سے معلوم کہ میرے بیٹا نہیں ہے، خدا کی قسم کچھ ایام نہیں گزریں گے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بیٹا عنایت کرے گا جو حق اور باطل کو ایک دوسرے سے الگ کرے گا۔

امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت:
آپ (ع)کی ولادت مدینہ منورہ میں رمضان المبارک ، یا رجب ، میں ۱۹۵ ہجری  میں ہوئی، ان کی ولادت کی رات حضرت امام رضا(ع)نے اپنی بہن سے کہا:اے حکیمہ خاتون! آج کی رات میرا بیٹا اور میرے بعد ہونے والا امام اس دنیا میں آئے گا، ان کی ولادت کے موقع پر موجود رہو اور خیزران کی مدد کرو۔
حکیمه خاتون کہتی ہیں:میں اس رات خیزران کے پاس رک گئی، جیسے ہی آدھی رات گزری اچانک کمرے کا چراغ بجھ گیا اور ایک نور سے پورا کمرہ روشن ومنور ہوگیا، دھیرے دھیرے امام (ع) کا نورانی چہرہ دکھائی دیا، اس وقت اسے آغوش میں لے کر اس طیب و طاہر بچے کو پاکیزہ لباس میں رکھا، اسی موقع پر امام رضا(ع)مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئےاور اس بچے کو اپنی آغوش میں لے لیا، اس طرح بوستان امامت کےاس پھول نے دنیا میں قدم رکھا تاکہ حضرت امام رضا(ع)کاسچا وعدہ حقیقت سے ہمکنار ہو اور آٹھویں امام(ع)کا قلب منوّر خوشیوں سے مملو ہو ۔
نویں امام کا نام محمد(ع) اور ان کی کنیت ابوجعفر اور ابوعلی ہے ان کے القاب مندرجہ ذیل ہیں:مختار، متوکّل، متّقى، زکىّ، تقى، مُنتَجَب، مرتضىٰ، قانِع، جواد اور عالِم ہے۔ لیکن امام محمد تقي(ع)کے جود و سخاوت کی کثرت و فراوانی کی بناپر ان کا معروف ترين لقب "جواد”ہے۔

سلسلہ نسب :
جواد الائمہ امام محمد تقی (ع)،حضرت ثامن  الحجج علی  بن موسیٰ  بن -جعفربن  محمدبن  علی بن  حسین علیہم السلام کے بیٹے ہیں اور ان کی مادر گرامی ایک متقی و پرہیزگار خاتون ہیں ان کا سلسلہ نسب پیغمبر اسلام (ع)کی زوجہ محترمہ  ماریہ قبطیہ سے ملتا ہے، ان کا نام سبیکہ ہےاور امام رضا (ع)نے ان کا نام خیزران رکھا۔

امام محمد تقی(ع)کی ازواج اور اولاد:
امام محمدتقی(ع)کی پہلی بیوی کا نام سمانہ مغربیہ ہے۔ کتابوں میں ان کے مختلف نام حویث، غزالہ مغربیہ بھی بیان کیا گیا ہے۔  امام (ع)کی دوسری بیوی مامون عباسی کی بیٹی ہے۔
مامون نے اپنے زمانے کی کچھ مشکلوں اور سخت ترین سیاسی دشواریوں کی بناپر ارادہ کیا کہ امام محمد تقی علیہ السلام سے دوستی و محبت کا تظاہر و دکھاوا کرکے اپنی بیٹی "ام الفضل” کی شادی آپ سے کردے۔  اس بیوی سے امام (ع)کی کوئی اولاد نہ تھی۔
اسلامی منابع و مآخذ میں امام محمدتقی علیہ السلام کی اولاد اور اور ان کے ناموں کے متعلق مختلف نظریات ذکر کئے گئے ہیں،شیخ طبرسی کہتے ہیں امام محمد تقی (ع)کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، ان میں سے ایک حضرت امام علی نقی (ع)ہیں اور دوسرے بیٹے کا نام موسیٰ ہے اور بیٹیوں کا نام حکیمہ، خدیجہ اور ام¬کلثوم ہے، بعض نے کہا ہے ان کی دو بیٹیوں کا نام فاطمہ اور امامہ تھا۔  لیکن جس بات پر تمام منابع کا اتفاق ہے یہ ہے کہ امام علی نقی (ع)اور موسیٰ مبرقع آپ کی اولاد میں سے ہیں۔
امام محمدتقی(ع)نے اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعدبچپنے میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے اور اس ذمہ داری کو سنبھالا۔روایتوں میں امام رضا (ع)کے بعد امام محمد تقی (ع)کی امامت کی وضاحت کی گئی ہے جیسے کی پیغمبر اکرم (ص)سے منقول حدیثوں میں ائمہ معصومین (ع)کے ناموں کی تصریح موجود ہے ۔
