مقالات

عید قربان، ایثار و فداکاری کا پیغام

خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہاتھ پھیلائے ” پروردگار مجھے بیٹا دے”  کے قرآنی لفظوں میں رب سے بیٹا طلب کرتے ہیں طویل مدت گزر گئی بیٹا نہ ملا مگر نہ  خلیل، خلیل سے نہ دینے پر ناراض ہوا نہ مایوس۔

 آخرکار بیٹا دیا جس کی نسل میں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مرتضی علیہ السلام  جیسے بیٹے رکھ دیے۔ بیٹا  تیراں (13) سال کا ہوا باپ کا مددگار و ہمکار بن گیا۔ اب تک حضرت ابراہیم علیہ السلام  رب سے مانگتے رہے اب رب نے ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا تم نے مانگا ہم نے دیا اب ہم مانگتے ہیں ہمیں بیٹا واپس دو۔ خلیل خدا نے خود بیٹا دینے کا عہد کیا اور اپنے بیٹے سے مشورہ کیا تو  بیٹے نے بھی وعدہ نبھانے  کی رائےاور اپنے صبر کی یقین دہانی کرائی۔

باپ بیٹا کے امتحان کا مرکز منی  بنا۔ قرآن نے اُس امتحان گاہ کے حالات کو دو لفظوں میں بیان کیا” فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا  ( الصافات /۱۰۳)

   جب دونوں نے حکم خدا کی بجا آوری کے لئے سر تسلیم خم کر لیا ” خالق نے صدا دی امتحان مکمل تم دونوں کامیاب یہ سارا عمل قربانی کہلایا ۔

قربانی کے اس جذبہ نے باپ کو خلیل اللہ کا مقام دلوایا تو بیٹا ذبح ہونے سے بچ کر بھی ذبیح اللہ کہلوایا۔ اللہ نے اس جذبے کے ذریعے قیامت تک کے لئے قربانی و ایثار کے جذبوں کو زندہ رکھنے کے لئے اس قربانی کی یاد کو دین کا حصہ بنا دیا۔

 قربانی یعنی جو اللہ نے دیا اللہ مانگے تو اُسے  اطمینان سے دے دو۔

 قربانی یعنی اپنی خواہشات و جذبات کو خالق کے حکم کے سامنے جھکا دو۔

 قربانی یعنی خالق کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر لو۔

 قربانی یعنی یہ دیکھو اللہ کیا چاہتا ہے نہ کہ  میں کیا چاہتا ہوں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام پختہ ارادہ کر کے میدان منی  میں سرخرو ہوئے اور انہیں اللہ کی طرف سے سلام آیا” سَلَامٌ عَلٰی اِبْرَاھِیْمُ” یہاں بچ جانے والے پر سلام اور ایثار و فداکاری کا ایک مرکز امتحان کربلا میں سجا ،جس میں  سب کچھ قربان کر کے لائق سلام ہوئے۔

 علامہ اقبال نے جنہیں یوں  سلام پیش کیا

 اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر           معنی ذبح عظیم آمد پسر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button