اسی طرح بعض افراد نے حضرت امام رضا(ع)سے امام محمد تقی (ع)کی امامت کے متعلق روایت نقل کی ہے، ان راویوں کے نام  درج ذیل ہیں: على  ابن  جعفر، صفوان ابن  یحیى، معمر بن  خلاد، حسین  بن  بشار، ابن -ابى  نصر بزنطى، ابن  قیاما واسطى، حسن  ابن  جهم ابویحیى صنعانى، خیرانى، یحیى  ابن  حبیب زیات وغیرہ۔

امام محمد تقی (ع)کی ثقافتی اور سیاسی تحریکیں:
امام محمدتقی (ع)کے زمانے میں مختلف فرقے و مذاہب اور مکاتب فکر، طرح طرح کے عوامل و اسباب کی بناپر وجود میں آئے، جن میں سے ایک اسلامی دنیا کی گسترش، دوسرے مذاہب و ادیان کے عقائد وغیرہ کا داخل ہونا، یونانی فلاسفہ کے آثار کا ترجمہ ہونا اورفرقہ بندی اورلوگوں کا مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوناہے۔
امام محمدتقی (ع)اپنے والد بزرگوار کی طرح دو سیاسی و فکری اور ثقافتی محاذ پر کام کررہے تھے۔زيديہ، واقفيہ، غالیوں اور مجسمہ جیسے فرقوں کے شبہات و اعتراضات نیز ان کا  اپنے فرقے کے دفاع کی وجہ سے امام (ع) کی ذمہ داری تھی کہ ان کے مقابلے میں شیعہ عقائد اور ثقافت کو واضح اور شفاف طریقہ سے بیان کریں۔
امام (ع)نے فرقہ زیدیہ کے متعلق جو منصب امامت کا حقدار امام زين  العابدين علیه السلام کے بعد زید کو جانتے تھے، ان لوگوں کو اس آیت کریمہ”وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ، اس دن بہت سے چہرے ذلیل اور رسوا ہوں گے”۔  کی تفسیر میں فرقہ زیدیہ  کو ناصبیوں کے ردیف میں شمار کیا ہے۔

حضرت (ع)نے فرقہ واقفيہ کے بارے میں کہ جو لوگ امام موسي كاظم(ع)کی غیبت کے قائل تھےاور اسی بہانہ کی وجہ سے بہت زیادہ شرعی رقوم کو ہڑپ لیا تھا، ایسے لوگوں کو اس آیت شریفہ "وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ، اس دن بہت سے چہرے ذلیل اور رسوا ہوں گے”۔  کا مصداق شمار کیا ہے اور ایک جگہ فرمایا کہ شیعوں کو ان لوگوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا چاہئے۔
حضرت (ع)نے اپنے زمانے کے غالیوں کو جنہوں نے ابو الخطاب کی رہنمائی میں حضرت علي(ع)کو الوهيت اور ربوبيت کی حد تک پہنچا دیا تھا، امام جواد (ع)نے فرمایا: ابو الخطاب، اس کے ساتھیوں اور جو لوگ اس پر لعنت کرنے میں توقف کریں یا شک کریں، ان سب پر خدا کی لعنت ہو۔  اس فرقہ کے متعلق حضرت(ع)کا سخت رویہ اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ آپ(ع)اسحاق انباری سے ایک روایت میں فرماتے ہیں:” ابو المہري اور ابن ابي الرزقاء کو جس طرح بھی ہوسکے قتل کیا جائے”۔
امام (ع)نے مجسمہ فرقہ کو جو مندرجہ ذیل آیات "يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ”۔  اور "الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى”۔ سے غلط مطلب نکالتے ہوئے خداوند عالم کے جسم کے قائل تھے،ان کے بارے میں آپ (ع)نے فرمایا:” جو لوگ خدا کے جسم کے قائل ہیں شیعوں کو ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے اور زکوٰۃ بھی نہیں دینی چاہئے”۔
معتزلہ جو ایک کلامی فرقہ ہے یہ عباسیوں کے حکومت پر پہنچنےکے بعد میدان میں آیا اور عباسیوں کی خلافت کے سو سال کے اندر اپنے عروج تک پہنچ گیا، یہ بھی امام محمدتقی (ع)کے زمانے کےفکری و عقائدی حوادث میں سے ایک ہے۔ اس زمانے میں امام محمد تقی (ع) کا سلوک، اعتقادی حوادث کے مقابلہ میں اپنے والد بزرگوار کی طرح بڑی اہمیت کا حامل ہے، یہاں تک کہ یحییٰ بن اکثم جو اپنے زمانے کا بہت بڑا فقیہ شمار ہوتا تھا، اس سے امام محمد تقی(ع) کے مناظرےکو خالص شیعہ افکار و اصول سےمعتزلیوں کی محاذ آرائی قرار دی جاسکتی ہےجس میں کامیابی ہمیشہ امام محمد تقی (ع)کے ساتھ رہی ہے۔
امام محمدتقی (ع)نے خالص شیعہ ثقافت کو پھیلانے کے لئے عباسیوں کے مختلف بڑے بڑے علاقوں میں اپنے نمائندوں اور کارکنوں کومعین کیا اور بھیجا، یہاں تک کہ امام نے مختلف علاقوں میں جیسے اهواز، همدان، رے، سيستان، بغداد، واسط، سبط، بصره اور شیعہ نشین علاقے جیسے كوفه و قم وغیرہ میں فعال و سرگرم وکیل موجود تھے۔
امام محمد تقی (ع)نے بنی عباس کی حکومت میں شیعوں کے نفوذ اور مختلف علاقوں میں شیعوں کی فریاد رسی و مدد کے لئے "احمد ابن  حمزه قمی” جیسے افراد کو عہدوں کی ذمہ داری سنبھالنے کی اجازت دی تھی، یہاں تک کہ "نوح  ابن  دراج” جو امام (ع) دوستوں میں سے تھے یہ کچھ زمانے تک بغداد کے قاضی رہے اس کے بعد کوفہ کے قاضی بنے، بعض بزرگ اور مورد اعتماد شیعہ جیسے "محمد ابن ¬اسماعيل¬ ابن ¬بزيع نيشابوري” یہ خلفائے عباسی کے وزیروں میں شمار ہوتے تھے، یہ امام محمد تقی (ع) رابطہ رکھتے تھے، انہوں نے امام (ع)سے ایک پیراہن مانگا تاکہ مرنے کے بعداس سے انہیں کفن دیا جائے اور حضرت(ع) نے ان کی درخواست پوری کرتے ہوئے اپنا پیراہن ان کے پاس بھیج دیا۔
افراد کے انتخاب کرنے میں امام (ع) کی فکری و سیاسی روش بالکل پوسیدہ اور پردہ راز میں رہتی تھی، یہاں تک کہ جب ابراہیم بن محمد کو خط لکھتے ہیں تو ان کو حکم دیتے ہیں کہ جب تک "یحیی بن ابی عمران” (امام (ع)کے صحابی) زندہ ہیں خط کو نہ کھولیں۔ چند سال کے بعد جب یحییٰ کا انتقال ہوتا ہے تو ابراہیم بن محمد خط کو کھولتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ حضرت (ع)نے خط میں ان کو مخاطب کرکے لکھا ہے: جو کام اور ذمہ داریاں یحییٰ بن ابی عمران کے ذمہ تھیں اب سے وہ تمہارے ذمہ ہیں۔
یہ چیزیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ حضرت(ع) بنی عباس کی حکومت کے پُرآشوب اور گھٹن کے حالات اور ماحول میں کس قدر اپنے ماننے والوں پر عنایت رکھتے تھے، تاکہ کسی کو ان کے نمائندوں کی جانشینی کی اطلاع نہ مل سکے۔

امام محمد تقی (ع)کے علمی مناظرے:
امام محمدتقی (ع)سب سے پہلے امام ہیں کہ جو کمسنی میں منصب امامت پر فائز ہوئے۔  امام (ع)نے بہت سے مناظرےکئے ہیں جن میں سے بعض بڑےمشہور، زبردست اور عمدہ ہیں۔ ان مناظروں کے وجود میں آنے کا اصلی سبب یہ تھا کہ ایک طرف سے ان کی امامت کمسنی کی وجہ سے بہت سے شیعوں پر بطور کامل ثابت نہیں ہوئی تھی (اگرچہ شیعہ بزرگوں اور دانشمندوں کے نزدیک اس سلسلہ میں شیعہ عقیدہ کے مطابق کسی قسم کا شک و شبہ نہیں پایا جاتا تھا) اسی لئے اطمینان  وسکون کی خاطر امتحان کی غرض سے لوگ آپ سے کافی سوالات کرتے تھے۔
دوسری طرف سے اس زمانے میں فرقہ "معتزلہ”اپنی پوری قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا تھا، یہ فرقہ مکمل طورپر رائج اور سرکاری مذہب ہوچکا تھا اور اس کا بڑا چرچا تھا، وقت کی حکومت بھی ان لوگوں کی حمایت کرتی تھی اور اپنی قدرت و طاقت اور دوسرے بہت سے حکومتی مادی و معنوی امکانات کو ان کے افکارکو بڑھاوا دینے اور اسے مضبوط کرنے کے لئے فراہم کرتی تھی، نیز دوسرے فرقوں کو نقصان پہنچانے، انہیں کمزور کرنے اور ان کے نفوذ کو ہر طرح سے روکنے کی کوشش کرتی تھی۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ معتزلی فرقہ کی فکر و سوچ کا انداز یہ تھا کہ وہ عقل پر بھروسہ و اعتماد کرتے تھے اور بشری خطا کے سلسلہ میں زیادہ روی سے کا لیتے تھے: معتزلین دینی مطالب و احکام کو اپنی عقل پر پرکھتے تھے، جس چیز کی عقل بطور صریح تائید کرتی تھی اسے قبول کرتے تھے اور دوسری باقی چیزوں کا انکار کرتے تھے، بنابر ایں امامت کے مقام و منصب پر کمسنی میں فائز ہونا، ان کی ظاہری عقل کے ترازو پر صحیح نہیں اترتا تھا اسی وجہ سے وہ لوگ سخت ترین اور پیچیدہ ترین سوالات ڈھونڈ کر لاتے تھے تاکہ اپنے خیال و گمان کے مطابق امام محمد تقی (ع)کو علمی میدان کے مقابلے میں شکست دے دیں۔
لیکن ان تمام علمی مناظروں اور بحثوں میں امام محمد تقی (ع)علم امامت کی روشنی میں محکم اور دنداں شکن جواب دے کر اپنی امامت کے متعلق تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کر دیتے تھے اور اپنی امامت بلکہ اصل امامت کو ثابت کرتے تھے۔ اسی دلیل کی بناپر ان کے بعد حضرت امام علی نقی (ع)کی امامت (چونکہ آپ بھی کمسنی میں منصب امامت پر فائز ہوئے تھے) کے متعلق کوئی دشواری سامنے نہیں آئی، اس لئے کہ سبھی لوگوں پر واضح و روشن ہوگیا تھا کہ اس الٰہی منصب پر فائز ہونے میں کمسنی کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔
ذیل میں ان مناظروں میں کچھ مناظرے اور علم امام (ع)کی وسعت و بحر بیکراں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

1 ۔یحیى ابن اکثم سے امام (ع) کا مناظرہ:
جس وقت عباسیوں نے مامون عباسی پر اپنی لڑکی کی شادی، امام محمدتقی (ع)سے کرنے کے متعلق اعتراض کیا کہ یہ نوجوان ہیں اور علم و دانش سے بہرہ مند نہیں ہیں جس کی وجہ سے مامون نے ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ خود ان کا امتحان لے لو۔
عباسیوں نے علماء اور دانشمندوں کے درمیان سے "یحییٰ بن اکثم”کو اس کی علمی شہرت کی وجہ سے چنا، مامون نے امام جواد (ع)کے علم و آگہی کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے ایک جلسہ ترتیب دیا۔ اس جلسہ میں یحییٰ نے مامون کی طرف رخ کر کے کہا: اجازت ہے کہ میں اس نوجوان سے کچھ سوال کروں؟۔
مامون نے کہا : خود ان سے اجازت لو ۔
یحییٰ نے امام محمدتقی (ع)سے اجازت لی۔ امام (ع)نے فرمایا: یحیی! تم جو پوچھنا چاہو پوچھ لو  ۔
یحیی نے کہا: یہ فرمایئے کہ حالت احرام میں اگر کوئی شخص کسی حیوان کا شکار کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟۔
امام محمدتقی(ع) اس کے جواب میں فرمایا: اے یحیی! تمہارا سوال بالکل مہمل ہے پہلے یہ بتاؤ، اس شخص نے شکار حل میں (حرم کے حدود سے باہر) کیا تھا یا حرم میں ؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا جاہل؟ اس نے عمداً اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سےقتل ہوگیا تھا؟ وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ شکار کرنے والا کمسن تھا یا بالغ؟ اس نے پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا اس کے پہلے بھی شکار کرچکا تھا؟ شکار پرندوں میں سے تھا یا غیر پرندہ ؟ شکار چھوٹا تھا یا بڑا جانور تھا؟ وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ اس نے رات کو پوشیدہ طریقہ پر شکار کیا یا دن میں اعلانیہ طورپر؟، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟۔جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائی جائیں گی اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا۔
امام محمدتقی(ع)نے جب مسئلہ کی یہ تمام فروعات بیان کی تو یحییٰ بن اکثم حیران وششدر رہ گیا، اس کے چہرہ سے ناتوانی اورشکستگی کے آثار ظاہر ہوگئے تھے امام(ع)کےسامنےاس کی زبان اس طرح لکنت کرنے لگی تھی اورگنگ ہوگئی تھی اس طرح کہ اس کی ناتوانی کا مشاہدہ تمام حاضرین نے کرلیا تھا۔
مناظرےکےختم ہونے کے بعد جب سبھی لوگ چلے گئے اور مجلس میں صرف خلیفہ کے قریبی لوگ باقی رہ گئے تو مامون نے امام محمدتقی(ع)کی طرف رخ کرکے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجاؤں بہتر ہے کہ آپ حالت احرام میں شکار کرنے کی تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیں تاکہ ہم لوگ ان سے استفادہ کریں۔
امام محمدتقی(ع)نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے، حضرت نے (ع) نے فرمایا: اگر شخص احرام باندھنے کے بعد حل میں (حرم کے باہر) شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے، اور اگر شکار حرم میں کیا ہے تو اس کا کفارہ دو بکریاں ہیں، اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا ہے تو اس کا کفارہ دنبہ کا ایک بچہ ہے جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو، اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تو اس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو اس کا کفارہ ایک گائے ہے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اوراگر ہرن ہے تواس کا کفارہ ایک بکری ہے، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکارحل میں کیا ہو۔ لیکن اگر ان کا شکار حرم میں کیا ہےتو یہی کفارے دگنے ہوں جائیں گے اور اگر احرام حج کا تھا تو "منیٰ ” میں قربانی کرے گا،اور اگر احرام عمرہ کا تھا تو "مکہ” میں اس کی قربانی کرے گا اور شکارکے کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں(کفارہ کے واجب ہونے کے علاوہ)گنہگاربھی ہے،لیکن بھولے سے شکارکرنے میں گناہ نہیں ہے، آزاد انسان اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اوربالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جوشخص اپنے اس فعل پر نادم ہوگا وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا لیکن اگر اس فعل پر نادم نہیں ہے تو اس پر عذاب ہوگا۔
مامون نے کہا:احسنت اے ابوجعفر! خدا آپ کو جزائے خیر دے، بہتر ہے آپ بھی یحیى بن ¬اکثم سے کچھ سوالات کرلیں جس طرح اس نے آپ (ع)سے سوال کیا ہے۔ امام (ع)نے یحیی سے کہا: میں سوال کروں؟ یحیی نے کہا: اس کا اختیار آپ کو ہے، میں آپ پر قربان ہوجاؤں،اگر مجھ سے ہوسکا تو اس کا جواب دوں گا ورنہ آپ سے استفادہ کروں گا۔
امام محمد تقی (ع)نے سوال کیا:
اس شخص کےبارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی، دن چڑھے حلال ہوگئی، پھر ظہر کے وقت حرام ہوگئی،عصرکے وقت پھر حلال ہوگئی، غروب آفتاب کے وقت پھر حرام ہوگئی، عشاءکے وقت پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس پر حرام ہوگئی، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی، بتاؤ یہ کیسی عورت ہے کہ ایک ہی دن میں اتنی دفعہ اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی؟۔
امام(ع)کےسوال کو قاضی القضاة یحیی بن اکثم سن کر مبہوت ہوکر کہنے لگا خدا کی قسم میں اس سوال کا جواب نہیں جانتا اور اس عورت کے حلال و حرام ہونے کا سبب بھی نہیں معلوم ہے، اگر مناسب ہو تو آپ اس کے جواب سے ہمیں بھی مطلع فرمائیں۔
امام (ع)نے فرمایا: وہ عورت کسی کی کنیز تھی، اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لیا، اس پر حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصرکے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے "ظہار” کیا۔  جس کی وجہ سے پھر حرام ہوگئی، عشاءکے وقت ظہار کا کفارہ دے دیا، پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دے دی، جس کی بناپر پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس نے رجوع کرلیا پھر وہ عورت اس پر حلال ہوگئی۔

۲۔ امام (ع)کا فیصلہ اور درباری فقہاء کی شکست:
امام محمدتقی علیہ السلام کبھی مناظروں اور کبھی مناظروں کے علاوہ دوسرےطریقوں سے درباری قاضیوں اورفقہاء کی جہالت کو واضح اورعلم امامت کی روشنی میں ان پر اپنی برتری کو ثابت کرتے تھے اور اس طریقہ سے اصل مامت پر اعتقاد رکھنے کو عام ذہنوں میں ثابت کرتے تھے ۔ انہیں فتوؤں میں سے آپ(ع)کا ایک فتویٰ چورکے ہاتھ کاٹنے کےمتعلق ہےجس کی تفصیل اس طرح ہے:
زرقان۔  جس کی "ابن ابی داود”۔  سے بڑی دوستی اور الفت تھی،کہتے ہیں: ایک روز "ابن ابی داؤد”معتصم کی مجلس سےباہر آیا تو بہت ہی افسردہ اور رنجیدہ تھا، میں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا: کاش میں بیس سال پہلے ہی مرگیا ہوتا اور آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا!
میں نے پوچھا: کیوں کیا ہوا؟
اس نے کہا: اس مصیبت سے جو آج معتصم کی مجلس میں ابوجعفر (امام محمدتقی(ع))کی بناپر میرے سر پر ٹوٹی ہے۔
میں نے کہا واقعہ کیا ہے؟۔
اس نے کہا: ایک شخص نے چوری کا اعتراف کیا اور خلیفہ معتصم سے حدود کے جاری کرنے اور اپنے پاک ہونے کی درخواست کی۔ خلیفہ نے تمام فقہاء کو اکٹھا کیا اور "محمدبن علی (ع)”کوبھی بلایا اور ہم سے پوچھا: چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟۔
میں نے کہا:گٹے سے ہاتھ کاٹا جائے۔
اس نے کہا: اس کی دلیل کیا ہے؟۔
میں نے کہا:کیونکہ آیت تیمم میں” فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ”۔  تم اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرو” ہاتھ گٹے تک ہاتھ مراد لیاگیا ہے۔
فقہاءکا ایک گروہ اس مسئلہ میں میری بات کاموافق تھا اورکہتا تھا کہ چور کا ہاتھ گٹے تک کاٹا جائے، لیکن دوسرےگروہ نے کہا:کہنی سے ہاتھ کاٹا جائے اور جب معتصم نے ان کی دلیل پوچھی تو انہوں نے کہا: آیت وضو میں ہے ” فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ”۔  اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنی تک دھوئیں” ہاتھ سے مراد کہنی تک ہے۔
اس کے بعدمعتصم نے محمد بن علی (ع)کی طرف رخ کرکے پوچھا: اس مسئلہ میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟۔
انہوں نے کہا: ان لوگوں نے اپنے نظریات بیان کئے ہیں مجھے اس مسئلہ سے دور رکھو ۔
معتصم نے اصرار کیا اورقسم دی کہ اپنی نظر کو بیان کریں ۔
محمد بن علی(ع) نے کہا: جب تم نےقسم دے دی ہےتو میں اپنےنظریہ کوبیان کرتا ہوں، یہ سب غلطی پر ہیں کیونکہ چور کی صرف انگلیاں کاٹی جائیں اور بقیہ ہاتھ باقی رہے گا۔
معتصم نے کہا: اس کی دلیل کیا ہے؟۔

انہوں نے کہا:کیونکہ رسول خدا (ص)نے فرمایا: سجدہ بدن کے سات اعضاء پر کیا جاتا ہے: پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں، دونوں زانو، دونوں پیروں کے انگوٹھے۔ اس بناپر اگر چور کا ہاتھ کہنی یا گٹے سے کاٹا جائے گا تو نماز کا سجدہ کرنے کےلئے ان کے پاس ہاتھ باقی نہیں رہ جائے گا اور خداوند عالم نے فرمایا ہے:
” وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ۔  لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً "۔ اورمساجد(سات اعضاءکہ جو سجدہ میں زمین پر ہوتے ہیں)سب اللہ کےلئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا۔   اور جو چیز خدا کےلئے ہے وہ نہیں کاٹی جاتی۔
ابن ابی داؤد نے کہا:معتصم نے محمد بن علی(ع)کے جواب کو قبول کرلیا اورحکم دیا کہ چور کی انگلیاں کاٹی جائیں اوربھرے مجمع میں ہماری بے عزتی ہوئی! اور میں نے وہیں پر شرمساری و اندوہ کی وجہ سے موت کی تمنا کی!۔

امام محمد تقی (ع)کے زمانے کے خلفاء:
امام محمد تقی(ع) کی تبلیغ اسلام و احکام کی مشکلات کے متعلق آپ (ع)کے معاصر دو عباسی خلفاء کو نظر میں رکھنا چاہئے خاص طورپر مامون عباسی جس کے بارے میں ابن ندیم کہتا ہے: وہ تمام خلفاء(عباسی) میں علم فقہ و کلام(عقائد)میں سب سے زیادہ علم رکھتا تھا۔
امام محمد تقی(ع)کی امامت کا ۱۷/سترہ سال کا زمانہ دو عباسی خلیفہ مامون اور معتصم کے دور حکومت میں تھا، پندرہ سال مامون کا زمانہ ۔۔ ۲۰۳ ہجری، یعنی امام رضا علیہ السلام کی شہادت سے لے کر مامون کی موت تک ۲۱۸ ہجری۔۔ اور دو سال معتصم عباسی کی حکومت کا زمانہ (مامون کی موت ۲۱۸ ہجری سے لے کر ۲۲۰ ہجری تک)امام محمدتقی (ع)کے پندرہ سال کا زمانہ آپ (ع)کے والد بزرگوار کے حالات و شرائط کی طرح سخت تھا کیونکہ وہ زمانہ خلیفہ عباسی کی چالاک ترین اور عالم ترین فرد کے زیر نگرانی میں تھا۔

امام محمد تقی(ع)کی شہادت:
امام محمد تقی(ع)کو کس طرح شہید کیا گیا، اس سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں یہاں پر ان میں سے ایک نظریہ کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
ظالم خلیفہ معتصم عباسی ۔ مامون کا بھائی، ام الفضل مامون کی بیٹی کا چچا۔ مسلسل امام محمد تقی (ع)کے قتل کی سازش رچ رہا تھا اور اس کام میں وہ ام الفضل کے ساتھ ہوگیا تھا کہ امام(ع)کو زہر دے، اس لئے کہ معتصم کومعلوم ہوگیا تھا کہ ام الفضل حضرت(ع) سے منحرف ہوگئی ہے اور بڑی شدّت سے امام (ع)کے مخالف ہے۔ اسی وجہ سے ام الفضل نے معتصم کی درخواست کا مثبت جواب دیا اور زہر کو انگور میں بجھا کر امام (ع)کے سامنے رکھا، جیسے ہی حضرت (ع)نے انگور نوش فرمایا،ام الفضل نے پشیمان ہوکر رونا شروع کردیا، امام (ع)نے فرمایا: تمہارے رونے کا سبب کیا ہے؟ (جب اس نے بتایا تو امام(ع)نے کہا)خدا کی قسم، پروردگار تم کو رحم میں ایسی درد سے دوچار کرے کہ جس کا جبران نہ ہوسکے اور ایسی بلاء و مصیبت میں گرفتار کرے کہ جو چھپانے کے لائق نہ ہو۔ اسی نفرین کی وجہ سے ام الفضل بیمار ہوکر واصل جہنم ہوئی۔
امام محمد تقی (ع)شہر بغداد میں ذی القعدہ کے مہینہ ۲۲۰ ہجری میں ۲۵/پچیس سال کی عمر میں شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے۔   اور بغداد میں کاظمین نامی جگہ پر اپنے جدبزرگوار امام موسیٰ کاظم (ع)کے جوار میں دفن ہوئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button